پروفیسر شاد رمضان :کشمیری ادب کے تخلیقی وتحقیقی تنقید نگار اورصوفی شاعر

پروفیسر شاد رمضان :کشمیری ادب کے تخلیقی وتحقیقی تنقید نگار اورصوفی شاعر

شوکت ساحل

سرینگر:جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام کے مرکزی قصبہ کے محلہ آڑپورہ گاﺅں سے تعلق رکھنے والے پروفیسر شاد رمضان ،کشمیری ادب کے تخلیقی وتحقیقی تنقید نگار ہیں جنکی کشمیری ادب کے حوالے سے4 تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ پروفیسر شاد رمضان اعلیٰ درجے کے صوفی شاعر بھی ہیں اور ان کے کئی کشمیری نغمے کافی مقبول ہیں ۔

پروفیسر شاد رمضان پیر زادہ خاندان میں پیدا ہوئے ،ان کے والد مرحرم، خیر الدین شاہ فارسی اور عربی زبان کے بلند پائیہ عالم تھے ۔ پروفیسر شاد رمضان نے ابتدائی تعلیم کولگام کے اسلامیہ اسکول سے حاصل کی ،ہائی اسکول کولگام سے پاس ہونے کے بعد شاد رمضان نے ہائر اسکینڈری اسکول پلوامہ میں داخلہ لیا اور پڑھائی کا عمل جاری رکھا ۔

 

ڈگری کالج اننت ناگ سے’ بی اے‘ کرنے کے بعد کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری میں داخلہ لیا ،جہاں انہوں نے پہلے کشمیری زبان میںڈپلو ما ،پھر ایم اے اور بعد ازاں کشمیری زبان میں ہی ’پی ایچ ڈی‘ مکمل کی ۔بعد ازاں پروفیسرشاد رمضان نے کشمیر زبان کی ترقی وترویج کے لئے نوجوان نسل کو پڑھانے کا سفر شروع کیا ۔پروفیسر شاد رمضان نے یونیورسٹی سطح پر36برس تک اپنی خدمات انجام دیں اور سنہ2017میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے ۔تاہم شعبہ کشمیری سے اُن کا رابطہ تسلسل کیساتھ برقرار رہا اور وہ عصر حاضر میں بھی خود کو پڑھنے اور پڑھانے کے عمل سے جدا نہیں کرسکے ،یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔پروفیسر شاد رمضان متعدد مرتبہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیر ی کے صدر رہے ہیں ۔

حال ہی میں پروفیسر شاد رمضان ، ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’ بزم ِ عرفان ‘ کے مہمان بننے ۔وادی کشمیر کے معروف براڈ کاسٹر وادیب، عبد الاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کے دوران پروفیسر شاد رمضان نے اپنے ادبی سفر کے بارے میں زیرین خیالات کا اظہار کیا۔ان کا کہناتھا کہ اس حقیقت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کشمیری زبان سے اہلیان کشمیر کا روحانی رابطہ منقطع ہوگیا ہے ،تاہم کشمیری زبان وادب کا مستقبل تابناک اور محفوظ ہے ،کیوں کہ 97فیصد عوام اب بھی کشمیری زبان میں ہی گفتگو کررہے ہیں اور محض دو سے تین فیصد ہی ایسے لوگ ہیں، جو اردو یا انگریزی زبان کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔

انہوں نے اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ،جب انہوں نے وادی کشمیر کے بلند پائیہ صوفی بزرگ حضرت میر سید محمد حسین سمنانی رحمةاللہ علیہ کی شان ِ عظمت کو شاعری کے ذریعے بیان کیا ۔پروفیسر شاد رمضان نے کہا کہ حوصلہ افزائی اور پذیرائی حاصل ہونے کے سبب انہوں نے طالب ِعمری میں ہی کشمیری ادب کا دامن تھام لیا جبکہ بچپن سے ہی وہ والد کے ہمراہ صوفی مجالس سے وابستہ رہے ہیں ،جہاں اُنہیں صوفیت کی عطرکا تحفہ ملا ۔

