کالم – Asian Mail https://urdu.asianmail.in Kashmiri Newspaper Fri, 19 Apr 2024 05:05:11 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=5.7.11 سانحہ گنڈبل سرینگر ! قیامت سے کم نہیں https://urdu.asianmail.in/2024/04/19/48019 https://urdu.asianmail.in/2024/04/19/48019#respond Fri, 19 Apr 2024 05:05:11 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=48019
تحریر: گلفام بارجی
ہر ایک ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ ان کی اولاد اپنے والدین کی کفالت کرے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے۔لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ الله تعالٰی کو کیا منظور ہوتا ہے اور کیا کرنے والا ہے۔ کس کی موت کہاں اور کیسے ہوجائے یہ صرف اور صرف خداوند کریم کے حد اختیار میں ہے۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتاہے تو اس بچے کے والدین اس بچے کےمستقبل کےلئے بڑے بڑے خواب سجا کے رکھتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینے اور ان کا مستقبل سنوارنے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں بعد میں قسمت کی بات ہوتی ہے کہ اوسط درجے کے گھرانے میں پرورش پانے والا بچہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے سجائے ہوئے سپنوں کو پورا کرتاہے یا نہیں۔اسی طرح کے کچھ سپنے گنڈبل سرینگر کے ان بدنصیب والدین نے اپنے ان بچوں کے مستقبل کے لئے سجائے رکھےتھے جو بچے صبح سویرے اپنے والدین سے یہ کہکر اسکول کے لئے نکلے کہ ابو میں اسکول جارہا ہوں اور جب آپ شام کو کام سے گھر واپس آؤگے تو میرے لئے فلاں چیز لےکے آنا۔ ممی میں اسکول جارہا ہوں اور جب میں اسکول سے واپس آؤں گا تو میرے لئے کھانے کے لئے فلاں چیز بناکے رکھنا۔ان کے والدین کو یہ فکر لگی ہوگی کہ اسکول سے جب ہمارے بچے واپس آئیں گےتو جو فرمائش ان بچوں نے اپنے والدین سے کی اس فرمائش کو کسی بھی حال میں پورا کرنا ہے۔
 
کیونکہ انسان کی فطرت ہےکہ وہ اپنے معصوم بچے کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔جب یہ ننھے منے بچے اپنے گھروں سے اسکول کے لئے نکلے ہوں گے تو راستے میں چلتے چلتے انہوں نے ایک دوسرے کو ضرور یہ کیا ہوگا کہ شام کو میرے ابو میرے لئے فلاں چیز لائے گا کسی نے یہ کہاہوگا ک میری ممی میرے لئے فلاں چیز تیار کرکے رکھے گی اور اسکول سے واپسی پر میں اس چیز کو مزے سے کھاؤں گا۔لیکن افسوس ان والدین اور گنڈبل کی بستی کو کیا معلوم تھا کہ ان بچوں کے اسکول روانہ ہونے سے صرف چند پل بعد گنڈبل سرینگر کی پوری بستی کے ساتھ ساتھ پوری وادی ماتم میں ڈوب جائے گی۔گنڈبل کے عوام کو کیا معلوم تھا کہ بچوں کے اسکول روانہ ہونے کے صرف چند ہی منٹ بعد گنڈبل کی بستی پر قیامت آنے والی ہے۔جب یہ ننھے منے بچے ہنستے ہنساتے موت کی اس کشتی میں سوار ہوئے ہونگے تو ان کے وہم و گماں میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ جس کشتی میں وہ سوار ہورہے ہیں اور صرف چند سیکنڈ کے بعد دریائے جہلم ان معصوم اور ننھے منے بچوں کو اپنا نوالہ بنانے میں عار محسوس نہیں کریگا اور ایساہی ہوا۔ جب یہ بچے دنیا سے بے خبر دریائے جہلم کے کنارے کھڑی موت کی اس کشتی میں سوار ہوگئے جو کشتی ان بچوں کا بے صبری سے انتظار کررہی تھی۔حالانکہ چند بچوں کو اپنے والدین بھی ساتھ تھے اور وہ بھی موت کی اس کشتی میں سوار ہوگئے اور جہلم کا تھوڑا فاصلہ طے کرنے کےبعد جب موت کی یہ کشتی دریا کے درمیان پہنچ گئی تو اچانک وہ رسی ٹوٹ گئی جس رسی کے سہارے موت کی اس کشتی میں سوار یہ بدنصیب ننھے منے بچے دریا پارکرتے تھے اور آناً فاناً موت کی یہ کشتی دریا کے بیچ زیرِ تعمیر لوہے کے پل کے ایک پول سے ٹکرائی اور جس سے موت کی اس کشتی کے دوٹکڑے ہوگئے اور کشتی میں کہرام مچ گیا یہ ننھے منے بچے یہ سمجھتے سے قاصر تھے کہ آخر وہ کریں توکریں کیا لیکن ہلچل کے اس عالم میں موت کی اس کشتی میں سوار تمام لوگ بے یار و مدد گار پانی کے اوپر تیرنے لگے اور اپنی زندگیوں کو بچانے کی بےحد کوشش کرنے لگے لیکن موت سے انجان ان ننھے منے بچوں کو کیا معلوم تھا کہ دریائے جہلم ان کو اپنا نوالہ بنانے کے لئے کب سے بے صبری سے انتظار کر رہاہے۔ آپ یقین کریں یہ مضمون تحریر کرتے کرتے میرا قلم کانپ رہا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں کلیجہ منہ کو اتا ہے لیکن کوشش کررہا ہوں ان بچوں کی اس چیخ و پکار کو بھول جانے کی جس چیخ و پکار کو ان بچوں نے ڈوبتے ڈوبتے بلند کی ہوگی۔حالانکہ اس سانحہ میں کچھ بچے اور بڑے تو بچ گئے لیکن کچھ ننھے منے پھول دریائے جہلم کے نظر ہوگئے۔یہاں پر سلام اس غیر مقامی بھائی کو جو بھائی دریا کے دوسری طرف بٹوارہ ایریا سے مزدوری کے لئے کہیں جا رہا تھا اور جب اس نے دیکھا کہ دریائے جہلم کئی بےسہارا اور معصوم بچوں کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کررہاہے تو اس غیر مقامی بھائی نےاپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئےدریا میں چھلانگ لگادی اور تین معصوم ننھے منے بچوں کو دریائے جہلم کا نوالہ بننے سے بچا لیا۔ایک ماں جس نے  اپنے دو لختِ جگروں کے ساتھ اپنی جان دی اور اس نے ان دونوں لخت جگروں کو ایک ساتھ جنم دیا تھا اور یہ جڑواں بھائی ماں کے ساتھ ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک بھائی مقامی مسجد میں فجر کی ازاں بھی دیا کرتا تھا اور حال ہی میں اعتقاف سے فارغ ہواتھا۔مقامی لوگوں کے مطابق جب ان ماں بیٹوں کی لاشوں کو دریا سے نکالا گیا تو یہ دونوں جڑواں بھائی اپی ماں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے کلیجہ منہ کو اتا ہے اور جب ماں کے جنازے کے پیچھے ان دونوں جڑواں بھائیوں کے جنازے کو آخری آرام گاہ کی اور لیا جارہا تھا ہرطرف رقت آمیز مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے ہر آنکھ نم تھی۔ سلام اس ماں کو اور سلام اس ماں کو جس ماں نے اپنے لخت جگر کو دریائے جہلم کا نوالہ بنتے خود اپنی آنکھوں سےدیکھا۔ایک باپ جو اپنی چار بہنوں اور اپنی بوڑھی ماں کا اکلوتا سہارا تھا وہ بھی موت کی اس کشتی میں سوار ہوکر اپنے لخت جگر کے ساتھ بےرحم دریائے جہلم کا نوالہ بنا سلام اس باپ پر اور سلام گنڈبل سرینگر کے ان والدین پر جن والدین نے اپنے لخت جگروں کو گنڈبل سانحہ میں کھودیا۔دوسری طرف جب یہ خبر وادی میں پھیل گئی تو پوری وادی میں ماتم کی لہر چھاگئی اور ہر آنکھ نم ہوگئی چاروں طرف آہ وبکا کی صدائیں آرہی تھی۔دوسری طرف جموں و کشمیر پولیس،SDRF،نیوی کے ماہر غوطہ خور،آرمی کے ماہر غوطہ خور اور مقامی ماہر غوطہ خور دریائے جہلم میں لاشوں کو تلاش کر رہی تھی تو دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر گنڈبل کی سوگوار بستی اور وادی کے اطراف و اکنافِ سے آئے ہوئے لوگ زارو قطار رورہے تھے۔کاش گنڈبل اور بٹوارہ کو اپس میں ملانے والا دریائے جہلم پر زیرِ تعمیر لوہے کا پل قبل از وقت مکمل ہوا ہوتا توشاید گنڈبل میں قیامت صغریٰ بپانہ ہوتی۔ دریائے جہلم ان ننھے منے معصوم بدنصیب بچوں کو اپنا نوالہ نہ بناتا۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی اور بوڑھی ماں کا سہارا اپنے معصوم بچے کے ساتھ دریائے جہلم کے ہتھے نہ چڑھتا۔ایک بدنصیب ماں کا جنازہ اپنے دو لخت جگروں کے ساتھ نہ اٹھتا۔اس لئے متعلقین کو چاہئے کہ دیگر تعمیراتی کاموں سے پہلے دریائے جہلم پر زیر تعمیر تمام فٹ برجوں کو جلد از جلد مکمل کریں تاکہ آنے والے وقت میں گنڈبل جیسا سانحہ دوبارہ پیش نہ آئے کیونکہ واقعی سانحہ گنڈبل سرینگر قیامت سے کم نہیں تھا۔الله تعالٰی ان تمام مرحومین کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کے ساتھ ساتھ گنڈبل کے عوام کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/19/48019/feed 0
میڈ ے میل پکانے والی خواتین کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا کیوں؟ https://urdu.asianmail.in/2024/04/06/47725 https://urdu.asianmail.in/2024/04/06/47725#respond Sat, 06 Apr 2024 05:06:13 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47725 شازیہ اختر شاہ
جموں وکشمیر کے سرکاری اسکولوں میں 2005سے پہلے بھی بچوں کو دوپہر کے کھانے کی اسکیم چلائی گئی تھی۔ لیکن 2005سے باضابطہ میڈے میل سکیم کے نام سے شروع کیاگیاہے۔ جو تاقت چل رہی ہے۔ اس سکیم کے لئے ہر سرکاری اسکول میں کھانا پکانے والی تعینات کی گئی ہیں۔ جو دوپہر کا کھانا پکاتیں اور بچوں کو کھلاتیں ہیں۔اس کے لئے پہلے پانچ سو رپیہ مختص کیاگیا تھا۔ پھر 2005سے اب تک ان کھانا پکانے والیوں کی تنخواہ ایک ہزار روپیہ ماہانہ کیاگیا۔آج19سال بعد 2024 میں بھی وہی ایک ہزار روپیہ دے جا رہے ہیں۔ اگر چہ وہ اسکول کے اوقات کار میں حاضر ہوکر بچوں کو کھانا کھلانے اور برتن مانجنے تک وہی رہتی ہیں۔ اسکولوں میں تعینات ان کھاناپکانے والیوں کے حقوق کو لیکر سماجی کارکن محمد اسلم تانترے جن کی عمر قریب 50سال ہے، ان کا کہناہے کہ ”مرکزی سرکار اور جموں وکشمیر انتظامیہ کی جانب سے مٍڈل اسکول تک کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کا انتظام کیاگیا۔ جس کے لئے اسکولوں میں کھانا پکانے والی خواتین کو تعینات کیاگیاتھا۔ جن کو یونین ٹراٹری سے پہلے ہی ایک ہزار روپیہ اجرت دیا جانا مختص کیاگیاتھا۔ تاہم ابھی تک وہی ایک ہزار اور وہ بھی کئی کئی ماہ تک ملتاہی نہیں ہے۔ جبکہ اسکول کے لئے ان ہی لوگوں نے زمینیں وقف کی تھیں۔ ان کے گھروں سے ہی ان کھانا پکانے والیوں کی تقرری کی گئی تھی۔ افسوس اب یہاں جموں وکشمیر میں یونین ٹیراٹری غرض سب نظام ہی بدل چکاہے۔پر ان غریب نادار بے کس خواتین کا نہ ہی اجرت وقت پر دی جاتی ہے اور نہ ہی بڑھائی جاتی ہے۔“
