قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۲۱

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۲۱

ان کے پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ ’’عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں۔ تم کو ان سے جنگ کرنی ہو گی یا وہ مطیع ہو جائیں گے(۱)۔ اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو درد ناک سزا دے گا۔ اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں (۲)۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ درد ناک عذاب دے گا‘‘۔  ع

سورۃ الفتح۔۔۔۔۔۱۶ تا۱۷

۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔

اصل الفاظ ہیں اَوْیُسْلِمُوْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لیں۔

۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔

یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر  بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ کیں مخلص نہیں مانا جا سکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فوائد تو سمیٹتے رہیں ، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کو وقت آئے تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں۔

اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلاً کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے ، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں ، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سےجنگ میں حصہ نہ لے سکیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو، مثلاً غلام، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.