مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی گرفت

مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی گرفت

نظریات:

لفظ ’انقلاب‘ کے مفہوم کو متعین کرتے ہوئے کوسِل لیک نے کہا تھا کہ کچھ اصطلاحیں اس قدر مشہور و معروف ہوجاتی ہیں؛ ان کی اتنی مختلف اور بسا اوقات متضاد تعبیریں سامنے آتی ہیں کہ عملاً وہ اصطلاحیں ایک ’نعرہ‘ بن جاتی ہیں۔ ہر بولنے والا اس سے اپنا مفہوم مراد لے سکتا ہے اور لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پائیں گے کہ کوئی نوجوان اگر اچانک ’’انقلاب‘‘ کی آواز بلند کردے اور مجلس میں این ایس یو آئی، آئی سا، باپسا، اے بی وی پی اور ایس آئی او کے ارکان موجود ہوں تو ہر ایک بلا اختیار ’زندہ باد‘ کا نعرہ لگا دے گا حالانکہ ہر ایک کے انقلاب کا تصور ایک دوسرے سے بالکل جدا بلکہ شاید معاندانہ ہوگا۔ یہ بات جتنی انقلاب کے لیے صحیح ہے اس سے کہیں زیادہ ’نظریہ‘ کے لیے ہے۔ اور پھر اردو میں تو ’نظریہ‘ ذرا زیادہ ہی پائمال ہے۔ جب روزمرہ زندگی میں یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس بات کو صرف سیاق طے کرتا ہے کہ مندرجہ ذیل میں سے متکلم کی مراد کیا ہے۔

مفہوم اول: اپنے نظریہ سے آپ صحیح ہیں لیکن میرے نظریے کے مطابق اپنے بھائی کے ساتھ کسی کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ (بطور زاویۂ نظر perspective/viewpoint )

مفہوم ثانی: ہابس کا نظریہ ہے کہ ایک عمرانی معاہدے کے نتیجے میں ریاست کا ظہور ہوا۔ (بطور کسی مفکر کے افکار کا چھوٹا یا بڑا مجموعہ)

مفہوم ثالث: آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ (بطور ایک خاص علمی یا تصوراتی حقیقت)

مفہوم رابع: حنفی نظریہ کے مطابق سمندری کیکڑے حلال نہیں ہیں۔ (بطور ایک خاص مکتب فکر)

مفہوم خامس: نیشنلزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس نے دنیا میں صرف تباہی پھیلائی ہے۔ (بطور ماڈرن آئیڈیولوجی)

مفہوم سادس: میں صرف جلوس میں مقبول نہیں ہوں بلکہ اپنے گھر،آفس اور بازار میں بھی میرا نظریہ مقبول ہے۔ (بطور ایک مکمل نظام زندگی)

مفہوم خامس و سادس میں ایک باریک سا فرق ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ ایک آدمی (مفہوم خامس کے مطابق) صرف فلسفیانہ سطح پر کمیونسٹ ہے اگر وہ پولت بیورو کی نشستوں میں پامردی دکھاتا ہے؛ جلسے جلوسوں اور احتجاجوں میں شرکت کرتا ہے، سماج اور ریاست کو کمیونسٹ خطوط پر ڈھالنا چاہتا ہے لیکن اپنی ذاتی زندگی میں پوجا پاٹ کا اہتمام کرتا ہے، جینو پہنتا ہے، ذات پات کی پابندیوں کو قبول کرتا ہے، خشوع و خضوع کے ساتھ ہولی دیوالی مناتا ہے، اور عیش و آرام میں زندگی بسر کرتا ہے۔ (مفہوم سادس کے مطابق) اگر وہ نظام زندگی کی سطح پر کمیونسٹ ہوگا تو اس کی زندگی میں یہ دورنگی نہیں پائی جائے گی۔ وہ مارکس اور لینن کے اسوے کے مطابق صرف اجتماعی نہیں اپنی ذاتی زندگی میں بھی ملحد ہوگا۔ سادگی سے زندگی بسر کرے گا۔ خاندان، سماج، اقدار، اور روایات کی پروا نہیں کرے گا۔ یہی معاملہ ان افراد کا بھی ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمارا نظریہ زندگی ہے۔ اگر وہ صرف فلسفیانہ یا دانشورانہ سطح پر مسلمان ہیں تو اجتماعی زندگی میں۔۔۔ تحریر تقریر، احتجاج، نعروں اور فیس بک پر یہ اسلامیت نظر آئے گی لیکن بیٹی کو وراثت دینی ہو؛ بیٹے کی شادی میں جہیز نہ لینا ہو، اسراف نہ کرنا ہو، فجر کی نماز باجماعت پڑھنی ہو۔۔۔ تو اس سلسلے میں کوتاہیاں پائی جائیں گی۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جب کہتے ہیں کہ اسلام اللہ کا نازل کردہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ تو ان کی مراد مفہوم خامس نہیں مفہوم سادس ہے۔ یہاں اسلام کوئی نقطہ نظر، کسی مفکر کی خیال آرائی، کوئی فروعی اجتہادیا علمی حقیقت، کوئی مکتب فکر، یا فلسفہ نہیں بلکہ فرد کی ذاتی و اجتماعی، الغرض زندگی کے ہر پہلو کو منظم کرنے والا ایک نظام ہے۔ اس میں کسی عقیدے کو تسلیم کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اپنی پوری عملی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال لینا بھی شامل ہے۔ نظریہ نامی اصطلاح کا یہ وسیع تصور مولانا مودودیؒ کا مجتہدانہ کارنامہ نہیں ہے۔ متعدد سیاسی و سماجی مفکرین نے اس کی یہی جامع تعریف بیان کی ہے۔ مثال کے طور پر مارٹن سیلیگر کہتے ہیں، ’’نظریات کچھ ایسے عقائد و اقدار کا نام ہے جو افراد کو عمل پر آمادہ کردیں‘‘۔ نظریے کی اس مختصر مگر جامع تعریف میں تمام جہتوں کا لحاظ کیا گیاہے۔ ایک ایسی فکر جس کے ساتھ عمل یا عمل کے لیے کوئی تحریک نہ ہو فلسفہ تو ہوسکتا ہے نظریہ نہیں۔ ایک ایسا عمل جس کے پیچھے کوئی فکر نہ ہو، سرگرمی تو ہوسکتا ہے مگر نظریہ نہیں۔ نظریہ اسی شے کا نام ہوسکتا ہے جو بیک وقت فرد اور سماج کو فکر بھی دے اور عمل کا پیغام بھی۔

