وادی کشمیر ایک زمانے میں صوفیوں ،ولیوں اور ریشیوں کی سرزمین مانی جاتی تھی، جہاں عام لوگ انہی بزرگوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ایک دوسرے سے ہمدردی،پیار محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔غم و خوشی میں ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی لالچ و حرس کے رہتے تھے۔تعلیم و تربیت اگر چہ کم تھی لیکن یہاں کے سادہ لوح عوام میں انسانیت کے وہ تمام گُر موجود تھے جو ایک بہترین معاشرے میں ہونے چاہئے۔اس سادگی،شرافت اور انسانی ہمدردی اور مذہنی بھائی چارے کی مثالیں دنیا بھر میں دی جاتی تھیں۔بے ایمانی ،دھوکہ دہی،جھوٹ اور مذہبی منافرت کا کوئی عنصر عام لوگوںمیں موجود نہ تھا۔
زمانے کی تیز رفتار ترقی کیا ہوئی کہ اہلیان کشمیر نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف دنیا کے عیش و عشرت کے پیچھے بھاگنا شروع کیا۔ایک دوسرے سے ہر معاملے میں سبقت لینے کی آڑ میں لوگوں نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔اس طرح صوفیوں ،ولیوں ،ریشیوں اور منیوں کی اس وادی میں جرائم کا گراف بڑھتا گیا۔آج ہر سو اس طرح کی دلدوز خبریں سُننے کو مل رہی ہیں کہ ذی حس انسان دھنگ ہو کے رہ جاتا ہے ،بے ایمانی،جھوٹ،دھوکہ دہی اور فریب کوئی گناہ تصور نہیں کیا جاتا ہے، جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے سب پڑھے لکھے ہیں، اس کے باوجود مذہبی منافرت عروج پر نظر آرہی ہے۔زمانے کے ساتھ چلنا،ترقی کے مناظر طے کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اگر تعلیم حاصل کرکے انسان انسانیت کے آداب سے محروم ہو جائےگا تو پھر اس تعلیم کا کیا مقصد۔۔۔۔؟جگہ جگہ عبادت گاہیں موجود ہیں لوگوں کی بھیڑ ان عبادت گاہوں میں ہوتی ہے
۔ہر علاقے میں مذہبی تعلیم فراہم کرنے کے مراکز ،درسگاہیں اور دارلعلوم موجود ہیں ۔اس کے باوجود ہر علاقے میں جرائم کی داستان رقم ہو رہی ہے۔گذشتہ دنوں وادی کے ایک علاقے سے یہ خبر منظر عام پر آگئی کہ والد نے اپنی بیٹی کو ہوس کا شکار بنا لیا۔باپ کے ہاتھوں بیٹی کا قتل ہو ا اور بیٹے کے ہاتھوں باپ کا قتل ہو ا۔ہر علاقے میں ڈرگ مافیا سرگرم ہیں اور نوجوان نسل اس کی لت میں مبتلا ہو کر خود کےساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کو مشکلات میں مبتلا کر دیتا ہے۔
جہاں تک انتظامہ کا تعلق ہے وہ صرف تعمیر و ترقی کے حوالے سے ڈھول بجا رہی ہے۔لیکن سماج کس طرح اندر اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے شاید ہی وہ اس حوالے سے فکر مند ہے ۔جہاں تک علما ءاور دانشور طبقے کا تعلق ہے وہ صرف ایک دوسرے کو نیچے دکھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔سماجی بدعات،معاشرے کی بے حسی اور تباہی انہیں کہیں نظر نہیں آرہی ہے وہ اپنی اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کر کے تنظیموں کو متحرک اور فعال بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔کردار سازی کی انہیں کو ئی فکر ہی نہیں ہے۔ہمارے علماءحضرات کو عبادت گاہوں سے باہر آکر وطن عزیز کے لوگوں کی رہنمائی اور رہبری کی خاطر انسانی اقدار کی بحالی کے لئے شدومد سے کام کرنا چاہئے۔ اگر چہ اس کے لئے انہیں موجودہ سیاست میں بھی قدم رکھنا پڑے تو ا س میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے کیونکہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی اقتدار میں رہ کر زیادہ بہتر ڈھنگ سے انجام دی جا سکتی ہے۔جس اقتدار کو آج کل کے علماءکوستے ہیں اور دور سے ہی تُھو تُھو کر رہے ہیں۔