سری نگر، 9 مارچ : سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عطا حسنین کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے دفعہ 370 کی تنسیخ کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی سطح پر تھنک ٹینکس میں کشمیر کے مسئلے کے بارے میں معلومات و دلچسپی میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔
تاہم ان کا ماننا ہے کہ دفعہ 370 کی تنیسخ کا فیصلہ زور زبردستی سے نہیں بلکہ باقاعدہ ایک پارلیمانی طریقے سے لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جموں و کشمیر کے متعلق اپنے بیانیے کو بھارت کے نسبت دنیا میں کافی اچھی طرح سے کھیلنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان کا کہنا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ میں کشمیر مسئلے کو سیاسی سے زیادہ انسانی حقوق کے زاویے سے دیکھا جا رہا ہے۔
موصوف سابق لیفٹیننٹ جنرل نے ان باتوں کا اظہار سینئر صحافی اور انگریزی روزنامہ ’برائٹر کشمیر‘ کے مدیر اعلیٰ فاروق وانی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ جنرل حسنین سری نگر میں مقیم فوج کی پندرہویں کور کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’میں سجھتا ہوں کہ جموں وکشمیر کا مسئلہ ایک پراکسی جنگ ہے اس کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر تھنک ٹینکس کے درمیان معلومات بھی بہت کم تھیں اور دلچپسی بھی ور ابھی بھی ہے لیکن دفعہ 370 کی تنیسخ کے بعد اس میں دلچسپی لینے میں اضافہ درج ہونے لگا ہے اور لوگ اب اس کے بارے میں پڑھنے لگے ہیں اور مجھ سے کافی سوالات کئے جا رہے ہیں‘۔
موصوف سابق لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ پاکستان اپنے بیانیے کو بھارت کے نسبت دنیا میں کافی اچھے طریقے سے کھیلنے میں کامیاب ہوا ہے۔
انہوں نے کہا: ‘جموں وکشمیر کے مسئلے کے بارے میں پاکستان اپنے بیانیے کو دنیا میں زیادہ کھیلنے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ بھارت دنیا کے کم ہی ممالک میں اپنے بیانیے کو پیش کر سکا ہے جس پر ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں کشمیر مسئلے پر کافی چرچا ہے لیکن یورپ میں اس کو سیاسی سے زیادہ انسانی حقوق کے زاویے سے دیکھا جا رہا ہے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 سے کی تنسیخ کے متعلق پوچھے جانے پر مسٹر حسنین نے کہا: ’پانچ اگست کا مرکزی حکومت کا فیصلہ ایک بڑا فیصلہ تھا۔ یہ دفعہ ایک عارضی دفعہ تھا اس کو سال 1972 یا سال 1994 میں ہی ختم کیا جانا چاہئے تھا جب یہ قرار داد پاس ہوئی تھی کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن پھر سال 2019 میں اس دفعہ کو زور زبردستی سے نہیں بلکہ باقاعدہ پارلیمانی طریقے سے ختم کیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی تنسیخ سے جموں وکشمیر میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم ہوں گے اور ماحول ٹھیک ہونے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر میں اب ایک نئے ذہن کی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے اور جموں وکشمیر کے پڑھے لکھے لوگوں کو اس بارے میں سوچ وچار کرنا چاہئے۔
موصوف سابق لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور موجودہ حالات میں پاکستان کا ایک ملک بن کے رہنا بہت مشکل ہے۔
ہند – پاک تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’ہندوستان اور پاکستان بر صغیر ایک اہم حصہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں یورپی یونین بن گئی ان کی اپنی ایک مشترکہ کرنسی ہے لیکن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری جھگڑے کے باعث یہاں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ شملہ سمجھوتے میں دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا کہ ہم اپنے مسائل کو دو طرفہ بات چیت سے حل کریں گے لیکن پاکستان نے بنگلہ دیش کا بدلہ لینے کے لئے سال1989 سے ہندوستان کے خلاف پراکسی جنگ شروع کی‘۔
انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان کے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری ممکن نہیں ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل آوری پر اتفاق ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر حسنین نے کہا: ’اس سلسلے میں در پردہ بات چیت ضرور ہوئی ہوگی لیکن سال 2003 میں جب طرفین کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے ہوا تھا تب سے لگ بھگ سال 2014 تک سرحدوں پر خاموشی ہی چھائی رہی کیونکہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے درمیان بھی بات چیت ہو رہی تھی لیکن اس کے بعد پاکستان نے ممبئی حملے کرکے سب پر پانی پھیر دیا‘۔
انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی سپورٹ نہیں ہوگا تب تک جنگ بندی معاہدہ کچھ ماہ کے لئے چل سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول محض ایک لکیر نہیں ہے بلکہ ایک حساس معاملہ ہے اور پاکستان اس کو ذریعہ بنا کر بین الاقوامی برادری میں ایک پیغام دینے کی کوشش کررہا ہے‘۔
شوپیاں فرضی انکوائنٹر کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف چانسلر نے کہا: ’جیسے ہی زمینی و عوامی سطح پر رپورٹ آنے لگی تو فوج نے خود اس کی تحقیقات کی اور جب بھی دل میں کچھ کالا لگتا ہے تو فوج کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے‘۔
کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ہمیشہ جمہوریت رہی ہے اور پنچایتی راج قائم کرکے مرکزی حکومت یہاں جمہوریت کو زمینی سطح تک پہنچانا چاہتی ہے۔
سرحدوں پر چین کے ساتھ تنازعے کے بارے میں پوچھے جانے پر ان کا کہنا تھا: ’بھارت چین کی من مانی کو چلنے نہیں دے گا۔ چین نے پچاس ہزار فوجی تعینات کئے تو ہم نے بھی کچھ دنوں میں ہی پچاس ہزار فوجی تعینات کر دئے۔ بھارت کسی دباؤ میں نہیں ہے‘۔
انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ چین سرحد پر فوج تعینات کرنے سے بھارت سے جیت نہیں سکتا ہے بلکہ بھارت کی طرف سے اکسائی چن، گلگت بلتستان کی بات کرنا چین کے لئے ایک بہت بڑا چلینج ہے۔
ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں ہو رہے اضافے کے بارے میں مسٹر حسنین نے کہا کہ ملک کے اقتصادیات کے لئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں تاکہ اقتصادیات کو بحال کیا جا سکے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب عارضی اقدام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر میں تیس برسوں سے ماحول خراب ہے ایک ہی سال میں سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی ہے لیکن کشمیر میں سیاحت کی کافی گنجائش ہے۔
جموں وکشمیر کے لوگوں کو اپنا پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا لوگ صبر و تحمل سے کام لیں کیونکہ دنیا کے کئی ممالک کی نظریں ان پر ہیں۔
یو این آئی ای
