قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۴

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۴

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ

ہمیں سیدھا راستہ دکھا 

یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں خیال اور عمل اور برتاوٴ کا وہ طریقہ ہمیں بتا  جو بالکل صحیح ہو، جس میں غلط بینی اور غلط کاری اوربدنامی کا خطرہ نہ ہو، جس پر چل کہ ہم سچی فلاح وسعادت حاصل کر سکیں ——– یہ ہے وہ درخواست جو قرآن شروع کرتے ہوئے بندہ اپنے خدا کے حضور پیش کرتاہے ۔اس کی گزارش یہ ہے کہ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی اس بھول بھلیاںمیں حقیقتِ نفس الامری کیا ہے، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظامِ اخلاق کونسا ہے، زندگی کی اِن بے شمار پگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اورصاف شاہراہ کونسی ہے۔

صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ١ۙ۬ۦغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ

ان لوگوں کاراستہ جن پر تو نے انعام فرمایا.جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں

یہ اُس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں۔یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظورِ نظر لوگ چلتے رہے ہیں۔ وہ بے خطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوٴا اور تیری نعمتوں سے مالامال ہوکر رہا۔

یعنی‘‘انعام’’پانے والوں سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر عارضی طور پر تیری دُنیوی نعمتوں سے سرفراز تو ہوتے ہیں مگر دراصل وہ تیرے غصب کے مستحق ہوٴا کرتے ہیں اور اپنی و سعادت کی راہ گم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔اس سلبی تشریح سے یہ بات خود کھل جاتی ہے کہ ‘‘انعام’’سے ہماری مراد حقیقی اور پائدار انعامات ہیں جوراست روی اور خدا کی خوشنودی کے نتیجے میں ملا کرتے ہیں، نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں اور نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اور آج بھی ہماری آنکھوں کےسامنے بڑے بڑے ظالموں اوربدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں۔

******

Leave a Reply

Your email address will not be published.