نئی دہلی/واشنگٹن: وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ بھگوان بدھ اور مہاتما گاندھی کی سرزمین کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کی تعلیمات اور اعمال مکمل طور پر امن کے لیے وقف تھے۔ اسی لیے وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی دونوں سے آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے اور میدان جنگ میں مسائل کا حل نہیں نکلتا۔
وزیر اعظم مودی نے امریکی پوڈکاسٹر لیکس فریڈمین کے ساتھ ایک پوڈکاسٹ میں اتوار کے روز مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو کی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اُپواس کیوں رکھتے ہیں اور اسے کس طرح منظم کرتے ہیں، تو وزیر اعظم مودی نے کہا، ” ہندوستان میں مذہبی روایات روزمرہ کی زندگی کے ساتھ گہرائی سے جڑی ہوئی ہیں۔” انہوں نے کہا کہ ہندو دھرم محض رسومات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ زندگی کی رہنمائی کرنے والا ایک فلسفہ ہے، جیسا کہ ہندوستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس کی وضاحت کی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اُپواس رکھنے سے خود پر قابو پانے اور اندرونی و بیرونی وجود میں توازن پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپواس رکھنے سے انسانی حواس زیادہ حساس اور بیدار ہو جاتے ہیں، جس سے کوئی بھی شخص معمولی خوشبو اور باریک تفصیلات کو زیادہ واضح طور پر محسوس کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے واضح کیا کہ اُپواس صرف کھانے سے پرہیز کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس میں تیاری اور جسم کی زہریلی مادوں سے صفائی (ڈیٹوکس) کی سائنسی عمل شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کئی دن پہلے ہی آیورویدک اور یوگا کے اصولوں پر عمل کر کے اپنے جسم کو اپواس کے لیے تیار کرتے ہیں اور اس دوران ہائیڈریشن کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جب اُپواس شروع ہو جاتا ہے، تو وہ اسے عقیدت اور خود نظم و ضبط کا ایک عمل سمجھتے ہیں، جو گہرے غور و فکر اور توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اپواس رکھنے کی ان کی عادت ذاتی تجربے سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے پہلی بار اسکول کے دنوں میں مہاتما گاندھی سے متاثر ہو کر اپواس رکھنے کا آغاز کیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ عالمی سطح پر ایک رہنما کے طور پر اپنی ذمہ داری کیسے نبھاتے ہیں، مودی نے ہندوستان میں مانسون کے موسم کے دوران منائے جانے والے چتورماس کی قدیم روایت پر روشنی ڈالی، جب ہاضمہ قدرتی طور پر سست ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران بہت سے ہندوستانی دن میں صرف ایک وقت کھانے کی روایت پر عمل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے لیے یہ روایت جون کے وسط میں شروع ہوتی ہے اور دیوالی کے بعد نومبر تک جاری رہتی ہے، جو تقریباً ساڑھے چار ماہ پر محیط ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوراتری کے دوران، جو طاقت، عقیدت اور روحانی نظم و ضبط کی علامت ہے، وہ مکمل طور پر کھانے سے پرہیز کرتے ہیں اور نو دن تک صرف گرم پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
جب ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر اعظم نے شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع میں وڈ نگر میں اپنی جائے پیدائش کے بارے میں بات کی اور اس کی بھرپور تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وڈ نگر بدھ مت کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا، جس نے چینی فلسفی شوانزانگ جیسی شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ یہ قصبہ 1400 کے آس پاس بدھ مت کا ایک بڑا تعلیمی مرکز بھی تھا، جس نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ان کے گاؤں میں ایک منفرد ماحول تھا جہاں بدھ، جین اور ہندو روایات ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ موجود تھیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تاریخ صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے، جیسا کہ وڈ نگر کے ہر پتھر اور دیوار نے ایک کہانی بیان کی ہے۔ وزیراعلیٰ کے طور پر اپنے دور میں، انہوں نے بڑے پیمانے پر کھدائی کے منصوبے شروع کیے جن سے 2800 سال پرانے شواہد سامنے آئے، جو شہر کے مسلسل وجود کو ثابت کرتے ہیں۔
