سانحہ بٹوارہ ، صحافت ڈرامہ بازی نہیں۔۔۔

سانحہ بٹوارہ ، صحافت ڈرامہ بازی نہیں۔۔۔

سانحہ بٹوارہ سرینگر ایک ایسا دلدوز اور دلخراش واقعہ ہے ،جو اہلیان کشمیر کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ۔اس سانحہ میں دریائے جہلم میں کشتی پلٹ جانے کی وجہ سے 9افراد کی موت ہوگئی ۔6افراد کی نعشیں دریائے جہلم سے برآمد کی گئیں ،جن میں ایک والدہ اور اسکے دو جڑواں بچے شامل ہیں ،جنہیں ایک ہی لحد میں سپرد خاک کیا گیا،یہ بھی کشمیر کا ایک دردناک تاریخ ہے ۔لاپتہ 3افراد میں والد ،اس کا کمسن بیٹا اور ایک اور معصوم ہے ۔طو فانی بارشوں کے سبب دریائے جہلم میں پانی کی سطح خطرے کے نشان کے قریب قریب پہنچ گئی تھی اور اب صرف سیلاب کا اعلان کرنا با قی تھا۔اسی اثناءمیں ایک ایسا سانحہ پیش آیا ،جس کا درد نہ صرف متاثرہ کنبوں یا خاندانوں کو عمر بھر کے لئے ستائے گابلکہ اہلیان کشمیر کو بھی پریشان کرتا رہے گا ۔اس سانحہ کی بڑی وجہ اُس نامکمل پل کو قرار دیا جارہا ہے ،جسے ایک دہائی تک کسی بھی حکومت یا انتظامیہ نے مکمل نہیں کیا ۔
اب اس سانحہ کے 6روزگزر چکے ہیں اور ابھی بھی لاپتہ تین افراد کی تلاش جاری ہے ۔دریائے جہلم کی پانیوں اور لہروں میں گم افراد کو بازیاب کرنے کے لئے انتظامیہ نے 14ٹیمیں تشکیل دی ہے ،جن میں ماہر غوطہ خوروں کی بھی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔اس سانحہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک افسوسناک بحث شروع ہوگئی ہے ۔صحافت کے اصول کا سبق سکھانے کے لئے بعض صحافی سوالات اٹھارہے ہیں ،تو بعض وویوز کی خاطر اس سانحہ کو رپورٹ کررہے ہیں ۔حال ہی میں اسرائیل نے غزہ فلسطین پر ایسی جاریت کی ،جسکی مثال کہیں نہیں ملتی ۔اسرائیل کو معصوم فلسطینوں کے قتل ِ عام کا ذمہ دار ٹھہرا یا جارہا ہے ،وہیں عالمی برادری دوہرا معیار اپنا کر اپنا الو سیدھا کررہی ہے ۔سانحات کو رپورٹ کرنا صحافی کا فرض ہے ۔خود کو صحافت کا علمبرار کہلانے والے صحافی سوشل میڈ یا پر بے جا بحث کا حصہ بن کر ایسے سوالات اٹھا رہے ہیں،جن کے پیر ہیں اور نہ سر ۔گزشتہ دنوں فلسطینی فوٹوگرافر محمد سلیم کی ایک تصویر کو ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ ملا۔اس تصویر کے بارے میں صحافی کہتے ہیں ’وہ ایک نہایت طاقتور لیکن افسوسناک لمحہ تھا۔‘فلسطینی فوٹوگرافر محمد سلیم نے ان الفاظ میں اس لمحے کو بیان کیا جب انہوں نے اپنے کیمرے سے وہ تصویر کھینچی جسے ورلڈ پریس فوٹو2024 مقابلے میں ’امیج آف دی ایئر‘ یعنی سال کی بہترین تصویر کے طور پر منتخب کیا گیا۔جمعرات کے دن ورلڈ پریس فوٹو آرگنائزیشن نے 130 ممالک کے تقریبا چار ہزار فوٹوگرافرز کی61ہزار تصاویر میں سے اس تصویر کو اعزاز کے لیے چنا تھا۔
یہ تصویر محمدسلیم نے گزشتہ سال اکتوبر میں حماس کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر حملے کے صرف ایک ہفتے بعد اسرائیلی جوابی کارروائی کے دوران کھینچی تھی۔ اس وقت اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں کا آغاز ہو چکا تھا۔اب اگر صحافی محمد سلیم یہ سوچ کر یہ تصویر نہیں کھینچتے کہ اس کا درد متاثرین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ستائے گا ، تو دنیا کو کیسے معلوم ہو تا کہ غزہ میں کیا کچھ ہورہا ہے ؟ ۔ صحافت کا پیشہ حقائق کو منظر عام پر لانا ہے ۔اس پر صحافت آنکھ بند کرکے یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر خا موش نہیں بیٹھ سکتی ۔تاہم اس بات سے اتفاق ہے کہ صحافت ،ڈرامہ بازی کا نام نہیں ۔سانحات پر ڈرامہ بازی کرنا کسی بھی صورت قابل ِ قبول نہیں ۔ایسے میں صحافت کے میدان میں آنے والے نوجوان صحافیوں کو تربیت دینا اور اخلاقی صحافت سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں سینئر صحافی بہترین رول ادا کرسکتے ہیں ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.