عبد الرحمان فداؔ:وہ صوفی شاعر جو حضرت سید میرک شاہ کاشیانی ؒ کی صحبت میں رہے

عبد الرحمان فداؔ:وہ صوفی شاعر جو حضرت سید میرک شاہ کاشیانی ؒ کی صحبت میں رہے

شوکت ساحل

لیتھ پورہ پلوامہ سے تعلق رکھنے والے عبد الرحمان فداؔ وہ کشمیر ی صوفی شاعر ہیں ،جو نہ صرف وادی کشمیر کے بلند پایہ ولی کامل حضرت سید میرک شاہ کاشیانی ؒ سے روبرو ہوئے بلکہ اُن کی صحبت میں رہے اور اپنی روحانی شخصیت کو پروان چڑھایا ۔

عبد الرحمان فداؔ نے ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’ بزم ِ عرفان ‘ میں وادی کشمیر کے مشہور ومعروف براڈ کاسٹر عبدالاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کی ۔عبد الرحمان فدا دریا ئے جہلم کے کنارے پر واقع جنوبی ضلع پلوامہ کے بانڈر پورہ گاﺅں میں ایک متوسطہ زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گاﺅں کے ایک سرکاری پرائمری اسکول سے حاصل کی اور سنہ1966میں 10ویں جماعت کا سالانہ امتحان گور نمنٹ ہائی اسکول کاکہ پورہ پلوامہ سے پاس کیا ۔

عبد الرحمان فداؔ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے سائنس اینڈ کامرس اسلامیہ کالج سرینگر میں داخلہ لیا ۔نامعلوم وجوہات کی بنا پر تعلیم کا سفر ادھورا چھوڑنا پڑا اور انڈر گریجویٹ ہی رہے ۔تاہم انہوں نے بعد ازاں جو تعلیم حاصل کی ،وہ بہت کم ہی لوگ حاصل کر پاتے ہیں ۔عبد الرحمان فدا نے روحانی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ راہ اختیار کی ،جس پر چلنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ۔

اس دوران سبب روزی بھی ہوا اور عبد الرحمان فداؔ نے محکمہ اری گیشن فلڈ کنٹرول میں ملازمت حاصل کی ۔وہ اسی محکمہ کے ہیڈ اسسٹنٹ کے عہدے پر ریٹائر ہوئے ۔ادب کیساتھ اپنے مراسم کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عبد الرحمان فدا نے کہا کہ اُن کے والد نے ازدواجی زندگی شروع کرنے سے قبل مُر شد تلاش کیا تھا ۔اور والد کے کہنے پر ہی وہ بھی اسی راہ پر مرشد کی تلاش میں نکل پڑے ۔

ان کا کہناتھا کہ وہ والد کی ہدایت پرشہر سرینگر کے مضافاتی علاقہ شالیمارپہنچ گئے ،جہاں انہوں نے اپنے مرشد کو تلاش کرنے کی تگدو شروع کی ۔عبد الرحمان کہتے ہیں کہ وہ نوجوان تھے اور عہد نو جوانی میں ہی اُن کی ملاقات وادی کشمیر کے بلند پائیہ ولی کامل حضرت سید میرک شاہ کاشیانی ؒ سے روبرو ہونے کا موقع ملا ۔ان کا کہناتھا کہ پہلی ملاقات کے بعد یہ سلسلہ ولی کامل کے الوداعی سفر تک جاری رہا اور وہ موصوف ولی کامل کی ہی صحبت میں رہے ،جس دوران اُنہیں روحانی علم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔

عبد الرحمان فدا کا کہنا ہے کہ انہوں نے بلند پائیہ ولی کامل حضرت سید میرک شاہ کاشیانی ؒ کی نماز جنازہ میں بھی شرکت کی اور بعد ازاں سجادہ نشین جناب دین محمد صاحب کی بھی صحبت میں رہے اور اُنہیں سید میرک شاہ میمو ریل ہائی اسکول کے ٹرسٹی ہونے کے علاوہ انتظامیہ کا ممبر ہونے پر بھاری ذمہ دارایاں تفویض کی گئی ہیں ،جنہیں نبھانے کے لئے اُنہیں ہفتہ وار بنیادوں پر سرینگر کا رُخ کرنا پڑتا ہے ۔

شاعری سے لگاﺅ کے بارے میں عبد الرحمان فداکہتے ہیں گوگہ وہ متوسطہ زمیندار گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ،تاہم اُن کے گھر بیٹری پر چلنے والا ریڈیو تھا اور وہ کشمیری موسیقی کو سنا کرتے تھے ۔اور اُنہیں لکھنے کی دلچسپی پیدا ہوگئی ۔

انہوں نے کہا کہ دوران تعلیم وہ اپنے تین اساتذہ غلام محی الدین خان المعروف خضر مغربی ، غلام رسول غیور اور شریف الدین پرواز سے کافی متاثر تھے ،جنہیں علم وادب میں امتیازی شان حاصل تھی ، اور اُن ہی کی عطا کردہ تعلیم کی وجہ سے ہی وہ کچھ قلمبند کرنے کے قابل ہوئے ۔

ان کا کہناتھا کہ70کی دہائی میں اُن کی پوسٹنگ اری گیشن ڈیپارٹمنٹ ڈویژن پانپور میں ہوئی ،جہاں اُن کی ملاقات محمد مقبول شاہ نامی ملازم سے ہوئے اور بعد میں اُن کے ساتھ دوستی بھی ہوئی ۔ان کا کہناتھا کہ محمد مقبول شاہ کے والد نسبتی عبد المجید سائل تھے ،جو اُس وقت صوفی شعرا ءمیں شمار ہوتے تھے ۔

عبد الرحمان فدا کاکہنا تھا کہ ایک دن اُن کے رفیق نے اُن کی قلمبند کی شاعر ی اپنے والد نسبتی کو دکھا ئی اور ایک ماہ بعد خط کی صورت میں جواب آیا کہ آپ شاعری نہیں کرسکتے کیوں آپ میں فنی صلاحیت نہیں ہے ،لہٰذا آپ جوکام کر رہے ہیں ،وہی جاری رکھیں ۔

ان کا کہناتھا کہ اس جواب کے بعد انہوں نے ڈیڑھ دہائی تک شاعری سے کنارہ کشی اختیار کی جبکہ اپنا قلمبند کلام بھی نذر آتش کردیا ۔تاہم ڈیڑھ دہائی بعد اُنہیں یہ محسوس ہوا کہ عبد المجید سائل ہی حر ف ِ آخر نہیں ہے ،جسکی وجہ سے انہوں نے دوبارہ شاعری کرنا شروع کردیا اور سنہ2015میں اُنکی پہلی تصنیف منظر عام پر آئی ۔عبد الرحمان فدا نے متعدد کتابیں قلمبند کی ہیں جن میں کرامات ِ حضرت سید میرک شاہ کاشیانی ؒ بھی شامل ہے جبکہ ان کی شاعری میں نعتیہ کلام بھی موجود ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.