مسٹرمودی نے تبصرہ کیا کہ ان نتائج سے وڈ نگر میں ایک بین الاقوامی سطح کا عجائب گھر قائم ہوا ہے، جو اب مطالعہ کا ایک بڑا شعبہ ہے، خاص طور پر آثار قدیمہ کے طلباء کے لیے۔ انہوں نے اس قدر تاریخی طور پر اہم مقام پر پیدا ہونے پر شکریہ ادا کیا، اسے اپنی خوش قسمتی کے طور پر دیکھا۔
انہوں نے اپنے بچپن کے حالات بھی بیان کیے، جن میں بغیر کھڑکیوں والے ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے اور شدید غربت میں پرورش پانے کا ذکر کیا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ انہیں کبھی غربت کا بوجھ محسوس نہیں ہوا، کیونکہ ان کے پاس اس کا موازنہ کرنے کے لیے کوئی معیار نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے والد کو ایک محنتی اور نظم و ضبط کے پابند انسان کے طور پر یاد کیا، جو اپنی وقت کی پابندی کے لیے مشہور تھے۔
انہوں نے اپنی والدہ کی محنت اور دوسروں کی دیکھ بھال کے جذبے پر روشنی ڈالی، جو ان کے اندر ہمدردی اور خدمت کا احساس پیدا کرنے کا سبب بنا۔ انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح ان کی والدہ صبح سویرے بچوں کا روایتی طریقوں سے علاج کرتی تھیں اور انہیں اپنے گھر بلاتی تھیں۔ انہوں نے ان تجربات کو اپنی زندگی اور اقدار کی تشکیل میں اہم قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سیاست میں ان کا سفر ان کی عاجزانہ شروعات کو نمایاں کرتا ہے، اور جب وہ پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تو میڈیا کی رپورٹنگ نے ان کی پس منظر کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی زندگی کے تجربات، چاہے انہیں قسمت کہا جائے یا کچھ اور، آج ان کے عوامی کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے نوجوانوں کو صبر اور خود اعتمادی برقرار رکھنے کی تلقین کی اور کہا کہ چیلنجز زندگی کا لازمی حصہ ہیں، لیکن یہ کسی کے مقصد کی وضاحت نہیں کرتے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشکلات صبر کا امتحان ہوتی ہیں، اور ان کا مقصد کسی کو شکست دینا نہیں بلکہ مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر بحران ترقی اور بہتری کا موقع فراہم کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے زندگی میں کامیابی کے لیے صبر اور استقامت کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے ہر ذمہ داری کو دل سے نبھانے اور جذبے کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات کو بھی نمایاں کیا کہ خوشحالی ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے، کیونکہ وسائل رکھنے والے افراد کو بھی ترقی کرتے رہنا چاہیے اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنی والد کی چائے کی دکان پر ہونے والی گفتگو سے بہت کچھ سیکھا، جس نے انہیں مسلسل سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کی قدر سکھائی۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ بڑے اہداف طے کرتے ہیں اور جب وہ انہیں حاصل نہیں کر پاتے تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ "کچھ بننے” کی بجائے "کچھ کرنے” پر توجہ دیں، کیونکہ اس سوچ سے مستقل مزاجی اور ترقی کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ حقیقی اطمینان کسی چیز کو حاصل کرنے سے نہیں بلکہ دینے سے آتا ہے، اور نوجوانوں کو خدمت اور تعاون پر مبنی ذہنیت اپنانے کی ترغیب دی۔
ہمالیہ میں اپنے سفر کے بارے میں پوچھے جانے پر، وزیر اعظم نے اپنے چھوٹے سے قصبے میں پرورش پانے کے بارے میں بات کی، جہاں کمیونٹی زندگی محدود دائرے میں مرکوز تھی۔ وہ اکثر مقامی لائبریری جاتے اور وہاں سے سوامی وویکانند اور چھترپتی شیواجی مہاراج جیسی شخصیات کی زندگیوں سے متاثر ہوتے۔ اس سے ان کے اندر اپنی جسمانی حدود کو آزمانے کی خواہش پیدا ہوئی، جیسے سخت سردی میں باہر سونا تاکہ اپنی برداشت کو پرکھ سکیں۔
