حجاب: تحفظ اور پاکیزگی کی علامت

حجاب: تحفظ اور پاکیزگی کی علامت

افشاں نوید

ہر سال ۴ستمبر پوری دنیا میں ’عالمی یوم حجاب‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا انعقاد فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ۲۰۰۴ء میں ایک کانفرنس کے موقعے پر عالم اسلام کے ممتاز رہنمائوں نے طے کیا تھا، جس کی قیادت علامہ یوسف القرضاوی کرر ہے تھے۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف مغربی میڈیا کا تعصب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حجاب کے خلاف کہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی ہورہی ہے تو کہیں جرمانے عائد کیے جارہے ہیں۔ ان شعائر کو جو اسلامی تہذیب کی علامات ہیں: انتہا پسندی، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، بلجیم اور اٹلی حجاب پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق فرانسیسی وزیر برنر سٹازے کی زیرصدارت کمیٹی نے تمام سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی لگاتے ہوئے کہا: ’’ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے چاہے وہ حجاب ہو یا صلیب کا نشان ہو یایہودی ٹوپی ’کیپا‘‘‘، جب کہ مسلم ملک تیونس کے صدر نے برملا کہا کہ ’’حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔
مشاہدے کی بات ہے کہ سیکورٹی فورسز کا ایک ملازم یہ چاہتا ہے کہ اس کے لباس سے لوگ اندازہ کرلیں کہ وہ قانون کا محافظ ہے، ایک عیسائی نن کے لباس یا ڈاکٹر کے سفید کوٹ سے لوگ ان کے کردار کی شناخت کرلیں۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان عورت کاساتر لباس یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آئیں، تو پھر یہ حجاب ان کی نظر میں تشدد کی علامت کیسے ہوگیا؟

طرفہ تماشہ
طرفہ تماشا دیکھیے کہ جو معاشرے تیراکی کے مختصر لباس (bikini) کو انتہاپسندی اور اپنے کلچر کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے ،وہ ایک مختصر سے کپڑے سے سر ڈھانپنے کو انتہاپسندی گردانتے ہیں۔ اگر مختصر ترین اسکرٹ اور بلائوز کسی عورت کا انسانی حق ہوسکتا ہے تو حجاب بھی انسانی حق ہے۔ لیکن حجاب کو مغرب میں ایسا ظلم قرار دیا جاتا ہے، جو گویا کہ مردوں کی طرف سے عورتوں پر مسلط کیا گیا ہو۔ پھر حجاب کو بنیاد پرستی سے جوڑ کر عورتوں پر تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اگر وہ شدید اصرار کریں تو ان کو جیل تک بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک اور ظلم یہ کہ آزادیِ افکار کا راگ الاپنے والے معاشرے مسلمانوں کو حجاب کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ جب بھی حجاب کی وجہ سے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی شکایت کی جاتی ہے، تو جواب میں ایک ایسا پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے کہ جس میں دنیا کے سارے جرائم اور تشدد کو مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن گرداننے والے یہ مغربی انتہاپسند، مسلمان عورت کو گز بھر کپڑا سر پر رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں، جب کہ حجاب صرف عورتوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے کو بھی پاکیزہ بناتا ہے۔ جس طرح عریانی اور فحاشی کے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں اس طرح حجاب کے بھی معاشرے پر گہرے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن چاہے حجاب ہو یا داڑھی، ان کو بلاجواز متنازعہ بناکر ان پر پابندیاں لگائی اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کے اسکارف اتروائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان ان متعصب رویوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔

مغرب کا المیہ
دوسری طرف مغربی معاشروں میں فکری وجنسی بدراہی (perversion) نے ان کے خاندانی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی نوجوان نسلیں شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں اور اکثریت ذہنی سکون کے لیے منشیات کا سہارا لیتی ہے۔ لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ اپنی اس بے لگام تہذیب کو جبری طور پر دنیا پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کا خاندانی نظام اور پاکیزہ اقدار ان کا خاص ہدف ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام اور نظامِ عفت وعصمت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے وہ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں عورتوں پر زیادتیاں کی گئی ہیں۔ حجاب اور پردے کے ذریعے انھیں گویا پابند اور غلام رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمان خواتین کو سازشوں کے ذریعے اکسایا جاتا ہے کہ ان پابندیوں کو توڑ کر ہی تمھیں آزادی نصیب ہوگی۔ حالانکہ ان پابندیوں کو توڑنے کا انجام خود ان کے ہاں بے راہ روی اور خاندانی نظام کی تباہی اور معاشرتی انتشار کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔ خاندانی نظام کھو کر اور رشتوں کا تقدس پامال کر کے وہ ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت انھیں نظر نہیں آتی۔

