خبریں – Asian Mail https://urdu.asianmail.in Kashmiri Newspaper Sun, 17 Feb 2019 11:17:14 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=5.7.11 علیحدگی پسندو¿ں کے خلاف مرکزی حکومت کا سخت روایہ https://urdu.asianmail.in/2019/02/06/1978 https://urdu.asianmail.in/2019/02/06/1978#respond Wed, 06 Feb 2019 14:28:48 +0000 http://azaan.world/?p=1978 سرینگر/حکومت نے علیحدگی پسند رہنماو¿ں کے خلاف سخت قدم اٹھاتے ہوئے انہیں دی گئی تمام سیکورٹی اور سہولیات واپس لئے جانے کا ایک بڑا فیصلہ کیا ہے۔سی اےن اےس کے مطابق رواں ماہ کی 14 تاریخ کو لیتہ پورہ پلوامہ میں سرینگر جموں شہراہ پر سی آر پی ایف کے قافلے پرہوئے ہلاکت خیز خودکش حملے جس میں 59 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک اور39 دیگر زخمی ہونے کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے اعلان کیاہے کہ پاکستان کی بولی بولنے والوں کی سیکورٹی کو ہٹا لیا جائے گا۔ سی این ایس کے مطابق ان بیانات کو کل رات دیر گئے اس وقت عمل جامہ پہنایا گیابھارتی وزارت داخلہ نے حریت رہنماو¿ں کی سیکیورٹی واپس لینے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق حریت رہنماو¿ں میرواعظ عمرفاروق، عبدالغنی بٹ، بلال لون، ہاشم قریشی اورشبیرشاہ کودی گئی سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے اوران رہنماو¿ں کو مہیاکی گئی سرکاری سہولتیں بھی فوراً واپس لینے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ مرکز کی طرف سے یہ اقدام پلوامہ حملے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ سرکار کی طرف سے جاری احکامات کے مطابق ان علاحدگی پسندوں کومہیا کرائی گئی سیکورٹی اوردوسری گاڑیاں شام تک واپس لے لی جائیں گی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی علاحدگی پسندوں کوسیکورٹی اہلکاراب کسی بھی صورت میں مہیا نہیں کرائی جائے گی۔ اگرانہیں حکومت کی طرف سے کوئی سہولت دی گئی ہے، تو وہ بھی فوری اثرسے واپس لے لی جائے گی۔

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/02/06/1978/feed 0
آپریشن آل آوٹ، حقیقت یا فسانہ۔۔۔۔۔۔ ایڈوکیٹ میر اسداللہ https://urdu.asianmail.in/2019/02/05/1975 https://urdu.asianmail.in/2019/02/05/1975#respond Tue, 05 Feb 2019 06:45:59 +0000 http://azaan.world/?p=1975 گزشتہ دنوں ریاست کے گورنر جناب ستیہ پال ملک نے جموں میں میڈیا سے بات چیت کے دوران فرمایا کہ کچھ لوگ کشمیر میں آپریشن آل آوٹ کی رٹ لگا کر ایک غلط تصویر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ کشمیر میں اس نام کا کوئی بھی آپریشن چل نہیں رہا ہے۔ بی جے پی سے وابستہ گورنر صاحب ایک گرگِ باراں دیدہ سیاست داں ہیں جس پر وثوق سے ’’نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو‘‘ کا فقرہ صادق آتا ہے ۔ ان کا گرم دم جستجو ہونا ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں۔ کشمیر میں ہندنوازوں کے بائیکاٹ کے علی الرغم پنچایتی و بلدیاتی انتخابات ، لولے لنگڑے بلکہ برائے نام ہی سہی، کا انعقاد کرکے وہ وزیراعظم ہند سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ وادی کے انتہائی ناسازگار منظر نامے میں کوئی خوشگوار تبدیلی نظر نہ آنے کے باوصف بھی وہ پارلیمانی و اسمبلی انتخابات کو روبہ عمل لانے میں سرگرم ہوچکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ریاست جموں وکشمیر میں گورنر کا عہدہ علی العموم ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا سابق فوجی جنرل سنبھالتے آرہے ہیں لیکن اب کی بار بی جے پی سرکار نے اس پالیسی کو بدل کر گورنر کا دستارِ فضیلت سنگھ پریوار کے ایک کہنہ مشق سپاہی کے سر باندھا ہے، جو گفتار میں نرم لیکن سیاست گری میں واقعی کافی گرم ثابت ہوچکے ہیں۔ گورنر صاحب تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے بھارتی سیاستدانوں کے روایتی چانکیائی طرز عمل کے مطابق کشمیر میں جاری آپریشن آل آوٹ کی تردید کرکے دنیاکی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اُدھر طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل راوت اور ریاست میں مامور دیگر اعلیٰ فوجی افسراں بار بار نہ صرف آپریشن آل آوٹ کو سختی سے عملانے اور جاری رکھنے کی ہدایات دیتے رہتے ہیں بلکہ عسکریت پسندوں کے حامیوں اور بالائے زمین کارکنوں کو بھی اس آپریشن کے تحت تہہ تیغ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ جنرل راوت صاحب بس اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ ڈرونوں کو استعمال میں لانے کی بھی وکالت کرتے ہیں۔ اُن کی دھمکیاںجنگجوؤں اور ان کے حامیوں کی وساطت سے عوام الناس اور سرحد پار ملک کے حکمرانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ حق یہ ہے کہ زمینی سطح پر روز روز کی خوں ریز وتباہ کن فوجی کارروائیاں گورنر صاحب کے بیان کا منہ چڑا رہی ہیں۔
دو ، دو تین، تین کے جتھوں میں نوعمر(Teenage) نوخیزمزاحمت کار جن کی عمریں اکثر و بیشتر۱۴؍ سے اکیس بائیس سال کے درمیان ہوتی ہیں ، جو زیادہ سے زیادہ ایک عدد پستول یا کہیں سے چھینی بندوق کے حامل ہوتے ہیں اور ان کو آپریٹ کرنے میں بھی ناقص التربیت ہوا کرتے ہیں، مطلب یہ کہ عددی قوت، تربیت اور وسائل کے لحاظ سے فورسز اور ان کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں، ان کے مقابلے میں سینکڑوں جدید ہتھیاروں سے لیس چاق و چوبند، اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی اہلکار جب ان کو گھیر لیتے ہیں تومہا بھارت کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ایک پستول فائر کے جواب میں ہزاروں راونڈ گولیاں برستی ہیں، گرینیڈ اور مارٹر گولے داغے جاتے ہیں ، کہیں کہیں کمانڈوز اور گن شپ ہیلی کاپٹرکا بھی استعمال ہوتا ہے نتیجتاً آناً فاناً چند منٹوں کی گھن گرج کے بعد ہی یہ نو آموز نوجوان خون میں لت پت ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں۔ا س فوجی کارروائی میں دو تین مکانات مسمار اور برسوں کی جمع شدہ پونجی کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں۔ فوجی سورما پھر احتجاجی عوام کی طرف بُلٹ اور پیلٹ گنوں کے دہانے موڑ دیتے اور بے تحاشا جو جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے وصول کرتا ہے۔کئی موت سے ہمکنار ، کئی بینائی سے محروم ، کئی زخموں سے لہولہاں اور کئی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناخیز بن جاتے ہیں۔سوختہ آشیانوں سے کئی روز تک دھواں اُٹھتا رہتا ہے۔ عوام الناس سہم کے رہ جاتے ہیں اور پوری وادی سوگوار۔ یہی خونین عمل ہر جگہ ہر مقام پر دُہرایا جاتا ہے۔رہائشی مکانوں کو بم اور بارود سے اُڑا دینا فوجیوں کا مشغلہ بنتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں کھاتے پیتے گھرانے لمحوں میں کوڑی کوڑی کے محتاج بن جاتے ہیں۔ جذبۂ آزادی سے مخمور یہ لڑکے اب مکانوں کوتیاگ دے کر برف پوش ، کھائیوں، ڈھلوانوں ، کھیت کھلیانوں اور باغات میں برف کی وسیع چادر تلے بلوں کو کمین گاہیں بناکر فورسز سے لوہا لیتی ہیں،پر آپریشن آل آوٹ کی یلغار برفانی ٹیلوں کو بھی لالہ زار بنادیتی ہے۔اخبارات کے مطابق۲۰۱۸ء؁ میں کم و بیش ۳۵۰؍ کشمیری مار دئے گئے۔ ان میں جنگجو، عام لوگ، سیاسی ورکر اور خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔ ۲۰۰؍ مکانات زمین بوس اور ۲۶۷؍عسکریت پسند جان بحق ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں لڑکے لڑکیاں پیلٹ گنوں کی شکار محرومِ بینائی ہوچکی ہیں جن میں ۱۶؍ماہ کی معصوم حبہ جان بھی شامل ہیں۔ ایک چھوٹی سی وادی جس کی حدیں بانہال سے اُوڑی اور بڈگام سے بانڈی پورہ تک محدود ہیں صرف ایک سال کی مدت میں یہ زبردست ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان قومی سطح پر تباہ کن اثرات کا حامل ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندو قوم پرستوں کے لیے کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت سدا سوہانِ روح بنی رہی ہے۔ اس کو بدل کررکھ دینے کی خاطر وہ ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنے پر تیار رہتے ہیں ۔ اس پس منظر میں ریاست کے مسلمان ۱۹۴۷ء؁ سے ہی آپریشن آل آوٹ کی مار سے جوجھ رہے ہیں۔۱۹۴۱ء؁ کی مردم شماری کے مطابق صوبہ جموں کی مسلم آبادی ۶۱؍فیصد تھی جو ۱۹۶۱ء؁ میں ۳۸؍ فیصد تک گھٹ گئی۔ ضلع جموں میں ۴۰؍ فیصد مسلمان آباد جو۱۹۶۱ء؁ میں صرف دس فیصد رہ گئے۔ یہ لاکھوں کلمہ گو اسی آل آوٹ آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئے۔ خون مسلم کے دریا بہا دئے گئے۔ رنبیر سنگھ پورہ ، میراں صاحب، بھمبر، پونچھ ، اکھنور، ریاسی ، کٹھوعہ، سانبہ ، ادھم پورہ، رام نگر و دیگر علاقے کلمہ خوانوں سے یکسر خالی ہوگئے۔ جموں خاص میں مسلم اکثریتی محلوں سے مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا اور یہ سارا تانڈو ناچ حکومت کے زیر نگرانی کھیلا گیا۔ آپریشن آل آوٹ کی اصطلاح بھلے ہی موجود نہ ہو لیکن معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے جو ہمہ گیر مسلم کش مہم صوبہ جموں میں انجام دی گئی وہ اس اصطلاح کی لفظ بہ لفظ صحیح ترجمانی کرتی ہے۔ اسی آپریشن کے تحت ۱۹۵۳ء؁ میں شیخ محمد عبداللہ کو وزارت اعظمیٰ سے کھدیڑ کر اوٹاکمنڈ پہنچا دیا گیا۔ غلام محمد بخشی ، غلام محمد صادق، میر قاسم کو اقتدار کی لالچ سے باندھ کرریاست کی خصوصی پوزیشن کو تحلیل کرنے کی سمت آئین ہند کی کل ۳۹۵؍دفعات میں سے۲۶۰؍ دفعات کو ریاست پر لاگو کیا گیا۔ حالانکہ دفعہ۳۷۰؍ کے مطابق دلی سرکار کی حدود کار میں صرف دفاع، بیرونی معاملات اور مواسلات ہیں۔ دفعہ ۳۵(الف) جو دفعہ۳۷۰؍ کے حصار کا شاید کونے کا آخری پتھر ہے، قوم پرست ہندو برادران ہتھوڑے، پھاوڑے لے کر اسے اُکھاڑ پھنکنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ۳۵(الف)، خدا نخواستہ آئین ہند کی سر زمین سے اُکھڑ گیا تو سنگھ پریوار کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ مسلم اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگی ، سوا کروڑ کشمیری مسلمانوں کا پیدائشی حق ، حق خودارادیت منوں مٹی تلے دب جائے گا اور گزشتہ ۷۰؍ سال سے پیش کی گئی قربانیاں رائیگاں ہوجائیں گی۔مشہور آئینی قانون دان اے جی نورانی کے بقول۱۹۵۴ء؁ سے تا حال دفعہ۳۷۰؍ میں جتنے بھی ترک تازیاں ہوئیں ہیں سب غیر آئینی و غیر قانونی ہیں کیونکہ قانون کے مدنظر اس دفعہ کے تحت جو بھی ’مرکزی‘ قوانین ریاست پر چسپاں کیے گئے ہیں اُن کے لیے ریاستی آئین ساز اسمبلی کی توثیق لازم ہے۔ چونکہ آئین ساز اسمبلی۱۹۵۶ء؁ میں ہی ختم ہوچکی ہے لہٰذا جتنے بھی ’’مرکزی‘‘ قوانین آئین ساز اسمبلی کی توثیق کے بنا ہیں جملہ غیر قانونی و غیر آئینی ہیں اور آپریشن آل آوٹ کی دین ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار اور جمہوری قدروں کا احترام و فروغ کی ڈینگے مارنے والی حکومت نے اسی آپریشن کے تحت ۱۹۸۷ء؁ کے اسمبلی انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے بیسویں کامیاب اُمیدواروں کو ناکام او رناکام کو کامیاب قرار دے کر جمہوریت کو شرمسار کردیا اور اس کے ردعمل میں جب جوانوں کو بندوق تھام لینے پر مجبور کردیا گیا تو آپریشن کیچ اینڈ کِل ، آپریشن ٹائیگر، آپریشن بھوت اور آپریشن سروناش جیسے خون خوار ہتھکنڈوں کے ذریعے ہزاروں کشمیری جوانوں کو خاک و خون میں ڈبو دیا، ہزاروں کو سلاخوں کے پیچھے کردیا، ہزاروں کو تعذیب خانوں کے نذر کرکے اپاہچ اور ناخیز بناکر رکھ دیااور ہزاروں کو ایسے غائب کردیا کہ تین دہائیاں گزرنے کے بعد میں اُن کی قبروں کا کہیں نشان تک نہیں ملتا۔ ہندواڑہ، کپواڑہ، سوپور، گاؤکدل، نوہٹہ اور بجبہاڑہ وغیرہ جیسے قتل عام کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اربوں کی جائیداد کو پھونک دیا گیا۔ خواتین کے خلاف آپریشن کونن پوشہ پورہ سے شروع ہوکر بٹہ پورہ ہندواڑہ، چھانہ پورہ سرینگر، سعدہ پورہ شوپیان، قاضی گنڈ اور بانہال اور شوپیان سے ہوتے ہوئے رسانہ کٹھوعہ تک پہنچ گیا۔ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ، ٹاڈا،پوٹا، افسپا اور پی ایس اے جیسے جنگل کے قوانین کے تحت کم عمر لڑکوں کو کٹھوعہ و ہریانہ کی جیلوں میں ٹھونسنا اور طرفہ یہ کہ جواہر لعل یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم کشمیری طلباء کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنا ، این آئی اے کی طرف سے کشمیرکے سیاسی ورکروں کے خلاف مہم ، ان پر بھونڈے الزامات لگا کر دور دہلی کی جیل میں تڑپانا، اُنہیں طبی امداد سے محروم کرنا اور سب سے شرم ناک یہ کہ بیمار و علیل کشمیری بیٹیوں کو بھی تہاڑ جیل کی کال کوٹھریوں میں ٹھونسنا آپریشن آل آوٹ نہیںتو کیا ہے؟دہشت گردی کے نام پر ریاست میں اپوزیشن بالخصوص حریت پسندوں پرسیاسی سپیس (Space)اتنی تنگ کردی گئی ہے کہ بزرگ سیاست دانوں کو سالہاسال اُن کے گھروں میں نظر بند کرکے عوام الناس سے کاٹ کے رکھ دیا گیا ہے۔اُن پر تحریر و تقریرکے دروازے بند ہیں ۔
یہ آپریشن آل آوٹ صرف کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے دائرے میں بھارت کے کروڑوں کلمہ خواں بھی لائے گئے ہیں۔ بھارت کی تاریخ تبدیل کی جارہی ہے، مسلم شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں، مسلم عہد حکومت کو غلامی سے پکارا جارہا ہے۔ جن مسلم حکمرانوں نے اس دھرتی کو اپنا وطن بناکر ایک ہزار سال تک اُسے اپنے خون سے سینچا، بکھری ہوئی اکائیوں کو وشال بھارت میں پرو دیا ،اُس کی تعمیر و ترقی ،سجانے سنوارنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ ان ہی کو آج حملہ آور کہہ کر اور بابر کی اولاد کی گالی دے کر مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ اُن کے لیے اپنی ہی جنم بھومی تنگ ترہوچکی ہے۔عائلی قوانین کو تبدیل کرنا ، مشترکہ سول کوڈ کو رائج کرنے کی کوشش کرنا ، اذانوں و نمازوں پر پابندی ، داڑھیوں اور ٹوپیوں سے نفرت ، گائے کی حرمت اور راہ چلتے مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنا اور اسلامی تہذیب و تمدن کو جبراً ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا آپریشن آل آوٹ نہیں تو کیا ہے؟اس آپریشن میں رہی سہی کسر اب سٹیزن شپ امیڈمنٹ بِل(Citizenship Amendment Bill)نے واضح کردی ہے۔ اس کی رُو سے پاکستان، افغانستان ، بنگلہ دیش ، نیپال یا اور کسی ملک سے جو ہندو ، جین، سکھ ، پارسی یا یہودی بھارت آئیں تو اُنہیں آنکھوں پر بٹھا کر اُنہیں یہاں کی شہریت سے نوازا جائے گا، ماسوائے مسلمان!!
جناب گورنر صاحب !! آپریشن آل آوٹ میں اب بھی کچھ کمی باقی رہ گئی ہے؟