مولانا مودودیؒ کاتجزیہ:

کیا مولانا مودودیؒ کو یہ بات معلوم تھی کہ لفظ نظریہ کے ایسے محدود اور جامع معنی ہوتے ہیں؟ جی ہاں!ہر دانش مند آدمی کی طرح مولانا مودودیؒ بھی یہ بات جانتے تھے خود انہوں نے نظریہ اور نظام کو ان محدود معنوں میں بھی استعمال کیا ہے مثلاً:

’’میکیاولی نے اس نظریہ کی وکالت کی کہ سیاسی معاملہ میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘، ’’کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سر عنوان تھا لبرل اِزم‘‘، لبرل اِزم کے ’’۔۔۔نظریہ پر جس معاشی نظام کی عمارت اٹھی اس کا نام جدید نظامِ سرمایہ داری ہے‘‘۔ کسی بھی مذہب، اخلاقی نظام اور قانون نے ’’یہ نظریہ اختیار نہیں کیا کہ معیشت و تمدن کی وہ صورت بجائے خود غلط ہے جو ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت سے بنتی ہے‘‘۔ سوشلسٹ ’’۔۔اسکیم کو۔۔نافذ کرنے کے لیے آپ مجبور ہوں گے کہ سرے سے ایک نیا ہی نظریۂ اخلاق وضع کریں، جس کے تحت ہر ظلم و جبر۔۔۔ جائز ہو‘‘۔ روس کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا نظریہ یہ ہے کہ اگر بھول چُوک سے چند سو یا چند ہزار بے گناہ آدمی پکڑے اور مار ڈالے جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ چند گنہگار چھوٹ جائیں‘‘۔ فاشسٹوں نے لبرل اِزم کے اس نظریے کو بھی بالکل بجا طور پر رد کردیا کہ حکومت صرف پولیس اور عدالت کے فرائض انجام دے۔ ’’اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان متوسط معاشی نظریہ اختیارکیا ہے‘‘۔

’’کیا ہمارے پاس کوئی ایسی روشنی موجود نہیں ہے جس کی مدد سے ایک متوازن نظام بنایا جاسکتا ہو؟‘‘

’’۔۔۔اسلام خود ایک نظامِ زندگی رکھتا ہے‘‘۔

اس طویل تمہید سے صرف اس قدر ثابت کرنا مقصود ہے کہ مولانا مودودیؒ لفظ ’نظریہ‘ اور ’نظام‘ اور ان الفاظ و اصطلاحات کی تہہ داری سے بخوبی واقف تھے، معترضین عموماً ان اصطلاحات کے صرف تنگ تصور سے آشنا ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان اصطلاحات کو وسیع سمجھنے میں مولانا مودودیؒ خطا کرگئے۔