لاتعلقی کا رویّہ کیوں؟
مسلمان اس مسئلے سے لاتعلق کیسے رہ سکتے ہیں؟ جب ریاست کے قوانین ہر ایک کو مذہبی آزادی کی اجازت دیتے ہیں تو پھر مسلمان اس سے مستثنیٰ کیوں ہوں؟ اگر اسکارف پر کہیں پابندی عائد کی جاتی ہے تو کیا عورتوں کو اسکارف اتار دینا چاہیے؟ یا گھروں میں قید ہو جانا چاہیے؟نہیں، انھیں انسانی حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیے اور اس پابندی کے خلاف دلیل کی بنیاد پر مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے اہلِ اقتدار اور اہلِ دین و دانش نے کبھی سوچا کہ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں کہ ہر کسی کے لیے ہمارے حق پر ڈاکا ڈالنا آسان ہوگیا ہے؟
ہمیں اس چیلنج کو سمجھنا ہوگا کہ مسلمان خاندان اور ان کے اسلامی شعائر، سامراج کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور دنیا بھر میں استحصالی قوتیں مسلمان عورت کے اس بنیادی حق کو سیکولر ازم کے بالمقابل دہشت گردی کی علامت کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ باحجاب مسلمان عورت، مغرب یا مغرب زدہ لوگوں کی نظر میں ’پس ماندہ اور فرسودہ‘ ہے، جب کہ اس کے برعکس یہی مسلمان عورت حجاب میں خود کو زیادہ محفوظ اور باوقار محسوس کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان عورت کو حجاب نے کبھی صحت مند معاشرتی کردار ادا کرنے سے نہیں روکا۔

حجاب پسماندگی یا آزادی؟
اب مسلمان عورت کے سر پر اسکارف، آزادی کی توانا علامت اور مسلم شناخت کا احساس بن کر اُبھر رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ :
٭    حجاب، عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتا ہے۔ یہ شیطان اور اس کے حواریوں کی ناپاک نظروں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے۔
٭    جب عورت پردہ اتار دیتی ہے تو اس کی مثال فوج کے اس سپاہی جیسی ہوتی ہے، جو میدان جنگ میں اپنے ہتھیار پھینک دے اور خود کو دشمن کے حوالے کردے۔ کیوں کہ پردہ مسلمان عورت کی ڈھال ہے۔
٭     ایک مسلمان عورت کے لیے یہ ایمان کے بعد خوب صورت ترین تحفہ ہے، جو معاشرے سے بے حیائی کی جڑ کاٹ کر اس کی نسلوں کو پاکیزہ ماحول مہیا کرتا ہے۔
٭     حجاب، عورت کو ظاہری نمود ونمایش اور غیر ضروری اخراجات سے روکتا ہے اور سادگی سکھاتا ہے۔
٭     شرم وحیا، عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفاظت پردے کے بغیر ممکن نہیں۔
٭     ایک باحجاب عورت بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے گھریلو فرائض کے لیے زیادہ وقت نکال سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔
٭     ایک باحجاب عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے، اور اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
٭     وہ ماحول کی آلودگی اور موسم کی شدتوں سے دیگر خواتین کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔
٭     ایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی۔
l حجاب اور شاعر مشرق: علامہ محمد اقبالؒ عورت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں  ؎
بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
[ارمغانِ حجاز]
سیّدہ فاطمۃ الزہرا [بتول] بن جائو، اور اس زمانے کی نظروں سے چھپ جائو کہ تمھاری گود میں ایک شبیرؓ پرورش پاسکے۔
ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کو یہ حجاب اور پردے کی صفت اتنی محبوب ہے کہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب میں رہنے کا پابند بناتا ہے، تاکہ وہ اپنی تخلیق کی بہتر حفاظت اور پرورش کرسکے۔ چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں   ؎
حفظِ ہر نقش آفریں از خلوت است
خاتمِ اُورانگین از خلوت است
[جاوید نامہ]
ہر نقش آفریں کی حفاظت خلوت سے ہے، اورخلوت ہی اس کی انگوٹھی کا نگینہ ہے۔
مراد یہ ہے کہ آفاق کے سارے ہنگامے پر نظر ڈالو۔ تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموں کی تکلیف نہ دو۔ اس لیے کہ ہر تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتا ہے۔
پھر فرماتے ہیں[ارمغانِ حجاز]  :
بہل اے دخترک ایں دلبری ہا
مسلماں را نہ زیبدکافری ہا
منہ دل بر جمالِ غازہ پرورد
بیاموز از نگہ غارت گری ہا
اے میری پیاری بیٹی، دلبری (آرایش وزیبایش) کے انداز چھوڑ دو کہ مسلمانوں کو یہ کافرانہ ادائیں زیب نہیں دیتیں ۔(یعنی، اس مصنوعی آرایش وغازے کی سرخی کو چھوڑ کر کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو)۔
ایک ایسے وقت میں، جب کہ اقبال کی شاعری کو بطور فیشن ہر مقرر اپنی تقریر کی زینت بنارہا ہے ہمیں اُن کی شاعری کے اصل پیغام کو سمجھنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