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/02/05/1975/feed 0
انتخابات میں جیت: آسان نہیں۔۔۔۔۔افتخار گیلانی https://urdu.asianmail.in/2019/01/26/1970 https://urdu.asianmail.in/2019/01/26/1970#respond Sat, 26 Jan 2019 14:34:02 +0000 http://azaan.world/?p=1970 حال ہی میں ہندوستان میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جب پانچ صوبائی انتخابات میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، تو کسی نے تبصرہ کیا کہ حالیہ عرصہ میں پہلی بار کشمیر کی برف پوش چوٹیوں سے جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے انتہائی کنارے کنیا کماری تک کا سفر اب بی جے پی کے اقتدار والے صوبوں کو چھوئے بغیر کیا جاسکتا ہے۔ ان صوبوں با لخصوص مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے انتخابی نتائج سے جہاں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے مصاحب خاص اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کی جوڑی کے ناقابل تسخیر ہونے کی امیج پاش پاش ہوگئی ہے وہیں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو نیا حوصلہ اور توانائی فراہم ہوئی ہے۔

ہندوستان میں اب ایک طرح سے اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات کابگل بج چکا ہے اور اندازہ ہے کہ بی جے پی کے لیے کامیابی کی راہ 2014کی طرح آسان نہیں ہوگی اور ایک طرح سے برابری کا مقابلہ ہوگا۔ گزشتہ سا ڑھے چار سالوں سے بی جے پی بے پناہ مادی و افرادی وسائل نیز اقتدار کے علاوہ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور میڈیا کے ایک حلقہ کی اندھا دھند حمایت کے سہارے یکے بعد دیگرے جس طرح صوبے فتح کرتی جارہی تھی، اس پر یقیناًلگام لگ گیا ہے۔

اقتدار میں واپسی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء نے عوام کو لبھانے کے لیے جو گیدڑ سنگھیاں پٹار ے میں رکھی تھیں ، لگتا ہے کہ آزمانے سے قبل ہی وہ اثر کھوتی جارہی ہیں۔ ان میں سب سے اوپر اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی آڑ میں ہندو ووٹروں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورنے کا پلان شامل تھا۔ مگر بسیار کوشش کے باوجود رام مندر پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو رہی ہے۔ صدیوں سے ہر 12سال بعد اتر پردیش کے شہر الہ آباد ( جس کا نیا نام اب پریاگ ہے) میں دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پر ایک میلہ لگتا ہے ۔

دو ماہ تک جاری یہ میلہ مہا کمبھ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں سادھوؤں کی ایک کثیر تعداد اور عوام کا جم غفیر پاپ دھونے کے لیے دریا میں ڈبکیاں لگاتا ہے۔ اس دوران مختلف پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔ پچھلا کمبھ میلہ مودی کے اقتدار میں آنے سے ایک سال قبل 2013میں منعقد کیا گیا تھا۔ کیلینڈر اور ہندو روایتوں کے مطابق اب دوسرا مہا کمبھ 2025میں منعقد ہونا تھا۔ مگر کیا کیا جائے اس سیاست کا اور ووٹ بٹورنے کی بے تابیوں کا کہ انتخابات سے چند ما ہ قبل ہی اس میلہ کا انعقاد کیا گیا۔ نہ صرف بڑے پیمانے پر اس کو وزارت خارجہ کی طرف سے ایشیائی تہذیب کا نقیب اور سمبل قرار دیکر ملک کے باہر بھی بیچا جا رہا ہے، بلکہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ہرروز کمبھ میں بی جے پی کے لیڈروں اور وزیروں کی موجودگی میڈیا کے ذریعے مشتہر ہو۔

اس میلہ کی آڑ میں آخری کوشش کے بطور رام مندر کے نام پر ہندو فرقہ کو برانگجیتہ کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی تیاریا ں بھی ہو رہی ہیں۔ اسی دوران اتر پردیش اور دیگر علاقوں میں آئی ایس ایس کے نام پر مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے تاکہ بظاہر ہندو اکثریتی فرقہ کو انتخابات سے قبل خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے۔ اس پوری تگ و دو کے باوجود لگ رہا ہے کہ مودی کا جادو اب بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ اقتصادی بد حالی اور پچھلے ساڑھے چار سالوں کے کئی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے پریشان حال عوام اب حکمران جماعت سے حساب مانگ رہے ہیں۔

بدعنوانی سے جنگ کے نام پر 2016 میں اچانک 500اور 1000کے نوٹ بند کرنے کے فیصلہ کے جھٹکے سے چھوٹی اور درمیانہ درجہ کی صنعتیں ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہیں۔ یہ صنعتیں 40فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی تھیں۔ اصلاحات کے نام پر پورے ملک میں مختلف بالواسطہ ٹیکسوں کو ضم کرکے ایک وفاقی ٹیکس جی ایس ٹی کو جس طرح سے نافذ کیا گیا اس نے نظام کو سہل بنانے کے بجائے بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک تاجر طبقہ کے چودہ طبق روشن کروائے ،نیز صوبوں کی آمدن بھی کم ہوگئی، جس کی وجہ سے تعمیر و ترقی کے کام بھی رک گئے ہیں۔

اس کے علاوہ پچھلے ساڑھے چار سالوں میں طبقاتی آمد ن میں جو ہوش ربا تفاوت پیدا ہو گئی ہے و ہ کرونی کیپٹلزم کی ایک زندہ مثال ہے۔ بین الاقوامی ادارے آکسفیم کی حال میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پہلی بار مجموعی قومی آمدن400 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور مودی حکومت اس کو ایک بڑی حصولیابی تصور کر سکتی ہے۔ مگر اس کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس آمدن کے 77.4 فیصد حصے پر صرف 10فیصد آبادی کی اجارہ داری ہے۔ علاوہ ازیں اس دولت کا 51.53فیصد حصہ آبادی کے محض ایک فیصد تک ہی محددود ہے۔ ہندوستان کی 60فیصد آبادی مجموعی آمدن کے صرف 4.8فیصد کے مالک ہیں۔

جہاں ایک طرف ہندوستان دنیامیں میڈیکل ٹورازم کے حوالے سے پانچویں مقام پر ہے۔یعنی اعلیٰ اور کفایتی میڈیکل سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ علاج کروانے آتے ہیں۔ مگر خود عوام کی کیا حالت ہے؟ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق صحت پر خرچوں کی وجہ سے ملک میں ہر سال 63ملین افراد غریبی کے دائرہ میں چلے جاتے ہیں۔ صرف 11فیصد اسپتال اور 16فیصد پرائمری ہیلتھ سینٹرز میں ہی باضابط علاج و معالجہ کی سہولیات میسر ہیں۔

عوام کے ان سوالات سے عاجز مودی حکومت اپنی زنبیل سے نئے انتخابی حربے نکالنے کے فراق میں ہے۔ حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہندو اعلیٰ ذاتوں کو لبھانے کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کیلئے دس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس کو کرکٹ کے سلاگ اوورز میں چھکے سے تعبیر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جو ں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آتی جائیں گی اور بھی چھکے لگنے والے ہیں۔

ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں اور حکمران بی جے پی کے اندرون سروے کے مطابق عام انتخابات میں حکمران جماعت 543رکنی ایوان میں صرف 164نشستیں ہی حاصل کر پائے گی۔ یعنی 2014 کے مقابلے اسکو 118نشستوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں جہاں مقامی پارٹیوں سماج وادی پارٹی اور دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی نے اتحاد کا اعلان کیا ہے، بی جے پی کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس صوبہ کی 80پارلیامانی نشستوں میں اس کو 35نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے۔

موجودہ پارلیامنٹ میں اس صوبہ سے بی جے پی کی 70نشستیں ہیں۔ اس خسارہ کو پورا کرنے کیلئے بی جے پی کی نگاہیں مغربی بنگال، اڑیسہ نیز شمال مشرقی ریاستوں پر ٹکی ہیں، نیز اس کی کوشش ہے کہ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کی 40نشستوں پر اس کی اتحادی انا ڈی ایم قبضہ کر سکے۔ گو کہ اپوزیشن کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کی پوزیشن بھی کچھ اچھی نہیں ہے، مگر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اگر وہ سیٹوں کا تال میل ٹھیک بٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اتحاد 272کا نشانہ پار کر سکتا ہے۔

ادھر متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئر پرسن سونیا گاندھی اور انکے فرزند راور کانگریس صدر راہل گاندھی پر حکومت نے انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعے شکنجہ کسا ہے۔ انکم ٹیکس نے ان کو 100کروڑ روپے کی ٹیکس وصولی کا نوٹس بھیجا ہے۔ اگر کورٹ نے ٹیکس کی اس وصولی کے آرڈر کو برقرار رکھا، تو دونوں لیڈران نااہل قرار دئے جاسکتے ہیں۔ یعنی وہ انتخابات لڑ نہیں پائیں گے۔ اس ایشو کو لیکر بی جے پی اور حکومت کے اندر خاصا بحث و مباحثہ جار ی ہے۔ چند لیڈروں ، جن میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ایک سینئر وزیر نتن گڈکری وغیرہ شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ان کو نااہل قرار دینے سے کانگریس ہمدردی کا کارڈ کھیل کر اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے۔

وہ یاد دلاتے ہیں کہ 1978میں اسی طرح اس وقت کی جنتا پارٹی حکومت کی طرف سے اندرا گاندھی کو نظر بند اور پھر نااہل قرار دلوانا اس کو خاصا مہنگا پڑا تھا۔ سال بھر بعد ہی اندرا گاندھی عوامی ہمدردی بٹور کر دوبارہ اقتدار میں واپس آگئی تھی۔ وہیں بی جے پی کے دیگر لیڈران پاکستان کی مثال پیش کرتے ہیں ، جہاں سابق وزیر اعظم نوا ز شریف کی نااہلی نے عمران خان کیلئے اقتدار میں پہنچنے کا راستہ صاف کیا۔ علاو ہ ازیں ان کا خیال ہے کہ سونیا اور راہل کے انتخابی میدان سے ہٹنے سے کانگریس اپنا ترپ کا پتہ یعنی پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہو جائیگی۔

ان لیڈروں کے مطابق بی جے پی شاید پرینکا گاندھی کی کرشمائی شخصیت اور سیاسی نفاست کا مقابلہ نہیں کر پائے گی اور اس کیلئے بہتر ہے کہ راہل ہی میدان میں برقرار رہے۔صوبوں کی انتخابی مہم میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ حال میں منافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ باتیں رائے دہندگان کو مائل کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ جو بے انتہا بیروز گاری ، امتیازو تفریق ، تشدد اور معاشی مصائب سے دوچار ہیں ۔ خاص طور سے کسان طبقہ اس سے سب زیادہ متاثر ہے۔ بی جے پی نے سلگتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے بجائے مختلف جذباتی اور مذہبی عنوانات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ۔

مندر کے علاوہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ چھیڑا ، اور بھی کئی ایسے معاملے اچھالے ماب لنچگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ، دلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ لیکن یہ سب حربے رائیگاں گئے ۔قصہ مختصر کہ مودی اور بی جے پی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کو ایک مضبوط متبادل اور پروگرام کے ذریعہ مؤثر طریقہ پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کیلئے بھی ضروری ہے کہ سافٹ ہندوتوا سے دور رہ کر لبرل فورسز کی قیادت سنبھال کر اپنی ماضی کا غلطیوں کا ازالہ کرکے ایک سیاسی حکمت عملی ترتیب دے۔

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/26/1970/feed 0
آسان نکاح: تقریروں سے نہیں نمونوں سے۔۔۔۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی https://urdu.asianmail.in/2019/01/23/1966 https://urdu.asianmail.in/2019/01/23/1966#respond Wed, 23 Jan 2019 16:08:29 +0000 http://azaan.world/?p=1966 مسلم سماج میں بڑھتی ہوئی شادی بیاہ کی مسرفانہ رسوم پر روک لگانے اور آسان نکاح کو فروغ دینے کے مقصد سے مہمات منائی جاتی ہیں ، بڑے بڑے جلسے کیے جاتے ہیں ، دھواں دھار تقریریں کی جاتی ہیں ، قرآن و حدیث کے حوالے دیے جاتے ہیں ، لیکن ان کا سننے والوں پر ذرا بھی اثر نہیں دکھائی دیتا _ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مہمات میں پیش پیش رہنے والے اور جلسوں میں تقریریں کرنے والے جب خود اپنے بچوں کا نکاح کرتے ہیں تو انہی تمام رسموں پر عمل کرتے ہیں جن سے دوسروں کو روکتے آئے تھے _ اپنے لڑکے کا نکاح کرتے ہیں تو خوب جہیز وصول کرتے ہیں اور اپنی لڑکی کا نکاح کرتے ہیں تو بڑی برات کا استقبال کرتے ہیں اور اس کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے _

اوّلاً کس کی ہمّت ہے کہ انھیں ٹوک سکے؟ اور ان کے قول و عمل میں تضاد کی طرف انہیں متوجہ کرسکتے؟ اگر کوئی منچلا پوچھ ہی بیٹھے کہ آپ نے جہیز کیوں لیا ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے منع کیا تھا ، مگر لڑکی والے ہی نہیں مانے _ اگر وہ پوچھ بیٹھے کہ آپ نے اپنی لڑکی کے نکاح کے موقع پر دعوتِ شیراز کا اہتمام کیوں کیا؟ تو کہتے ہیں کہ میرے اہلِ تعلق کا وسیع حلقہ ہے ، سماج کے سربرآوردہ لوگوں سے میرے قریبی روابط ہیں ، انھیں مدعو کرنا ضروری تھا _ پھر جب یہ سب کرنا ہی تھا تو آسان نکاح کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت کیا تھی؟