مغرب، مغربی افکار و نظریات، نفسیات اور تصور کائنات کا ناقدانہ تجزیہ مولانا مودودیؒ کی علمی و دانشورانہ خدمات کا ایک روشن باب ہے۔ ہر طرح کی مرعوبیت سے مبرا ہوکر مغرب کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنا اور اس کی خوبیوں کو تسلیم کرتے ہوئے خامیوں کی نشاندہی کرنا وہ معقول اور مدلل علمی شاہراہ ہے جس پر اس کامیابی کے ساتھ اس سے پہلے کوئی نہ چل سکا تھا۔ اوروں کا تو خیر کیا ذکر،سرسید اور امیر علی جیسے دانشور بھی اپنے تمام تر اخلاص کے باوجود مغرب سے یک گونہ مرعوب تھے۔ دوسری طرف قدامت پسند علما مغرب کی مخالفت میں ایک الگ ہی انتہا پر تھے۔

اِدھر یہ ضد ہے کہ لیمنڈ بھی چھو نہیں سکتے
اُدھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحی مے لا

قوانین فطرت:

اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ وضاحت کرتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال میں اللہ کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ’’اس معاملہ میں خدا کا نقطہ نظرہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انہی کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آجاتا، اس وقت تک انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے‘‘۔ اسی طرح وہ جب دنیا کو ایک ریل گاڑی سے تعبیر کرتے ہیں ’’جس کو فکر و تحقیق کا انجن چلا رہاہے‘‘ تو یہ سبق دیتے ہیں مغرب کے غلبہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’’چار پانچ سو سال تک مسلمان اپنے بزرگوں کے بچھائے ہوئے بستر پر آرام سے سوتے رہے اور مغربی قومیں اپنے کام میں مشغول رہیں‘‘۔ اور پھر جب یہ قومیں اٹھیں تو قلم اور تلوار دونوں طاقتوں سے دنیا پر چھا گئیں۔

قوموں کی امامت و سیادت کے ان اصولوں کے بیان سے مولانا مودودیؒ کا یہ موقف واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مغرب پر نظری تنقید تو کرتے ہیں لیکن یہ بات خود بھی سمجھتے ہیں اور سمجھانا بھی چاہتے ہیں کہ ان کا فکری، تہذیبی اور سیاسی غلبہ کسی اتفاق کا نہیں بلکہ فطرت کے اٹل قوانین کا نتیجہ ہے خواہ وہ ’نافعیت‘ کے حوالے سے ہو یا ’فکر و تحقیق‘ کے حوالے سے۔ مغرب کی اس حوالے سے قدردانی سکے کا ایک رخ ہے، سکے کا دوسرا رخ مغربی افکار، اقدار، مسلمات اور تہذیب پر جم کر تنقید ہے۔ علم و تحقیق کے میدان میں یہ معقولیت، معروضیت اور اعتدال مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی اہم خصوصیت ہے۔ اس تنقید کی صرف اخلاقی اور ادبی ہی نہیں بلکہ علمی شان بھی نرالی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے مغرب کا مطالعہ ثانوی نہیں پرائمری سورسس سے کیا ہے اور اپنے لٹریچر میں ان ماخذوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وقت اور حالات، اسلاف کے علمی کارناموں سے اخذ و استفادہ، گہرا اور ناقدانہ مطالعہ، گھر کا ماحول اور یقیناً مشیت الٰہی وہ عوامل ہیں جس کے نتیجے میں مولانا مودودیؒ نے وہ کام کیا، جو ملت اسلامیہ پر ایک فرض کفایہ تھا۔

مقالہ ہذا میں مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی منظم تنقید کا مطالعہ ان کے دو رسالوں کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔ ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ میں انہوں نے لبرل اِزم/ کیپٹلزم؛ کمیونزم اور فاشزم کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور ’’مسئلۂ قومیت‘‘ میں نیشنلزم پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ نے سیکولرازم پر بھی گفتگو کی ہے لیکن اس گفتگو کو مختلف کتابوں اور تحریروں سے چھانٹ کر یکجا کرنا اور اس کا جائزہ لینا ایک مستقل کام ہے جو فی الحال میں نہ کرسکا لہٰذا آج ہمارا ارتکاز مذکورہ بالا چار نظریات ہی پر ہوگا۔

نظریات کے اس تجزیے کا آغاز مولانا مودودیؒ نے موجودہ عمرانی مسائل کے تاریخی پس منظر کی وضاحت سے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’تمدن اور سیاست اورمعیشت کے بارے میں ہمارے بیشتر مسائل اور ان مسائل میں ہماری الجھنیں ان حالات کی پیداوار ہیں جو مغربی زندگی میں انہی مسائل اور انہی الجھنوں کی پیدائش کے موجب ہوئے ہیں۔‘‘ چونکہ مغرب ہی فکری و عملی میدان میں دنیا کی امامت کر رہا ہے لہذا ’’ہمارے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی اکثریت ان مسائل کے حل کی انہی صورتوں میں اپنے لیے رہنمائی تلاش کررہی ہے جو مغربی مدبرین و مفکرین نے پیش کی ہیں۔‘‘ لہٰذا حل کی ان صورتوں کا، مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں ’’شجرہ نسب‘‘ جاننا ضروری ہے۔ (ا ج م ن: ۷)