ہمیں کیا کرنا ہے؟
٭    ہمیں مغرب کے منافقانہ طرز عمل کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھانا چاہیے اور دنیا بھر میں پردے اور حجاب کی بنیاد پر امتیازی سلوک یا تعصب کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا چاہیے۔
٭    میڈیا اور کاروباری ادارے جس طرح عورت کی خوب صورتی کو تجارتی اور گھٹیاتشہیری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ عورت کی توہین ہے۔ خود خواتین کی جانب سے اس کی مذمت اور مخالفت کی جانی چاہیے۔
٭    معاشرے میں حیا کے چلن کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، جس کے لیے قرآن وسنت دونوں اصناف (مردوں اور عورتوں) کو واضح ہدایات دیتے ہیں۔
٭    معاشرے میں عورت کے اس تحفظ اور احترام کو یقینی بنانا چاہیے، جس کی بنیاد پر ہم اسلام اور مسلمانوں کو مغرب سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس برتری کو ثابت بھی کرتے ہیں۔
٭    مغربی اور بھارتی فلمی کلچر کے اثرات کے باعث عورتوں کو عریانیت کی طرف لانے والے عوامل کی اصلاح کرنی چاہیے۔
٭    یہ بتانا چاہیے کہ حجاب نہ صرف دل اور آنکھ کا ہے اور نہ صرف اُوڑھے ہوئے برقعے، چادر یا اسکارف کا، بلکہ آنکھ اور دل بھی ان کے ہم رکاب ہونے چاہییں۔
٭    ۴ستمبر یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے [یہ دن تو ایک علامت ہے، وگرنہ ایک مسلمان کے لیے ہر روز، ’یومِ حجاب‘ ہے]۔اس موقعے پر ہم اس بات کا عزم کریں کہ حجاب محض سر لپیٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے پورے معاشرے کو شیطان اور اس کے چیلوں سے آزادی دلانی ہے۔ یہ نظام شیطانی اخلاق سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے معاشرے اور اپنے خاندان کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام ہے۔
٭    حجاب ایک تحریک ہے، چادر بتولؓ اور یادگارِ فاطمہؓ و عائشہؓ ہے۔ بس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرے اور مستقبل کا تحفظ کرسکتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک پاکیزہ نسلِ انسانی کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔
٭    اپنے بہترین خاندانی نظام اور اقدار کی حفاظت وقدردانی کریں اور اپنی نسلوں کی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں کریں تاکہ حیا کا کلچر پروان چڑھے۔
عورت ہی تہذیب کی عمارت کا ستون ہے۔ وہ مایوسیوں میں اُمید کے چراغ کو روشن کرتی ہے۔ اپنے خون جگر سے ایک بے جان لوتھڑے کو انسان بناتی ہے۔ وہ ایک روشن مشعل کی طرح اندھیروں سے لڑبھڑ جانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کبھی نہ بجھنے والے چراغ کی مانند نسلِ نو کی رہنمائی کرتی ہے۔ اُس کی پکار ہمیشہ محبت کی پکار ہوتی ہے۔ اُس کی صدا زندگی کا پیام بن کر صدیوں سے راہیں منور کررہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اُس کی ردا اُسے لوٹانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.