ضرورت ہے کہ آسان نکاح کے جلسے بند کردیے جائیں ، یا انھیں بڑی حد تک محدود کردیا جائے _ اس کے بجائے آسان نکاح کے نمونے پیش کیے جائیں _ سماج کے سربرآوردہ افراد ، علماء ، سماجی مصلحین اپنے عزیزوں کا نکاح سادگی سے کریں ، خرافات پر مبنی رسوم سے احتراز کریں ، نکاح کی مجلسیں مسجدوں میں منعقد کی جائیں ، دولہا کے ساتھ گنتی کے چند لوگ جائیں ، جہیز کے رواج کو سختی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلے میں لڑکے والے پہل کریں _

اگر ہر شہر میں چند باشعور لوگ ہمّت کرکے آگے بڑھیں ، چند نوجوان خود کو پیش کریں اور سادگی کے ساتھ منعقد ہونے والی تقریبات کی بڑے پیمانے پر پبلسٹی کی جائے تو امید ہے کہ آسان نکاح کو رواج ملے گا _

یاد رکھیں ، آسان نکاح کا رواج تقریروں سے نہیں ، نمونوں سے ہوسکتا ہے _ قابل مبارک ہیں وہ لوگ جو ایسے نمونے پیش کریں _

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/23/1966/feed 0
ٹک ٹاک، فحاشی اور اور بے حیائی ۔۔۔۔جی ایم عباس https://urdu.asianmail.in/2019/01/20/1961 https://urdu.asianmail.in/2019/01/20/1961#respond Sun, 20 Jan 2019 11:52:23 +0000 http://azaan.world/?p=1961 اس دورِ جدید میں انسان کی دلچسپی اور معلومات کے لئے سائنس کے ذریعے بہت سے اہم وسائل ایجاد اور دریافت ہوئے ہیں. سائنس نے انسان کو سہولیات و آرام دینے کے لئے لاتعداد ذرائع فراہم کئے ہیں جس سے انسان کو گھر بیٹھے دنیا بھر کے  حالات و واقعات ، معلومات اور تفریح و فرحت حاصل ہوتی ہیں. سائنس کیا ہے.. ؟ یہ ایک عام اور سادہ سا سوال ہے. یوں سمجھئے سائنس علم کی ایسی لازوال  نعمت ہے جو  علیم و حلیم پروردگار عالم کی طرف سے  انسان کو عطا کیا گیا ہے .اور اسی سائنس نے انسان کی زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بپا کر دیا ہے.بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دورِ جدید  میں قدرت کی طرف سے انسان کو سب سے بڑا عطیہ سائنس کی ایجادات ہیں تو بے جا نہ ہوگا.اکیسویں صدی عیسوی کے انسانوں کے لئے سائنس اگر چہ  ایک عظیم نعمت ہے لیکن اگر اسکے دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو اسکے بہت سارے منفی اور نقصان دہ نتائج بھی ہیں. حالانکہ سائنس کی ایجادات بذات خود کبھی بھی نقصان دہ نہیں ہیں البتہ یہ انسان ہی ہے جس نے ان ایجادات اور  برکات  کو رحمت کے بجائے اپنی بے انتہا حِرص کی وجہ سے زحمت بنادیا ہے.سائنس کی ایجادات کا صحیح اور جائز طرح سے استعمال ہونا ضروری ہے.ورنہ یہ انسانیت کے لئے تباہی اور بربادی کی وجہ بن سکتے ہیں. سائنس نے جن بے شمار ایجادات سے انسان کو نوازا ، ان میں انٹرنٹ سائنس کی جدید ترین کھوج ہے. انٹرنٹ کا مفید پہلو یہ ہے کہ اس سے الیکٹرانک پیغام کی انتہائی برق رفتاری کے ساتھ ترسیل ہوجاتی ہے انٹرنٹ معلومات کا ذخیرہ ہے اور موجودہ دور میں ترسیل کا اہم اور بنیادی ضرورت بن گیا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنٹ کا صحیح اور جائز استعمال کرکے اس پر کارآمد معلومات جمع کرنی چاہئے.
انٹرنٹ کے خوبیوں اور فائدوں سے تو  انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے  کہ انٹرنٹ کی سوشل میڈیا ویبسائٹس فحاشی اور بے ہودگی کی آماجگاہ بن گئی ہیں. کیونکہ مخرِب اخلاق اور گندی چیزیں انٹرنٹ کی مختلف ویبسائٹس پر اسطرح آتی ہیں جو بڑی شرمناک اور انسانی تہذیب کے لئے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں. بعض مناظر تو ایسے فحش ہوتے ہیں جن سے نوجوان پود دن بدن اخلاقی پستی کا شکار ہوتی جارہی ہیں. مخرِب اخلاق اور انتہائی فحش سوشل میڈیا  ویبسائٹس سے نئی نسل کو اخلاقی طور تباہ کیا جارہا ہیں. کیونکہ انٹرنٹ کی فحش بھری ویبسائٹس کے ذریعے کمائی کے لئے عورت کا عریاں جسم  بہت مؤثر ثابت ہورہا ہے .شاید اس بات سے سبھی اتفاق کریں گے کہ اگر انٹرنٹ پر کسی چیز سے دولت کمائی جاسکتی ہے تو وہ جنس اور کھیل ہیں. ماڈلوں کے ذریعے جسم کی نمائش کا خوب مظاہرہ ایسا ہوتا ہے کہ ان سے شیطان بھی شرما جاتا ہے. ٹک ٹوک ایپ بھی اسی فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینے کے لیے یہود و نصاری کے ابلیسی سوچ سے  انٹرنیٹ پر وجود میں لائی گئی ایپ ہے جسکو  چین نے 2016 کے ستمبر  ماہ میں لانچ  کیا تھا  اور صرف دو سال میں ٹک ٹوک نے شہرت کی بلندیوں کو اسطرح چھو  لیا کہ  اتنی شہرت فیس بک اور یوٹیوب کو  کم سے کم تیس چالیس برسوں میں حاصل نہیں ہوسکی.
ٹک ٹوک ایسی ایپلیکیشن ہے کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں  صرف پندرہ بیس سکینڈ کی ویڈیو جو فحاشی اور بےحیائی کی عکاسی کا منظر پیش کرتی ہے ، شئیر کرکےمشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں.  اسطرح ٹک ٹوک نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہی ہے اور انٹرنٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلیکیشن بن گئی ہے. یہ ایپ نوجوانوں بلکہ نوجوان  لڑکیوں میں اسلیے زیادہ مقبول ہے کیونکہ اس ایپ کے ذریعے آسانی سے خودنمائی کی شیطانی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہے اور صارفین کے دل لبائے جاتے ہیں  جسکے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر نازیبا کمنٹس کی انتہا آتی ہیں اور بعض صارفین لڑکیوں سے پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں. جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور معاشرے کے باشندے خاموشی سے اس بے حیائی اور بے شرمی کے سمندر میں ڈوبے جارہے ہیں. اللہ ہماری حفاظت فرمایے.
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ٹک ٹوک  کی اس لاعلاج بیماری میں صرف لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ بچے بھی دیوانے ہورہے ہیں اور بچیوں کے ساتھ اپنی ویڈیو  بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور فحاشی اور زیادہ بڑھ رہی ہے. دراصل اس ایپ کے لانچ کرنے کے پیچھے مسلمانوں کے دشمن یہود و نصاری کا وہ ابلیسی سوچ کارفرما ہے جس کے ذریعے وہ دن بہ دن مسلم نوجوان کو اپنے فریب میں پھنسا کر بےحیائی اور بے شرمی کے سمندر میں ڈوبوتے ہیں. اسطرح یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر اسلام کو میڈیا وار کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اور ہمارے نوجوان اس فریب میں بری طرح محو ہورہے ہیں. المیہ یہ ہے کہ والدین حضرات  یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچارہے ہیں. ٹک ٹوک کا خمار کشمیر میں بھی سامنے آرہا ہے. ہر نئے روز یوٹیوب ایپ ہر  برہنہ کپڑوں میں وادی کشمیر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ٹک ٹوک ویڈیوز انٹرنٹ آن کرتے ہی موبائیل سکرین پرآتے ہی دل لرز اٹھتا ہے. اللہ رحم کرے مسلمانوں پر.
اس ایپ کے مضر پہلوؤں کو دیکھ کر دنیا کے کچھ  ممالک میں بند بھی کیا جا چکا ہے، کیونکہ یہ ایپ خصوصاً بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہوئی ہے، ٹک ٹوک میں بہت سے لوگ بچوں کو  ورغلا رہے ہیں، وہ اپنی عمر کم دیکھا کر نمبر مانگنے اور چھوٹے بچوں کو ملنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور موصعلہ رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر کے ممالک میں ایسے بہت سے کیس درج ہوئے ہیں. ماہرین کے مطابق اس ایپ نے کم وقت میں بہت شہرت حاصل تو کی ہے، لیکن اس ایپ نے  بچوں کو شارٹ فلم بنانے کے جو فیچرز مہیا کیے ہیں اسے معاشرہ تباہ ہورہا ہے. میڈیا رپورٹوں کے مطابق ٹک ٹوک کے بےہودہ وائرل ویڈیوز کو پاکستان جیسے مسلمان ملک میں قومی سطح پر مذمت کیا جارہا ہے. اور اب ٹک ٹوک ایپ  پاکستان میں بند ہونے جا رہی ہے.کیونکہ نو شہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے سیٹزن پورٹل کے ذریعے شکایت  کی ہےکہ  سوشل میڈیا کی یہ ایپ پاکستانی نوجوانوں کے لیے خطرناک ہے اس کو بند کردینا چاہیے. اگرچہ یہ ایپ تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن دنیا میں بہت سارے ابلیسی خیال رکھنے والے لوگ اس کا غلط استعمال کررہے ہیں. لوگوں کی رائے میں اس ایپ سے معاشرہ متاثر ہو رہا ہے، ایک لحمہ کے لیےجب ہم لڑکے اور لڑکیوں کی کراس ویڈیو پر آتے ہیں جہاں گانوں اور ڈائی لاگز پر نوجوان جنسی اور نازیباحرکتیں کرتے  نظر آتے ہیں جو بےحیائی کا سمندر ثابت ہورہا ہے.
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام دین فطرت ہے اور حیا و پاکدامنی کی زندگی پسند کرتا ہے. جبکہ بے حیائی اور فحاشی سے بالکل منع کرتا ہے. واضع ہو مومن بلکہ مومن نوجوان جہاں بھی ہوگا، باحیا ہوگا. اسلام نے حیا کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے. اسلیے ہمارے نوجوان پود کو ذرا سوچنا چاہیے کہ وہ کس مقصد کے لیے دنیا میں آیے ہیں. عیاشی اور فحاشی غیرمسلموں کا کام ہے. مسلمان نوجوان ہمارے  معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہیں اور قوم کی ساری امیدیں ان سے وابستہ ہے.  یہی وہ قوت ہیں جو آنے والی نسلوں کے رہن سہن اور سوچ میں تبدیلی اور انقلاب کا باعث بنتی ہے.کسی بھی معاشرے کی نئی نسل اس وقت تک اپنے مقصد کو نہیں پا سکتی جب تک اسکے عقائد درست نہ ہو.نوجوان ہی اپنی قوم کے لئے عظیم اور ناقابل فراموش کارنامے انجام دیتے ہیں. ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے. اگر یہ نوجوان جس کے ہاتھ میں 4G موبائل اور انٹرنٹ کی فحش ویب سائٹس اور ایپلیکیشن ہوتی ہیں ، اپنے آپکو اور معاشرے کو بدلنے کا  مستحکم ارادہ کر لے تو وہ دن دور نہیں کہ جب پورا کا پورا معاشرہ اسلامی معاشرہ میں تبدیل ہوگا.
موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا غلبہ ہے اور دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے. سوشل میڈیا نے انسان کو ایک مشین بنا کے رکھ دیا ہے. اسکی سُدھ بُدھ جاتی رہی ہے. اس کا دماغ معطل کر دیا ہے. عیش و عشرت اسکا مقصد حیات بن چکا ہے. روحانیت اور انسانیت سسک رہی ہے. انسانیت کے جس سوتے سے احترام ، اکرام ، خلوص ، اخوت ، محبت ، ایثار ، ہمدردی ، روداری ، فیاضی ، شرم و حیا، پاکدامنی ،ایمانداری ، فرمابرداری،مساوات، حق پرستی، خدا ترسی،بھائی چارہ،اور انصاف پروری کے چشمے پھوٹتے تھے آج سوشل میڈیا پر مخرب اخلاق اور فحش ویبسائٹس کی وجہ سے معدوم ہوگئے ہیں اور انسان کو اخلاقی قدروں سے محروم کردیا ہے. اسطرح یہ ٹیکنالوجی انسانیت کے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے. علامہ اقبال علیہ رحمہ اپنی ایک بلیغ نظم میں مسلم نوجوان کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
چھوڑ یورپ کے لئے رقصِ بدن کے خم و پیچ
روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللّہی
صلہ اُس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن
صلہ اِس رقص کا درویشی و شاہنشاہی
ان اشعار کی "ضرب کلیم” میں مختصر تشریع یوں کی گئی ہیں ، اقبال علیہ رحمہ کہتے ہیں،اے مسلم نوجوان! یہ رقصِ بدن (اچھلنا ، کودنا اور ناچ ، مجرا) تیرے لئے مناسب نہیں ہے اس ناچ میں یورپ کی قوموں کو مصروف رہنے دے کیونکہ وہ مادہ پرست ہیں اور رقص بدن کے علاوہ اور کسی قسم کا رقص انکی سمجھ میں نہیں آسکتا. تو اپنی روح کو رقص کرنا سکھا.کیونکہ اللّہ نے تجھے اسلئے پیدا کیا ہے کہ تو اپنے زمانہ کے فراعنہ (وہ لوگ جو اللّہ کے قانون کے بجائے اپنا وضع کردہ قانون ملک میں نافذ کرتے ہیں اور اللّہ کے بندوں کو اس قانون کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں) کا مقابلہ کر سکے اور ظاہر ہے کہ یہ طاقت تجھ میں اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب تو اپنے اندر شانِ کلیمی پیدا کرلے اور یہ شان اس وقت حاصل ہوتی ہے جب روح رقص کر سکے. یاد رکھ کہ جسم کے رقص کا صِلہ یہ ہے کہ انسان تھوڑی دیر کے لئے تو لطف اندوز ہوجاتا ہے لیکن رقص سے فارغ ہو کر بالکل تھک جاتا ہے اور تشنگی محسوس کرتا ہے. چنانچہ اس تشنگی کو اپنی حماقت کی بناء پر جام آشتین سے بجھاتا ہے اور اس کا نتیجہ خمار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور اسکے رفع کرنے کے لئے صبوحی درکار ہوتی ہے اور اسطرح ساری عمر اسی خمار اور سکر کے چکر میں گرفتار رہ کر حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنے کے بعد راہی ملک عدم ہوجاتا ہے. مختصر یہ کہ رقص تن تو محض تیرے جسم کو گردش میں لاسکتا ہے لیکن روح کے رقص کا صلہ ایسا عظیم الشان ہے کہ تیرے تصور میں بھی نہیں آسکتا جو شخص روح کو رقص کرنا سکھا دیتا ہے ، فرشتے درویشی (خدا پرستی اور خدا ترسی) کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں اور رقصِ روح سے تو ساری کائنات کو گردش میں لاسکتا ہے بلکہ اسکی بدولت تیرے اندر اس قدر طاقت پیدا ہوجائے گی کہ نئی دنیا پیدا کر سکے گا. ایک مشہور قول ہے کہ بچپن کھیل میں، جوانی مستی میں اور بڑھاپا سستی میں گذرا تو خدا ترسی کب ہوئی”. ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے  نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجودہ مخرب اخلاق اور فحش ویبسائٹس سے اپنے آپکو دور رکھ کر بے شمار بُرائیوں اور لاتعداد رذائل سے بچنے کی کوشش کریں گے. یہی اصلاح معاشرہ کا عزم اور پیغام ہے.

