اتوار, جولائی ۶, ۲۰۲۵
31 C
Srinagar

‘شعبہ پھولبانی کو’ سن رائز انڈسٹری ‘کا درجہ حاصل’

روزگار کے لئے خاطر خواہ وسائل اورمواقعے دستیاب

واد ی سے پھولوں کو ’ایکسپورٹ ‘کرنے کے لئے پیداواری صلاحیت بڑھا نے کی ضرروت :ناظم ِ محکمہ پھولبانی

شوکت ساحل

سرینگر/ محکمہ پھولبانی کے ناظم فاروق احمد راتھر کا کہنا ہے کہ ملک میں شعبہ پھولبانی کو ’سن رائز انڈسٹری ‘ کا درجہ حاصل ہے جبکہ وادی کشمیر میں شعبہ پھولبانی میں روزگار کے خاطر خواہ وسائل اور مواقعے دستیاب ہیں ۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو روایتی روزگاری وسائل سے نکل کر نئے روزگار کے وسائل تلاش کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ ایشین میل، ملٹی میڈیاسے انٹر ویو کے دوران فاروق احمد راتھر نے کہا کہ جموں وکشمیر کے سبھی باغات کی سجانے وسنوار نے کیسا تھ ساتھ انکی دیکھ ریکھ ورکھوالی کی بنیادی ذمہ داری محکمہ پھولبانی کی ہے ۔

ان کا کہناتھا ’جیسے کہ سبھی جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں کشمیر کے باغات اپنی ایک الگ پہنچان رکھتے ہیں اور گارڈن ٹورازم کشمیر کے شعبہ سیاحت کی روح ہے ‘۔فاروق احمد راتھر نے کہا کہ گاررڈن ٹور ازم کشمیر کے شعبہ سیاحت کا ایک ایسا سیگمنٹ ہے ،جو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو کشمیر کی طرف راغب کرتا ہے ۔پھولبا نی کے ناظم نے بتایا کہ محکمہ سال بھر کشمیر کے تفریحی باغات کو سجانے اور سنوار نے میں مصروف ِ عمل رہتاہے ،محکمہ کا محنت کش طبقہ ( مالی یا باغبان ) طرح طرح کے پھول اُگا نے کیساتھ ساتھ نئے نئے ڈیزائن بنانے میں مصروف رہتے ہیں ۔


ان کا کہناتھا کہ باغات کو زیادہ سے زیادہ جاذب ِ نظر بنانے کے لئے کشمیر کے روایتی اور قدیم پھولوں کو باغات میں لگایا جارہا ہے ،تاکہ اِن کی مزید رونق بڑھے ۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہناتھا ’ اگر فلوری کلچر یہ کام نہ ہو ،تو ہمارا ٹورسٹ فلو نہیں ہوگا ،یہ اپنے آپ میں ایک روزگارکا ذریعہ ہے ‘۔ان کا کہناتھا کہ گارڈن ٹور ازم ہی ایک ایسا سیگمنٹ ہے ،جو یہاں روزگار کے وسائل از خود پیدا کرتا ہے جبکہ اس کے علاوہ محکمہ نے ”کمر شل فلوری کلچر “ کے ذریعے بھی روزگا ر کے نئے وسائل پیدا کئے اور اس ضمن میں مزید کوششیں جاری ہیں ،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس شعبہ سے منسلک کیا جائے ۔

ایک اور سوال کے جواب میں محکمہ پھولبانی کے ناظم نے کہا ’دیکھئے موسم خزاں صرف شعبہ پھولبانی کے لئے ہی نہیں آتا ،یہ تو زراعت اور ہاٹیکلچر پر لاگو ہوتا ہے ،لیکن لوگوں کی بڑی تعداد دونوں شعبوں سے وابستہ ہے ،یورپی ممالک میں پھولبانی اقتصادیات میںکلیدی اہمیت کا حامل ہے ،اگر ایسا ہوتا ہے ،بیرون ممالک میں اس تصور ہی نہیں ہوتا ،لیکن آپ دیکھیں بیرون ممالک میں تو پھولوں کا کارو بار عروج پر ہے ،ہالینڈ تو ٹولپ کا خالق ہے ‘۔

ان کا کہناتھا کہ کشمیر کو تو اللہ تعالیٰ نے لاجواب اور عمدہ آب وہوا سے نوازا ہے ،یہاں اس شعبہ میں روزگار کے بہترین وسائل موجود ہیں ،لوگ آگے آئے ہیں ۔محکمہ پھولبانی کے ناظم نے کہا کہ خواہشمند افرادمنفی درجہ حرارت میں بھی پالی ہاﺅسز کے اندر پھولوں اُگاسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس کاروبار کو بیرون ممالک میں صنعت کا درجہ حاصل ہے ،یہاں بھی یہ صنعت کے طور پر ابھر سکتا ہے کیوں نہیں !۔شعبہ پھولبانی کی مختلف اسکیموں کا ذکر کرتے ہوئے فاروق احمد راتھر نے کہا کہ محکمانہ بجٹ کے تحت اس سے شعبہ سے وابستہ افراد کو سبسڈی پربنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ،جیسے کہ پھولوں بیج وپودے ،پالی ہاﺅسز ،آبپاشی کی سہولیت ،تیکنیکی ہدایات وغیر ہ شامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آتما جیسے اسکیموں کے تحت محکمہ زراعت اور ہاٹیکلچر کے ذریعے بھی اس شعبہ کو بڑھا وا دیا جارہا ہے ۔


