اے نبیؐ، بدوی عربوں(۱) میں سے جو لوگ پیچھے جھوڑ دیے گیے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ’’ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں‘‘۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں(۲)۔ ان سے کہنا ’’اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے(۳)۔ (مگر اصل بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو) بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہر گز پلٹ کر نہ آ سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا (۴) اور تم نے بہت برے گمان کیسے اور تم سخت بد باطن(۵) لوگ ہو‘‘۔
سورہ الفتح۔۔۔۔۔۱۱تا ۱۲
۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔
یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی، مگر وہ ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم،مُزَینہ، جُہَینہ ،غِفار، اَشْجع، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے۔
۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔
اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہو گا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ در اصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہو گا۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پرسا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے۔
۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔
یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہو گا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعائے مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۴۔۔۔۔۔
یعنی تم اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ رسول اور اس کا ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے تم نے اپنے آپ کو نچا لیا ۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام تھا۔ اور تمہیں اس بات پر بھی خوش ہوتے ہوئے کوئی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے۔ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا۔
۔۔۔۔۔۵۔۔۔۔۔۔
اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ قَوْماً بُوْراً ۔ بور جمع ہے بائر کی۔ اور بائر کے دو معنی ہیں ایک، فاسد ، بگڑا ہوا آدمی ، جو کسی بھلے کام کے لائق نہ ہو، جس کی نیت میں فساد ہو۔ دوسرے ہالک، بد انجام ، تباہی کے راستے پر جانے والا۔