اس کے بعد نظام جاگیرداری (Feudalism) کے خواص پر گفتگو ہوئی کیونکہ جدیدیت (Modernism) اسی کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی۔ اس میں زمین کی ملکیت کا بنائے اقتدار ہونا؛ عیسائیت کا (موسوی شریعت کے انکار کے نتیجے میں) اس نظام جاگیرداری کی اچھی بری ہر بات کو مذہبی تقدس عطا کردینا؛ اور تجارت، صنعت اور ذہنیت کا چھوٹے چھوٹے جغرافیائی خطوں میں محصور ہوجانا قابل ذکر ہے۔ یورپ کے نظام جاگیرداری کے اس جمود کو نشاۃ ثانیہ نے چیلنج کرنا شروع کیا۔ یہ کشمکش جوچودہویں صدی سے شروع ہوئی، جس میں کلیسا نے نظام جاگیرداری کا ساتھ دیا اور سائنس نشاۃ ثانیہ کا امام بنا، سولہویں صدی تک اپنے فیصلہ کن دور میں پہنچ گئی۔ اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب نے نظام جاگیرداری کا بالکل خاتمہ کردیا۔

لبرل اِزم اور کیپٹلزم:

لبرل اِزم کیا ہے؟ وکی پیڈیا میں لبرل اِزم کا پیج کھولیں تو دائیں طرف اس کے variants دکھائی پڑتے ہیں، جن کی تعداد کسی طرح بھی بیس سے کم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کس لبرل اِزم کی بات کررہے ہیں؟ کیا مولانا مودودیؒ کو اس بات کا علم تھا کہ لبرل اِزم کئی طرح کے ہیں؟ شاید ایک عام ذہن میں نہیں لیکن سیاسیات کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے، لیکن اسے اطمینان بخش جواب ملتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نشاۃ ثانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سر عنوان تھا ’’لبرل اِزم‘‘ یعنی ’وسیع المشربی‘۔‘‘یہاں ’جن نظریات‘ کا استعمال قابل غور ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ لبرل اِزم کئی قبیل کے پائے جاتے ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ مولانا مودودیؒ کو لبرل اِزم پر کوئی تھیسس نہیں لکھنی تھی لہٰذا انہوں نے لبرل اِزم کے مسلمہ اصولوں سے بحث کی ہے اور فروعات سے تعرض نہیں کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اسی مختصر رسالے میں انہوں نے دور متوسط کا لبرل اِزم،جدید لبرل اِزم کے الگ الگ ذیلی عناوین قائم کیے ہیں۔ اسی سیاسی و سماجی لبرل اِزم کی معاشی شکل کے طور پر کیپٹلزم کا وجود ہوا۔ چنانچہ صرف جدید نظام سرمایہ داری نہیں بلکہ کمیونزم اور فاشزم کے جھٹکوں سے سبق سیکھ کر نظام سرمایہ داری نے جو اندرونی اصلاحات کیں ان پر بھی بحث کی ہے۔

سیاست و معیشت کے میدان میں ان نظریات کی بنیاد زندگی کے ہر شعبے اور فکر و عمل کے ہر میدان میں کشادگی ہے۔ چنانچہ جدید لبرل اِزم نے سیاسیات میں جمہوریت کا، تمدن و معاشرت، ادب و اخلاق میں انفرادی آزادی کا اور معاشیات میں بے قیدی (Laissez Faire) کا صور پھونکنا شروع کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ چرچ ہو یا اسٹیٹ یا سوسائٹی، کسی کو بھی فرد کی سعی ارتقا اور سعیٔ انتفاع میں رکاوٹیں عائد کرنے کا حق نہیں ہے‘‘۔ فردکی اسی غیر محدود آزادی میں معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔ بعد میں سیاسی و سماجی لبرل اِزم کی معاشی شکل کے طور پر کیپٹلزم کی پیدائش ہوئی۔ یہ نظریہ جن بنیادی اصولوں پر قائم ہوا وہ ’شخصی ملکیت کا حق آزادیٔ سعی کا حق‘؛ ’ذاتی نفع کا محرک عمل ہونا‘ ’مقابلہ اور مسابقت‘ ’اجیر و مستاجر کے حقوق کا فرق‘، ’ارتقا کے فطری اسباب پر اعتماد اور ’ریاست کی عدم مداخلت‘ ہیں۔

