ڈیجیٹل انڈیا منصوبے کے تحت جموں وکشمیر انتظامیہ نے بھی چند برس قبل جموں وکشمیر کے مختلف شعبوں کو ڈیجیٹلائز کرنے کیلئے کام شروع کیاتھا ، لیکن برسوں گزر جانے کے بعد بھی ابھی یہ کام پائیہ تکمیل نہیں پہنچ پایا ہے اسکی کیا وجوہات ہیں اس حوالے سے مختلف لوگوں کی مختلف رائے سامنے آرہی ہے۔ عوام کا ایک بہت بڑا با حس طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ جان بوجھ کر مختلف سرکاری محکموں کے افسران اور ملازمین اس منصوبے کو عملی جامعہ نہیں پہنانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اس عمل سے رشوت کمانے پر لوگ لگ سکتی ہے ۔محکمہ مال نے اگر چہ اس سلسلے میں رواں ماہ تک زمینداروں کے زمینوں کو کیمپوٹر رائز کرنے کا اعلان بھی کیاتھا لیکن ابھی تک یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا ، کیونکہ محکمہ کے پٹواریوں اور فیلڈ عملہ نے جان بوجھ کر احمد کی ٹوپی محمود کے سرپر رکھ دی ہے تاکہ وہ بہ آسانی ان زمینداروں سے اچھا خاصہ پیسہ ریکارڈ ٹھیک کرنے کے نام پر حاصل کرسکے ۔ جہاں تک باقی محکموں کا تعلق ہے ان کا بھی حال کچھ مختلف نہیں ہے ،وہاں بھی افسران لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور سست رفتاری سے کام کرتے ہیں ۔جہاں تک ڈیجیٹل انڈیامنصوبے کا تعلق ہے یہ اقدام مرکزی حکومت نے ترقی یافتہ ممالک کی تعمیر وترقی اور صاف وشفاف انتظامی نظام کو بدنظر رکھ کر اٹھایا ہے تاکہ ملک کے کروڑوں لوگوں کو براہ راست فائدہ مل سکے اور انہیں مشکلات ودفتری طوالت سے نجات مل سکے ، لیکن ایسا لگ رہا ہے جموں وکشمیر میں اس عمل کو پائیہ تکمیل تک لے جانے کیلئے کافی وقت درکار ہے اور اسکے لئے سخت گیر حکومت کی ضرورت ہے جو محکموں کے ذمہ داروں کو ہر گزرتے دن کے بعد جواب طلب کرسکے تاکہ تیز رفتاری کےساتھ کام ہوسکے ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ رسوئی گیس ، راشن کی فراہمی اور بینک نظام میں عام لوگوں کو کافی راحت پہنچ چکی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ آنے والے وقت میں تمام سرکاری محکموں میں بھی ڈیجیٹل نظام جلد از جلد رائج ہوجائیگااور اس طرح وزیراعظم کے خواب کو جلد ازجلد شرمندہ تعبیر کیاجائے گاجو انہوں نے برسوں قبل ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے دیکھا تھا۔حکومت کو ڈیجیٹل انڈیا نظام کو جموں وکشمیر میںیقینی بنانے کیلئے جوابدہی اور شفافیت کے عمل کوتیز کر دینا چاہئے جبکہ افسران کو اس نظام کو رائج کرنے کیلئے پابند بنانا چاہئے۔