ان کا کہناتھا کہ محکمہ نجی سطح پرلوگوں کو اس شعبہ کی جانب راغب کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔ایک سوال کے جواب میں محکمہ پھولبانی کے ناظم فاروق احمد راتھر کا کہنا تھا کہ حکومت ہند نے شعبہ پھولبانی کو ’سن رائز انڈسٹری ‘ کا درجہ دیا ہے ،اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ شعبہ صد فیصد ایکسپورٹ پر مبنی ہونے جارہا ہے ۔ان کا کہناتھا ’یہاں کمی ہے اور لوگوں کی کم تعداد ابھی اس شعبہ سے وابستہ ہے ،لوگوں اس شعبہ سے جڑ جائیں ،تاکہ ہماری پیداواری صلاحیت اُس سطح تک پہنچ جائے ،اگر دوبئی جیسے ملک سے ہمیں آرڈر آتے ہیں تو ہم کھرے اُتریں ‘۔ان کا کہناتھا ’بیرون ممالک سے آنے والی مانگ دو چیزوں پر انحصار کرتی ہے ،کم سے کم مقدار اور زیادہ سے زیادہ تسلسل وبرقرار سپلائی ،یقینی سپلائی تب ہی ممکن ہے ،جب ہم لوگ اس سے شعبہ سے جڑ جائیں گے ،ہالینڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ٹیولپ کی85فیصد سپلائی ہالینڈ سے ہوتی ہے ،وہاں سرکار نہیں بلکہ کسان پھولوں کی پیداوار کرتے ہیں ،اگر یہاں ایسا ہوتا ہے ،تو یہ شعبہ بڑی صنعت کے بطور اُبھر سکتاہے ۔ان کا کہناتھا ’ہماری ایکسپورٹ اُتنی زیادہ نہیں ہے ،صرف دوہزار گروﺅرس اس شعبہ سے وابستہ ہیں ،جن میں سے صرف ساڑھے تین سو گروﺅرس سرگرم ہیں ،باقی درمیانہ درجہ پر ہے ۔


انہوں نے کہا ’خوشبو دار تیلوں کا استعمال صابن اور عطر و انڈسٹری میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس وقت ہندوستان بیرون ممالک سے یہ درآمد کرتا ہے ،یعنی اگر آدھا کشمیر بھی اس سے جڑ جائے تو اس کا مارکیٹ ہی گھریلو ہے ،ایکسپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،بین الاقوامی سطح پر ہم کٹ فلور وغیرہ کو ایکسپورٹ کرسکتے ہیں ۔ہماری پیداوار اُس سطح کی نہیں ہے کہ ہم بیرون ممالک کیساتھ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کریں ،اگر پیداوار اُس تک پہنچ جائے ،تو بین الا قوامی بازاروں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ناظم پھولبانی نے خواہشمند افرادکو روایتی روزگاری وسائل سے باہر آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ روزگار کے نئے وسائل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور شعبہ پھولبانی سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے ،یہاں کے آب ہوا سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔


باغات کو سجانے والے محنت کش طبقے کی حوصلہ افزائی اور ملازمین کے مسائل کے بارے میں محکمہ پھولبانی کے ناظم فاروق احمد راتھر نے کہا کہ باغات کو سجانے والے’حقیقی ہیرو ‘ ہیں اُنکی حوصلہ افزائی جاتی ہے اور کی جائیگی ،اُنہیں اعزاز اور اسناد سے نوازا جاتا ہے ،اس سال بھی نواز اجائیگا۔ملازمین کو دفتروں کے چکر لگانے کی ضرروت نہیں ،اُن کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے ۔ وزیر اعظم ہند کی جانب سے ٹیولپ فیسٹیول کے موقعے پر شاباشی،حوصلہ افزائی اور تعریف کو محکمہ کے لئے بڑا اعزاز قراردیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد محکمہ کو کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ۔فیسٹیولز کے انعقاد کو’ گارڈن ٹورازم‘ کی روح قرار دیتے ہو ئے محکمہ پھولبانی کے ناظم نے کہا کہ اِن فیسٹیولز کے ذریعے سیاحوں کو کشمیر کی طرف راغب کیا جاتا ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img