لبرل اِزم کے مثبت پہلو:

٭ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ لبرل اِزم اپنے اندر صداقت کے بعض ’’عناصر‘‘رکھتا ہے۔ سرمایہ داری نے بھی جو اصول پیش کیے ’’ان کے اندر کسی حد تک مبالغہ کے باوجود صداقت پائی جاتی تھی۔۔۔۔‘‘

٭ بورژوا طبقے نے کامیابی کے ساتھ کلیسا اور جاگیرداری کے استبداد کو چیلنج کیا اور فکر و تحقیق اور صنعت و تجارت کے ارتقا کے نقیب ثابت ہوئے۔

٭ اس نظریہ کے حامی نظری طور پر انسانی آزادی، مساوات اور حقوق کے قائل تھے۔ وہ ظلم و استبداد، شاہی خاندانوں یا زمینداروں کے ہاتھوں میں سیاسی قوت کے ارتکاز کے مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ملک عام باشندوں کا ہے۔ حکومت کا سارا کاروبار انہی کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے چلتا ہے۔ لہٰذا انہی کی رائے سے حکومتیں بننی اور ٹوٹنی اور بدلنی چاہییں اور انہی کو قانون سازی اور نظم و نسق میں فیصلہ کن اثر حاصل ہونا چاہیے۔ یہی نظریات جدید جمہوریتوں کی بنیاد بنے‘‘۔

منفی پہلو:

٭ دور متوسط کے لبرل اِزم کی انتہا پسندی پر تنقید کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

اس کشمکش میں اگر اہل کلیسا اور جاگیرداروں کی تنگ خیالی ایک انتہا پر تھی تو ان بورژوا حضرات کی وسعتِ مشرب دوسری انتہا کی طرف چلی جارہی تھی۔ ایک گروہ نے اگر بے اصل عقائد، ناروا امتیازات اور زبردستی کے قائم کردہ حقوق کی مدافعت میں خدا اور دین اور اخلاق کا نام استعمال کیا، تو دوسرے گروہ نے اس کی ضد میں آزادخیالی اور وسیع المشربی کے نام سے مذہب و اخلاق کی ان صداقتوں کو بھی متزلزل کرنا شروع کردیا جو ہمیشہ سے مسلم چلی آرہی تھیں۔ یہی زمانہ تھا جس میں سیاست کا رشتہ اخلاق سے توڑا گیا اور میکیاولی نے کھلم کھلا اس نظریہ کی وکالت کی کہ سیاسی اغراض و مصالح کے معاملے میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی زمانہ تھا جس میں کلیسا اور جاگیرداری کے بالمقابل قومیت اور قوم پرستی اور قومی ریاست کے بت تراشے گئے، اور اس فتنے کی بنیاد ڈالی گئی جس کی بدولت آج دنیا لڑائیوں اور قومی عداوتوں کا ایک کوہ آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔ اور یہی وہ زمانہ تھا جس میں پہلی مرتبہ سود کے جائز اور مباح ہونے کا تخیل پیدا ہوا۔ حالانکہ قدیم ترین زمانے سے تمام دنیا کے اہل دین و اخلاق اور علما قانون اس چیز کی حرمت پر متفق تھے۔ صرف تورات اور قرآن ہی نے اس کو حرام نہیں ٹھہرایا تھا بلکہ ارسطو اور افلاطون بھی اس کی حرمت کے قائل تھے۔

٭ جدید لبرل اِزم کی خودغرضی کا کرشمہ بتاتے ہوئے مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ وسیع المشربی کا دعویٰ کرنے والے ’’۔۔جن حقوق کا خود۔۔ اپنے لیے مطالبہ کرتے تھے وہی حقوق اپنے مزدوروں اور نادار عوام کو دینے کے لیے تیار نہ تھے‘‘۔

٭ بے قید معیشت نے جن ’فطری قوانین‘ کا ڈھنڈورا پیٹا وہ اس مبالغہ کی حد تک صحیح نہیں ہیں۔ روشن خیال خود غرضی (Enlightened Self-Interest) پر خود جان مینارڈ کینز کی تنقید اور ایڈم اسمتھ کے اعتراف کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں، ’’۔۔۔بورژوا سرمایہ داروں کے اپنے عمل نے ثابت کردیا کہ ان کی خودغرضی روشن خیال نہیں تھی۔ انہوں نے خریدار پبلک، اجرت پیشہ کارکن، اور پر امن حالات پیدا کرنے والی حکومت تینوں کے مفاد کے خلاف جتھہ بندی کی اور باہم یہ سازش کرلی صنعتی انقلاب کے سارے فوائد خود لوٹ لیں گے‘‘۔ اسی طرح ’’حکومت کی عدم مداخلت کے مضمون کو ان لوگوں نے اس کی جائز حد سے اتنا زیادہ بڑھا دیا کہ وہ برے نتائج پیدا کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ جب طاقتور افراد جتھہ بندی کرکے کثیر التعداد لوگوں سے ناجائز فائدے اٹھانے لگیں اور حکومت یا تو تماشا دیکھتی رہے یا خود ان طاقتور افراد ہی کے مفاد کی حفاظت کرنے لگے، تو اس کالازمی نتیجہ شورش ہے‘‘۔