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/20/1961/feed 0
مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی گرفت https://urdu.asianmail.in/2019/01/15/1959 https://urdu.asianmail.in/2019/01/15/1959#respond Tue, 15 Jan 2019 14:02:29 +0000 http://azaan.world/?p=1959

نظریات:

لفظ ’انقلاب‘ کے مفہوم کو متعین کرتے ہوئے کوسِل لیک نے کہا تھا کہ کچھ اصطلاحیں اس قدر مشہور و معروف ہوجاتی ہیں؛ ان کی اتنی مختلف اور بسا اوقات متضاد تعبیریں سامنے آتی ہیں کہ عملاً وہ اصطلاحیں ایک ’نعرہ‘ بن جاتی ہیں۔ ہر بولنے والا اس سے اپنا مفہوم مراد لے سکتا ہے اور لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پائیں گے کہ کوئی نوجوان اگر اچانک ’’انقلاب‘‘ کی آواز بلند کردے اور مجلس میں این ایس یو آئی، آئی سا، باپسا، اے بی وی پی اور ایس آئی او کے ارکان موجود ہوں تو ہر ایک بلا اختیار ’زندہ باد‘ کا نعرہ لگا دے گا حالانکہ ہر ایک کے انقلاب کا تصور ایک دوسرے سے بالکل جدا بلکہ شاید معاندانہ ہوگا۔ یہ بات جتنی انقلاب کے لیے صحیح ہے اس سے کہیں زیادہ ’نظریہ‘ کے لیے ہے۔ اور پھر اردو میں تو ’نظریہ‘ ذرا زیادہ ہی پائمال ہے۔ جب روزمرہ زندگی میں یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس بات کو صرف سیاق طے کرتا ہے کہ مندرجہ ذیل میں سے متکلم کی مراد کیا ہے۔

مفہوم اول: اپنے نظریہ سے آپ صحیح ہیں لیکن میرے نظریے کے مطابق اپنے بھائی کے ساتھ کسی کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ (بطور زاویۂ نظر perspective/viewpoint )

مفہوم ثانی: ہابس کا نظریہ ہے کہ ایک عمرانی معاہدے کے نتیجے میں ریاست کا ظہور ہوا۔ (بطور کسی مفکر کے افکار کا چھوٹا یا بڑا مجموعہ)

مفہوم ثالث: آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ (بطور ایک خاص علمی یا تصوراتی حقیقت)

مفہوم رابع: حنفی نظریہ کے مطابق سمندری کیکڑے حلال نہیں ہیں۔ (بطور ایک خاص مکتب فکر)

مفہوم خامس: نیشنلزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس نے دنیا میں صرف تباہی پھیلائی ہے۔ (بطور ماڈرن آئیڈیولوجی)

مفہوم سادس: میں صرف جلوس میں مقبول نہیں ہوں بلکہ اپنے گھر،آفس اور بازار میں بھی میرا نظریہ مقبول ہے۔ (بطور ایک مکمل نظام زندگی)

مفہوم خامس و سادس میں ایک باریک سا فرق ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ ایک آدمی (مفہوم خامس کے مطابق) صرف فلسفیانہ سطح پر کمیونسٹ ہے اگر وہ پولت بیورو کی نشستوں میں پامردی دکھاتا ہے؛ جلسے جلوسوں اور احتجاجوں میں شرکت کرتا ہے، سماج اور ریاست کو کمیونسٹ خطوط پر ڈھالنا چاہتا ہے لیکن اپنی ذاتی زندگی میں پوجا پاٹ کا اہتمام کرتا ہے، جینو پہنتا ہے، ذات پات کی پابندیوں کو قبول کرتا ہے، خشوع و خضوع کے ساتھ ہولی دیوالی مناتا ہے، اور عیش و آرام میں زندگی بسر کرتا ہے۔ (مفہوم سادس کے مطابق) اگر وہ نظام زندگی کی سطح پر کمیونسٹ ہوگا تو اس کی زندگی میں یہ دورنگی نہیں پائی جائے گی۔ وہ مارکس اور لینن کے اسوے کے مطابق صرف اجتماعی نہیں اپنی ذاتی زندگی میں بھی ملحد ہوگا۔ سادگی سے زندگی بسر کرے گا۔ خاندان، سماج، اقدار، اور روایات کی پروا نہیں کرے گا۔ یہی معاملہ ان افراد کا بھی ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمارا نظریہ زندگی ہے۔ اگر وہ صرف فلسفیانہ یا دانشورانہ سطح پر مسلمان ہیں تو اجتماعی زندگی میں۔۔۔ تحریر تقریر، احتجاج، نعروں اور فیس بک پر یہ اسلامیت نظر آئے گی لیکن بیٹی کو وراثت دینی ہو؛ بیٹے کی شادی میں جہیز نہ لینا ہو، اسراف نہ کرنا ہو، فجر کی نماز باجماعت پڑھنی ہو۔۔۔ تو اس سلسلے میں کوتاہیاں پائی جائیں گی۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جب کہتے ہیں کہ اسلام اللہ کا نازل کردہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ تو ان کی مراد مفہوم خامس نہیں مفہوم سادس ہے۔ یہاں اسلام کوئی نقطہ نظر، کسی مفکر کی خیال آرائی، کوئی فروعی اجتہادیا علمی حقیقت، کوئی مکتب فکر، یا فلسفہ نہیں بلکہ فرد کی ذاتی و اجتماعی، الغرض زندگی کے ہر پہلو کو منظم کرنے والا ایک نظام ہے۔ اس میں کسی عقیدے کو تسلیم کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اپنی پوری عملی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال لینا بھی شامل ہے۔ نظریہ نامی اصطلاح کا یہ وسیع تصور مولانا مودودیؒ کا مجتہدانہ کارنامہ نہیں ہے۔ متعدد سیاسی و سماجی مفکرین نے اس کی یہی جامع تعریف بیان کی ہے۔ مثال کے طور پر مارٹن سیلیگر کہتے ہیں، ’’نظریات کچھ ایسے عقائد و اقدار کا نام ہے جو افراد کو عمل پر آمادہ کردیں‘‘۔ نظریے کی اس مختصر مگر جامع تعریف میں تمام جہتوں کا لحاظ کیا گیاہے۔ ایک ایسی فکر جس کے ساتھ عمل یا عمل کے لیے کوئی تحریک نہ ہو فلسفہ تو ہوسکتا ہے نظریہ نہیں۔ ایک ایسا عمل جس کے پیچھے کوئی فکر نہ ہو، سرگرمی تو ہوسکتا ہے مگر نظریہ نہیں۔ نظریہ اسی شے کا نام ہوسکتا ہے جو بیک وقت فرد اور سماج کو فکر بھی دے اور عمل کا پیغام بھی۔

مولانا مودودیؒ کاتجزیہ:

کیا مولانا مودودیؒ کو یہ بات معلوم تھی کہ لفظ نظریہ کے ایسے محدود اور جامع معنی ہوتے ہیں؟ جی ہاں!ہر دانش مند آدمی کی طرح مولانا مودودیؒ بھی یہ بات جانتے تھے خود انہوں نے نظریہ اور نظام کو ان محدود معنوں میں بھی استعمال کیا ہے مثلاً:

’’میکیاولی نے اس نظریہ کی وکالت کی کہ سیاسی معاملہ میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘، ’’کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سر عنوان تھا لبرل اِزم‘‘، لبرل اِزم کے ’’۔۔۔نظریہ پر جس معاشی نظام کی عمارت اٹھی اس کا نام جدید نظامِ سرمایہ داری ہے‘‘۔ کسی بھی مذہب، اخلاقی نظام اور قانون نے ’’یہ نظریہ اختیار نہیں کیا کہ معیشت و تمدن کی وہ صورت بجائے خود غلط ہے جو ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت سے بنتی ہے‘‘۔ سوشلسٹ ’’۔۔اسکیم کو۔۔نافذ کرنے کے لیے آپ مجبور ہوں گے کہ سرے سے ایک نیا ہی نظریۂ اخلاق وضع کریں، جس کے تحت ہر ظلم و جبر۔۔۔ جائز ہو‘‘۔ روس کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا نظریہ یہ ہے کہ اگر بھول چُوک سے چند سو یا چند ہزار بے گناہ آدمی پکڑے اور مار ڈالے جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ چند گنہگار چھوٹ جائیں‘‘۔ فاشسٹوں نے لبرل اِزم کے اس نظریے کو بھی بالکل بجا طور پر رد کردیا کہ حکومت صرف پولیس اور عدالت کے فرائض انجام دے۔ ’’اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان متوسط معاشی نظریہ اختیارکیا ہے‘‘۔

’’کیا ہمارے پاس کوئی ایسی روشنی موجود نہیں ہے جس کی مدد سے ایک متوازن نظام بنایا جاسکتا ہو؟‘‘

’’۔۔۔اسلام خود ایک نظامِ زندگی رکھتا ہے‘‘۔

اس طویل تمہید سے صرف اس قدر ثابت کرنا مقصود ہے کہ مولانا مودودیؒ لفظ ’نظریہ‘ اور ’نظام‘ اور ان الفاظ و اصطلاحات کی تہہ داری سے بخوبی واقف تھے، معترضین عموماً ان اصطلاحات کے صرف تنگ تصور سے آشنا ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان اصطلاحات کو وسیع سمجھنے میں مولانا مودودیؒ خطا کرگئے۔

مغرب، مغربی افکار و نظریات، نفسیات اور تصور کائنات کا ناقدانہ تجزیہ مولانا مودودیؒ کی علمی و دانشورانہ خدمات کا ایک روشن باب ہے۔ ہر طرح کی مرعوبیت سے مبرا ہوکر مغرب کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنا اور اس کی خوبیوں کو تسلیم کرتے ہوئے خامیوں کی نشاندہی کرنا وہ معقول اور مدلل علمی شاہراہ ہے جس پر اس کامیابی کے ساتھ اس سے پہلے کوئی نہ چل سکا تھا۔ اوروں کا تو خیر کیا ذکر،سرسید اور امیر علی جیسے دانشور بھی اپنے تمام تر اخلاص کے باوجود مغرب سے یک گونہ مرعوب تھے۔ دوسری طرف قدامت پسند علما مغرب کی مخالفت میں ایک الگ ہی انتہا پر تھے۔

اِدھر یہ ضد ہے کہ لیمنڈ بھی چھو نہیں سکتے
اُدھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحی مے لا

قوانین فطرت:

اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ وضاحت کرتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال میں اللہ کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ’’اس معاملہ میں خدا کا نقطہ نظرہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انہی کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آجاتا، اس وقت تک انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے‘‘۔ اسی طرح وہ جب دنیا کو ایک ریل گاڑی سے تعبیر کرتے ہیں ’’جس کو فکر و تحقیق کا انجن چلا رہاہے‘‘ تو یہ سبق دیتے ہیں مغرب کے غلبہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’’چار پانچ سو سال تک مسلمان اپنے بزرگوں کے بچھائے ہوئے بستر پر آرام سے سوتے رہے اور مغربی قومیں اپنے کام میں مشغول رہیں‘‘۔ اور پھر جب یہ قومیں اٹھیں تو قلم اور تلوار دونوں طاقتوں سے دنیا پر چھا گئیں۔

قوموں کی امامت و سیادت کے ان اصولوں کے بیان سے مولانا مودودیؒ کا یہ موقف واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مغرب پر نظری تنقید تو کرتے ہیں لیکن یہ بات خود بھی سمجھتے ہیں اور سمجھانا بھی چاہتے ہیں کہ ان کا فکری، تہذیبی اور سیاسی غلبہ کسی اتفاق کا نہیں بلکہ فطرت کے اٹل قوانین کا نتیجہ ہے خواہ وہ ’نافعیت‘ کے حوالے سے ہو یا ’فکر و تحقیق‘ کے حوالے سے۔ مغرب کی اس حوالے سے قدردانی سکے کا ایک رخ ہے، سکے کا دوسرا رخ مغربی افکار، اقدار، مسلمات اور تہذیب پر جم کر تنقید ہے۔ علم و تحقیق کے میدان میں یہ معقولیت، معروضیت اور اعتدال مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی اہم خصوصیت ہے۔ اس تنقید کی صرف اخلاقی اور ادبی ہی نہیں بلکہ علمی شان بھی نرالی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے مغرب کا مطالعہ ثانوی نہیں پرائمری سورسس سے کیا ہے اور اپنے لٹریچر میں ان ماخذوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وقت اور حالات، اسلاف کے علمی کارناموں سے اخذ و استفادہ، گہرا اور ناقدانہ مطالعہ، گھر کا ماحول اور یقیناً مشیت الٰہی وہ عوامل ہیں جس کے نتیجے میں مولانا مودودیؒ نے وہ کام کیا، جو ملت اسلامیہ پر ایک فرض کفایہ تھا۔

مقالہ ہذا میں مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی منظم تنقید کا مطالعہ ان کے دو رسالوں کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔ ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ میں انہوں نے لبرل اِزم/ کیپٹلزم؛ کمیونزم اور فاشزم کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور ’’مسئلۂ قومیت‘‘ میں نیشنلزم پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ نے سیکولرازم پر بھی گفتگو کی ہے لیکن اس گفتگو کو مختلف کتابوں اور تحریروں سے چھانٹ کر یکجا کرنا اور اس کا جائزہ لینا ایک مستقل کام ہے جو فی الحال میں نہ کرسکا لہٰذا آج ہمارا ارتکاز مذکورہ بالا چار نظریات ہی پر ہوگا۔

نظریات کے اس تجزیے کا آغاز مولانا مودودیؒ نے موجودہ عمرانی مسائل کے تاریخی پس منظر کی وضاحت سے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’تمدن اور سیاست اورمعیشت کے بارے میں ہمارے بیشتر مسائل اور ان مسائل میں ہماری الجھنیں ان حالات کی پیداوار ہیں جو مغربی زندگی میں انہی مسائل اور انہی الجھنوں کی پیدائش کے موجب ہوئے ہیں۔‘‘ چونکہ مغرب ہی فکری و عملی میدان میں دنیا کی امامت کر رہا ہے لہذا ’’ہمارے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی اکثریت ان مسائل کے حل کی انہی صورتوں میں اپنے لیے رہنمائی تلاش کررہی ہے جو مغربی مدبرین و مفکرین نے پیش کی ہیں۔‘‘ لہٰذا حل کی ان صورتوں کا، مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں ’’شجرہ نسب‘‘ جاننا ضروری ہے۔ (ا ج م ن: ۷)

اس کے بعد نظام جاگیرداری (Feudalism) کے خواص پر گفتگو ہوئی کیونکہ جدیدیت (Modernism) اسی کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی۔ اس میں زمین کی ملکیت کا بنائے اقتدار ہونا؛ عیسائیت کا (موسوی شریعت کے انکار کے نتیجے میں) اس نظام جاگیرداری کی اچھی بری ہر بات کو مذہبی تقدس عطا کردینا؛ اور تجارت، صنعت اور ذہنیت کا چھوٹے چھوٹے جغرافیائی خطوں میں محصور ہوجانا قابل ذکر ہے۔ یورپ کے نظام جاگیرداری کے اس جمود کو نشاۃ ثانیہ نے چیلنج کرنا شروع کیا۔ یہ کشمکش جوچودہویں صدی سے شروع ہوئی، جس میں کلیسا نے نظام جاگیرداری کا ساتھ دیا اور سائنس نشاۃ ثانیہ کا امام بنا، سولہویں صدی تک اپنے فیصلہ کن دور میں پہنچ گئی۔ اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب نے نظام جاگیرداری کا بالکل خاتمہ کردیا۔

لبرل اِزم اور کیپٹلزم:

لبرل اِزم کیا ہے؟ وکی پیڈیا میں لبرل اِزم کا پیج کھولیں تو دائیں طرف اس کے variants دکھائی پڑتے ہیں، جن کی تعداد کسی طرح بھی بیس سے کم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کس لبرل اِزم کی بات کررہے ہیں؟ کیا مولانا مودودیؒ کو اس بات کا علم تھا کہ لبرل اِزم کئی طرح کے ہیں؟ شاید ایک عام ذہن میں نہیں لیکن سیاسیات کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے، لیکن اسے اطمینان بخش جواب ملتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نشاۃ ثانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سر عنوان تھا ’’لبرل اِزم‘‘ یعنی ’وسیع المشربی‘۔‘‘یہاں ’جن نظریات‘ کا استعمال قابل غور ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ لبرل اِزم کئی قبیل کے پائے جاتے ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ مولانا مودودیؒ کو لبرل اِزم پر کوئی تھیسس نہیں لکھنی تھی لہٰذا انہوں نے لبرل اِزم کے مسلمہ اصولوں سے بحث کی ہے اور فروعات سے تعرض نہیں کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اسی مختصر رسالے میں انہوں نے دور متوسط کا لبرل اِزم،جدید لبرل اِزم کے الگ الگ ذیلی عناوین قائم کیے ہیں۔ اسی سیاسی و سماجی لبرل اِزم کی معاشی شکل کے طور پر کیپٹلزم کا وجود ہوا۔ چنانچہ صرف جدید نظام سرمایہ داری نہیں بلکہ کمیونزم اور فاشزم کے جھٹکوں سے سبق سیکھ کر نظام سرمایہ داری نے جو اندرونی اصلاحات کیں ان پر بھی بحث کی ہے۔

سیاست و معیشت کے میدان میں ان نظریات کی بنیاد زندگی کے ہر شعبے اور فکر و عمل کے ہر میدان میں کشادگی ہے۔ چنانچہ جدید لبرل اِزم نے سیاسیات میں جمہوریت کا، تمدن و معاشرت، ادب و اخلاق میں انفرادی آزادی کا اور معاشیات میں بے قیدی (Laissez Faire) کا صور پھونکنا شروع کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ چرچ ہو یا اسٹیٹ یا سوسائٹی، کسی کو بھی فرد کی سعی ارتقا اور سعیٔ انتفاع میں رکاوٹیں عائد کرنے کا حق نہیں ہے‘‘۔ فردکی اسی غیر محدود آزادی میں معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔ بعد میں سیاسی و سماجی لبرل اِزم کی معاشی شکل کے طور پر کیپٹلزم کی پیدائش ہوئی۔ یہ نظریہ جن بنیادی اصولوں پر قائم ہوا وہ ’شخصی ملکیت کا حق آزادیٔ سعی کا حق‘؛ ’ذاتی نفع کا محرک عمل ہونا‘ ’مقابلہ اور مسابقت‘ ’اجیر و مستاجر کے حقوق کا فرق‘، ’ارتقا کے فطری اسباب پر اعتماد اور ’ریاست کی عدم مداخلت‘ ہیں۔

لبرل اِزم کے مثبت پہلو:

٭ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ لبرل اِزم اپنے اندر صداقت کے بعض ’’عناصر‘‘رکھتا ہے۔ سرمایہ داری نے بھی جو اصول پیش کیے ’’ان کے اندر کسی حد تک مبالغہ کے باوجود صداقت پائی جاتی تھی۔۔۔۔‘‘

٭ بورژوا طبقے نے کامیابی کے ساتھ کلیسا اور جاگیرداری کے استبداد کو چیلنج کیا اور فکر و تحقیق اور صنعت و تجارت کے ارتقا کے نقیب ثابت ہوئے۔

٭ اس نظریہ کے حامی نظری طور پر انسانی آزادی، مساوات اور حقوق کے قائل تھے۔ وہ ظلم و استبداد، شاہی خاندانوں یا زمینداروں کے ہاتھوں میں سیاسی قوت کے ارتکاز کے مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ملک عام باشندوں کا ہے۔ حکومت کا سارا کاروبار انہی کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے چلتا ہے۔ لہٰذا انہی کی رائے سے حکومتیں بننی اور ٹوٹنی اور بدلنی چاہییں اور انہی کو قانون سازی اور نظم و نسق میں فیصلہ کن اثر حاصل ہونا چاہیے۔ یہی نظریات جدید جمہوریتوں کی بنیاد بنے‘‘۔

منفی پہلو:

٭ دور متوسط کے لبرل اِزم کی انتہا پسندی پر تنقید کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

اس کشمکش میں اگر اہل کلیسا اور جاگیرداروں کی تنگ خیالی ایک انتہا پر تھی تو ان بورژوا حضرات کی وسعتِ مشرب دوسری انتہا کی طرف چلی جارہی تھی۔ ایک گروہ نے اگر بے اصل عقائد، ناروا امتیازات اور زبردستی کے قائم کردہ حقوق کی مدافعت میں خدا اور دین اور اخلاق کا نام استعمال کیا، تو دوسرے گروہ نے اس کی ضد میں آزادخیالی اور وسیع المشربی کے نام سے مذہب و اخلاق کی ان صداقتوں کو بھی متزلزل کرنا شروع کردیا جو ہمیشہ سے مسلم چلی آرہی تھیں۔ یہی زمانہ تھا جس میں سیاست کا رشتہ اخلاق سے توڑا گیا اور میکیاولی نے کھلم کھلا اس نظریہ کی وکالت کی کہ سیاسی اغراض و مصالح کے معاملے میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی زمانہ تھا جس میں کلیسا اور جاگیرداری کے بالمقابل قومیت اور قوم پرستی اور قومی ریاست کے بت تراشے گئے، اور اس فتنے کی بنیاد ڈالی گئی جس کی بدولت آج دنیا لڑائیوں اور قومی عداوتوں کا ایک کوہ آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔ اور یہی وہ زمانہ تھا جس میں پہلی مرتبہ سود کے جائز اور مباح ہونے کا تخیل پیدا ہوا۔ حالانکہ قدیم ترین زمانے سے تمام دنیا کے اہل دین و اخلاق اور علما قانون اس چیز کی حرمت پر متفق تھے۔ صرف تورات اور قرآن ہی نے اس کو حرام نہیں ٹھہرایا تھا بلکہ ارسطو اور افلاطون بھی اس کی حرمت کے قائل تھے۔

٭ جدید لبرل اِزم کی خودغرضی کا کرشمہ بتاتے ہوئے مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ وسیع المشربی کا دعویٰ کرنے والے ’’۔۔جن حقوق کا خود۔۔ اپنے لیے مطالبہ کرتے تھے وہی حقوق اپنے مزدوروں اور نادار عوام کو دینے کے لیے تیار نہ تھے‘‘۔

٭ بے قید معیشت نے جن ’فطری قوانین‘ کا ڈھنڈورا پیٹا وہ اس مبالغہ کی حد تک صحیح نہیں ہیں۔ روشن خیال خود غرضی (Enlightened Self-Interest) پر خود جان مینارڈ کینز کی تنقید اور ایڈم اسمتھ کے اعتراف کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں، ’’۔۔۔بورژوا سرمایہ داروں کے اپنے عمل نے ثابت کردیا کہ ان کی خودغرضی روشن خیال نہیں تھی۔ انہوں نے خریدار پبلک، اجرت پیشہ کارکن، اور پر امن حالات پیدا کرنے والی حکومت تینوں کے مفاد کے خلاف جتھہ بندی کی اور باہم یہ سازش کرلی صنعتی انقلاب کے سارے فوائد خود لوٹ لیں گے‘‘۔ اسی طرح ’’حکومت کی عدم مداخلت کے مضمون کو ان لوگوں نے اس کی جائز حد سے اتنا زیادہ بڑھا دیا کہ وہ برے نتائج پیدا کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ جب طاقتور افراد جتھہ بندی کرکے کثیر التعداد لوگوں سے ناجائز فائدے اٹھانے لگیں اور حکومت یا تو تماشا دیکھتی رہے یا خود ان طاقتور افراد ہی کے مفاد کی حفاظت کرنے لگے، تو اس کالازمی نتیجہ شورش ہے‘‘۔

٭ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں مشینوں نے انسانی محنت کی جگہ لینی شروع کی۔ ایسے میں بے قید معیشت نے پیدا شدہ صورتحال کو مزید ابتر کردیا اوربیروزگاری کا ایک مستقل مسئلہ اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوگیا، جس سے تاریخ پہلے کبھی آشنا نہ ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ بیروزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادی، روحانی، اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورث اعلیٰ ہے‘‘۔ اسی بیروزگاری کے نتیجے میں بڑے بڑے شہروں کو ہجرت، کم سے کم اجرت اور ظالمانہ شرائط تک پر کام کرنے کے لیے رضامندی؛ جسمانی صحت اور ذہنیت و اخلاق کی گراوٹ الغرض ’’۔زندگی کاکوئی شعبہ ایسا نہ رہا جو اس غلط اور یک رخی قسم کی آزاد معیشت کے برے اثرات سے بچا رہ گیا ہو‘‘۔

٭ بورژوا طبقے نے کاروبار کے فطری طریقوں کو چھوڑ کر اپنے ذاتی منافع کے لیے اجتماعی مفادات کے صریح خلاف معاشی سرگرمیاں انجام دینی شروع کیں مثلاً ذخیرہ اندوزی، غائبانہ خرید و فروخت، نرخ کی گراوٹ کے ڈر سے پیدا شدہ مال کی تلفی، تعیشات اور غیر ضروری مدوں میں سرمایہ کاری، مضر صحت و مخرب اخلاق اشیا کی پیداوار اور اشتہار، کمزور قوموں پر تسلط اورسودخوری۔

٭ سماج کے ایک طبقے کا معاشی استحصال، ہر طبقے کا اخلاقی زوال کے علاوہ کیپٹلزم اس مقصد میں بھی ناکام ہوا جو اس کا مقصد وجود تھا۔۔۔ پیداوار اور منافع میں اضافہ! سرمایہ داری کے اس اندرونی تضادپر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

دنیا میں بے حد وحساب قابل استعمال ذرائع موجود ہیں اور کروڑوں آدمی کام کرنے کے قابل بھی موجود ہیں اور وہ انسان بھی کروڑ ہا کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں جو اشیا ضرورت کے محتاج ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا کے کارخانے اپنی استعداد کار سے بہت گھٹ کر جو مال تیار کرتے ہیں وہ بھی منڈیوں میں اس لیے پڑا رہ جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس خریدنے کو روپیہ موجود نہیں ہے اور لاکھوں بے روزگار آدمیوں کو کام پر اس لیے نہیں لگایا جاسکتا کہ جو تھوڑا مال بنتا ہے وہی بازار میں نہیں نکلتا، اور سرمایہ اور قدرتی ذرائع بھی پوری طرح زیر استعمال اس لیے نہیں آنے پاتے کہ جس قلیل پیمانے پر وہ استعمال میں آرہے ہیں اسی کا بارآور ہونا مشکل ہورہا ہے، کجا کہ مزید ذرائع کی ترقی پر مزید سرمایہ لگانے کی کوئی ہمت کرسکے۔یہ صورتحال بورژوا مفکرین کے اس استدلال کی جڑ کاٹ دیتی ہے جو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے تھے کہ بے قید معیشت میں اپنے انفرادی نفع کے لیے افراد کی تگ و دو خود بخود ذرائع و وسائل کی ترقی اور پیداوار کی افزائش کا سامان کرتی رہتی ہے۔ ترقی اور افزائش تو درکنار، یہاں تو تجربہ سے یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی نادانی سے خود اپنے منافع کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرلیں۔

سوشلزم اور کمیونزم:

سوشلزم اور کمیونزم کیا ہے؟ دونوں میں فرق کیا ہے؟ وکی پیڈیا میں کمیونزم کا پیج کھولیں تو دائیں طرف اس کے variants کی تعداد پندرہ سے تجاوز کرجاتی ہے، سوشلزم کے پیج پر یہ تعداد چالیس سے بھی زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کس سوشلزم اور کون سے کمیونزم کی بات کررہے ہیں؟ سوشلزم اور کمیونزم کی ان دھڑے بندیوں جس کا مظاہرہ آئے دن جے این یو وغیرہ میں ہوتا رہتا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒ، اس مسئلے سے تعرض کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’سوشلزم کے اصل معنی ہیں ’اجتماعیت‘ اور یہ اصطلاح اس انفرادیت (Individualism) کے مقابلہ میں بنائی گئی تھی جس پر جدید سرمایہ داری کا نظام تعمیر ہوا تھا۔ اس نام کے تحت بہت سے مختلف نظریے اور مسلک کارل مارکس سے پہلے ہی پیش کردیے گئے تھے جن کا مشترک مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسا نظام زندگی بنایا جائے جس میں بحیثیت مجموعی پورے اجتماع کی فلاح ہو‘‘۔(ا ج م ن: ۴۴)ان بہت سے نظریات جو سوشلزم کے عنوان سے پیش کیے جاتے رہے ان میں کارل مارکس کا نظریہ کافی مقبول ہوا اور ’’سائنٹفک سوشلزم، مارکسزم اور کمیونزم‘‘ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا گیا۔ مولانا مودودیؒ نے اسی کو موضوع بحث بنایا ہے کیونکہ انہیں نظریات کے صرف نظری پہلو سے نہیں بلکہ عملی پہلو سے بھی بحث کرنی تھی۔ سوشلزم اور کمیونزم کے بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان میں فرق ’’صرف طریقہ کار‘‘کا ہے کہ سماج میں وہ انقلاب جس کے نتیجے میں ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنادیا جائے گا وہ آئے گا کیسے؟ سوشلزم کا جواب ہے کہ وہ جمہوریت کے ذریعہ آئے گااور کمیونزم کا جواب ہے کہ وہ خونی انقلاب کے ذریعہ آئے گا۔ اس سے یہ بات صاف ہوئی کہ انقلاب لانے کے طریقہ کار کے علاوہ جو بات بھی اشتراکیت کے تعلق سے کہی جائے گی وہ ارتقائی اشتراکیت اور انقلابی اشتراکیت پر یکساں چسپاں ہوگی۔ یہاں بھی مولانا مودودیؒ نے اصولیات پر توجہ مرکوز کی ہے اور فروعیات میں الجھنے سے قصداً پرہیز کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے سوشلزم کا جو جائزہ لیا ہے اس کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اس نظریے کو صرف جدید سرمایہ داری کے ردعمل کے طور پر دیکھنے کے بجائے یورپ کی جدید مادیت کی ایک توسیع یا بالفاظ دیگر کردار کی تبدیلی کے ساتھ تاریخ کی تکرار کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بورڑوا طبقات کے پیش کردہ فطری اصولوں میں بنیادی خامیاں نہیں تھیں،خامیاں تھیں تو ان کی مبالغانہ آمیز شدت اور ان اصولوں کے ساتھ غلط اصولوں کی ملاوٹ میں تھیں۔ لیکن جس طرح نظام جاگیرداری کی مخالفت کرتے ہوئے لبرل مفکرین نے ایک انتہا سے دوسری انتہا کا سفر کیا، بالکل اسی طرح نظام سرمایہ داری کی مخالفت میں سوشلسٹ مفکرین بھی جادۂ اعتدال پر نہیں ٹھہرے بلکہ انتہاؤں کی ایک نئی جولانگاہ تلاش کرلی۔ مولانا مودودیؒ کا مندرجہ ذیل اقتباس نہ صرف انتہاؤں کے اس سفر کا خلاصہ ہے بلکہ مغربی ذہن پر ایک تنقید بھی ہے اور اس سوال کا جواب بھی کہ سوشلزم کے متعدد مسالک میں سے مارکسزم ہی کو سب سے زیادہ عوامی مقبولیت کیوں حاصل ہوئی۔فرماتے ہیں:

مغربی ذہن اور کیرکٹر نے اس دور میں بھی اپنی انہی کمزوریوں کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کے زمانوں میں اس سے ظاہر ہوچکی تھیں، اور اسی بے اعتدالی کی ڈگرپر بعد کی تاریخ بھی آگے بڑھی جس پر وہ پہلے سے بھٹک کر جاپڑی تھی۔ پہلے جس مقام پر مالکان زمین اور ارباب کلیسا اور شاہی خاندان تھے، اب اسی ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی کی جگہ بورڑوا طبقہ نے سنبھال لی اور پہلے حق طلبی اور شکوہ و شکایت اور غصہ و احتجاج کے جس مقام پر بورڑوا حضرات کھڑے تھے اب اس جگہ محنت پیشہ عوام آکھڑے ہوئے۔ پہلے جس طرح جاگیرداری نظام کے مطمئن طبقے نے اپنے بے جا امتیازات اور اپنے ناروا ’حقوق‘ اور اپنی ظالمانہ قیود کی حمایت میں دین اور اخلاق اور قوانین فطرت کی چند صداقتوں کو غلط طریقہ سے استعمال کرکے محروم طبقوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کی تھی، اب بھی بعینہٖ وہی حرکت سرمایہ داری نظام کے مطمئن طبقوں نے شروع کردی۔ اور پہلے جس طرح غصے اور ضد اور جھنجھلاہٹ میں آکر بورڑوا لوگوں نے جاگیرداروں اور پادریوں کی اصل غلطیوں کو سمجھنے اور ان کا ٹھیک ٹھیک تدارک کرنے کے بجائے اپنی نبرد آزمائی کا بہت سا زور ان صداقتوں کے خلاف صرف کردیا جن کا سہارا ان کے حریف لیا کرتے تھے، اسی طرح اب محنت پیشہ عوام اور ان کے لیڈروں نے بھی غیظ و غضب میں نظرو فکر کا توازن کھودیااور بورڑوا تمدن کی اصل خرابیوں اور غلطیوں پر حملہ کرنے کے بجائے ان فطری اصولوں پر ہلہ بول دیا جن پر ابتدائے آفرینش سے انسانی تمدن و معیشت کی تعمیر ہوتی چلی آرہی تھی۔ متوسط طبقوں کے لوگ تو اپنی کمزوریوں اور برائیوں کے باوجود پھر کچھ ذہین اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے شکایت اور ضد کے جوش میں بھی تھوڑا بہت ذہنی توازن برقرار رکھا تھا لیکن صدیوں کے پسے اور دبے ہوئے عوام، جن کے اندر علم، ذہانت، تجربہ ہر چیز کی کمی تھی، جب تکلیفوں سے بے قرار اور شکایات سے لبریز ہوکر بپھر گئے تو کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے عقل و حکمت کی ترازو میں تول کر اسے دیکھ لینے کا کوئی سوال ان کے سامنے نہ رہا۔ ان کو سب سے بڑھ کر اپیل اس مسلک نے کیا جس نے سب سے زیادہ شدت سے ان کی نفرت اور ان کے غصے اور ان کے انتقام کے تقاضے پورے کیے۔ (ا ج م ن: ۴۴- ۲۴)

سوشلزم نے انفرادی ملکیت کا انکار کیا اور اسے ہی اجتماعی زندگی میں فتنے کا اصل سبب قرار دیا۔ ان حقوق کے فطری ہونے کا انکار یہ کہہ کر کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے افراد کی فطرت کو مسخ کردیا ہے ’’جب تک انفرادی ملکیت کا نظام قائم ہے لوگ ’انفرادی الذہن‘ ہیں۔ جب اجتماعی ملکیت کا نظام قائم ہوجائے گا، یہی سب لوگ ’اجتماعی الذہن‘ ہوجائیں گے۔‘‘ ذاتی ملکیت کو غیر فطری ثا بت کرنے کے لیے مزید ستم یہ کیا گیا کہ ’’فی البدیہہ ایک پوری تاریخ‘‘ رقم کرکے یہ ثابت کیا گیا کہ ’’انسانیت کے آغاز میں ذرائع پیداوار پر انفرادی ملکیت کے حقوق تھے ہی نہیں۔‘‘ مذہب، اخلاق، اور قانون نے چونکہ ملکیت کے انسانی حق کو تسلیم کیا تھا لہٰذا ان سب کو اعلیٰ طبقہ کا آلہ کار قرار دیا گیا جن کا کام صرف مالدار اور طاقتور طبقے کی گرفت کو غریب اور محنت کش عوام پر مضبوط کرنے کا جواز فراہم کرنا تھا۔ طبقاتی کشمکش کو تاریخ کے ارتقا کے واحد راستے کے طور پر پیش کیا گیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: ا ج م ن: ۰۵-۵۴)

سوشلزم کے ان مسلمہ اصولوں کے بیان کے بعد مولانا مودودیؒ اس کا میزانیہ نفع و نقصان پر روس کے انقلاب کے تناظر میں بحث کرتے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں کمیونزم کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کی بے اعتدالی پر تنقید کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اس کے حامی اس کے نفع کے پہلو میں بہت سی ایسی چیزوں کو داخل کردیتے ہیں جو دراصل اشتراکیت کے منافع نہیں ہیں بلکہ قابل اور مستعد لوگوں کے ہاتھ میں انتظام ہونے کے ثمرات ہیں۔ دوسری طرف اس کے مخالف اس کے نقصان کے پہلو میں بہت سی ان خرابیوں کو رکھ دیتے ہیں جو بجائے خود اشتراکیت کے نقصانات نہیں بلکہ ظالم اور تنگ ظرف افراد کے بر سر اقتدار آنے کے نتائج ہیں۔‘‘

جاری

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/15/1959/feed 0
شاہ فیصل کی ترک ِ ملازمت!۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ https://urdu.asianmail.in/2019/01/15/1955 https://urdu.asianmail.in/2019/01/15/1955#respond Tue, 15 Jan 2019 07:07:56 +0000 http://azaan.world/?p=1955 گز شتہ دنوں دو خبریں اخباروں کی شہ سرخیاں بنیں: اول آرمی چیف کی پریس کانفرنس ، دوم شاہ فیصل(سابق انڈین ایڈمنسٹریٹو آفسر )کا استعفیٰ ۔ چلئے ان دونوں خبروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ ۱۵؍ جنوری کو آرمی ڈے کے موقع پر آرمی چیف جنرل بپن راوت نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ کہا :’’ بات چیت اور ملی ٹینسی ایک ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی اور کشمیر میں جنگجوؤں کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات ہندوستانی شرائط پر ہوں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا :’’ پاکستان میں حکومت کے بدل جانے سے سرحدوں پر تناؤ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ پاکستانی لیڈرامن کی صرف بات کرتے ہیں اور زمینی سطح پر حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتے ہیں۔‘‘افغانستان میں طالبان کے ساتھ مختلف ممالک کی جانب سے ہورہیں مذاکراتی کوششوں کے بارے میں جنرل راوت نے کہا :’’طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھارت پیچھے نہیں رہ سکتا کیونکہ افغانستان میں بھارت کے اپنے مفادات ہیں اور کشمیر میں جنگجوؤں کے ساتھ ویسا ہی طریقہ کار اور وہی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی جیسا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اپنائی جارہی ہے کیونکہ ہر جگہ کے لیے پالیسی ایک ہی نوعیت کی اور یکساں نہیں رہتی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک دوفریقی مسئلہ ہے جو ہمارے اور ہمارے مغربی ہمسایہ(پاکستان) کے درمیان ہے، اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور یہاں جب ہم بات چیت کریں گے تو اپنی شرائط پر کریں گے۔‘‘آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب وادی ٔ کشمیرکے ایک سرکردہ آئی اے ایس آفیسر ڈاکٹر شاہ فیصل نے کشمیر کے نامساعد حالات کے ردعمل میں استعفیٰ دیااور مابعد استعفیٰ اپنا یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ کشمیری نوجوانوں کے جذبات کی نمائندگی کریں گے۔ استعفیٰ کے اس واقعہ نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں زوردار بحث چھیڑ دی کہ ترکِ ملازمت کے جواز میں ڈاکٹر شاہ فیصل نے جو اسباب ومحرکات پیش کئے، آیا وہ اس حوالے سے سنجیدہ اور مخلص ہیں یا پھر Deep State حسبِ عادت پھر ایک مرتبہ متحرک ہوکر کشمیر میں سیاسی سطح پر تاریخ کو دوہرانے کا من بنا چکی ہے؟ اور یہ کہ کیا اسیDeep State کی نئی منصوبہ بندی کے ضمن میں ڈاکٹر شاہ فیصل دانستہ یا نادانستہ طور اس کا حصہ بن چکے ہیں؟
۲۰۰۹ء بیچ کے آئی اے ایسTopper ڈاکٹر شاہ فیصل کے سرکاری عہدے سے رضاکارانہ استعفیٰ کے نتیجے میں ریاستی گلیاروں میں جو بحث چھڑ چکی ہے، اُس بحث کو سمیٹنے میں آرمی چیف کا پریس بیان آئینہ داری ادا کرسکتا ہے۔ڈاکٹر شاہ فیصل نے اپنے استعفیٰ کے سلسلے میں بھارتی فوج کے ہاتھ گزشتہ ماہ پلوامہ میں ہوئے قتل عام کو بھی ایک وجہ بتایا اور کہا وہ آگے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کے بہبود کے لیے کام کریں گے۔ اگر چہ تادم تحریر ڈاکٹر فیصل نے اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں لایا ہے ،البتہ اُن کی پریس کانفرنس، انٹرویوز اور فیس بُک پوسٹس کو دیکھنے کے بعد ایک چیز کھل کر واضح ہورہی ہے کہ موصوف الیکشن کے ذریعے سے اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہنچ کر کشمیری عوام کی’’ نمائندگی ‘‘کے خواہش مند ہیں۔وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جو کچھ کشمیری گزشتہ سات دہائیوں سے بالعموم اور تیس برس میں بالخصوص ہزار ہا قربانیوں کے باوجود حاصل نہیں کرپائے ہیں، وہ سب موصوف پارلیمنٹ ممبر بن کر حاصل کرنے میں’’ کامیاب‘‘ ہوجائیں گے۔سرکاری عہدے سے اپنے استعفیٰ سے قبل ’’انڈین ایکسپرس ‘‘میں’’ گریٹر کشمیر‘‘ کے معروف کالم نگار محبوب مخدومی کے ساتھ مل کر اپنے مضمون میں شاہ فیصل نے دبی زبان میں کشمیریوں کے بنیادی حق یعنی حق ِخودارادیت کو تسلیم کرلیا ۔ فی الوقت یہی ایک حق پانے کے لئے کشمیری عوام خاک وخون میں غلطاں وپیچاں ہیں۔ بدنام زماں افسپا کشمیر میں ا سی لئے نافذالعمل ہے کیونکہ کشمیری قوم اقوام متحدہ میں اسے دئے گئے وعدے کی یاد دہانی کا ’’جرم‘‘ کر ر ہی ہے ۔اسی ’’ جرم‘‘ کی پاداش میں یہاں حقو ق البشر کی خلاف ورزیوں اورظلم و زیادتیوں کی بھٹیاں رات دن سلگائی جا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں پلوامہ میں سات شہریوں کی جان بحق کیے جانے کے پس منظر میں ڈاکٹر فیصل نے اپنے سرکاری منصب سے استعفیٰ دیا اور جن نہتوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کئے گئے ہیں وہ بھی اپنے پیدائشی حق یعنی حق خودارادیت کی مانگ کررہے تھے۔ شاہ فیصل اس نوع کے گہرے زخموں کو اب انتخابی مرہم سے مندمل کر نا چاہتے ہیں ، لیکن اگر وہ تاریخ کے پیچ وخم سے باخبر ہیں تو جانتے ہوں گے کہ کشمیری عوام پارلیمنٹ یا پھر اسمبلی میں جاکر اپنے سلب شدہ حقوق کی باز یابی کے تجربات گزشتہ ستر سال سے کر تے رہے لیکن انہیں ملا کیا ؟ ۱۹۸۷ء کے جن انتخابات کو بنیاد بناکر شاہ فیصل کشمیریوں کو واپس پلٹ کر وہی طریق کار اپنانے کا مشورہ دے رہے ہیں ،اُن انتخابات میں ہی نہیں بلکہ اُس کے بعد ۱۹۹۶ء کے انتخابات کو چھوڑ کرریاست میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ، اُن میں ہند نواز جماعتوںنے بھی اپنے الیکشن منشور وںمیں مسئلہ کشمیر کا حل شامل رکھا،۲۰۰۲ء میں پی ڈی پی نے بڑی ہی مہارت کے ساتھ حریت کانفرنس کا ایجنڈا ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی، اس کی دیکھا دیکھی میں نیشنل کانفرنس اور الیکشن لڑنے والی دیگر جماعتوں اور افرادنے بھی کشمیر حل کا ورد کرنا شروع کردیا۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں کشمیر کی زمینی صورت حال کے ساتھ اپنے آپ کو بناوٹی طورہم آہنگ دِکھنے سے ان جماعتوں نے کئی مرتبہ کشمیر مسئلے پر سخت موقف اختیارکرنے میں حریت تک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ،حد یہ کہ پی ڈی پی نے جس وقت بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر مشرق اور مغرب کے ملن جیسے اتحاد سے مخلوط حکومت تشکیل دی ، اُس کے لئے پارٹی نے’’ الائنس آف ایجنڈا ‘‘ کے نام سے جو پٹی ووٹروں کو پڑھائی، اُس میں بھی کشمیر حل کا سنہرا خواب سجایا گیا تھا۔ الیکشن ہوئے، لوگوں نے خوش نما نعروں پر لبیک کہہ کے ووٹ بھی ڈالے ، حکومتیں بنی بھی او رگری بھی لیکن نہ ہی دلی کے حکمرانوں کے وطیرے میں کوئی ادنیٰ سی تبدیلی دیکھی گئی اور نہ ہی زمینی سطح پر کشمیر میں کہیں باعزت امن ، گولی نہیں بولی ، زخموں کی مرہم کاری کا کوئی اَتہ پتہ ملا۔ چشم ِفلک نے دیکھا کہ دلی کے حکمران کشمیر کے تعلق سے اپنا روایتی راگ اَلاپتے رہے، کشمیر کے حکمران داد ِ عیش دیتے رہے اور کشمیریوں کی جواںنسل کٹتی رہی۔
جنرل بپن راوت کا محولہ بالا بیان صاف صاف ف کہہ رہا ہے کہ انڈیا کشمیر کے بارے میں اُسی موڑ پر آج بھی کھڑا ہے جہاں یہ سترسال پہلے تھا۔ اسی روایتی کشمیر پالیسی کو دلی میں براجمان ہر حکمران پارٹی نے پہلے سے زیادہ تیکھا بنائے رکھنے کو دیش بھگتی اور ملک کی اکھنڈتا و ایکتا گردان کر اپنے ووٹ بنک کا خم خانہ سجایا۔دلی نے اپنے اس جمود پسندانہ کشمیر بیانیہ کو صحیح جتلانے کے لیے زورِ بازو، کالے قوانین ،اندھا میڈیا، بے مطلب مذاکرات اور وعدہ ہائے فرداکا سہارا بھی وقتاًفوقتا لیا ۔ نیز اس غیر متوازن اور غیر منصفانہ کشمیر پالیسی کے حق میں جہاں ہمارے گھر کے بھیدیوں نے کرسی اور مال و زر کی قیمت پر اپنی خدمات پیش کیں ،وہاں عالمی سیاست وسفارت میں تاجرانہ ذہنیت حاوی ہونے کے سبب بھی اسے ہی تقویت ملتی رہی ۔ نتیجہ یہ کہ اہل ِکشمیر متواتر بیش بہاقربانیوں کے باوجود آج کی تاریخ میں بھی خالی ہاتھ ہیں ۔ دلی کی گدی پر تخت نشین حکمرانوں نے اسی پالیسی پر عمل درآمداُس وقت بھی کیا جب تاریخ ساز دھاندلیوں سے ۱۹۸۷ء مسلم متحدہ محاذ کے جیتنے والے اُمیدواروں کو نہ صرف شکست خوردہ قرار دیا گیا بلکہ اُنہیں جرم ِبے گناہی کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا کہ جوش وجذبے سے لیس کشمیری نوجوان جمہوریت کے تمام طریقوں سے مایوس اور نااُمید ہو کر رہے اور انتہائی قدم اُٹھا کر اپنی زندگیاں تک داؤ کشمیر حل پر لگا دیں۔ سوال یہ ہے کہ جو حقیقت ِکشمیر اہل وطن کی ستر سالہ ایثار پیشہ جدوجہد کے باوجود ہندوستان کی مرکزی سرکار نہ سمجھ سکی یا پھر اسے سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی، جس دلی کو شیخ عبداللہ کی بھر پور عوامی حمایت سے چل رہی ۲۲؍سالہ ’’سیاسی آوارہ گردی ‘‘ تک کشمیر حل کا قائل نہ کرسکی، اپنی پوری زندگی ہندنوازی میں کھپا دینے والے جو مفتی سعید ’’ سیلف رول‘‘ کوعملی شکل دلوا نہ سکے، دلی کی ہر حکومت کا شاہ سے زیادہ وفادار رہنے والے جو ڈاکٹر فارو ق بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس شدہ اٹانومی قراراداد کے بُرے حشر پر اُف تک نہ کرسکے ، تاریخ ِ کشمیر کے ان تلخ کام اوراق کو ڈاکٹر شاہ فیصل کیسے نظرا نداز کر سکتے ہیں ؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ الیکشن سیاست کا حصہ بن کر کشمیرکے درد کا کس معجزہ نمائی سے درماں ثابت ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا مبصر ین کہتے ہیں کہ موصوف انتخابی دَنگل میں کامیاب بھی ہوں تو بھی زیادہ سے زیادہ اقتدار اور سرکاری ایوانوں کی زینت بننے کی خواہش رکھنے والوںکی صف میں ایک اور نام کا اضافہ ہو گا اور بس ۔
۱۱؍جنوری کو جس وقت ڈاکٹر شاہ فیصل اپنی پہلی پریس کانفرنس کررہے تھے، ٹھیک اُسی وقت ریاستی گورنر کا یہ بیان میڈیا میں گردش کرگیا کہ ہر دیہات میں بچوں کے کھیلنے کودنے اور تفریح کے لیے ایک ایک پلے گراونڈ کے لیے زمین مختص ہونی چاہیے ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر۱۳؍سے ۲۳؍سال کی عمر تک کے نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے قبل بھی گورنر ستیہ پال ملک کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کی آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی نوجوان سنگ بازی بھی کرتے ہیں اور عسکریت کی جانب بھی مائل ہورہے ہیں۔ اس لیے انہی نوجوانوں پر فوکس کرکے اُنہیں مختلف مشغلوں میں مصروف رکھا جانا چاہیے ۔ یہ ہے دلی میڈ کشمیر حل ! اس لئے شاہ فیصل کی نیت کتنی بھلی چنگی ہو ،انہیں مفروضوں کی دنیا سے چار وناچار باہر آ کر تند وتلخ حقائق کا سامنا کرنا ہی ہوگا ۔ انہیں معلوم ہوگا کہ ہر دور میں کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد اور آرزؤںکی اصلیت نکارنے کے لئے مختلف من پسند تاویلیں کی گئیں ، کبھی یہاں کے لوگوں کی جدوجہد کو بے روز گاری کا مسئلہ قرار دیا گیا ، کبھی مقامی حکومتوں کی نااہلی، کرپشن اور اقرباء پروری کو اس کے لئے مورد الزام ٹھہرایا گیا، کبھی اسے سرحد پار کی کارستانی قرار دیا گیا ، کبھی کشمیریوں کی دلی آواز کو بنیاد پرستی کا جنون کہا گیا، کبھی کشمیر یوں کے غم و غصہ کو فرقہ پرستی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ، کبھی تنازعہ کشمیر کو منشیات کے عادی نوجوانوں کی کارستانی سے تعبیر کیا گیا، کبھی اسے کشمیر کی پانچ فی صدآبادی کا کیا کرایا جتلایا گیا۔ یہ سب الزامات یا توجیہات ہمالیہ جیسی سچائی سے نظریں چرانے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کے مترادف ہے۔ ان ٹھوس حقیقتوں کے سامنے کیا شاہ فیصل کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے جیسے کبھی شیخ عبداللہ کو بھی بلی کا بکرا بنایا گیا مگر آج حالت یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کے نصف لنہار پر پہنچنے والے اس اول نمبر کے لیڈر کی قبر پر پہرے دار کھڑے ہیں۔ شیخ عبداللہ کے بعد اُن کے بیٹے فاروق عبداللہ نے بھی ایک ایسے وقت کشمیر میں Deep State کا ساتھ ’’گریٹر اٹونومی‘‘ کے جُل پر دیا جب یہاں راجیو گاندھی تک کو بھی لگاتھا کہ انڈیا کشمیر گنوا چکا ہے ۔ سیاسی جوڑ توڑ کا یہ ورق اُلٹ کر چھ سال بعد ڈاکٹر فاروق کو حاشیے پرڈالتے ہوئے مفتی سعید کو تخت نشین کیا گیا۔اُنہوں نے اپنی خالی خولی نعرہ بازیوں سے ایک ایسے نازک وقت دلی کے پیر کشمیر میںجمانے کا کرشمہ دکھایا، جب واجپائی بہ حیثیت وزیراعظم دلی کو کشمیر بارے لکیر کا فقیر بننے سے پر ہیز کر نے کااُ پدیش musings کے عنوان سے دے رہے تھے اور ایڈوانی بطور نائب وزیراعظم’’ کچھ لو کچھ دو‘‘ کا تول مول کر نے لگے تھے ۔ مفتی سعید نے دلی کی مدد سے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی اور چند سال بعد جب وہ اس دنیا ئے فانی سے چلے گئے، دلی سے وہ بہت زیادہ مایوس تھے اور ساتھ میں اپنی بے بسی کا ادراک بھی رکھتے تھے۔ تو کیا ہم باور کرسکتے ہیں کہ پہلے ڈاکٹر شاہ فیصل کی پیٹھ تھپتھپا کر اُنہیں کشمیری نوجوانوں کا رول ماڈل گرداننے میں شہرت کی حدیں چھولی گئیں اور اب انہیں بدنامی یا ناکامی کی سولی پر لٹکانے کا ڈرامہ شروع کیا جاچکا ہے؟ بہر حال اب یہ شاہ فیصل پر منحصر ہے کہ وہ اپنی صلا حیتوں کا مصرف دست ِغیب کا ڈکٹیشن بناتے ہیں یا حب الوطنی اور ایثار و قربانی کی لمبی مسافت والی پگڈنڈی پر قوم کے aspirations کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اُنہیں یاد رکھنا ہوگا کہ کشمیر کے حوالے سے Deep State اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کے بارے میں گھماپھرا کر مرغے کی ایک ٹانگ والا فارمولہ ملک کے حکمران، فوجی جنرلز کے علاوہ انتظامیہ کے بالائی کار پردازوں کی من بھاتی حکمت عملی ہے ، جب کہ نیتا کشمیر کے حالات اور حقائق کا فہم وادارک کر نے کے بجائے ’’من کی باتیں‘‘ سنا کر صرف ووٹروں کی پونجی جمع کرتے پھر رہے ہیں۔ بایں ہمہ اگر مسئلہ کشمیر خالص دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ ہے، اگر اس میں عام کشمیریوں کا کوئی رول نہیں ہے،اگر یہ صرف نوعمر وں کی ناراضگی کا شاخسانہ ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے میدانی علاقوں میں وردی پوش حالت ِجنگ میں کیوں ؟ پھر کشمیریوں کوSky is the Limit ، ’’انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت ‘‘، ’’ گولی نہ گالی سے کشمیر یوں کو گلے لگانے میں سمسیا کا سمادان ہے‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کشمیر کے بارے میں تضاد بیانی کا عالم یہ ہے کہ ایک سانس میں صاحبان ِاقتدار کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے ، دوسری سانس میں برملا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ، تاشقند، شملہ اور لاہور میں مرکزی حکمران کشمیر کو تنازعہ کہہ کر کشمیر حل کی یقین دہانیاں کراتے رہے لیکن گھر پہنچ کر یہی لوگ کشمیر کے بارے میں جو عندیہ اختیار کر تے ہیں، کیااُس پر بغل میں چھری منہ میں رام رام صادق نہیںآتا ؟ الغرض آرمی چیف کے بیان اور ڈاکٹر شاہ فیصل کے استعفیٰ سے ایک ہی سکے کے دورُخ واضح ہوجاتے ہیں کہ اول دلی عالمی سطح پر کشمیر مسئلے کو جھٹلا کر اسے پاکستان کی جانب سے کنٹرول لائن کا تقدس پامال کرنے تک محدود کر رہی ہے ، دوم درونِ خانہ کشمیری نوجوانوں کو لبھانے کے لئے نئے تماشے اور نئے کرداروں کو کشمیر کے مہربانوں کا لبادہ اوڑھتی ہے ۔ یہ طرز فکر اور اسلوب ِعمل کشمیریوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے کروڑوں عوام کے لیے کسی صورت نفع بخش نہیں ہوسکتی کیونکہ مسئلہ کشمیر وقتی اور کاسمٹک اقدامات سے نہ کبھی حل ہوا اور نہ آئندہ ایسی اُمید کی جاسکتی ہے۔

