قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۲۲

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۲۲

اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے(۱)۔ ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی(۲)، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی، اور بہت سامال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے(۳)۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے(۴)۔ فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی(۵) اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے(۶)، تا کہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے(۷) اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے(۸)۔ اس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے(۹)، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

سورہ الفتح۔۔۔۔۱۸ تا ۲۱

۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔

یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام سے لی گئی تھی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسولؐ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے۔ اپنے جنگی مستقر(مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا، صرف ۱۳ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہر جاتی ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسولؐ کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس ما معاوضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے، وہ شاید اللہ سے یہ بد گمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا۔

جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولیٰ بن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے، حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا (طبقات ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۰۰ )۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا( ص ۱۰۵)۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃالقضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پاسکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا، چھوڑو، اس تکلف کی کیا حاجت ہے۔

۔۔۔۔۲۔۔۔۔

یہاں سکنیت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بنا پر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرے کے منہ میں جھونک دیتا ہے اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام بہر حال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔

۔۔۔۔۳۔۔۔۔

یہ اشارہ ہے خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت کی طرف ۔ اور یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انعام صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص فرما دیا تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے، ان کے سوا کسی کو اس فتح اور ان غنائم میں شریک ہونے کا حق نہ تھا۔ اسی بنا پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفر ۷ھ میں خیبر پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو آپ نے صرف ان ہی کو اپنے ساتھ لیا۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں حضورؐ نے حبش سے واپس آنے والے مہاجرین اور بعض ڈوسی اور اشعری صحابیوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا، مگر وہ یا تو خمس میں سے تھا، یا اصحاب رضوان کی رضا مندی سے دیا گیا ۔ کسی کو حق کے طور پر اس مال میں حصہ دار نہیں بنایا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۴۔۔۔۔۔۔

اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں ۔

۔۔۔۔۵۔۔۔۔

اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورۃ کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۶۔۔۔۔

یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے ، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی ، حالانکہ چودہ سو مردانِ جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہو گیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

۔۔۔۔۷۔۔۔۔

نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔

۔۔۔۔۸۔۔۔۔

یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے، اس حیص بیص میں لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے۔

۔۔۔۔۹۔۔۔۔

اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے۔ یہی رائے قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمہارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمہارے قبضے میں آ جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.