٭ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں مشینوں نے انسانی محنت کی جگہ لینی شروع کی۔ ایسے میں بے قید معیشت نے پیدا شدہ صورتحال کو مزید ابتر کردیا اوربیروزگاری کا ایک مستقل مسئلہ اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوگیا، جس سے تاریخ پہلے کبھی آشنا نہ ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ بیروزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادی، روحانی، اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورث اعلیٰ ہے‘‘۔ اسی بیروزگاری کے نتیجے میں بڑے بڑے شہروں کو ہجرت، کم سے کم اجرت اور ظالمانہ شرائط تک پر کام کرنے کے لیے رضامندی؛ جسمانی صحت اور ذہنیت و اخلاق کی گراوٹ الغرض ’’۔زندگی کاکوئی شعبہ ایسا نہ رہا جو اس غلط اور یک رخی قسم کی آزاد معیشت کے برے اثرات سے بچا رہ گیا ہو‘‘۔

٭ بورژوا طبقے نے کاروبار کے فطری طریقوں کو چھوڑ کر اپنے ذاتی منافع کے لیے اجتماعی مفادات کے صریح خلاف معاشی سرگرمیاں انجام دینی شروع کیں مثلاً ذخیرہ اندوزی، غائبانہ خرید و فروخت، نرخ کی گراوٹ کے ڈر سے پیدا شدہ مال کی تلفی، تعیشات اور غیر ضروری مدوں میں سرمایہ کاری، مضر صحت و مخرب اخلاق اشیا کی پیداوار اور اشتہار، کمزور قوموں پر تسلط اورسودخوری۔

٭ سماج کے ایک طبقے کا معاشی استحصال، ہر طبقے کا اخلاقی زوال کے علاوہ کیپٹلزم اس مقصد میں بھی ناکام ہوا جو اس کا مقصد وجود تھا۔۔۔ پیداوار اور منافع میں اضافہ! سرمایہ داری کے اس اندرونی تضادپر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

دنیا میں بے حد وحساب قابل استعمال ذرائع موجود ہیں اور کروڑوں آدمی کام کرنے کے قابل بھی موجود ہیں اور وہ انسان بھی کروڑ ہا کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں جو اشیا ضرورت کے محتاج ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا کے کارخانے اپنی استعداد کار سے بہت گھٹ کر جو مال تیار کرتے ہیں وہ بھی منڈیوں میں اس لیے پڑا رہ جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس خریدنے کو روپیہ موجود نہیں ہے اور لاکھوں بے روزگار آدمیوں کو کام پر اس لیے نہیں لگایا جاسکتا کہ جو تھوڑا مال بنتا ہے وہی بازار میں نہیں نکلتا، اور سرمایہ اور قدرتی ذرائع بھی پوری طرح زیر استعمال اس لیے نہیں آنے پاتے کہ جس قلیل پیمانے پر وہ استعمال میں آرہے ہیں اسی کا بارآور ہونا مشکل ہورہا ہے، کجا کہ مزید ذرائع کی ترقی پر مزید سرمایہ لگانے کی کوئی ہمت کرسکے۔یہ صورتحال بورژوا مفکرین کے اس استدلال کی جڑ کاٹ دیتی ہے جو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے تھے کہ بے قید معیشت میں اپنے انفرادی نفع کے لیے افراد کی تگ و دو خود بخود ذرائع و وسائل کی ترقی اور پیداوار کی افزائش کا سامان کرتی رہتی ہے۔ ترقی اور افزائش تو درکنار، یہاں تو تجربہ سے یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی نادانی سے خود اپنے منافع کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرلیں۔

سوشلزم اور کمیونزم:

سوشلزم اور کمیونزم کیا ہے؟ دونوں میں فرق کیا ہے؟ وکی پیڈیا میں کمیونزم کا پیج کھولیں تو دائیں طرف اس کے variants کی تعداد پندرہ سے تجاوز کرجاتی ہے، سوشلزم کے پیج پر یہ تعداد چالیس سے بھی زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کس سوشلزم اور کون سے کمیونزم کی بات کررہے ہیں؟ سوشلزم اور کمیونزم کی ان دھڑے بندیوں جس کا مظاہرہ آئے دن جے این یو وغیرہ میں ہوتا رہتا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒ، اس مسئلے سے تعرض کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’سوشلزم کے اصل معنی ہیں ’اجتماعیت‘ اور یہ اصطلاح اس انفرادیت (Individualism) کے مقابلہ میں بنائی گئی تھی جس پر جدید سرمایہ داری کا نظام تعمیر ہوا تھا۔ اس نام کے تحت بہت سے مختلف نظریے اور مسلک کارل مارکس سے پہلے ہی پیش کردیے گئے تھے جن کا مشترک مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسا نظام زندگی بنایا جائے جس میں بحیثیت مجموعی پورے اجتماع کی فلاح ہو‘‘۔(ا ج م ن: ۴۴)ان بہت سے نظریات جو سوشلزم کے عنوان سے پیش کیے جاتے رہے ان میں کارل مارکس کا نظریہ کافی مقبول ہوا اور ’’سائنٹفک سوشلزم، مارکسزم اور کمیونزم‘‘ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا گیا۔ مولانا مودودیؒ نے اسی کو موضوع بحث بنایا ہے کیونکہ انہیں نظریات کے صرف نظری پہلو سے نہیں بلکہ عملی پہلو سے بھی بحث کرنی تھی۔ سوشلزم اور کمیونزم کے بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان میں فرق ’’صرف طریقہ کار‘‘کا ہے کہ سماج میں وہ انقلاب جس کے نتیجے میں ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنادیا جائے گا وہ آئے گا کیسے؟ سوشلزم کا جواب ہے کہ وہ جمہوریت کے ذریعہ آئے گااور کمیونزم کا جواب ہے کہ وہ خونی انقلاب کے ذریعہ آئے گا۔ اس سے یہ بات صاف ہوئی کہ انقلاب لانے کے طریقہ کار کے علاوہ جو بات بھی اشتراکیت کے تعلق سے کہی جائے گی وہ ارتقائی اشتراکیت اور انقلابی اشتراکیت پر یکساں چسپاں ہوگی۔ یہاں بھی مولانا مودودیؒ نے اصولیات پر توجہ مرکوز کی ہے اور فروعیات میں الجھنے سے قصداً پرہیز کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے سوشلزم کا جو جائزہ لیا ہے اس کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اس نظریے کو صرف جدید سرمایہ داری کے ردعمل کے طور پر دیکھنے کے بجائے یورپ کی جدید مادیت کی ایک توسیع یا بالفاظ دیگر کردار کی تبدیلی کے ساتھ تاریخ کی تکرار کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بورڑوا طبقات کے پیش کردہ فطری اصولوں میں بنیادی خامیاں نہیں تھیں،خامیاں تھیں تو ان کی مبالغانہ آمیز شدت اور ان اصولوں کے ساتھ غلط اصولوں کی ملاوٹ میں تھیں۔ لیکن جس طرح نظام جاگیرداری کی مخالفت کرتے ہوئے لبرل مفکرین نے ایک انتہا سے دوسری انتہا کا سفر کیا، بالکل اسی طرح نظام سرمایہ داری کی مخالفت میں سوشلسٹ مفکرین بھی جادۂ اعتدال پر نہیں ٹھہرے بلکہ انتہاؤں کی ایک نئی جولانگاہ تلاش کرلی۔ مولانا مودودیؒ کا مندرجہ ذیل اقتباس نہ صرف انتہاؤں کے اس سفر کا خلاصہ ہے بلکہ مغربی ذہن پر ایک تنقید بھی ہے اور اس سوال کا جواب بھی کہ سوشلزم کے متعدد مسالک میں سے مارکسزم ہی کو سب سے زیادہ عوامی مقبولیت کیوں حاصل ہوئی۔فرماتے ہیں:

مغربی ذہن اور کیرکٹر نے اس دور میں بھی اپنی انہی کمزوریوں کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کے زمانوں میں اس سے ظاہر ہوچکی تھیں، اور اسی بے اعتدالی کی ڈگرپر بعد کی تاریخ بھی آگے بڑھی جس پر وہ پہلے سے بھٹک کر جاپڑی تھی۔ پہلے جس مقام پر مالکان زمین اور ارباب کلیسا اور شاہی خاندان تھے، اب اسی ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی کی جگہ بورڑوا طبقہ نے سنبھال لی اور پہلے حق طلبی اور شکوہ و شکایت اور غصہ و احتجاج کے جس مقام پر بورڑوا حضرات کھڑے تھے اب اس جگہ محنت پیشہ عوام آکھڑے ہوئے۔ پہلے جس طرح جاگیرداری نظام کے مطمئن طبقے نے اپنے بے جا امتیازات اور اپنے ناروا ’حقوق‘ اور اپنی ظالمانہ قیود کی حمایت میں دین اور اخلاق اور قوانین فطرت کی چند صداقتوں کو غلط طریقہ سے استعمال کرکے محروم طبقوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کی تھی، اب بھی بعینہٖ وہی حرکت سرمایہ داری نظام کے مطمئن طبقوں نے شروع کردی۔ اور پہلے جس طرح غصے اور ضد اور جھنجھلاہٹ میں آکر بورڑوا لوگوں نے جاگیرداروں اور پادریوں کی اصل غلطیوں کو سمجھنے اور ان کا ٹھیک ٹھیک تدارک کرنے کے بجائے اپنی نبرد آزمائی کا بہت سا زور ان صداقتوں کے خلاف صرف کردیا جن کا سہارا ان کے حریف لیا کرتے تھے، اسی طرح اب محنت پیشہ عوام اور ان کے لیڈروں نے بھی غیظ و غضب میں نظرو فکر کا توازن کھودیااور بورڑوا تمدن کی اصل خرابیوں اور غلطیوں پر حملہ کرنے کے بجائے ان فطری اصولوں پر ہلہ بول دیا جن پر ابتدائے آفرینش سے انسانی تمدن و معیشت کی تعمیر ہوتی چلی آرہی تھی۔ متوسط طبقوں کے لوگ تو اپنی کمزوریوں اور برائیوں کے باوجود پھر کچھ ذہین اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے شکایت اور ضد کے جوش میں بھی تھوڑا بہت ذہنی توازن برقرار رکھا تھا لیکن صدیوں کے پسے اور دبے ہوئے عوام، جن کے اندر علم، ذہانت، تجربہ ہر چیز کی کمی تھی، جب تکلیفوں سے بے قرار اور شکایات سے لبریز ہوکر بپھر گئے تو کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے عقل و حکمت کی ترازو میں تول کر اسے دیکھ لینے کا کوئی سوال ان کے سامنے نہ رہا۔ ان کو سب سے بڑھ کر اپیل اس مسلک نے کیا جس نے سب سے زیادہ شدت سے ان کی نفرت اور ان کے غصے اور ان کے انتقام کے تقاضے پورے کیے۔ (ا ج م ن: ۴۴- ۲۴)

سوشلزم نے انفرادی ملکیت کا انکار کیا اور اسے ہی اجتماعی زندگی میں فتنے کا اصل سبب قرار دیا۔ ان حقوق کے فطری ہونے کا انکار یہ کہہ کر کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے افراد کی فطرت کو مسخ کردیا ہے ’’جب تک انفرادی ملکیت کا نظام قائم ہے لوگ ’انفرادی الذہن‘ ہیں۔ جب اجتماعی ملکیت کا نظام قائم ہوجائے گا، یہی سب لوگ ’اجتماعی الذہن‘ ہوجائیں گے۔‘‘ ذاتی ملکیت کو غیر فطری ثا بت کرنے کے لیے مزید ستم یہ کیا گیا کہ ’’فی البدیہہ ایک پوری تاریخ‘‘ رقم کرکے یہ ثابت کیا گیا کہ ’’انسانیت کے آغاز میں ذرائع پیداوار پر انفرادی ملکیت کے حقوق تھے ہی نہیں۔‘‘ مذہب، اخلاق، اور قانون نے چونکہ ملکیت کے انسانی حق کو تسلیم کیا تھا لہٰذا ان سب کو اعلیٰ طبقہ کا آلہ کار قرار دیا گیا جن کا کام صرف مالدار اور طاقتور طبقے کی گرفت کو غریب اور محنت کش عوام پر مضبوط کرنے کا جواز فراہم کرنا تھا۔ طبقاتی کشمکش کو تاریخ کے ارتقا کے واحد راستے کے طور پر پیش کیا گیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: ا ج م ن: ۰۵-۵۴)

سوشلزم کے ان مسلمہ اصولوں کے بیان کے بعد مولانا مودودیؒ اس کا میزانیہ نفع و نقصان پر روس کے انقلاب کے تناظر میں بحث کرتے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں کمیونزم کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کی بے اعتدالی پر تنقید کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اس کے حامی اس کے نفع کے پہلو میں بہت سی ایسی چیزوں کو داخل کردیتے ہیں جو دراصل اشتراکیت کے منافع نہیں ہیں بلکہ قابل اور مستعد لوگوں کے ہاتھ میں انتظام ہونے کے ثمرات ہیں۔ دوسری طرف اس کے مخالف اس کے نقصان کے پہلو میں بہت سی ان خرابیوں کو رکھ دیتے ہیں جو بجائے خود اشتراکیت کے نقصانات نہیں بلکہ ظالم اور تنگ ظرف افراد کے بر سر اقتدار آنے کے نتائج ہیں۔‘‘

جاری

Leave a Reply

Your email address will not be published.