منگل, ستمبر ۱۶, ۲۰۲۵
27.1 C
Srinagar

دربار مو سے کشمیر کو نہیں بلکہ جموں کو زیادہ فائدہ تھا: غلام نبی آزاد

جموں،/ سینیئر کانگریس لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر میں زائد از سوا سو صدی پرانی دربامو کی روایت سے سب سے زیادہ فائدہ جموں کو تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو میرا بھی خیال تھا کہ اس روایت کو ختم کیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے کافی پیسہ اور وقت ضائع ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کو پہلے ریاستی درجہ واپس ملنا چاہئے اور بعد میں یہاں انتخابات منعقد کرائے جانے چاہئے۔
موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار ایک نیوز پورٹل کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
انہوں نے کہا : ‘میں خود دربار مو کی روایت کے خلاف تھا کیونکہ اس سے کافی پیسہ اور وقت ضائع ہوتا تھا، میں جب وزیر اعلیٰ تھا تو مجھے بھی اس کو ختم کرنے کا خیال آیا لیکن میں نے جب جموں میں لوگوں کے ساتھ اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کرنے سے ہم مر جائیں گے’۔
مسٹر آزاد نے کہا کہ دربار مو سے سب سے زیادہ فائدہ جموں کو تھا۔
ان کا کہنا تھا: ‘دربار مو سے سب سے زیادہ فائدہ جموں کو تھا کشمیر کو کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ جب دربا جموں میں لگتا تھا تو کشمیر کے ملازمین اپنی پوری فیملی کے ساتھ جموں منتقل ہو جاتے تھے اور چھ مہینوں تک وہیں سکونت اختیار کرتے تھے جبکہ جموں کے ملازمین اکیلے کشمیر آتے تھے’۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی اقتصادیات شعبہ سیاحت، باغبانی اور دستکاری پر منحصر ہے لہٰذا وہ جموں پر منحصر نہیں ہیں بلکہ وہ دلی پر بھی زیادہ انحصار نہیں کرتے ہیں۔
موصوف لیڈر نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ریاستی درجے کی بحالی کے بعد ہی انتخابات منعقد کرائے جانے چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے جب یہ اعلان کیا ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا تو اب اس میں کیا قباحت ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘میں نے کُل جماعتی میٹنگ میں وزیر داخلہ صاحب سے کہا کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو غلطی کی اور اب ریاستی درجے کی بحالی سے قبل ہی انتخابات منعقد کر کے دوسری غلطی نہ کی جائے’۔
مسٹر آزاد نے کہا کہ ہماری ریاست ایک سرحدی ریاست ہے ہمارے سر پر پاکستان اور چین بیٹھا ہے لہٰذا سرحدی ریاست کے لوگوں کو ناراض نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر ہی دشمن کے ساتھ لڑنا ہے۔
مظفر حسین بیگ کی کانگریس میں شمولیت کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا: ‘کانگریس میں کوئی آنے والا ہے نہ جانے والا کیونکہ ہم جوڑ توڑ کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے ہیں’۔
انتخابات میں حصہ لینے کے متعلق پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ‘بی جے پی کا الگ ہی ایک ٹرمپ کارڈ ہوتا ہے اس پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن کانگریس اور دوسری جماعتوں کو کام اور خدمات کی بنیادوں پر الیکشن لڑنا پڑتا ہے’۔
یو این آئی

Popular Categories

spot_imgspot_img