محمد اسلم تانتر کہتے ہیں کہ ”ماضی کے مقابلہ میں دور حاضر میں خواتین کے حقوق کو لیکر مرکزی اور ریاستی حکومتیں بڑے پیمانے پر اقدام اٹھا رہی ہیں۔ ملازمتوں سے لیکر پنچایتوں اور اسمبلی سیٹوں تک حقوق فراہم کئے جارہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی دیہی ہندوستان کی خواتین پوری طرح حقوق سے بیراور نہیں ہوسکی ہیں۔ جموں وکشمیر کا ضلع پونچھ، جہاں پنچائیتوں کے تھری ٹئیر سسٹم کی سربراہی بھی ایک خاتون کے پاس ہے اور مختلف پنچائیتوں کی سرپنچ بھی خواتین ہیں۔ تاہم ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے دیہی علاقوں میں خواتین ابھی بھی اپنے حقوق سے ناآشناہیں۔ چاہے آنگن واڑی ورکر، ہلپر ہوں یا آشا ورکر یاپھر اسکولوں میں میڈے میل کے لئے تعینات ہلپر ہوں، سب کی سب بخوبی اپنی ڈیوٹیاں انجام دیتی ہیں۔جبکہ ان کے لئے ایک ہزار، دوہزاریا تین ہزار اجرت سرکاری طور پر واگزار کی جانی طے پائی جاتی ہے جو کہ ان کے ساتھ ایک مزاق کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔ لیکن وہ اجرت اور تنخواہ بھی کئی کئی ماہ تک ادا نہیں کی جاتی ہے۔“ وہ بتاتے ہیں کہ تحصیل منڈی کی کئی خاتون جو میڈے میل کے لئے ہیلپر کے طور پرتعینات ہیں۔یہ اپنے گھریلو کام و کاج اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر صبح اسکول وقت پر پہنچ کر اسکول کے بچوں کو میڈے میل بنا کر دیتی ہیں۔وہ صبح آٹھ بجے اسکول پہنچتی ہیں اور شام کے تین 3 بجے گھر واپس جاتی ہیں۔ وہ پورا دن اسکول میں گزار دیتی ہیں۔ اتنا سب کرنے کے باوجود بھی انہیں وقت پر اجرت نہیں دی جا رہی ہے۔
 اس سلسلے میں ظریفہ بیگم عمر 35 سال، کا کہنا ہے کہ ”میں گورنمنٹ پرائمری اسکول رتن کاٹھاں میں ہیلپر کا کام کرتی ہوں۔ہر روزوقت پر اسکول پہنچتی ہوں۔ جہاں رسوئی خانہ کی صفائی برتنوں کی صفائی اور دوسرے گھر سے پانی لاکر بچوں کے لئے مینوں کے مطابق میڈے میل بناتی ہوں۔ پھر دوپہر کے وقت کھانا کھلاکر برتن اکٹھے کرکے دھوکر گھر آتی ہوں۔ جب تک دو یا تین بج جاتے ہیں۔غرض پورا دن چلا جاتا ہے اور گھرواپس آکر گھر کا کام کاج کرتے کرتے رات گزر جاتی ہے۔میرے پانچ بچے ہیں۔ جنہیں گھر پر اکیلا چھوڑ کر اور اپنے گھریلو کام کاج چھوڑ کر صبح اسکول پہنچتی ہوں۔دن بھر اسکول میں رہتی ہوں۔ اس دوران نہ ہی میں گھر کا کام کاج کر سکتی ہوں اور نہ ہی میں اپنے بچوں کی اچھی پرورش کر سکتی ہوں۔ میں بہت غریب اور مظلوم ہوں۔ سرکار نے ماہانہ ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔لیکن ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔ صرف مجھے ہی نہیں، بلکہ کسی بھی ہیلپر کو بھی نہیں ملا۔ مارچ 2023 کو ہمیں تنخواہ ملی تھی۔ اس کے بعد آج تک ہمیں کچھہ نہیں ملا۔ پورا دن یہاں رہتی ہوں نہ گھر کا کام کاج کر سکتی ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا کاروبار کرسکتی ہوں کہ کچھ کما سکوں۔اسی تنخواہ کے سہارے بیٹھ کر دن گزارتی ہوں۔“وہ کہتی ہیں کہ ہم گھر کے 7افراد ہیں۔ دن بہ دن گھر کے خرچے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ جیسے کہ بچوں کی پڑھائی کا خرچہ اور گھر کے دیگر اخراجات بھی ہیں۔خرچے تو تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں لیکن آمدنی کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک سال سے ہمیں تنخواہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔ ایک یا دو اسکولوں میں کھاناپکانے والیوں کا نہیں بلکہ ضلع پونچھ کے ہر سرکاری اسکول میں تعینات ہماری جیسی ملازمین کوپریشانیاں ہیں اور اب معاملہ احتجاج تک بھی پہونچ چکاہے۔
منڈی تعلیمی زون کے دفتر سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو یہ جانکاری ملی کہ منڈی کے تمام پرائمری اور مڈل اسکولوں میں تعینات کو ورکروں کی تنخواہ مرکز حکومت کی جانب سے 900جبکہ جموں وکشمیر یونین ٹراٹری کی جانب سے 100روپیہ طے ہے۔اس طرح کل ماہانہ اجرت ایک ہزار روپیہ انوائیس کے زریعہ دی جاتی ہے۔ جو پچھلے مارچ 2023تک مل چکی ہے۔ اس کے بعد ابھی پیسہ نہیں آیاہے۔ان کا سرکاری کھاتے میں کچھ نہیں صرف حاضری بیس پر ہی ان کو اجرت دی جاتی ہے۔ اب اس بات سے اندازا لگایاجاسکتاہے کہ کیا یہ خواتین کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے؟ کیا یہی ہیں خواتین کو خود مختار بنانے کے سرکاری دعوے؟ کیا تیس روپیہ یومیہ اجرت پر چھ گھنٹے ڈیوٹی خواتین کے ساتھ مزاق نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے؟متعلقہ محکمہ اور افسران کو یہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ مڈے ڈے میل پکانے والی خواتین کے گھر کا ہی چولہا آخرٹھنڈا کیوں ہو رہا ہے؟
(چرخہ فیچرس)
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/06/47725/feed 0
افسانہ______ایمان کی حرارت https://urdu.asianmail.in/2024/04/05/47670 https://urdu.asianmail.in/2024/04/05/47670#respond Fri, 05 Apr 2024 05:02:19 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47670
فاضل شفیع بٹ 
رمضان المبارک کا چاند مغرب میں بس غروب ہونے ہی والا تھا۔ بازاروں میں کافی گہما گہمی تھی۔ لوگ جوش و خروش کے ساتھ خرید فروخت کرنے میں محو نظر تھے۔ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکروں پر رمضان کی آمد کا اعلان جاری تھا۔ گوشت فروشوں کی دکانوں پر لمبی لمبی قطاروں میں لوگ اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ گھر کی عورتوں نے سحری کے لیے تیاریاں شروع کی تھیں۔  رمضان کی آمد کے ساتھ ہی نماز تراویح پڑھنے کا عمل شروع ہونا باقی تھا۔ کل سے رمضان کا متبرک مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ احمد پور کی فضا میں ماہ رمضان کی مہک تحلیل ہو رہی تھی۔  تراویح کی نماز ادا کرنے میں محض چند گھنٹوں کا فاصلہ تھا لیکن احمد پور گاؤں کی آزاد کالونی کے لوگ ابھی اس کام کے لیے کسی بھی طرح سے تیار نہ تھے کیونکہ ان کے پاس مسجد نہیں تھی۔ حالانکہ آزاد کالونی  کے چاروں طرف عالیشان گھر تعمیر کیے گئے تھے۔ مصروفیات کی وجہ سے شاید یہاں کے لوگ مسجد کی طرف اپنی توجہ مبزول کرنے سے قاصر رہے تھے۔
 آزاد کالونی کے دو نوجوان واجد اور شبیر  کافی دل ملول نظر آرہے تھے۔ ان کے چہروں پر مایوسی کے تاثرات صاف صاف جھلک رہے تھے۔ وہ آپس میں گفتگو کرنے میں محو تھے۔
” شبیر، کل سے ماہ رمضان کا متبرک مہینہ شروع ہونے والا ہے اور ہم ہیں کہ ہمارے محلے میں مسجد ہی نہیں ہے۔ اب میں بول بول کے تھک چکا ہوں لیکن آزاد کالونی کے لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ان کے دلوں میں ایمان اور خوف خدا نام کی چیز موجود نہیں ہے؟” واجد کا لہجہ تیکھا تھا
” واجد، میں آپ کی بات سے پوری طرح متفق ہوں۔ آزاد کالونی میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت گھر ہے۔ لوگ گھروں کو سجانے کے لیے پانی کی طرح پیسے خرچ کر رہے ہیں  اور جب مسجد تعمیر کرنے کی بات آتی ہے تو ہیلے بہانے کر کے یا فرقہ پرستی کے نام پر ہمیشہ اس بات کو ٹالا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہم ایک عارضی مسجد کا انتظام تو کر ہی سکتے ہیں۔ میرے صحن میں جو ٹین کا بنا بنایا شیڈ ہے، ہم اسی میں نماز ادا کریں گے” شبیر نے قدرے اطمینان سےواجد سے مخاطب ہو کر کہا۔
” ہاں شبیر بھائی۔ یہ تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔ پھر دیر کس بات کی”  واجدنے پر جوش انداز میں شبیر سے کہا۔
  دونوں مل کر ٹین کے بنے ہوئے شیڈ کو ترتیب دینے لگے۔ شیڈ سے کوڑا کرکٹ ہٹا کر،  گھر سے پرانے ٹاٹ اور کمبل وغیرہ کا انتظام کیاگیا۔  اس کام میں آزاد کالونی کے چند لوگوں نے بھی حصہ لینا شروع کیا۔آناً فاناً بجلی سپلائی لگوائی گئی۔ ٹین شیڈ کو مسجد میں تبدیل کر لیا گیا۔ چونکہ رات کافی  گزر چکی تھی، واجد اور شبیر کی تگ و دو  کے باوجود پہلے دن آزاد کالونی کی مسجد میں نماز تراویح کا اہتمام ممکن نہ ہو پایا، چنانچہ سب نے پہلی تراویح کی نماز اپنے گھر پر ہی ادا کی۔
 رمضان کا پہلا روزہ تھا۔ واجد اور شبیر کی محنت سے اب آزاد کالونی میں ایک عارضی مسجد کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ دونوں نے مل کر بڑی مشکل سے ایک مولوی صاحب کا انتظام کیا کیونکہ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مولوی صاحبان کی ڈیمانڈ کافی بڑھ چکی تھی اور کافی جدوجہد کے بعد واجد اور شبیر کو ایک دارالعلوم سے مولوی  صاحب حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ محمد الیاس سترہ سالہ یتیم حافظ قرآن تھا۔
 شبیر نے ظہر کی اذان دی۔ آزاد کالونی کی فضا میں یہ اذان پہلی دفعہ گونج رہی تھی۔ لوگ کھڑکیاں کھول کھول کر  گھروں کے باہر دیکھنے لگے۔ اس طرح آزاد کالونی میں پہلی مرتبہ ظہر کی نماز باضابطہ طور مسجد میں باجماعت ادا کی گئی۔
 افطار کا وقت تھا۔ لوگوں کے گھروں میں دسترخوان بچھے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے پھل، کھجور، دودھ، شربت وغیرہ افطاری کے لیے سجائے گئے تھے۔ محمد الیاس مسجد میں بیٹھ کر افطاری کا انتظار کر رہا تھا لیکن مسجد کی طرف کسی کا دھیان نہ رہا۔ محمد الیاس نے مغرب کی اذان دی اور آزاد کالونی کے لوگ افطار کرنے میں محو ہو گئے۔ شام کی نماز ادا کی گئی۔ اب سوال مولوی صاحب کی رہائش اور کھانے پینے کا تھا۔ مسجد میں ایک اچھی تعداد میں لوگ جمع تھے اور اپنی اپنی تجویز پیش کر رہے تھے۔
”  میرے حساب سے مولوی صاحب کا مسجد میں قیام کرنا ہی ٹھیک رہے گا اور رہا کھانے پینے کا سوال تو ہم لوگ اس چیز کی پوری قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں”  آزاد کالونی میں مقیم  سفید لمبی داڑھی  رکھنے والے حاجی عبدالحق لوگوں سے مخاطب تھے جو شوگر کے مرض میں مبتلا تھے  اور ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر بڑی احتیاط سے روزہ رکھنے سے پرہیز کر رہا تھا۔
” حق صاحب نہیں!  ہم ایک ٹائم ٹیبل ترتیب دیں گے اور مولوی صاحب اسی ٹائم ٹیبل کے مطابق روزانہ ایک گھر میں رات کا کھانا نوش فرمائے گا  اور کھانا کھانے کے بعد مولوی صاحب مسجد میں آکر قیام فرمائے گا  اور سحری کے وقت اس عمل کو دہرائے گا”  آزاد کالونی کے عمر رسیدہ محمد کریم نے مسجد میں لوگوں کے سامنے اپنی تجویز پیش کی اور  اس تجویز پر غور کیا جا رہا تھا کہ شبیر کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
