قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۱۰

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۱۰
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا؟(۱) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر  اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں۔(۲)۔رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے(۳) اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے (۴) اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آ جائے(۵)؟  اس کی علامات تو آ چکی ہیں (۶)۔ جب وہ خود آ جائے گی تو ان کے لیے نصیحت قبول کرنے کا کونسا موقع باقی رہ جائے گا؟

سورہ محمد۔۔۔۔۱۶ تا ۱۸

۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔

۔ یہ ان کفار و منافقین اور منکرین اہل کتاب کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آ کر بیٹھتے تھے اور آپ کے ارشادات، یا قرآن مجید کی آیات سنتے تھے، مگر چونکہ ان کا دل ان مضامین سے دور تھا جو آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے تھے، اس لیے سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہ سنتے تھے اور باہر نکل کر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی ابھی آپؐ کیا فرما رہے تھے۔

۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔

۔ یہ تھا وہ اصل سبب جس کی وجہ سے ان کے دل کے کان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے لیے بہرے ہو گئے تھے۔ وہ اپنی خواہشات کے بندے تھے، اور حضور جو تعلیمات پیش فرما رہے تھے وہ ان کی خواہشات کے خلاف تھیں، اس لیے اگر وہ کبھی آپ کی مجلس میں آ کر بتکلف آپ کی طرف کان لگاتے بھی تھے تو ان کے پلے کچھ نہ پڑتا تھا۔

۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔

۔ یعنی وہی باتیں، جن کو سن کر کفار و منافقین پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی آپ کیا فرما رہے تھے، ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مزید ہدایت کی موجب ہوتی ہیں، اور جس مجلس سے وہ بد نصیب اپنا وقت ضائع کر کے اٹھتے ہیں، اسی مجلس سے یہ خوش نصیب لوگ علم و عرفان کا ایک نیا خزانہ حاصل کر کے پلٹتے ہیں۔

۔۔۔۴۔۔۔۔۔۔

۔ یعنی جس تقویٰ کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق انہیں عطا فرما دیتا ہے۔

۔۔۔۵۔۔۔۔۔

۔ یعنی جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے، قرآن کے معجزانہ بیان سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک سے، اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے انقلاب سے، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے۔ اب ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟

۔۔۔۶۔۔۔۔۔۔

۔ قیامت کی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب آ لگا ہے ان میں سے ایک اہم علامت خد اکے آخری نبی کا آ جانا ہے جس کے بعد پھر قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت انس، حضرت سہل بن سعد ساعدی، اور حضرت بریدہ کی روایات منقول ہیں کہ حضور نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کھڑی کر کے فرمایا: بُعثتُ انا س السّاعۃ کھَا تین۔ ’’میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں‘‘۔ یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی بھی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ میرے بعد اب بس قیامت ہی آنے والی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.