غلام احمد راتھر :آئینہ دار صوفی شاعر

غلام احمد راتھر :آئینہ دار صوفی شاعر

شوکت ساحل

بادی پورہ بڈگام سے تعلق رکھنے والے غلام احمد راتھر ایک آئینہ دار صوفی شاعر ہیں ،جن کا نعتیہ کلام روح کوتازگی اور قلب وذہن کو سکون بخشتا ہے ۔غلام احمد راتھر انیمل ہسبنڈری محکمہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔اگرچہ غلام احمد راتھرپیشے سے یا ڈگر ی یافتہ ڈاکٹر نہیں تھے ، تاہم وہ اپنے گاﺅں اور دوست احباب میں ڈاکٹر کے لقب سے ہی مقبول رہے ہیں ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’بزم عرفان ‘ میں وادی کے معروف براڈ کاسٹر عبدالاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کی ۔غلام احمد راتھر نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاﺅں بادی پورہ بڈگام کے ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی اور ناگام بڈگام میں واقع ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ۔غلام احمد راتھر میٹرک کرنے کے بعد سرکاری ملازم کے بطور اینمل ہسبنڈری محکمہ میں تعینات ہوئے ۔

غلام احمد راتھر اپنے صوفیانہ شاعری کے سفر کے بارے میں بتا تے ہیں کہ اُن کے والد مرحوم،وادی کشمیر کے بلند صوفی شاعر پیر مقبول شاہ کرالہ واری کے داستان ِ ’گل ریز ‘ سے کافی متاثر تھے اور بیشتر اوقات اشکبار آنکھوں سے یہ کلام زبانی پڑھا کرتے تھے ۔ان کا کہناتھا ’میں اپنے والد سے یہ کلام سنتا تھا اور والد صاحب کی آنکھوں میں بہتے دریا کو دیکھ کر خود اس میں غرق ہوتا تھا ،مجھے معلوم نہیں کہ میں کلام سے متاثر ہوکر غرق ہوتا تھا یا اپنے والد کی محبت کی وجہ سے،تاہم اس منفرد تجربہ،دلچسپی اور محبت کی وجہ سے میرے اندر ایک سخنور پیدا ہوا ‘ ۔

اپنے مرشد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں غلام احمد راتھر نے کہا ’میں نے حضرت اسد اللہ بانگی سوئیہ بگو سے روحانیت کی تعلیم حاصل کی ‘۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ’میں ایک دن تنہا سیر وتفریح کی غرض سے یوسمرگ میں تھا ،اس دوران ایک انجان بزرگ میرے سامنے کھڑے ہوئے اور بیٹھنے کی اجازت مانگی ،میں نے اُنہیں چائے نوش کرنے کے لئے کہا ،بزرگ نے چائے نوش کی اور کہا میرے پاس تمہاری ایک چیز امانت ہے جسکی تمہیں تشنگی ہے ،یہ امانت واپس لے لو ،تمہاری تشنگی ختم ہوجائے گی ،بزرگ نے مجھے فرضِ دائم کی تعلیم عطا کی اور تمہیں ایک دن تمہارامرشد ملے ‘۔

غلام احمد راتھر کہتے ہیں کہ کافی عرصے کے بعد دوست واحباب کے اِصرار پر ایک دن میری ملاقات حضرت فقیر عبدالسلام پانپوری سے ہوئی ،جو بعد ازاں میرے مرشد بن گئے ۔انہوں نے کہا کہ صوفی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے میںنے ایک مرکز قائم کرنے کا مشورہ دیا اور فقیر عبد السلام پانپوری کے کہنے پر ہی زعفرانی قصبہ پانپور میں ایک تکیہ قائم کیا گیا ،جہاں صوفی سلسلوں سے وابستہ افراد جمع ہوا کرتے تھے ‘۔

ان کا کہناتھا ’ تکیہ پر زیادہ تر حاجت مند لوگ فقیر سے ملنے کے لئے آیا کرتے تھے ،لیکن ان میں سے کئی ایسے افراد تھے،جو روحانی تعلیم حاصل کرنے کے لئے طالب علم بن گئے ۔ان کا کہناتھا ’ یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا اور اب بھی جاری ہے ‘۔

تصویر :امتیاز گلزار

غلام احمد راتھر کہتے ہیں کہ بادی پورہ بڈگام میں ہر جمعرات کو ایک صوفیانہ مجلس منعقد ہوا کرتی تھی ،تاہم جوان بیٹے کی موت کے بعد سے یہ سلسلہ مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے اور اب یہاں ایسی کوئی مجلس منعقد نہیں ہوتی ہے ۔

غلام احمد راتھر کا ایک شاعری مجموعہ ’ جان ِ جانان ‘ منظرعام پر آچکا ہے جبکہ جلد دوم بہت جلد شائع ہونے والا ہے ۔غلام احمد راتھر کا نعتیہ کلام (’لامکاں نک تاجدارا رحمت العالمینﷺ،عرش پاککھ شہسوار ا رحمت العامین ‘) جب پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے ،تو تسکین ِ روح حاصل ہو تا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.