” مولوی صاحب کی ساری ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ اس کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام میں اپنے گھر پر کر لوں گا۔ آپ سب زحمت نہ کریں۔ مولوی صاحب میرے بھائی جیسا ہے اور  اس کو آپ سب پر بوجھ بنتا پسند نہیں کروں گا”
 نماز عشاء کی اذان آزاد کالونی میں گونج رہی تھی۔ آج آزاد کالونی کے لوگ پہلی دفعہ تراویح کی نماز باجماعت ادا کرنے جا رہے تھے۔ مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مولوی صاحب نے تراویح کی نماز شروع کی۔ آٹھ رکعت مکمل ہوتے ہی ایک بڑی تعداد میں لوگ مسجد سے باہر نکل گئے۔ لوگ پسینے میں شرابور تھے۔ ان کے ماتھے پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے ستاروں کی مانند جھلملا رہے تھے۔ شاید انہوں نے اتنی لمبی نماز زندگی میں پہلی بار ادا کی تھی۔ اب مسجد میں مولوی صاحب کے پیچھے چند لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ مسجد کے باہر لوگ مولوی صاحب، واجد اور شبیر کو بری طرح کوس رہے تھے ۔حاجی عبدالحق لوگوں سے مخاطب تھا
” توبہ توبہ!  اتنی لمبی نماز!  میری بات مان لیں اس مسجد میں صرف آٹھ رکعت تراویح کا اہتمام ہوگا۔ محض آٹھ رکعت نماز ادا کرنے میں مولوی صاحب نے پورا ایک گھنٹہ لیا۔ ہمارا فرقہ بھی بیس رکعت تراویح کی قطعی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر اس کام کے لیے ہمیں مولوی صاحب بھی تبدیل کرنا پڑا تو میرے حساب سے کوئی حرج نہ ہوگا”
 بالکل صحیح ! بالکل صحیح!   مسجد کے باہر ملی جلی آوازوں نے  حاجی عبدالحق کی بات سے اتفاق کیا  اور اپنے اپنے گھروں کی جانب چل دیے۔
 رمضان کا چوتھا روزہ تھا۔ بہار کا پرسکون سورج مسجد کے اوپر چمک رہا تھا۔ ظہر کی اذان فضا میں تحلیل ہو رہی تھی۔ نماز ظہر کے بعد آزاد کالونی کی عارضی مسجد میں ایک  ہنگامی میٹنگ  کا انعقاد کیا گیا۔ میٹنگ میں آزاد کالونی کے معزز اور عمر رسیدہ لوگ شامل تھے۔
 حاجی عبدالحق کو مسجد کا صدر منتخب کیا گیا۔ ساتھ میں یہ بھی فیصلہ لیا گیا ہے کہ شبیر نے جو ٹین کا شیڈ مسجد کے نام پہ وقف کیا ہے، وہ اب آزاد کالونی کے لوگوں کی ملکیت ہے جہاں مستقبل میں ایک نئی مسجد تعمیر کی جائے گی۔
 واجد اور شبیر کی غیر موجودگی میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا۔ وہ دونوں مسجد کے لیے کچھ ضروری سامان کی خرید و فروخت کے لیے بازار گئے تھے۔
 سورج نے دھیرے دھیرے غروب ہونا شروع کیا تھا۔ سنہری رنگ کی کرنیں ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ افطار میں چند منٹ باقی تھے۔ مسجد کے باہر ملی جلی آوازوں کا شور بلند ہو رہا تھا۔ بہت سارے لوگ ایک ساتھ جمع ہوئے تھے۔ واجد اور شبیر  کے اوپر کئی طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے تھے۔ حاجی عبدالحق نے ایک زوردار دھکا دیکر شبیر کو ایک طرف کیا اور کہا,
” تم نے کس سے پوچھ کر اس مولوی صاحب کا انتخاب کیا تھا۔ یہ نابالغ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے فرقے سے بھی تعلق نہیں رکھتا۔ تمہاری من مانیوں کو ہم ہرگز برداشت نہ کریں گے اور ہاں ایک بات کان کھول کر سن لوکہ جو یہ مسجد ہے، اب ہماری ملکیت ہے کیونکہ تم نے اس زمین کو مسجد کے لیے وقف کیا ہے اور اب اس زمین کے ٹکڑے پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔ تم نے یہ مسجد بنا کر ہم سیدھے سادھے لوگوں کے فرقے کو گہری ٹھیس پہنچائی ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ آزاد کالونی کے لوگ بھی تمہارے فرقہ سے وابستہ ہو جائیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا”  حاجی عبدالحق کا لہجہ تند اور تیکھا تھا۔
”  حاجی صاحب،  ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اپ اپنا فرقہ کیوں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
 ہم نے محض باجماعت نماز کا اہتمام کرنے کے لیے اس عارضی مسجد کا قیام عمل میں لایا۔ہم مسلمان ہیں۔ نماز ہم پر فرض کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے۔ رہی مولوی صاحب کی بات وہ ایک یتیم حافظ قرآن ہے۔ دارالعلوم سے بڑی منت سماجت کے بعد  ایک مہینے کے لیے اس کو امامت کے لیے لایا ہے۔ نہ ہم نے آٹھ رکعت کی ہی بات کی اور نہ ہی بیس رکعت کی۔ جس کی جو مرضی وہ پڑھ لیں لیکن نماز کا اہتمام کریں۔ باقی میں نے یہ ٹین شیڈ  عارضی مسجد بنانے کے لیے اپنی مرضی سے وقف کیا ہے۔ اس پر اپ کا کوئی حق نہیں بنتا اور ہاں اس عارضی مسجد بنانے میں کم سے کم تیس ہزار روپے خرچ ہوۓ  جو کہ ابھی تک قرض ہیں۔ صدر صاحب آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ لوگوں سے چندہ اکٹھا کر یں تاکہ  ہم اس قرض کو ختم کر دیں”  شبیر کی آواز میں رقت تھی۔
”   اپنی بکواس بند کر۔ میں اس مسجد کا صدر ہوں۔ میرا فیصلہ آزاد کالونی کے ہر فرد پر مسلط ہے۔ آج سے اس مولوی صاحب کے پیچھے ہم ہرگز نماز ادا نہ کریں گے بلکہ آج شام سے ہی محمد رحیم  امامت کے فرائض انجام دیں گے۔ ہم اٹھ رکعت تراویح  محض چند منٹوں میں ادا کریں گے۔ رہی بات آپ کے خرچے کی، وہ تم اور واجد جانو۔ کیا تم لوگوں نے ہم سے پوچھ کے کوئی بھی کام کیا تھا؟  ہمیں تم دونوں کے اہل خانہ کے ساتھ معاشرتی مقاطعے کے لیے مجبور مت کرو۔ تم اپنا فرقہ سنبھالو اور ہم اپنی مسجد۔”  حاجی صاحب پسینے میں شرابور زور زور سے چلا رہا تھا۔
 ہر طرف مغرب کی اذان بلند ہوئی ۔ جمع شدہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے۔ واجد ، شبیر اور مولوی صاحب کو مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔ آزاد کالونی کے لوگوں نے محمد رحیم کی امامت میں مغرب کی نماز ادا کی۔
 حاجی عبدالحق کی صدارت میں آزاد کالونی کے عوام نے شبیر کے عارضی ٹین شیڈ پر شرعی ہلا بول کر اسے اپنی تحویل میں لیا اور ماہ رمضان کے اختتام کے ساتھ ہی اس پر ایک بڑا تالا چڑھا دیا گیا۔
 واجد اور شبیر مزدوری کر کے مسجد کا قرض ادا کر رہے ہیں اور وہ اپنے کیے ہوئے پر آج بھی پچھتا رہے ہیں۔ ہر سال ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اس عارضی مسجد کا تالا کھولا جاتا ہے اور آج تک آزاد کالونی کی بستی میں  ایک نئی مسجد کے  تعمیر کا کام شروع نہیں ہوا ہے۔
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/05/47670/feed 0
افسانچہ______آدم خور https://urdu.asianmail.in/2024/04/05/47667 https://urdu.asianmail.in/2024/04/05/47667#respond Fri, 05 Apr 2024 04:58:06 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47667 ہلال بخاری
ہمارے علاقے میں ایک تیندوا آدم خور بنکر معصوم بچوں کو اپنا شکار بنانے لگا۔
وہ آئے روز گھات لگا کر چن چن کر کمسن بچیوں کو خاص کر اپنا نشانہ بناتا اور انکو اپنے والدین سے چھین کے لے جاتا۔
بے بس والدین چیختے چلاتے رہ جاتے۔ معصوم اولاد کی بے درد موت اپنے والدین کے لئے خاص کر کس قدر ہولناک ہوتی ہے۔
ایک گاؤں میں اس درندے نے ایک خاندان کی اکلوتی لخت جگر کو چھین لیا۔ اس سے پہلے کہ اس کے لواحقین اس معصوم جان کو اس درندے کے چنگل سے آزاد کراتے اس نے بے بس و لاچار نے چیخ چیخ کر اپنی جان دے دی تھی۔
اس معصوم بچی کا کٹا ہوا جسم اور لہو میں لت پت لاش دیکھ کر سارے علاقے میں صف ماتم بچھ گئی۔
ہر دل غمگین تھا اور ہر زبان پر ایک کی صدا تھی۔
” آدم خوروں پر اللہ کی لعنت ہو۔ درندوں کو اللہ نابود کردے۔”
ریاست کی انتظامیہ پر پرشر بڑا تو اس نے فوراً حکم صادر کیا کہ آدم خور تیندوے کو جلد از جلد قید کرنے کے لئے مسلح افواج کو روانہ کیا جائے۔
تیندوے کی ہر طرف تلاش شروع ہوئی اور اسکو کو گرفتار کرنے کے لئے جال بچھایا گیا۔ کئی بار وہ اس سے بچنے میں کامیاب ہوا لیکن آخر کا ایک دن وہ اپنی بھوک کی وجہ سے بے بس ہوا۔
وہ خود بہ خود بچھائے گئے جال میں رکھے گئے خانے کی لالچ کی وجہ سے اندر داخل ہوا اور قید ہوگیا۔
سارے علاقے میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اؤر لوگ دور دور سے آنے لگے تاکہ اس  ظالم درندے کو دیکھیں، اس کو ماریں یا کم سے کم اس پر تھوکیں۔
نوجوان لوگ جوش سے لبریز ہاتھوں میں موٹے ڈنڈے لے کر اس کے جسم پر وار کرکے اپنی ابھرے ہوئے جزبات کی لو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔
وہ تیندوا درد سے کراہتا تو لوگ خوشی سے چلاتے۔ میرے دل کو بھی اس درندے کو عزاب میں دیکھ کر عجیب مسرت ملنے لگی۔
میں یہ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہوا کہ انصاف آج بھی زندہ ہے، جو ظلم کرتا ہے وہ آخر کار ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر میں اور جوش میں آگیا اور میں
 ایک موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیکر اپنی دل کی باقی کسر نکالنے اس درندے کے قریب گیا۔
میں نے جزباتی ہوکر پوری طاقت سے اس کے سر پر وار کرتے ہوئے چلا کر کہا،
” یہ لے ظالم ، اب چکھ لے خود بھی ظلم کا مزا  "
اس وار نے تیندوے کو جیسے ہلا کر رکھ دیا اور وہ مجھے گھور کر دیکھنے لگا۔
اس کے گھورنے سے مجھے اور غصہ آیا اور اپنے جزبات میں بے قابو ہوکر میں نے اس پر تھوکتے ہوئے چلا کر کہا،
” گھورتا کیا ہے ، اللہ کی لعنت ہو تجھ پر۔”
وہ بے زبان جانور کیا کہہ سکتا تھا۔ لیکن جس انداز سے وہ مجھے اس وقت گھورنے لگا مجھے ایسا لگا کہ اگر اسکی زبان بولنے کے قابل ہوتی تو وہ شاید بہت کچھ کہتا مجھے اس پر اور ذیادہ غصّہ آیا اور میں پھر جنون میں آکر اسے مارنے کے لئے آگے بڑا، لیکن اسی وقت اچانک ایک بزرگ نے آکر میرا ہاتھ تھام لیا۔
میں نے غصے سے کہا،
” چھوڑ دو مجھے۔ اس درندے کو میں آج سبق سکھاتا ہوں۔”
"درندے سبق نہیں سیکھتے۔ کیا آپ نے اب تک خود یہ سبق نہیں سیکھا ہے ؟”
میں حیرت سے اس بزرگ کا منہ تکنے لگا۔
اس کے بعد اس بزرگ نے پر اثر انداز میں کہا،
