قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۱۷

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۱۷

اور ان منافق مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں(۱)۔برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے(۲)، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعبت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے(۳)۔

سورۃ الفتح:۶ تا۷

۔۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔۔

اطراف مدینہ کے منافقین کو تو اس موقع پر یہ گمان تھا، جیسا کہ آگے آیت ۱۲ میں بیان ہوا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور  آپ کے ساتھی اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکیں گے۔ رہے مکہ کے مشرکین اور ان کے ہم مشرب کفار، تو وہ اس خیال میں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو عمر ے سے روک کر وہ گویا آپ کو زک دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ ان دونوں گواہوں نے یہ جو کچھ بھی سوچا تھا اس کی تہ میں در حقیقت اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بد گمانی کام کر رہی تھی کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہ کرے گا اور حق و باطل کی اس کشمکش میں باطل کو حق کا بول نیچا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔

یعنی جس انجام بد سے وہ بچنا چاہتے تھے اور جس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تدبیریں کی تھیں، اسی کے پھیر میں وہ آ گئے اور ان کی وہی تدبیریں اس انجام کو قریب لانے کا سبب بن گئیں۔

۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔۔

یہاں اس مضمون کو ایک دوسرے مقصد کے لیے دہرایا گیا ہے۔ آیت نمبر ۴ میں اسے اس غرض کے لیے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں لڑنے کا کام اپنے فوق الفطری لشکروں سے لینے کے بجائے مومنین سے اس لیے لیا ہے کہ وہ ان کو نوازنا چاہتا ہے۔ اور یہاں اس مضمون کو دوبارہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو سزا دینا چاہے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بے شمار لشکروں میں سے جس کو چاہے استعمال کر سکتا ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی تدبیروں سے وہ اس کی سزا کو ٹال سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.