سوامی وویکانند کی تعلیمات کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے، خاص طور پر ایک واقعہ جہاں وویکانند، اپنی بیمار ماں کے باوجود، دھیان کے دوران دیوی کالی سے کچھ مانگنے کے بجائے صرف خدمت کی دعا کر سکے، وزیر اعظم نے کہا کہ اس واقعے نے ان پر گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے محسوس کیا کہ حقیقی سکون دوسروں کی خدمت میں مضمر ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ یاد کیا جب انہوں نے ایک خاندانی شادی میں شرکت کے بجائے ایک سنت کی دیکھ بھال کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے ان کے روحانی رجحان کا اظہار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے گاؤں میں فوجیوں کو دیکھ کر انہیں ملک کی خدمت کا جذبہ ملا، حالانکہ اس وقت ان کے پاس کوئی واضح راستہ نہیں تھا۔ وزیر اعظم نے اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کرنے کی شدید خواہش کا ذکر کیا۔ انہوں نے سوامی آتماستھانند جی جیسے سنتوں کے ساتھ اپنے تعلق پر روشنی ڈالی، جنہوں نے انہیں سماج کی خدمت کی اہمیت کی جانب راغب کیا۔ انہوں نے بتایا کہ رام کرشن مشن میں اپنے قیام کے دوران وہ کئی عظیم سنتوں سے ملے جنہوں نے انہیں محبت اور برکتیں دیں۔
سوامی آتماستھانند جی کے ساتھ اپنے تجربے کو شیئر کرتے ہوئے، جس نے انہیں ہر سطح پر خدمت کا عزم کرنے پر آمادہ کیا، وزیر اعظم نے کہا کہ دوسرے لوگ انہیں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، لیکن وہ روحانی اصولوں سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے لیے ایک سنت اور ایک لیڈر کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں کردار بنیادی طور پر ایک جیسے اصولوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظاہری لباس اور کام تبدیل ہو سکتا ہے، لیکن خدمت کے لیے ان کی لگن ہمیشہ برقرار رہے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ہر ذمہ داری کو سکون، دھیان اور لگن کے ساتھ نبھاتے ہیں، چاہے وہ اپنی والدہ کی دیکھ بھال کرنا ہو، ہمالیہ میں بھٹکنا ہو، یا موجودہ عہدے پر خدمات انجام دینا ہو۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہندوستان اور چین کو تصادم کے بجائے مسابقت کرنی چاہیے۔ صدر شی جن پنگ کے ساتھ میری ملاقات کے بعد، ہم نے سرحد پر حالات معمول پر آتے دیکھے ہیں۔ ہم 2020 سے پہلے کے حالات بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اعتماد بحال ہونے میں وقت لگے گا، لیکن ہم مذاکرات کے لیے پرعزم ہیں۔” انہوں نے تنازع کے بجائے صحت مند مسابقت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، "21ویں صدی ایشیا کی صدی ہے، ہندوستان اور چین کو فطری طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا چاہیے، نہ کہ تصادم۔”
بین الاقوامی سیاست پر بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی نے کہا، "کووڈ نے ہر ملک کی حدود اور کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے سیکھنے کے بجائے، دنیا مزید بکھر گئی ہے۔ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے عالمی قوانین کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جو ادارے استحکام قائم رکھنے کے لیے بنائے گئے تھے، وہ اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔ ‘‘
وزیر اعظم مودی نے گجرات فسادات کے بارے میں کہا، "اب ریاست میں مستقل امن قائم ہو چکا ہے۔ 24 فروری 2002 کو میں پہلی بار ایک منتخب نمائندہ بنا، اور 27 فروری 2002 کو گودھرا واقعہ پیش آیا، جس کے بعد ریاست میں تشدد بھڑک اٹھا۔ 2002 سے پہلے بھی گجرات میں 250 سے زائد فسادات ہو چکے تھے۔ 1969 کا فساد چھ ماہ تک جاری رہا تھا۔ 2002 کے فسادات افسوسناک تھے، لیکن اس کے بعد گجرات میں مستقل امن قائم ہوا۔ حکومت پر کئی الزامات لگائے گئے، لیکن عدلیہ نے دو بار تحقیقات کے بعد مجھے بے قصور قرار دیا۔”
وزیر اعظم مودی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے بارے میں کہا، "آر ایس ایس نے ہمیں ملک کے لیے جینا سکھایا۔ ہمیں جو اقدار سکھائے گئے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ جو بھی کام کریں، اسے ایک مقصد کے تحت کریں۔ اگر آپ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو اس نیت سے پڑھیں کہ آپ قوم کی خدمت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ اگر آپ ورزش کرتے ہیں، تو اس نیت سے کریں کہ آپ جسمانی طور پر ملک کی خدمت کے قابل بن سکیں۔ یہی ہمیں سکھایا گیا تھا۔”
وزیر اعظم مودی نے مہاتما گاندھی کے بارے میں کہا، "باپو صرف 20ویں صدی کے نہیں، بلکہ ہر صدی کے عظیم رہنما ہیں۔” انہوں نے اپنی قیادت پر کہا، "جہاں تک مودی کا تعلق ہے، میرے پاس ایک ذمہ داری ہے، لیکن یہ ذمہ داری اتنی بڑی نہیں جتنی کہ ملک کی وسعت ہے۔ میری طاقت مودی نہیں، بلکہ 140 کروڑ ہندوستانی ہیں۔ جب میں کسی جگہ جاتا ہوں، تو وہاں مودی نہیں جاتا، بلکہ 140 کروڑ عوام کا یقین جاتا ہے۔ جب میں دنیا کے کسی رہنما سے ہاتھ ملاتا ہوں، تو مودی ہاتھ نہیں ملاتا، بلکہ 140 کروڑ ہندوستانیوں کا ہاتھ ملتا ہے۔ یہ طاقت مودی کی نہیں، بلکہ ہندوستان کی ہے۔”
وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، "مسٹر ٹرمپ بہادر ہیں، وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ ہیوسٹن میں ایک پروگرام تھا ‘ہاؤڈی مودی’، جس میں میں اور صدر ٹرمپ دونوں موجود تھے، اور پورا اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا۔ امریکہ میں اتنی بڑی بھیڑ کا جمع ہونا ایک غیر معمولی موقع تھا۔ میں تقریر کر رہا تھا، اور صدر ٹرمپ نیچے بیٹھ کر میری تقریر سن رہے تھے۔ یہ ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہزاروں لوگوں کے درمیان نیچے بیٹھ کر تقریر سن رہے تھے۔”
انہوں نے مزید کہا، "تقریر کے بعد میں صدر ٹرمپ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کیوں نہ ہم دونوں اس اسٹیڈیم کا ایک چکر لگائیں اور لوگوں کا شکریہ ادا کریں۔ امریکی روایات کے مطابق یہ تقریباً ناممکن ہے کہ ایک صدر ہزاروں کے ہجوم میں چلے، لیکن صدر ٹرمپ نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر میرے ساتھ چلنا قبول کر لیا۔ ٹرمپ میں ہمت ہے اور وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔”
وزیر اعظم مودی نے اپنے بچپن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، "میرے ذہن میں منفی سوچ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں پیدائشی طور پر ایک مثبت سوچ رکھنے والا شخص ہوں۔ مایوسی اور منفی سوچ میرے مزاج میں شامل نہیں۔ میرے گھر میں کھڑکیاں تک نہیں تھیں، لیکن ہم نے کبھی غربت کو اپنے اوپر بوجھ محسوس نہیں کیا۔ میرے ماموں نے مجھے کینوس کے جوتے خرید کر دیے تھے، جن پر داغ لگ جاتے تھے، تو میں اسکول سے چاک لا کر انہیں پانی میں گھول کر جوتوں پر پالش کر لیتا تھا۔”
انہوں نے مزید کہا، "میرے پاس کپڑوں کو استری کرنے کی کوئی سہولت نہیں تھی، تو میں تانبے کے لوٹے میں پانی گرم کر کے، چمٹے کی مدد سے اسے پکڑ کر اپنے کپڑوں پر استری کر لیتا تھا۔ میں نے کبھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کیا، کیونکہ میں ہمیشہ ‘1+1’ کے نظریے پر یقین رکھتا ہوں۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ ‘1+1’ کیا ہے؟ تو پہلا ‘1’ مودی ہے اور دوسرا ‘1’ ایشورہے۔ میں کبھی اکیلا نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ اسی سوچ کے ساتھ کام کرتا ہوں کہ ‘نر سیوا ہی نارائن سیوا’ (انسانی خدمت ہی ایشورکی خدمت ہے) ہے۔”
کرکٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر، وزیر اعظم مودی نے کہا، "ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ میچ کے نتیجے نے واضح کر دیا کہ کون سی ٹیم بہتر ہے۔ اگر آپ تکنیکی پہلوؤں کی بات کریں گے تو میں ماہر نہیں ہوں، لیکن کچھ دن پہلے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک میچ ہوا تھا، اور اس کا نتیجہ خود یہ بتا رہا ہے کہ کون بہتر ہے۔”
فٹ بال پر بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی نے کہا، "مدھیہ پردیش کے ضلع شہڈول کو ‘مِنی برازیل’ کہا جاتا ہے۔ جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ 80 سے 100 نوجوان اسپورٹس یونیفارم میں تھے، جن میں کچھ معمر افراد بھی شامل تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم ‘مِنی برازیل’ سے ہیں۔ میں حیران رہ گیا اور پوچھا کہ یہ ‘مِنی برازیل’ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں چار سے پانچ نسلوں سے فٹ بال کھیلا جا رہا ہے، اور یہاں سے 80 سے زیادہ قومی سطح کے کھلاڑی نکل چکے ہیں۔ ہمارا پورا گاؤں فٹ بال کے لیے وقف ہے۔ جب ہمارے یہاں قومی فٹ بال ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو آس پاس کے گاؤں سے 20 سے 25 ہزار لوگ میچ دیکھنے آتے ہیں۔”
وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ بھگوان بدھ اور مہاتما گاندھی کی سرزمین کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کی تعلیمات اور جدوجہد مکمل طور پر امن کے لیے وقف تھیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت کی مضبوط ثقافتی اور تاریخی بنیادیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ جب ہندوستان امن کی بات کرتا ہے تو دنیا اس پر توجہ دیتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ہندوستانی عوام جنگ و جدل کے حامی نہیں بلکہ ہم آہنگی کے داعی ہیں، امن کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور جہاں کہیں بھی ممکن ہو، وہاں امن کے قیام کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