"قدرت نے اس جانور کو ازل سے ہی شکاری بنایا ہے، اسکی فطرت میں ہی شکار کرنا ہے۔ اگر یہ شکار کرتے وقت رحم کرے گا تو خود بھوکا مر جائے گا۔ لیکن تو اپنی ذات کے بارے میں سوچ۔ ہماری انسان ذات کس طرح بے رحمی سے اپنی انا کی خاطر معصوم بچوں کا قتل عام کرتی۔ جو لوگ خود کو خدا کے چنیدہ سمجھتے ہیں وہ کس طرح بم گرا کر معصوم بچوں کا لہو بہا کر شرماتے نہیں اس پر بھی خود کو مہزب تصور کرتے ہیں۔ اس درندے پر تھوکنا تو آسان ہے مگر کیا تم میں کبھی ہمت ہوئی کہ ان پر جاکر تھوکو جنہوں نے مشرق وسطیٰ میں معصوم بچوں کو بے دریغ قتل کیا اور ان پر جنہوں نے غیرت کے نام پر اپنے ہی معصوم بچیوں کا گلا گھونٹ دیا؟”
میں لا جواب ہوکر اسکا منہ تکنے لگا۔ اس نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے کہا،
  "کاش ہم غور کرتے تو ہم کو پتہ چلتا کہ انسان کی تمام تواریخ کا سب سے بڑا آدم خور تو خود آدم ذاد ہی ہے۔ تم اس قید کئے ہوئے درندے پر تو اپنی مردانگی دکھا رہے ہو مگر ان درندوں کے بارے میں کیا جو لاکھوں معصوموں کا قتل ناحق کرکے بھی آپکی دسترس سے بالا ہیں اور بے خوف آج بھی اس دنیا پر راج کر رہے ہیں ؟ "
 میں ابھی اس بزرگ کی باتوں پر غور ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان آگ بگولہ اور بے قابو ہوکر اس تیندوے کو بے دریغ مارنے لگے۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ درندہ انکی درندگی کا شکار ہوکر دم توڑ دیتا، پولیس نے آکر ان سب کو روکنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس نیم مردہ جانور کو اس جالی سمیت جس میں اسے قید کیا گیا تھا گھسیٹ کر لے گئے اور اسے ایک بڑے لوہے کے پنجرے میں پھنک دیا۔
لوگوں کو یہ دیکھ کر غصّہ آیا انکو لگا کہ قانون اس بے رحم درندے کو بھی بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لوگوں کے ہجوم نے پھر زور سے نعرے بازی شروع کی،
” ظالم کو جو بچائے گا ، رب کو کیا منہ دکھائے گا۔”
موقع کی نزاکت دیکھ کر پولیس کے عالی افسر نے اپنے آدمیوں کو کچھ سمجھایا۔ اور اس کے بعد ایک پولیس والے نے بندوق تان کر اس مقید اور نیم جان جانور کو پے درپے گولیاں مار کر اسکا کام تمام  کر دیا۔
ہجوم نے یہ دیکھ کر  فلک شگاف نعرے بلند کئے۔
” ظالم کی بس ایک سزا
مظلوم بنے ہوجائے فنا۔”
 اس آدم خور کی بے جان لاش ظلم کے صرف ایک باب کے اختتام کی گواہی ہوسکتی تھی۔ ورنہ ہر ذی شعور انسان کو معلوم تھا کہ ظلم کے اس سیاہ سمندر
میں اس واقعے کی مثال ایک قطرے سے بھی کم تھی۔ میں بہت دیر تک اس بات پر غور کرتا رہا کہ کیا واقعی آدم ذاد ہی انسانیت کی تواریخ کا سب سے بڑا آدم خور ہے۔
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/05/47667/feed 0
اعتکاف اور اس کے فضائل  https://urdu.asianmail.in/2024/04/04/47635 https://urdu.asianmail.in/2024/04/04/47635#respond Thu, 04 Apr 2024 06:20:05 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47635
ہارون ابن رشید 
رمضان المبارک بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا مقدس مہینہ ہے۔ جس دن سے یہ شروع ہوتا ہے، اس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور اللہ تعالیٰ کے قریب جانے کا بہترین موقع اور بہترین موقع فراہم کرنا ہے۔ مسلمان اس سے عقیدت رکھتے ہیں اور یہ عقیدت رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے کیونکہ مہینہ ختم ہونے کو ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ اسے اگلے رمضان تک پورا کر پائے گا یا نہیں۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی عبادات اعتکاف کی سنت ہے۔یہ ایک ایسی رسم ہے جس میں مسلمان رمضان المبارک کے آخری عشرہ تنہائی میں گزارتے ہیں اور اس خلوت میں وہ صرف اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور برکت کی دعا مانگتے ہیں۔ ذیل کی سطریں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف اور اس کے فضائل کا مختصر تعارف پیش کرتی ہیں۔
اعتکاف ؛
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح بیان کرتی ہیں "وہ آخری عشرہ یا رمضان میں اعتکاف کرتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پکڑ لیا۔” (بخاری) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں صرف ایک بار دیکھا یا ادا کیا، بلکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رمضان کے اعمال میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں باقاعدگی کے ساتھ انجام دیا۔ رمضان کے آخری عشرہ،لہٰذا اگر کوئی مسلمان سال بھر اعتکاف باقاعدگی سے نہیں کر سکتا۔
پھر چاہیے مرد ہو یا عورت جب بھی موقع اور وقت میسر ہو اسے ضرور مشاہدہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اعتکاف کے فضائل  ؛
اس حقیقت کے علاوہ کہ اعتکاف رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے جس میں مسلمان کثرت سے نماز، قرآن پاک کی تلاوت اور نوافل کے لیے جاتے ہیں، اعتکاف کے فضائل اور بھی بہت ہیں۔ ذیل کی سطریں اعتکاف کے بڑے فضائل پر بحث کرتی ہیں جن پر ایک مسلمان کو اس زبردست سنت کو پورا کرتے وقت نظر آنا اور حاصل کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔
انعام میں اضافہ ؛
شاید رمضان کے مہینے میں اعتکاف کی سب سے بڑی فضیلت اس کے ساتھ ملنے والا عظیم اجر ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ رمضان المبارک میں کسی بھی نیکی اور نیکی کا عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اجر ملتا ہے، البتہ آخری عشرہ اعتکاف میں گزارے جائیں تو برکتوں اور اجروں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ اپنی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا اسے دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملے گا۔”
(شعب الایمان 5/436، حدیث: 3680)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کا ثواب اس ثواب کے برابر ہے جو انسان کو دو حج اور دو عمروں سے حاصل ہوتا ہے۔
 حج اور عمرہ دونوں مقدس ترین عبادات میں سے ہیں جنہیں ایک مسلمان انجام دے سکتا ہے اور ان کا اجر بھی کسی دوسرے عمل سے بے مثال ہے۔ مزید یہ کہ ان دونوں عبادات کے بارے میں ایک اور بات یہ ہے کہ یہ لوگ انجام دیں جو ان کو انجام دینے کے ذرائع کا بندوبست کر سکیں۔ لہٰذا، زندگی میں ایک بار انہیں انجام دینا ایک مسلمان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔لہٰذا اس سے ایک مسلمان اعتکاف کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے۔یہ ایک سادہ سا عمل جسے کوئی گھر یا قریبی مسجد میں انجام دے سکتا ہے، ایک مسلمان کو دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملتا ہے، جس میں سے ایک ایک کا لوگ ساری زندگی کام کرتے ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی رمضان میں موقع ملے اعتکاف کرنے کی کوشش کرے۔
جہنم سے حفاظت ؛
مسلمانوں کے رمضان کے مہینے کو خوش قسمت سمجھنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ انہیں اللہ تعالی سے معافی مانگنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استغفار کی یہ طلب اور اس کے نتیجے میں رزق درحقیقت ایک مسلمان کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے جس کا وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے مستحق ہے۔لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ وہ اعمال انجام دیں جو ان کے لیے جہنم کی آگ سے حفاظت کا ضامن ہوں۔ اعتکاف ایک ایسا عمل ہے جو جہنم کی آگ سے حفاظت کا ضامن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں فرمایا ؛’’جس نے اللہ کے لیے ایک دن کا اعتکاف بھی کیا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے خندقوں سے دور رکھے گا۔‘‘ (طبرانی)
یہ حدیث ایک مسلمان کے لیے اعتکاف کے آگ سے تحفظ کے فوائد کو واضح کرتی ہے۔مزید یہ کہ اس حدیث سے قابل توجہ  بات یہ ہے کہ جہنم سے یہ حفاظت وہ ثواب ہے جو مسلمان کو ایک دن کے اعتکاف سے ملتا ہے، لہٰذا رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا فائدہ ناقابل تصور ہے۔اس لیے رمضان کے آخری عشرہ میں مسلمان کے لیے اعتکاف کرنے کی مزید وجوہات۔
دوہری فوائد ؛
رمضان المبارک میں تمام عبادات اور نیک اعمال سابقہ ​​گناہوں کی بخشش اور نیکیوں کا ثواب حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔اس لیے دوہرے فائدے ایک مسلمان کا ہدف ہیں۔ اعتکاف کی سنت ایک کامل عمل ہے جو اس دوہرے فائدے کو حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اعتکاف کرنے والے کے بارے میں) فرمایا کہ وہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اسے وہ ثواب بھی ملتا ہے جو (اعتکاف سے باہر) ہر ایک کو ملتا ہے۔ نیک اعمال” (ابن ماجہ)اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اعتکاف کے دوران آدمی اگرچہ خلوت میں ہوتا ہے لیکن ثواب کا حصول الگ نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے کے نیک اعمال کا ثواب بھی انسان کو ملتا رہتا ہے۔اس لیے اعتکاف گناہوں کو مٹانے اور متعدد ذرائع سے ثواب حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
نیچے لائن ؛
مختصراً، رمضان کا مہینہ بذات خود ان عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے جو ایک مسلمان کو اسلامی کیلنڈر میں حاصل ہوتی ہے۔ رحمتوں کے اس مہینے میں اعتکاف کی فضیلت بھی ایک اور بڑا فائدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا ایک ذریعہ ہے جو کہ اعتکاف کی مدد کرسکتا ہے۔مسلمان جو کچھ بھول گیا ہے اس سے معافی مانگتا ہے اور موجودہ لمحے اور آنے والے مہینوں کا ثواب اگلے رمضان تک حاصل کرتا ہے۔
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/04/47635/feed 0
شب قدر : ہزار مہینوں سے افضل رات  https://urdu.asianmail.in/2024/04/04/47630 https://urdu.asianmail.in/2024/04/04/47630#respond Thu, 04 Apr 2024 06:02:24 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47630
مجاہد عالم ندوی
     اسلام کی پانچ بنیادی تعلیمات میں توحید ، نماز ، زکوٰۃ اور حج کے ساتھ ماہ رمضان کے روزوں کا بھی شمار ہے ، ماہ رمضان بڑی فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں اہل ایمان کی طرف اللّٰہ تعالٰی کی خصوصی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں ، احادیث و آثار میں رمضان شریف کے بڑے فضائل اور برکات مذکور ہیں ۔
      احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک پر خصوصی رنگ غالب ہے ،  حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے ، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا۔ (صحیح ابن خزیمہ ، حدیث 1780، بیہقی شعب الایمان )
     یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے ، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں ( آخری عشرہ ) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت و طاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہو جاتے تھے ، احادیث میں ذکر ہے ، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے ۔( صحیح مسلم، حدیث 2009 ) سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے اخری عشرہ میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے۔
     دیگر احادیث میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں ، جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث : 1884 ، صحیح مسلم ، حدیث : 2008 ) شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے۔ (حدیث :3471 )
     راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تو ہمیشہ سے ہی تھا ، لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہو جاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے ، یہ مضمون حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں : مجھے یاد نہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں ۔ ( سنن نسائی ، حدیث : 1336 )
     دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ ہے اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کے لیے جگانا ، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو سارا سال ہی جگایا کرتے تھے ، لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی گھر والوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
اعتکاف : مسجد میں بہ نیت عبادت قیام
     رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری، حدیث : 1885 ) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا ، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ ( بخاری، حدیث : 1886 ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے ، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ ( بخاری ، حدیث : 1903 )
     آخری عشرہ کا اعتکاف ( یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام ) سنت علی الکفایہ ہے ، اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے ، اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے ، اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑ جانے کا نام ہے ، اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللّٰہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ، اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللّٰہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔
     احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلتہ القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے ، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو ۔ ( صحیح بخاری ، حدیث : 1880 )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی روایت میں تفصیل ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے ، چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اور ہم نے بھی کیا ، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے ، چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے ، مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا
، یاد رکھو لیلتہ القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے ۔ (صحیح بخاری ، حدیث : 771 )
لیلتہ القدر : ہزار مہینوں سے بہتر رات
     رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت و خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا ، اللّٰہ سبحانہ و تعالٰی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورہ نازل فرمائی ، ارشاد ہوا : ” ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے ، آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح ( جبرئیل ) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔”  (سورہ القدر 97:1-5 )
      ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے ، ارشاد ہے : ” قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے ، ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے "۔  ( سورہ الدخان 44 : 2 )
     چنانچہ شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے ، نیز اسی رات اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید کو یکبارگی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا اور پھر اس کے بعد نبوت کی 23 سالہ مدت میں حسب ضرورت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا ،  انھیں آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللّٰہ تعالٰی سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرما دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں ، اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔
     لیلتہ القدر کا مطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اور فضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے ، یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدر وشان والا ہوگا ، تو اللّٰہ تعالٰی نے اس رات کی جلالت و منزلت اور مقام و مرتبہ کی بنا پر اس کا نام لیلتہ القدر رکھا کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کے ہاں اس رات کی بہت قدر و منزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمار آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے عبادت کرے ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ ( صحیح بخاری ، حدیث : 1768 )
     حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ مہینہ ( رمضان کا ) تم کو ملا ہے ، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے ۔” ( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 1634 )
     مسلمانوں کو ترغیب و تاکید ہے کہ وہ اس رات کو اللّٰہ تعالٰی کی عبادت کریں ، رات کو دعا و عبادت اور ذکر و تلاوت میں گزاریں ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کے لیے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سید الرسل اور محبوب رب العالمین تھی ، وہ اللّٰہ کے نزدیک مقبول اور بخشے بخشائے تھے ، لیکن پھر بھی اللّٰہ کی رضا کی تلاش میں آپ اتنی جدو جہد فرماتے تھے ،  آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کی رحمت و مغفرت کے ہم بہت زیادہ محتاج ہیں ، لہٰذا! ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔
     اس رات کو رمضان اور خاص کر اس کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1880 )
      ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ، باقی نو رہ جائیں تو ان میں ، باقی سات رہ جائیں تو ان میں ، باقی پانچ رہ جائیں تو ان میں۔ ( صحیح بخاری ، حدیث : 1881 ) پھر احادیث کی روشنی میں شب قدر کے آخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں وقوع کا زیادہ امکان معلوم ہوتا ہے ، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ ( صحیح بخاری ، حدیث: 1878 ) جب کہ بعض احادیث میں ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے کی بات بھی وارد ہوئی ہے ، جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت میں ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔ ( سنن ابوداود ، حدیث : 1178، مسند احمد وغیرہ)
  حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہو جائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی) اے اللّٰہ تو معاف کرنے والا کرم والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے ، لہٰذا مجھے معاف کر دے ) (سنن ترمذی ، حدیث : 3435 ، مسند احمد وغیرہ)
     حضرات محدثین و علماء فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے ، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستائیسویں رات میں اور زیادہ ، اللّٰہ تعالٰی نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے ، اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق جستجو کا امتحان مقصود ہے ، اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے کوشش کرے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ، تو ان شاء اللّٰہ وہ محروم نہیں رہے گا ، اہل ذوق کے یہاں تو سارا معاملہ ذوقِ طلب اور شوقِ جستجو ہی کا ہے ، بقول وحشت کلکتوی :
نشانِ  منزلِ جاناں ملے  ملے ، نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو میرا
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/04/47630/feed 0
نوعمر لڑکیوں کی تعلیم میں ڈیجیٹل دنیا کا تعاون بھی اہم ہے https://urdu.asianmail.in/2024/04/03/47589 https://urdu.asianmail.in/2024/04/03/47589#respond Wed, 03 Apr 2024 05:26:44 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47589 جیوتی
