خدمت خلق کا جذبہ اور عملی خدمت انسانیت کی معراج قرار دی جارہی ہے اور معاشرے کی موجودہ نفسانفسی کی صورتحال میں خدمت خلق کرنے والے لوگوں کی موجودگی معاشرے کے لیے’ آکسیجن ‘کا درجہ رکھتی ہے۔ خدمت خلق کو اس کی حقیقت کے تحت دیکھ کر اس کو سراہا جاتا ہے۔
معاشرے کے لوگ اس خدمت کے جذبے کے تحت ہی اپنی زندگیوں کوصحیح راستے پر لاسکتے ہیں ، اس کار خیر کا صلہ اور اجر اللہ تعالی عطا فرمائے گا اور اللہ تعالی کی رضا کی خاطر یہ کام کرنے پر سبھی دعا گو ہیں عوام کی خدمت پر ملنے والی دعائیں دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہیں ۔خدمت خلقِ خدا محبت الہٰی کا تقاضا،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔
صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا،علمی سرپرستی کرنا،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔ انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گزارسکتا۔اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے۔
مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کیلئے آپسی تعاون،ہمدردی،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے۔مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علمبردار ہے،اس لئے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو،سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کریں۔کشمیر میں ایک نہیں ،دو نہیں ،درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں رضاکار تنظیمیں ہیں ،لیکن ان میں چند ایک ہی ایسی ہی سماج کے تئیں اپنی خدمات انجام دیتی ہیں ۔کشمیر گزشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات نے اہلیان کشمیر کو طرح طرح کی مشکلات سے دوچار کیا ہے ۔
ہڑتالیں ،کرفیو ،بندشیں اور پابندیاں یہاں معمول تھیں ،لیکن اب حالات بدل رہے ہیں ۔ تاہم اب بھی یہاںکی اقتصادی حالت اس قدر پریشان کن ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔بعض اوقات ایسے تلخ تجربات کاسامنا ہوتا ہے ،جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔جو ہاتھ مانگنے والے نہیں بلکہ دینے والے ہوتے ہیں ،وہ آج محتاجی کے عالم میں مانگنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔اگرچہ مانگنے کے رجحان کو پروان چڑھانے کے لئے ہم کسی بھی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ اس کا سد باب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومت غریبوں خاندانوں کو پانچ مرحلہ زمین دینے کا اعلان کر چکی ہے ۔
تاہم اُن سفید پوش افراد کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ،جو لب کشائی نہیں کرتے ۔سماجی اور معاشرتی طور پر ہم سب کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے ،کہ ہم مدد کے ہاتھ آگے بڑھائیں ،تاکہ کوئی مایوسی کے عالم انتہائی خطرناک قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوجائے ۔