قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۲۰

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۲۰

اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتے ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے(۱)۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے۔ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے ، اور وہ غفور و رحیم ہے(۲)۔ جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو(۳)۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں(۴)۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ ’’ تم ہر گز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے(۵)‘‘۔ یہ کہیں گے کہ ’’ نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو‘‘۔ (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے۔) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ۔

سورہ الفتح۔۔۔۔۔۔ ۱۳ تا ۱۵

۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔

یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر اور ایمان سےخالی قرار دیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہ ہوں اور آزمائش کا وقت آنے پر دین کی خاطر اپنی جان و مال اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے سے جی چرا جائیں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ وہ کفر نہیں ہےجس کی بنا پر دنیا میں کسی شخص یا گروہ کو خارج از اسلام قرار دے دیا جائے، بلکہ وہ کفر ہے جس کی بنا پر آخرت میں وہ غیر مومن قرار پائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو ، جن کے بارے میں یہ نازل ہوئی تھی، خارج از اسلام قرار نہیں دیا اور نہ ان سے وہ معاملہ کیا جو کفار سے کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔

اوپر کی شدید تنبیہ کے بعد اللہ کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر اپنے اندر نصیحت کا ایک لطیف پہلو رکھتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی اپنی غیر مخلصانہ روش کو چھوڑ کر تم لوگ اخلاص کی راہ پر آ جاؤ تو اللہ کو تم غفور و رحیم پاؤ گے۔ وہ تمہاری پچھلی کوتاہیوں کو معاف کر دے گا اور آئندہ تمہارے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جس کے تم اپنے خلوص کی بنا پر مستحق ہو گے۔

۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔

یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ ، جو آج خطرے کی مہم پر تمہارے ساتھ جانے سے جی چُرا گئے تھے، تمہیں ایک ایسی مہم پر جاتے دیکھیں گے جس میں ان کو آسان فتح اور بہت سے اموال غنیمت کے حصول کا امکان نظر آئے گا، اور اس وقت یہ خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ یہ وقت صلح حدیبیہ کے تین ہی مہینے بعد آگیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے فتح کر لیا۔ اس وقت ہر شخص کو یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ قریش سے صلح ہو جانے کے بعد اب خیبر ہی کے نہیں ، بلکہ تَیما ، فَدَک، وادی القریٰ، اور شمالی حجاز کے دوسرے یہودی بھی مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور یہ ساری بستیاں پکّے پھل کی طرح اسلامی حکومت کی گود میں آ گریں کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان آیات میں پیشگی خبر دار کر دیا کہ اطراف مدینہ کے یہ موقع پرست لوگ ان آسان فتوحات کو حاصل ہوتے دیکھ کر ان میں حصہ بٹا لینے کے لیے آ کھڑے ہوں گے، مگر تم انہیں صاف جواب دے دینا کہ ان میں حصہ لینے کا موقع تمہیں ہر گز نہ دیا جائے گا، بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو خطرات کے مقابلے میں سرفروشی کے لیے آگے بڑھے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۴۔۔۔۔۔۔

اللہ کے فرمان سے مراد یہ فرمان ہے کہ خیبر کی مہم پر حضور کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گئے تھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت ان ہی کے لیے مخصوص فرما دیے تھے جیسا کہ آگے آیت ۱۸ میں بصراحت ارشاد ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۵۔۔۔۔۔۔

’’ اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے‘‘ کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہو گا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت ۸۴ انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات ۱۸ ۔ ۱۹ کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات ۱۸ ۔ ۱۹  بھی شامل ہیں، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں اللہ  تعالیٰ اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.