کاجل (بدلا ہوا نام) ایک 15 سالہ لڑکی ہے جو دہلی کے اْتم نگر علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے خاندان میں کل چھ افراد ہیں۔ کاجل اپنی چار بہنوں، ماں اور خالہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتی ہے۔ اس کے والد کی کورونا وبا کے دوران ایک حادثے میں موت ہو گئی۔ اس ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے کاجل اور اس کے خاندان کو کئی معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران آن لائن تعلیم کی وجہ سے کاجل کی پڑھائی میں بھی رکاوٹ آنے لگی۔ گھر میں اینڈرائیڈ فون نہ ہونے کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز سے محروم ہونے لگی۔ لیکن ایک دن اس کی ملاقات مقامی رضاکارانہ تنظیم پروتسہان انڈیا فاؤنڈیشن کی ایک ٹیچر ریحانہ سے ہوئی۔ کاجل کے خاندانی حالات کو دیکھتے ہوئے، اس نے تنظیم کی جانب سے اسے ڈیجیٹل ڈیوائس کے طور پر ایک ٹیب تحفے میں دیا۔ اس ڈیوائس نے کاجل کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ اس نے دوبارہ پڑھائی شروع کی۔ آج وہ 10ویں جماعت میں پڑھ رہی ہے، اس ڈیجیٹل ڈیوائس کی وجہ سے نہ صرف کاجل بلکہ اس کی خالہ نے بھی اوپن اسکولنگ کے ذریعے بارہویں جماعت پاس کی ہے۔
کاجل کی طرح 16 سالہ سکینہ نے بھی ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے اپنی تعلیمی رکاوٹوں کو دور کیا ہے۔ دہلی کے مشہور علاقے دوارکا کے قریب نوادہ کی رہنے والی سکینہ کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے ہے۔ اس کے والد رکشہ چلانے والے اور والدہ گھریلو ملازمہ ہیں۔ وہ 6 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ گھر کی کمزور معاشی حالت سے سب سے پہلے لڑکیاں متاثر ہوتی ہیں۔ صنفی امتیاز کی وجہ سے ان کے لیے تعلیمی مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کا اثر سکینہ کی بڑی بہنوں پر بھی پڑا، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی پڑھائی درمیان میں چھوڑ دی اور شاید سکینہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا، اگر اسے وقت پر ڈیجیٹل آلات اور ڈیجیٹل تعلیم کی سہولت نہ ملتی۔سکینہ نے نہ صرف کورونا جیسی وبا کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی ڈیجیٹل تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ آج وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہے جس نے دسویں جماعت میں 73 فیصد نمبر لے کر ٹاپ کیا ہے۔ اس وقت سکینہ سائنس اسٹریم سے اپنی مزید تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ”کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کے بعد میری پڑھائی چھوٹ گئی تھی۔ لیکن جب مجھے تنظیم کے ذریعے ٹیب ملا تو مجھے اپنے خواب سچ ہوتے نظر آنے لگے۔ میں نے اس ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعے اپنی آن لائن کلاسز اور پڑھائی جاری رکھی۔میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بڑی بہن، جس کی پڑھائی کورونا کے دوران سہولیات کی کمی کی وجہ سے روک دی گئی تھی،وہ بھی اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرے اور اپنے خواب پورے کرے۔“
آج، ڈیجیٹل دنیا کی مدد سے، کاجل اور سکینہ جو بھی کرنا چاہتی ہیں، کر سکتی ہیں۔ لیکن ایسی لڑکیوں کی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں، جو مختلف وجوہات کی بنا پر آج بھی تعلیم سے محروم ہیں۔ اکثر معاشرے کی قدامت پسند سوچ نوعمر لڑکیوں کی صحیح نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پروتسہان انڈیا کی ٹیچر ریحانہ کہتی ہیں کہ ”صرف دیہی علاقوں میں ہی نہیں، بلکہ دہلی جیسے میٹروپولیٹن شہروں کے کچی آبادی والے علاقوں میں بھی نوعمر لڑکیوں کو انہی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر گھر کی معاشی حالت کمزور ہو تو لڑکیوں کو سب سے پہلے اسکول چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تاکہ لڑکوں کو پڑھنے کا موقع ملے، اگر لڑکی پڑھائی میں لڑکے سے زیادہ ہوشیار ہو تو بھی اسے پڑھائی چھوڑ کر گھر کے کام کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران سب سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ تمام اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، ایسے میں تنظیم کے ذریعے انہیں ڈیجیٹل ٹولز فراہم کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔“ریحانہ کہتی ہیں کہ کاجل اور سکینہ کی کہانی ہمیں دکھاتی ہے کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز کسی کی زندگی میں کتنی اہم ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی پڑھائی کو فروغ ملتا ہے بلکہ ان کی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے میں بھی اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ تنظیم کے ذریعے دہلی کے اتم نگر سے لے کر دوارکا علاقے تک کئی معاشی طور پر کمزور لڑکیوں کو ڈیجیٹل ڈیوائس فراہم کی گئی ہیں، جس کے ذریعے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ یہ لڑکیاں اس معاشرے سے آتی ہیں جہاں روایت اور رسم و رواج کے نام پر پدرانہ سوچ کا غلبہ ہے۔ جہاں بچی کی پیدائش سے لے کر تعلیم تک اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ تاہم، اسی معاشرے میں، کاجل اور سکینہ جیسے خاندان ہیں، جو بیداری کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں بلکہ اسے فروغ دینے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
ہندوستان جیسے ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشت والے ملک میں خواتین کی خواندگی کی شرح اب بھی تشویشناک صورتحال میں ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو (ڈبلو پی آر) کی ویب سائٹ کے مطابق، ہندوستان میں خواندگی کی شرح 74 فیصد ہے جبکہ دنیا کی اوسط شرح خواندگی 83.41 فیصد ہے۔ خواتین کی خواندگی کی بات کریں تو ہندوستان میں خواتین کی خواندگی کی شرح دنیا میں 71.88 فیصد کے مقابلے میں صرف 65.8 فیصد ہے۔ جبکہ ہندوستان میں مردوں کی خواندگی کی شرح بین الاقوامی سطح پر 79.16 فیصد کے مقابلے میں 82.4 فیصد ہے۔ یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں آج تک خواتین کی تعلیم پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ ریحانہ کہتی ہیں کہ اس کے پیچھے مالی بوجھ، قدامت پسند سوچ، خاندان کی جانب سے تعاون کی کمی اور لڑکیوں کا تعلیم کی طرف مائل نہ ہونا ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران ان اعداد و شمار میں مزید کمی واقع ہوئی۔ ہندوستان میں 15 سے 18 سال کی عمر کی 40 فیصد لڑکیاں ہیں جو دوبارہ اسکول نہیں جا سکیں۔ تاہم، وبائی مرض کے بعد، مرکزی اور تمام ریاستی حکومتوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے بہت سے اہم قدم اٹھائے ہیں۔ اسکولوں میں طالبات میں مفت لیپ ٹاپ اور بعض مقامات پر ٹیبلٹ بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ لیکن نتائج کو تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ ریحانہ کہتی ہیں کہ مرد اور خواتین کی تعلیم کے اعداد و شمار میں اس فرق کو کوئی منصوبہ یا قانون بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے معاشرے میں بیداری پھیلانے کی ضرورت ہے۔ جب تک معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتا، ان اعداد و شمار میں کسی تبدیلی کی توقع رکھنا فضول ہوگا۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/04/03/47589/feed 0
رسم و رواج کے نام پر صنفی امتیازسے پاک نہیں ہوا معاشرہ https://urdu.asianmail.in/2024/03/30/47504 https://urdu.asianmail.in/2024/03/30/47504#respond Sat, 30 Mar 2024 06:40:45 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47504 مہیما جوشی
ایسی بہت سی رسمیں ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں جن کی وجہ سے صنفی امتیاز صاف نظر آتا ہے۔ یہ امتیاز لڑکے اور لڑکی کی پیدائش سے لے کر ان کی شادی، جہیز اور جائیداد کے حقوق تک کے معاملات میں نظر آتا ہے۔ جہاں لڑکے کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے، وہیں لڑکی کی پیدائش پر گھر میں سوگ چھا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے سسرال والے توقع کرتے ہیں کہ وہ لڑکے کو جنم دیں گی۔ ایک عورت کے جتنے بیٹے ہوتے ہیں معاشرے میں اس کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو عورت بچی کو جنم دیتی ہے وہ ذلیل ہوتی ہے۔ یہ امتیاز شہری علاقوں کے مقابلے ملک کے دیہی علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ کئی بار خواتین اس قسم کے تشدد سے اس قدر متاثر ہو جاتی ہیں کہ ان کا رویہ بھی ایسے معاملات میں امتیازی نظر آنے لگتا ہے۔ کئی بار دیہی علاقوں میں حمل کے دوران غیر قانونی طور پر جنس کا تعین کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ جنین کا قتل بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی خوش قسمتی سے زندہ بچ جاتی ہے تو اسے جہیز اور دیگر رسومات کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔تعلیم اور بیداری کی وجہ سے جہاں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی ایسی بہت سی رسومات اور روایات شہری علاقوں میں تقریباً ختم ہو چکی ہیں وہیں ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں یہ آج بھی معاشرے کے لیے بدنما داغ بنی ہوئی ہے۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کا لاما بگڈ گاؤں اس کی ایک مثال ہے۔ باگیشور ضلع کے کپکوٹ بلاک سے تقریباً 21 کلومیٹر دور اس گاؤں میں ایسی کئی سماجی برائیاں نظر آتی ہیں، جن کی وجہ سے صنفی امتیاز صاف نظر آتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اسے ختم کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