مسٹرمودی نے روس اور یوکرین کے ساتھ ہندوستان کے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر پوتن سے کہہ سکتے ہیں کہ "یہ جنگ کا وقت نہیں ہے” اور صدر زیلینسکی کو بھی یہ باور کروا سکتے ہیں کہ جنگ کے میدان میں نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اس تنازع کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالی، خاص طور پر خوراک، ایندھن اور کھاد کے بحران کے حوالے سے، اور عالمی برادری سے امن کے قیام کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی نے 1947 میں تقسیم ہند کی المناک حقیقت کا ذکر کیا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دکھ، خونریزی اور قتل عام کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے آنے والی ٹرینوں میں زخمیوں اور لاشوں کے دل دہلا دینے والے مناظر آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔
وزیر اعظم نے اس ذہنیت پر سوال اٹھایا جو خونریزی اور دہشت گردی پر پروان چڑھتی ہے، اور واضح الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے بیشتر حملوں کے تانے بانے اکثر پاکستان سے جا کر ملتے ہیں، اور اسامہ بن لادن کی مثال دی، جسے پاکستان میں پناہ ملی تھی۔ مسٹرمودی نے کہا کہ پاکستان بدامنی کا گڑھ بن چکا ہے اور اس پر زور دیا کہ وہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گردی کو ختم کرے۔
مسٹرمودی نے 2024 کے ہندوستانی عام انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری عمل کی وسعت اور اس کی ناقابل یقین تنظیمی مہارت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ 98 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز تھے، جو شمالی امریکہ اور یورپی یونین کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ 64.6 کروڑ ووٹرز نے سخت گرمی کے باوجود ووٹ ڈالے۔10 لاکھ سے زیادہ پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے۔2,500 سے زیادہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔دور دراز کے علاقوں میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں پہنچائی گئیں۔مسٹرمودی نے گجرات کے گیر جنگلات میں ایک واحد ووٹر کے لیے بھی پولنگ بوتھ قائم کرنے کی مثال دی، جس سے ہندوستان کی جمہوری وابستگی کی عکاسی ہوتی ہے۔
اپنی قیادت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے،مسٹر مودی نے کہا کہ وہ خود کو "وزیر اعظم” کے بجائے "پردھان سیوک” سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد اقتدار کی خواہش نہیں بلکہ عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔
وزیر اعظم نے بھارت کی 5G ٹیکنالوجی کی تیزی سے توسیع کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ عالمی توقعات سے کہیں زیادہ تیز رفتار رہی ہے۔انہوں نے ہندوستان کے خلائی مشنز کی لاگت کی مؤثریت پر بھی روشنی ڈالی، اور مثال دی کہ ہندوستان کا چندریان مشن ایک ہالی وڈ بلاک بسٹر فلم سے بھی کم قیمت میں مکمل ہوا!
مسٹرمودی نے سیکھنے کے اپنے نقطہ نظر پر روشنی ڈالی اور کہا کہ "مکمل موجودگی سیکھنے کے لیے سب سے اہم اصول ہے۔انہوں نے کہا: "جب میں کسی سے ملتا ہوں، تو میں پوری طرح اسی لمحے میں موجود ہوتا ہوں۔ یہ مکمل توجہ مجھے نئے تصورات کو تیزی سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔”انہوں نے دوسروں کو بھی اس عادت کو اپنانے کی تلقین کی، اور کہا کہ یہ ذہانت کو تیز کرتا ہے۔
مسٹرمودی نے ہندو فلسفے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زندگی باہمی تعلق اور عالمی فلاح و بہبود پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا:”ہندو کبھی بھی صرف ذاتی فلاح پر توجہ نہیں دیتے، بلکہ ہمیشہ سب کی بھلائی اور خوشحالی کی دعا کرتے ہیں۔”انہوں نے نشاندہی کی کہ ہر ہندو منتر کا اختتام "شانتی” (امن) پر مرکوز ہوتا ہے، جو زندگی کی بنیادی روحانی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔
مسٹر مودی نے اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ بات چیت ان خیالات کو بیان کرنے کا ایک موقع تھی جو وہ طویل عرصے سے دل میں رکھتے تھے۔