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/15/1955/feed 0
مولانا سعد الدین :ایک شخص ایک کارواں۔۔۔۔۔جی ایم عباس https://urdu.asianmail.in/2019/01/07/1950 https://urdu.asianmail.in/2019/01/07/1950#respond Mon, 07 Jan 2019 03:17:15 +0000 http://azaan.world/?p=1950 ہم سب جانتے ہیں کہ تحریک اسلامی مفکر اسلام اور مفسر قرآن سید ابو الاعلی مودودی علیہ رحمہ کی انقلابی فکر و عمل کا حاصل ہے. یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا مرحوم نے جس وقت تحریک اسلامی کی بنیاد ڈالی ، غلامی نے مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کے خمیر کو بدل دیا تھا اور یہ طبقہ نہ صرف مغربیت کا اشتہار بن چکا تھا بلکہ انہوں نے غلامی کو نعمت بنا لیا تھا. لیکن مولانا مرحوم کی انقلابی فکر اور انکی لاجواب تحریروں و تصانیف نے برصغیر پاک و ہند میں باطل اور طاغوت کے ہر حربے اور حملے کا توڑ کیا بلکہ اپنی شاہکار اور معرکہ آراء تصانیف سے اسلام دشمن فکر کو پوری قوت سے چلہنج کیا. اسطرح پورے برصغیر میں تحریک  اسلامی (26 اگست 1941) کو قائم کرکے ایک اسلامی انقلاب برپا کردیا. اس اسلامی انقلاب کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی کوئی اسلامی تحریک ایسی نہیں ہے جس پر مولانا کی فکر کا کوئی اثر نہ ہو. جماعت اسلامی مولانا مرحوم کی اسی فکری ورثے کی امین ہے جو برصغیر کے دیگر خطوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی عظم مصمم سے رواں دواں ہے اور اس تحریک کے اولین بلکہ بانی رکن مرحوم سعدالدین تارہ بلی ہے.

جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کے بانی اور  درخشاں شخصیت مولانا سعدالدین تارہ بلی علیہ رحمہ کسی تعارف کے محتاج نہیں. آپ بذات خود ایک انجمن تھے اور  ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. تحریک اسلامی انکی رگ رگ میں پیوست کرچکی تھی. وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی انقلابی فکر و عمل سے کافی متاثر تھے اور جماعت اسلامی کو مولانا کی امیدوں پر کھرا اتر کر جموں و کشمیر میں متعارف کیا. یہ اسی اسلامی تحریک کی دین ہے کہ آج جموں و کشمیر ریاست  بالخصوص وادی کشمیر کے ہر گھر میں کلمہ توحید کی گھونج زندہ جاویداں ہے اور کشمیر کی علمی و اسلامی روایت نسل در نسل رواں دواں ہیں. کشمیر میں جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد 1956 ء میں مولانا سعد الدین صاحب اس منفرد اسلامی تحریک کے ہمہ وقت امیر بنے اور اپنا سب کچھ دین کی اشاعت کے خاطر قربان کیا یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو بھی خیرباد کہا. مولانا مرحوم کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا. آپکی عظمت تاریخی لحاظ سے یہ ہے کہ مفکر اسلام و مفسر قرآن مولانا مودودی علیہ رحمہ کے نقشہ قدم پر چل کر حالات کے دھار پر بہنے والے انبوہ ہائے کثیر کے بالمقابل دھار سے لڑنے کا مسلک اختیار کیا. انکے اندر ایک داعی حق ، ایک متکلم اسلام ، ایک مفکر حیات اور ایک تنظیم کار بیک وقت موجود تھے. انکی شخصیت سیاسی و تاریخی اور علمی و ادبی ہر لحاظ سے بےحد اہم تھی. کشمیر میں تحریک اسلامی کی قیادت کے دوران کافی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا. لیکن تحریک اسلامی کو بہترین نظام عدل کی حیثیت سے متعارف کرایا اور بے شمار دلوں کو اسکی برتری کے اعتراف پر مجبور کردیا. دعوت و تبلیغ کی غرض سے آپ میلوں پیدل سفر کرکے اس ملت کو اسلام کے نور سے منور کرتے رہے. الغرض پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت دین اور تحریک اسلامی کے کام میں جٹ گئے. اپنی شیرین  تقریروں و دلکش تحریروں اور بالکل سادہ سیرت سے خدمت دین اور خدمت خلق میں پوری زندگی وقف کردی تھی. آپ یقیناً ایک مرد مومن تھے اور کشمیر کی علمی و اسلامی روایت میں ایک عظیم فکری کارنامہ انجام دیا. بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اسکے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مرحوم سعدالدین تارہ بلی جیسی قدآور شخصیت نے تحریک اسلامی کے بنیادی تصورات :
#-تقویٰ میں فضیلت
#-علم میں فضیلت
#-باطن میں نفس اور خارج میں قومی سطح سے بین الاقوامی سطح تک طاغوت کی مزاحمت …اور
#-مسلمانوں اور وسیع تر دائرے میں انسانیت کی بے لوث خدمت
کو اپنے تحریکی سفر کے دوران عملی جامہ پہنایا اور اس مظلوم و مقہور قوم کو تحریک اسلامی کی صورت میں ایک بے مثال راہنما تحریک کا حسین تحفہ پیش کیا. کارِ دعوت اور علم دین کی اشاعت کے فرائض کو انجام دیتے ہوئے مولانا سعدالدین علیہ رحمہ جیسے داعی حق حقیقتاً انسانیت کے محسن ، خیرخواہ اور روشن ستاروں کے مانند ہوتے ہیں اور یقیناً ان کی تعلیمات  دنیا والوں کے لیے ہمیشہ صراط مستقیم کا وسیلہ بنتی ہیں. اللہ تعالی مرحوم کی دین مبین (اسلام) کے خاطر داعیانہ خدمات کو شرفِ قبولیت بخش کر اس کمزور قوم کے لیے اغیار کے ہر طرح کے ظلم و جارحیت سے نجات کا ذریعہ بنائے اور تحریک اسلامی کو ہمارے لیے دین کا روشن چراغ ثابت کرے.