 پنچایت سے موصولہ اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً 1500 ہے۔ اس شیڈول ٹرائب اکثریت والے گاؤں میں اعلیٰ ذاتوں کی تعداد صرف دس فیصد ہے۔ خواندگی کے معاملے میں بھی مردوں اور عورتوں میں بہت فرق ہے۔ خواتین کی خواندگی کی شرح 40 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 22.2 فیصد ہے۔ جہاں یہ فرق بیداری کی کمی کو ظاہر کرتا ہے وہیں یہ جہیز جیسی برائی کو معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔اس سلسلے میں گاؤں کی ایک 20 سالہ نئی شادی شدہ خاتون کملا (تبدیل شدہ نام) کہتی ہیں، ”میری حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ میرے شوہر سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ شادی کے وقت میرے سسرال والے بہت ڈیمانڈ کر رہے تھے۔ اچھا رشتہ دیکھ کر میرے گھر والوں نے ان کے تمام مطالبات مان لیے اور بہت سا جہیز دیا۔ جس کی وجہ سے وہ قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں ان کا دکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی وجہ سے میں کئی بار ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہوں۔ کون جانے کب تک وہ یہ قرض چکاتے رہے نگے۔“ 12ویں کلاس میں پڑھنے والی ایک نوعمر لڑکی کملا کہتی ہے کہ”میں ایک سرکاری اسکول میں پڑھتی ہوں جبکہ میرا بھائی شہر میں پڑھنے گیا ہوا ہے۔ 12ویں کے بعد میرے گھر والے مجھے مزید تعلیم نہیں دیں گے۔ جب بھی میں آگے پڑھنے کی بات کرتی ہوں تو میرے گھر والے کہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری تعلیم پر خرچ کرنگے اتنے پیسے میں تمہاری شادی کے لیے جہیز کا انتظام کیا جائے گا، اسی لیے بارہویں کے بعد مجھے گھر کا کام کرنے کو کہا گیا ہے۔ میں بھی پڑھنا چاہتی ہوں لیکن جہیز کے نام پر مجھے تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے۔
تاہم، لاما بگڈ گاؤں میں کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جہاں بیداری کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم کے کافی مواقع مل رہے ہیں۔ گاؤں کی 19 سالہ ہیما گڈھیا کہتی ہے کہ ”خاندان میں میرے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ بارہویں کے بعد میں اب کالج بھی کر رہی ہوں۔ مجھے مزید تعلیم حاصل کرنے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے سارے مواقع مل رہے ہیں۔ میرے والدین مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگاتے ہیں۔ مجھے کبھی نہیں بتایا گیا کہ جہیز جمع کرنے کی وجہ سے تمہاری پڑھائی بند ہو جائے گی۔“ ہیما کہتی ہے کہ جس گھر میں بیداری ہوگی وہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور ترقی کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔یہ ممکن ہے کہ کئی بار گھر کی مالی پریشانیوں کی وجہ سے لڑکیوں کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے لیکن جہیز کے نام پر انہیں تعلیم سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔گاؤں کی 43 سالہ خاتون منا دیوی کا کہنا ہے کہ ”جہیز کی برائی صدیوں سے چلی آ رہی ہے، جسے وقتاً فوقتاً مختلف نام دیے جاتے رہے ہیں۔ پہلے لڑکی کے گھر والے اس برائی کو بطور تحفہ دیاکرتے تھے، آج یہ کھلے عام ہونے لگا ہے۔ آج لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے اسے اپنے وقار کا مسئلہ سمجھنا شروع ہو گیا ہے۔ جبکہ یہ کوئی وقار نہیں بلکہ غیر اخلاقی فعل ہے، جس میں پورا معاشرہ تعاون کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی لڑکی مانگ سے کم جہیز لاتی ہے تو اسے سسرال میں ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب سماجی سطح پر اس برائی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو خود بیدار ہونا پڑے گا۔ اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔“
وہیں 50 سالہ ایک والدین وشنو دت کہتے ہیں،”جہیز ایک ایسی برائی ہے کہ اسے رواج کا نام دے دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے بلکہ بعض اوقات وہ ذہنی اذیت کا بھی شکار ہو جاتی ہیں اور ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔ جہیز جیسی برائی کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور گھرانوں کی لڑکیوں کی شادیاں رک جاتی ہیں۔“ ساتھ ہی 73 سالہ کلاوتی دیوی کہتی ہیں کہ ”ہمارے دور میں بھی جہیز جیسی برائی تھی۔ لیکن اس کے لیے لڑکی کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاتا تھا۔ آج یہ جہیز نہیں بلکہ انسانی لالچ بول رہا ہے کیونکہ اب روزگار کے مواقع کم ہیں اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا پیسہ مل جائے لینا ٹھیک ہے۔ اس کے لیے لڑکے والوں کی جانب سے زیادہ جہیز دینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔ جو لڑکیاں کم جہیز دیتی ہیں ان کا استحصال اور تشدد کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ سماجی برائی اب مکمل طور پر غیر قانونی جرم میں تبدیل ہو چکی ہے۔
حالانکہ ملک میں جہیز کے خلاف انسدادِ جہیز کا قانون پہلی بار 1961 میں ہی نافذ کیا گیا تھا، جس کے بعد وقتاً فوقتاً اس میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت کیا جاتا رہا ہے تاکہ خواتین کو جہیز کے نام پر کسی بھی قسم کے جسمانی یا ذہنی جبر سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس کا اثر بھی دیکھا گیا ہے۔ لیکن جن نتائج کی توقع کی جانی چاہیے تھی وہ آج بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ یوں تو شہری علاقوں میں بیداری کی وجہ سے خواتین جہیز مانگنے والوں کو جیل بھیج کر سبق سکھاتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں یہ شرح اب بھی بہت کم ہے۔ درحقیقت دیہی علاقوں میں اس برائی کو رسم و رواج کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن بہتر ہو گا کہ معاشرے کو ان رسوم کے خلاف بیدار کیا جائے جو صنفی امتیاز کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/03/30/47504/feed 0
مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات اتحاد اُمت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے https://urdu.asianmail.in/2024/03/29/47457 https://urdu.asianmail.in/2024/03/29/47457#respond Fri, 29 Mar 2024 05:56:17 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47457 رئیس احمد بٹ

اللہ تعالی نے انسان کو عقل سلیم سے نواز کر اشرف المخلوقات بنایا ا اور اس شرف و فضیلت کے باوجود بھی اس کی اصلاح اور راہنمائی کے لیے ہر قوم میں پیغمبر و رسول اور اپنے برگزیدہ بندوں کی بعثت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پھر حضرت محمد ﷺ کی امت کو ایک اللہ ایک رسول اور ایک کتاب کی چھتری تلے آخری امت کا درجہ دے کر ساتھ ہی اعلان بھی کر دیا کہ آج میں نے اپنے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی آسمانی کتاب اور ساتھ ہی حضرت آدم ؑ سے لے کر عیسی ؑ تک مختلف قوموں کے احوال بھی بتا دیے کہ کن بداعمالیوں کی وجہ سے ان قوموں کا شیرازہ بکھرتا رہا اور ہر پیغمبر کے بعد دوسرے کی ضرورت کیوں پیش آتی رہی۔
اگر قرآن پاک اور احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو سابقہ قوموں کی تباہی کی جو سب سے اہم وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں نبیوں کو جھٹلا کر اپنی اپنی مرضی کا دین ایجاد کرنا سب سے اہم وجہ سامنے آتی ہے۔ اسی لیے اسلام اجتماعیت یعنی (Unity) پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادات میں باجماعت نماز کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اگر دو مسلمان بھی موجود ہوں اور نماز کا وقت ہو جائے تو وہ باجماعت نماز پڑھیں- عبادات سے ہٹ کر عائلی زندگی میں بھی ایک امیر اور سربراہ کے ماتحت رہنے اور اتحاد و اتفاق کا درس دیا گیا ہے۔
معاشرے میں گھر سب سے چھوٹی اکائی ہوتی ہے۔ گھر میں والد کو سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اگر والد نہ ہو تو بڑے بھائی کو والد کا مقام و مرتبہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ریاست کی سطح پر پھر حاکم وقت کی اطاعت لازم کی گئی ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ گھر سے لے کر ریاست تک ہر سطح پر اجتماعیت ہو اور مسلمان نہ صرف آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں بلکہ مشکلات میں بھی ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں۔
لیکن آج انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اختلاف رائے اپنی جگہ ہم ایک اللہ ایک نبی اور ایک کتاب کو ماننے کے باوجود مختلف جماعتوں فرقوں اور مسلکوں میں بٹ چکے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز تک پڑھنے کے لیے تیار نہیں- چھوٹے چھوٹے اختلافات میں اتنا الجھ چکے ہیں کہ مسلمان مسلمان کا قتل کر رہا ہے۔

ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ اختلاف رائے تو اپنی جگہ لیکن حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں جن کا عملی مظاہرہ ہمیں روزمرہ زندگی میں دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے. اور ان حالات سے ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ شیعہ سنی کا مسئلہ تو ہر وقت ہی رہتا ہے۔ رستے میں جا رہے ہوں نماز کا وقت ہو جائے تو دو دوستوں کے درمیان کس مسجد میں نماز پڑھنی ہے۔ بریلوی وہابی کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ نیک و بد اور جنت دوزخ کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے لیکن سرٹیفیکیٹس ہم تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے پاس اس کی کیا سند ہے کہ فلاں مسلک کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے اور فلاں کے سارے جہنمی ہیں۔ اگر یہ کوئی نہیں بتا سکتا تو پھر اس کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے اعمال کا دار و مدار تو نیتوں پر ہے۔ کس کی کیا نیت ہے۔ یہ اس کا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ یہ نبی کا معجزہ اور دین اسلام کا حسن ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں نبی کی کسی نہ کسی سنت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