پروفیسرنے کہا کہ میٹرک کا سالانہ امتحان دینے کے بعد انہوں نے پہلا کشمیری نغمہ قلمبند کیا ،جو کافی مقبول ہوا اور لوگوں نے اُن کی شاعری کو کافی پسند کیا۔اس کے بعد یہ سلسلہ تادم جاری ہے ۔ان کا کہناتھا کہ کشمیر یونیورسٹی میں دوران حصول ِعلم اور دوران تدریس ایسے اساتذہ جن میں رحمن راہی ،مقبول بانہالی اور جناب رشید نازشامل تھے ، کی رہبری حاصل ہوئی،جن نے راہنما ئی سے اُن کے اندر نہ صرف صوفیانہ شاعری کاجذبہ بلکہ تخلیقی وتنقیدی ذہن پروان چڑھایا ۔

پروفیسر شاد رمضان کہتے ہیں کہ گزشتہ700برس (19ویں اور20ویں صدی)کے دوران کشمیر اور کشمیری ادب نے دودرجن سے زیادہ ایسے شعرا ءپیدا کئے جو کسی انمول خزانہ سے کم نہیں ہیں۔ان کا کہناتھا کہ لل دید ،حضرت شیخ العالم ؒ سے لیکر صمد میر تک کشمیری ادب کو ایک ایسا طاقتور اور ادبی خزانہ ملا ہے،جس نے معاشرے کی تشکیل میں نمایاں اور کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔پروفیسر شاد رمضان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کئی سوالات کے جوابات میں کہا کہ اعلیٰ تخلیقی وتحقیقی اعتبارسے ”صوفی شاعری“ کشمیری تہذیب وتمدن اور ثقافت کا اہم ستون ہے اور کشمیر کی ترجمان بھی ہے ۔

ان کا کہناتھا کہ تخلیقی وتحقیقی اعتبار سے میں یہ ذمہ داری کیساتھ کہتا ہوں کہ کشمیری زبان اور ادب دونوں کا مستقبل محفوظ ہے ،کیوں کہ اکیسویں صدی میں بھی اہلیان کشمیر کے97فیصد لوگ کشمیری زبان میں ہی بات کرتے ہیں اور اپنی شان سمجھتے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ کشمیری زبان وادب اُس وقت بھی عروج پر تھا ،جب فارسی اور عربی زبانیں دنیا پر غالب تھیں۔

کشمیر ی ادب کے تخلیق کار وتنقید نگار نے کہا کہ اس حقیقت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کشمیری ادب اور نوجوان نسل کے درمیان رابطہ کسی حد تک منقطع ہوگیا ہے ،لیکن پھر بھی میں یہ بات عزم واستقلال کیساتھ کہتا ہوں کہ کشمیری ادب اور زبان کا مستقبل محفوظ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوک سبھا نے حال ہی میں6افراد کو کشمیری زبان کے ترجمہ کار کی حیثیت سے بھرتی کیا جبکہ دیگر اداروں میں بھی کشمیری زبان سے وابستہ افراد کو روزگار سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملا ہے ۔

پروفیسر شاد رمضان نے مزید کہا کہ کشمیر کے اُن گمنام شعراءتک پہنچنے کے لئے کشمیر یونیورسٹی ،کلچرل اکیڈمی اور ادبی تنظیموں کو مشترکہ طور پر اپناذمہ دارانہ رول ادا کرنا ہوگا ،جنہوں نے کشمیر ی زبان ،ادب اور صوفیت کی شمع کو فروزاں رکھا ہے ۔ان کا کہناتھا کہ کوئی فردِ واحد یہ کام انجام نہیں دے سکتا ہے بلکہ گمنام شعراءکو بھول بھلائیوں کے جنگل سے باہر نکالنے کے لئے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایشین میل کی اس حوالے سے پہل قابل تحسین ہے ۔
پروفیسر شاد رمضان نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’کے اے ایس اورآئی اے ایس‘ کشمیری زبان میں کرکے کشمیری زبان اور ادب دونوں کے مستقبل کواور زیادہ محفوظ بنانے میں اپنا رول ادا کرسکتے ہیں اور کشمیری زبان بھی بڑے بڑے ایوانوں تک پہنچ سکتی ہے ۔

پروفیسر شاد رمضان کشمیری زبان و ادب کے تخلیقی وتحقیقی تنقید نگار اورصوفی شاعر ہیں۔شاد رمضان کی تنقید نگاری پر مبنی 4 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ اُنہیں سنہ2014میں (کورا کاکود پشریت گوم) شعری مجموعے کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی سر فراز کیا گیا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.