قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۱۳

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۱۳

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟ ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھائیں اور ان کے چہروں سے تم ان کو پہچان لو۔ مگر ان کے اندازِ کلام سے تو تم ان کو جان ہی لوگے۔ اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔ ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہداور ثابت قدم کون ہیں۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی، درحقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے ، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا{۱} اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو بر باد نہ کر لو{۲} کفر کرنے  والوں  اور راہِ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔ پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو{۳}تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہر گز ضائع نہ کریگا۔

سورہ محمد۔۔۔۔۔۲۹۔۳۵

۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔۔

۔ اس فقرے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جن کاموں کو انہوں نے اپنے نزدیک نیک سمجھ کر کیا ہے، اللہ ان سب کا ضائع کر دے گا اور آخرت میں ان کا کوئی اجر بھی رہ نہ پا سکیں گے۔ دوسرا مطلب یہ کہ جو تدبیریں بھی وہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کا راستہ روکنے کے لیے کر رہے ہیں وہ سب ناکام و نا مراد ہو جائیں گی۔

۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔

۔ بالفاظ دیگر اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے۔ اطاعت سے منحرف ہو جانے کے بعد کوئی عمل بھی خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہو سکے۔

۔۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔

۔ یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.