باقی رہا مسئلہ شرک و بدعت کا تو شرک و بدعت کے سارے کام جاہل کم پڑھے لکھے اور عقل سے عاری لوگوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔ میں مختلف مسلک کے علماء کرام کو سنتا ہوں اور سوشل میڈیا پر مختلف علماء کو سننے کا موقع ملتا ہے۔ پھر چاہے وہ شیعہ عالم رضا ثاقب مصطفائی، مولانا جواد نقوینقوی ہو یا مولانا شہنشاہ نقوی ہو، یاپھر سنی عالم مولانا طارق جمیل، مولانا ڈاکٹر اسرار احمد ہو یا محمد علی مرزا غرض میں ہر کسی کو تواتر کے ساتھ سنتا چلا آ رہا ہوں ۔ یہ سب الگ الگ مسلک (school of thought) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن سب کی باتیں سننے کی ہوتی ہے۔ دل کو لگتی ہیں اور اثر کرتی ہیں اور اس وقت دلی خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے اپنے بیان میں ایک دوسرے کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے علمی اختلاف بھی ظاہر کرتے ہیں۔

اسی طرح ان اور ان جیسے دیگر علماء کرام کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نہ صرف ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے نظر آتے ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کے مختلف علماء کی تحریروں میں مودودی ؒکی کتابوں خصوصاً سیرت النبی کے حوالہ جات میں نے خود پڑھے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مسلکی و گروہی اختلافات کو بڑے بڑے علماء کرام نہیں بلکہ کسی اور سطح پر ہوا دی جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تو نامور علماء دین ان اختلافات کو کم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور دوسرا عوام ایسے (نیم ملا خطرہ ایمان) ملاؤں کی اندھی تقلید نہ کریں بلکہ وہ ایسے علماء سے راہ نمائی لیں جو بین المذاہب و مسالک ہم آہنگی کے داعی ہیں۔ ہمارے کشمیر میں خاص طور پر ہمارے مزہبی عالموں اور خطیبوں کو چاہیے کہ وہ ممبروں پر لوگوں کو خدا کا کلام اور رسول ﷺ کی حیات بیان کر کے انہیں آخرت کے سفر کیلۓ تیار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے نا کہ وہ لوگوں کو اپنے اپنے مسلکوں کے ساتھ جوڑنے کے لئے انہیں دوسروں کے عقائد کو غلط ثابت کرنے کے اوپر درس دے۔۔

اِن مِمبر و مہراب سے ذرا بچ کر چلنا۔۔۔
یہ خُد بول کے کہتے ہیں خُدا بول رہا ہے۔۔

بصورت دیگر ہمیں بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ خدانخواستہ یہ اختلافات ہی ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور اس سے ہمارا دشمن فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین

]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/03/29/47457/feed 0
دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں مدد گار ثابت ہوتا ڈیجیٹل خواندگی https://urdu.asianmail.in/2024/03/27/47401 https://urdu.asianmail.in/2024/03/27/47401#respond Wed, 27 Mar 2024 06:45:26 +0000 https://urdu.asianmail.in/?p=47401 سید طیبہ کوثر
 ڈیجیٹل خواندگی دیہی ہندوستان میں لڑکیوں کو تعلیمی وسائل کے وسیع ذخیرہ تک رسائی فراہم کرتی ہے جو پہلے ناقابل رسائی تھے۔ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ تیزی سے قابل رسائی ہونے کے ساتھ، لڑکیاں اب آن لائن کورسز، تعلیمی ویڈیوز، اور ای بک تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ رسائی جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرتی ہے، یہاں تک کہ دور دراز دیہاتوں میں لڑکیوں کو ریاضی سے لے کر کوڈنگ تک، اورزبانوں سے لے کر سائنس تک کے مضامین سیکھنے کے مواقعہ فراہم کرتی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم اکثر مقامی زبانوں میں مواد پیش کرتے ہیں، جس سے ان لڑکیوں کے لیے سیکھنے کو مزید قابل رسائی اور پرکشش بنایا جاتا ہے جن کی پہلی زبان انگریزی نہیں ہو سکتی۔اس طرح کی رسائی ملک کے دیگر دیہی علاقوں کی طرح جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کے دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو بھی فراہم ہو رہا ہے۔اس کی مثال تبسم رفیق، زبیدہ چوہدری اور سیدہ عائرہ جیسی لڑکیاں ہیں۔ جنہوں نے ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعہ اپنے مستقبل کو روشن کیا ہے۔
تبسم رفیق ایک 17 سال کی لڑکی ہے جوپونچھ کے بانڈی چیچیاں علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔تبسم اس وقت 11ویں جماعت کی طالبہ ہے۔جب وہ دسویں جماعت میں تھی تو اس کا خواب تھا کہ وہ اچھے فیصد اسکور کرے۔ اس مقصد کے لیے وہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں شامل ہونا چاہتی تھی۔لیکن گھرکے مالی حالات اور گھر سے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کی دوری کی وجہ سے وہ اس میں شامل نہیں ہو سکی۔ پھر اس کے والد نے ایک اسمارٹ فون خریدا اور اسے مطالعہ کے مقصد کے لیے دیا۔ بالآخرتبسم  نے اپنی پڑھائی کے لیے یوٹیوب کا استعمال شروع کیا اور اس نے دسویں بورڈ میں 85 فیصد نمبر حاصل کیے۔ اس کے ساتھ بات چیت میں اس نے کہا، ”مختلف مسائل کی وجہ سے اسکول میں ہر چیز کو سیکھنا اور سمجھنا کافی مشکل تھا، بعض اوقات فیکلٹی اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ ہمیں قابل فہم طریقے سے پڑھا سکے اور بعض اوقات مضامین کے لیے کوئی اساتذہ نہیں ہوتے تھے۔اس کے علاوہ فزکس، کیمسٹری میرے کمزور شعبے تھے۔ اس لیے میں نے کوچنگ لے کر ان پر کام کرنے کا سوچا۔ لیکن یہ آئیڈیا منصوبہ بندی کے مطابق نہیں چل سکا اس لیے میرے والد نے مجھے مطالعہ کے لیے یوٹیوب کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ مجھے ڈیجیٹل ٹولزجیسے کہ یوٹیوب اور گوگل کی وجہ سے سیکھنے اور مطالعہ کرنے میں کافی مدد ملی۔ پڑھائی آسان اور مزے دار بن گیی اور میں اچھا فیصد اسکور کرنے میں کامیاب رہی۔“
دیہی علاقوں میں خاص طور پر نچلے متوسط طبقے کے خاندانوں کی بہت سی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھر والوں پر کوئی مالی بوجھ ڈالے بغیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے اپنی پڑھائی کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کررہی ہیں۔بانڈی چیچیاں سے کالج جانے والی 19 سالہ زبیدہ چوہدری نے بتایا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن سرکاری اسکول سے اپنے پس منظر کی وجہ سے میں پرائیویٹ اسکول سے تعلق رکھنے والے طلباء کے مقابلے میں اپنے آپ کو کافی کم قابل محسوس کرتی رہی۔ اپنی کلاس کے دیگر طلباء سے کم تر محسوس ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے مضمون اور موضوعات کو مزید وسیع اور بہتر انداز میں سیکھنے کے لیے ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال پر کچھ اضافی وقت صرف کرنا شروع کیا، اس سے مجھے بہت مدد ملی۔ میرے گھر کے مالی حالات بھی بہت اچھے نہیں ہیں اس لئے میں ہر کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہوں۔ اس معاملے میں بھی انٹرنیٹ، گوگل، گوگل ڈرائیو اور اس طرح کے تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میری مدد کرتے ہیں۔“اس نے یہ بھی کہا کہ میرے علاقے میں بہت سی لڑکیاں اس مثبت اور مددگار طریقے سے انٹرنیٹ کا استعمال کررہی ہیں۔ میری جیسی بہت لڑکیاں مالی طور پر کمزور ہیں لیکن ہماری قوتِ ارادی اور تعلیم یافتہ بننے کا عزم بہت مضبوط ہے اور اس سفر میں ڈیجیٹل دنیا ہمارے لیے ایک اعزاز کا کام کرتی ہے۔
جیسے جیسے تعلیم کی ضرورت اور شعور میں اضافہ ہوا ہے تعلیم کی اہمیت کی طرف لڑکیوں کا رویہ یکسر بدل گیا ہے۔ پہلے دیہی علاقوں میں لڑکیاں دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرتی تھیں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کبھی کچھ سوچتی بھی نہیں تھیں۔لیکن اب منظرنامہ بہت بدل گیا ہے۔ سیدہ عائرہ بانڈی چیچیاں کے قریب قصبہ سے تعلق رکھنے والی 21 سال کی گریجیویشن کی طالبہ ہے۔وہ تعلیم حاصل کر پبلیک سروس کمیشن کا امتحان دینے اور افسر بننے کا خواب دیکھتی ہے۔اس کے لئے وہ مسلسل معلومات حاصل کرتی رہتی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح ایک بار یوٹیوب پراسکرول کرتے ہوئے اسے جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن کے بارے میں تفسیلی معلومات حاصل ہوئی۔کافی تحقیق کرنے کے بعد انہیں اس شعبے میں اپنی دلچسپی معلوم ہوئی۔ وہ گوگل جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے ان موضوعات کے بارے میں پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرتی ہے جس سے وہ مزید معلومات حاصل کرتی ہے۔ وہ لیکچرز کے لیے یوٹیوب اور ٹیسٹ دینے کے لیے ٹیسٹ بک ایپلیکیشن کا استعمال کرتی ہے۔ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا ساتھ ملنے کے بعد اب آئرہ کو پوری امید ہے کہ وہ آخر کار اس امتحان میں کامیابی حاصل کر لے گی اور ریاستی انتظامیہ میں افسر بننے کے اپنے خواب کو پورا کرے گی۔
 یہ صرف ایک تبسم رفیق، زبیدہ چوہدری اور سیدہ عائرہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان کی جیسی دیہی علاقوں کی کئی لڑکیوں نے ڈیجیٹل خواندگی کے ذریعہ تبدیلی کی ایک نئی شروعات کی ہے۔یہ تمام لڑکیاں اپنے تعلیمی مسائل سے متعلق اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بخوبی استعمال کررہی ہیں۔ ڈیجیٹل ورلڈ نے بلاشبہ ان لڑکیوں کا ہاتھ تھام رکھا ہے جنہوں نے وسائل کی کمی کی وجہ سے شاید اپنی پڑھائی چھوڑ دی ہوتی یا وہ اتنی باخبر نہ ہوتی جتنی کہ وہ ابھی ہیں۔ اس کے علاوہ گوگل اوریوٹیوب ان کے لئے ایک دوستانہ پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے جہاں طلباء کے لیے بہت سارے وسائل مفت دستیاب ہیں اوریہ ان کے لئے بہت مددگار ثابت ہوے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیمی طبقے کے درمیان فرق بھی بدل گیا ہے۔ وہ لڑکیاں جنہوں نے اپنے گھروں کی دیواروں کے باہر کبھی کچھ خواب نہیں دیکھا تھا، اب وہ بیدار،تعلیم یافتہ، خود ملازم اور خود انحصار ہونے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بخوبی استعمال کرمعاشرے کو اپنی سوچ بدلنے کا واضح پیغام دے رہی ہیں۔  وہ بتا رہی ہیں کہ دیہی ہندوستان کی لڑکیوں کی تعلیم پر ڈیجیٹل خواندگی کا بہت مثبت اثرہو رہا ہے۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2023کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)
]]>
https://urdu.asianmail.in/2024/03/27/47401/feed 0