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/07/1950/feed 0
بھارت اور کشمیر میں ISIS: کیا حقیقت کیا فسانہ۔۔۔افتخار گیلانی https://urdu.asianmail.in/2019/01/04/1945 https://urdu.asianmail.in/2019/01/04/1945#respond Fri, 04 Jan 2019 16:23:34 +0000 http://azaan.world/?p=1945    کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے  کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ لگتا ہے مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔آسام پولیس نے مئی میں ایسے ہی ایک معاملے پوچھ تاچھ کے لئے6 افراد کو حراست میں لیا۔بعد میں معلوم ہوا وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔

حال ہی میں ہندوستان کی قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نے دہلی اور اترپردیش میں تقریباً16مقامات پر چھاپہ ماری کرکے 10افراد کو حراست میں لیا۔ ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نئے ماڈل حرکت الحرب الاسلام کے بینر تلے یہ افراد 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقعہ پر دہلی کے پولیس ہیڈکوارٹر اور ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دفتر پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اسی دوران سرینگر میں چند نقاب پوش نوجوانوں نے نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد کے ممبر پر جوتے سمیت چڑھ کر داعش کا جھنڈا لہرایا۔

جس سے عوامی حلقوں میں خاصا اضطراب پھیل گیا ہے۔ داعش کے اس نئے ماڈل کی حقیقت اور سرینگر میں جامع مسجد کی حرمت کی پامالی ایک تحقیق طلب امر ہے، مگر جس طرح یہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں، اس میں کسی سوچی سمجھی سازش کی بو رچی ہوئی ہے۔ میں نے پچھلے کئی کالمز میں خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ، کہ مئی 2019کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کیلئے وزیرا عظم نریندر مودی کی حکومت اور برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ اقتصادی محاذ پر پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے مودی کا جادو پھیکا پڑ رہا ہے۔

دوسری طرف ایودھیا میں رام مندر کی تحریک بھی کچھ خاص زور پکڑ نہیں پا رہی ہے۔ جس سے بی جے پی کیلئے ہندو ووٹروں کو یکجا کرنا ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہی ہے۔ اسی لئے اب ایسا لگتا ہے کہ آزمودہ فارمولہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر اکثریتی ہندو آبادی کوخوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنے کے کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔ 2002ء میں گجرات کے شہر احمد آباد کے قلب میں واقع اکشر دھام مندر کے حملہ کی باز گشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ ستمبر 2002ء کو دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی اس عبادت گاہ پر دھاوا بول کر 32 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ انتخابی مہم میں اس کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے، تین ماہ بعد بطور وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے گجرات کے صوبائی انتخابات میں ایسی فتح حاصل کی کہ 2014 میں وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونے تک کوئی ان کو اس منصب سے بے دخل نہیں کر سکا۔

اس حملہ کی تفتیش نے سبھی ریکارڈوں کو مات دے دی ۔اس حملہ کے مقدمہ میں سزائے موت سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبدالقیوم منصوری نے اپنی کتاب’گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے’ میں عیا ں کر دیا کہ کس طرح سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ستمبر 2002ء کو اکشر دھام مندر کے حملہ آوروں کو 24 گھنٹے تک چلنے والے ایک اعصاب شکن آپریشن کے بعد ہلاک کیا گیا۔

تقریباً ایک سال تک اس کیس کی تفتیش اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ نے کی۔مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ایک سال کے بعد اس کیس کو گجرات پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا جس نے ایک ہفتہ کے اندر ہی مفتی منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ مفتی صاحب جمعیت علماء ہند کے ایک سرکردہ کارکن ہیں اور گرفتاری سے قبل 2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی باز آباد کاری کیلئے ایک ریلیف کیمپ کے انچارج تھے۔نچلی عدالت نے مفتی صاحب اور دیگر متعلقین کو 2006ء کو موت کی سزا سنائی تھی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

مگر 2014ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کئے۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے، کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔ سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں ، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ مفتی صاحب بیان کرتے ہیں؛

اس ظالم (ڈی آئی جی ڈی ڈی ونجارا)نے دوبارہ میری سرین پر نہایت ہی جنون اور پاگل پن سے ڈندے برسانے شروع کئے، یہاں تک کہ میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو پولیس والو ں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو ، پھر میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساؤ، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا ، مکروہ چہرے والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا۔ پھر ونار ( ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلوں پر ڈنڈے برسانے شروع کئے، جب وہ تھک جاتا تھا ،توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دے کر کہتا اور مارو‘ رک کیوں گئے۔ آخر کار میں بے ہوش ہوگیا۔ پیروں کے تلوے بالکل ہرے ہوگئے تھے، ہاتھوں اور پیروں میں ورم آگیا تھا، چلنا تو درکنار، پیروں پر بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔

مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی 40 د ن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔ کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچا ہے، کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔دوران انٹیروگیشن انکو برہنہ کرکے شرمگاہ میں موٹا ڈنڈا داخل کیا جاتا تھا اور ایک پچکاری کے ذریعے پٹرول داخل کیا جاتا تھا، پیشاب کے سوراخ میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔

پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کئے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔ فرانزک لیبارٹری نے مفتی صاحب کے ہینڈرائٹنگ اور ان خطوظ کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی ، کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے، کہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے، اور ان کی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں۔

ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آور وں کے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تویہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے۔معلوم ہوا کہ مفتی صاحب سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔دہشت گردی کی یہ کہانی جس میں 32 بے قصور ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئیں ابھی بھی انصاف کی منتظر ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے؟ اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی؟ کس کو اس حملہ سے فائد ہ حاصل ہوا؟ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کس کی پردہ پوشی کی گئی؟

پچھلے کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک کے مختلف مقامات سے کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، کہ لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔ آسام پولیس نے گزشتہ مئی میں آئی ایس ایس کے جھنڈے لگانے سے متعلق پوچھ تاچھ کے لئے جب چھ افراد کو حراست میں لیا ۔ تو معلوم ہوا کہ وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 7 مئی کی رات ، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نلباڑی ضلع کے بیلسور علاقے سے بی جے پی کے جن ممبروں کوداعش کے جھنڈے لگانے کے شک میں گرفتار کیا،ان کی پہچان تپن برمن، دوپ جیوتی ٹھکریا، سوروجیوتی بیشیہ، پولک برمن، مزمل علی اور مون علی کے طور پر کی گئی ۔

ان میں سے تپن برمن کانگریس کے سابق کاؤنسلر تھے ، جو پچھلے سال ہی بی جے پی سے جڑ گئے تھے اورگرفتاری کے وقت اس کی ضلع کمیٹی کے ممبر تھے۔واضح ہو کہ 3 مئی کو نلباڑی ضلع میں داعش کا جھنڈا ایک درخت سے بندھا ملا تھا۔ اس پر لکھے پیغام میں لوگوں سے اس گروہ میں‘شامل ہونے ‘ کو کہا گیا ہے۔اسی طرح ایک نیوز چینل نے سرینگر میں داعش کے جھنڈے کے ساتھ کئی افراد کے ویڈیو حاصل کرکے کئی دن تک اس کو اچھالا۔پولیس نے چھان بین کرکے اس جھنڈے کو سینے والے پرانے شہر میں رہنے والے ایک درزی کو جب شامل تفتیش کیا، تومعلوم ہوا کہ چینل کے رپورٹر نے ہی اس جھنڈے کو بنانے کا آرڈر دیا تھا اور پھر ویڈیو بناکر پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔

اس رپورٹر کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔لگتا ہے کہ ایک باضابطہ پلان کے تحت کشمیر میں حریت پر قد غن لگا کر نیز ہندوستان نواز کشمیری قوم پرست جماعتوں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کیلئے سیاسی زمین تنگ کرکے کے ایک نئے سیاسی وجود کو لانچ کرنے کی تیاریا ں چل رہی ہیں۔ جب زخم کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو ناسور بن کر اس میں انفیکشن ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ کشمیر میں سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کئی طاقتیں سرگرم ہوگئیں ہیں اور ایک غیر محسوس انداز میں ان کی پشت پناہی بھی ہو رہی ہے۔ خوش قسمتی سے فی الحال ان کا دائرہ محدود ہے، مگر اگر ایسی صورت حال جاری رہی ، تو نہ صرف کشمیر کے دیگر علاقہ اس کی زد میں آسکتے ہیں، بلکہ یہ طاقتیں ہندوستان اور پاکستان کو بھی عدم استحکام سے دوچار کردیں گیں۔ جھوٹ کے سہارے بے گناہ افراد کو اپنی تفتیش کی خوراک بنا کر میڈل ترقیاں اور سیاسی مقاصد تو حاصل کئے جاسکتے ہیں، مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ یہ بات جتنی جلدی نئی دہلی کے ارباب حل و عقد سمجھ سکیں، اس خطے کیلئے بہتر ہوگا۔

]]>
https://urdu.asianmail.in/2019/01/04/1945/feed 0
امریکہ اور افغان طالبان: مشروط مذاکرات؟ ۔۔۔۔جی ایم عباس https://urdu.asianmail.in/2018/12/29/1929 https://urdu.asianmail.in/2018/12/29/1929#respond Sat, 29 Dec 2018 10:58:33 +0000 http://azaan.world/?p=1929 ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو آج کی دنیا کا سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے. اسے عرف عام میں یونائٹڈ سٹیٹس  بھی کہتے ہیں. تقریباً 37 لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا اور 50 ریاستوں پر مشتمل یہ ملک دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جس میں کل تیس کروڑ سے زائد باشندے آباد ہیں. روس کے زوال کے بعد جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکہ دنیا کی واحد سپر پاؤر  کے طور پر ظاہر ہوا اور اب جسکی لاٹھی اسکی بھنیس محاورہ کے مصداق دنیا کے بیشتر بالخصوص مسلم ممالک کے داخلی و خارجی معاملات میں بےجا مداخلت کرتا آرہا ہے. ستمبر 1945 میں دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین سپر پاوز بن کر ابھرے اور انکے درمیان جاری کشمکش نے سرد جنگ کا روپ اختیار کرلیا.امریکہ  نے عوام کی آذادی اور سرمایہ داری کو فروغ دیا جبکہ روس  نے کمیونزم اور مرکزی منصوبہ شدہ معیشت کو پروان چڑھایا. اسکا نتیجہ کئی بلواسطہ جنگوں میں نکلا اور بالآخر 1991 میں سوویت یونین افغان جنگ میں شمولیت کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا. اسطرح سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ملک کے طور پر ابھرا.تب سے آج تک امریکہ پوری دنیا میں اپنا دبدبہ قائم رکھا ہوا ہے اور اسرائیل سے مل کر دنیا کے ترقی پزیر ممالک بالخصوص مسلم ممالک  میں ڈکٹیٹرشپ سے بالواسطہ مداخلت کرتا رہا. امریکہ کا یہ عروج کب تک رہے گا ، اسکا علم اللّہ ربّ العزت کو ہی ہے. البتہ ایک بات ثابت ہے کہ ہر عروج کے بعد زوال لازمی ہے. قرآن گواہ ہے (سورہ الرعد آیت 11) کہ جب کسی مغرور اور گمراہ قوم کے زوال کا وقت آتا ہے تو اس کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا ہے.” فرعون اور نمرود نہیں رہے ، عاد اور ثمود نہیں رہے ، اللہ تعالی کی مہلت مخصوص وقت تک ہوتی ہے . ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں اور امریکہ کے سامنے دامن پھلانے کے  بجائے اپنے ربّ کے حضور عاجزی اور انکساری سے امداد طلب کریں ، تو وہ وقت دور نہیں کہ مسلمان پھر پوری دنیا میں زبردست قوت کے ساتھ ابھر آیں گے. بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:
یہ عیش فراواں یہ حکومت یہ تجارت
دل سینئہ بے نور میں محرومِ تسلی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادی ایمن نہیں شایانِ تجلی
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جوانمرگ
شاید ہو کلیسا کے یہودی متولی

افغانستان دنیا کے نقشے پر بلند پہاڑوں کی خوبصورتی والا ایسا ملک ہے جو اکثر جنگ زدہ حالات میں رہا ہے. سوویت یونین یا روس سے تقریباً نو سال تک خون ریز جنگ کے دوران ھزاروں قیمتی انسانی جانیں تلف ہوئیں اور شہر و دیہات جنگ کی وجہ سے کھنڈرات بن گئے. امریکی سی آئے اے کی کھل کر افغان مجاہدین کی معاونت سے ہی روس شکست کھا کر افغانستان سے دُم دبا کے چلا گیا. مختصراً روس کو شکست دینے کے بعد افغان مجاہدین کے آپسی اختلافات اور چپقلش کے باعث 1994 میں تحریک اسلامی طالبان وجود میں آئی جسے مرحوم ملا محمد عمر نے قائم کیا اور انہی کی سربراہی میں طالبان نے تقریباً افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا. ملا عمر نے اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ افغانستان کے نام سے قائم کی تھی اور اسے وہ اسلامی خلافت قرار دیتے تھے. اسطرح روس کے انخلا کے بعد طالبان افغانستان کی سب سے مؤثر و سیاسی قوت بن کر ابھرے. لیکن چند سال کے بعد ہی امریکہ میں  11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ نے طالبان کے عملداری والے افغان علاقوں پر القاعدہ کو تعاون اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا جواز بنا کے نیٹو ممالک کے تعاون سے زبردست فوجی چڑھائی کردی. جس دوران ھزاروں بے گناہ افغانی جان بحق ہوئے اور طالبان کو بھی زبردست نقصان ہوا یہاں تک کہ چندہ مہینوں میں ہی طالبان حکومت کو ہٹانے میں امریکہ کامیاب ہوا. گو کہ امریکہ اب افغانستان مین کوئی وسیع لڑائی نہیں لڑ رہا ہے پھر بھی طالبان کی گوریلا کارروائیوں سے نپٹنے کے لیے وہاں اپنی 14000 فوجیوں کے ساتھ خومخواہ موجود ہے. یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کا واحد مقصد طالبان کو ابھرنے اور اسلامی حکومت بنانے سے ہٹانا ہے. امریکہ افغانستان میں امن اور استحکام لانے کے بہانے سے ابھی بھی وہاں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہورہا ہے. لیکن زمانہ شاہد ہے کہ امریکی فوجی مداخلت سے ہی افغانستان  بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہے. اس دوران امریکہ کو بھی افغانستان پر ٹھونسی جنگ میں کافی جانی اور شدید  مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے. ملک کے اندرونی دباؤ سے امریکی سیاست دان اپنی چناوی مہیموں کے دوران افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کے وعدے کرتے رہے اور انہی سیاسی و چناوی وعدوں کے بلوبوتے پر صدر ٹرمپ اقتدار پر برجمان ہوئے. اور اپنے ایک تازہ بیان میں افغانستان سے اپنی آدھی فوج واپس بلانے کا چونکا دینے والا اعلان بھی کیا. 
دراصل واشنگٹن کو اب یقین ہونے لگا ہے کہ 17 سال سے افغان جنگ کو وہ جیت نہیں سکتا ہے. اسلیے اب امن مذاکرات اور بات چیت زور و شور سے چھیڑ دی. جس کے لیے مختلف فریقین کو آگے کیا جارہا ہے. افغان مجاہدین کی ہمت ، طاقت اور استقامت کو روس کم سے کم نو سالوں میں سمجھ گیا ،  امریکہ کو اپنے نیوکلائی طاقت کے نشے میں سترہ (17) سال گزرنے کے بعد اب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ طالبان کو بزور بازو شکست دینا انکے بس کی بات نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ طالبان سے امریکہ مذاکرات شرائط کے تحت کیوں کرنا چاہتا ہے؟ برسوں پرانے مطالبات جو نہیں مانے جارہے تھے ، اب ان پر غور کیوں کیا جارہا ہے؟ کیپٹن ٹام گریبیک کا یہ تسلیم کرنا کہ جنگ صرف فوجی اقدامات سے نہیں  جیتی جاسکتی ، طالبان مصالحت کریں…..! کیا معنی رکھتا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرس کا اپنے عہدے سے ہٹنا یا ہٹانا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ اسطرح اور بہت سے سوالات ہیں جو ٹرمپ اور اشرف غنی انتظامیوں میں تبدیلی کی نئی لہر اور سوچ کے لچکدار زاویوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں. رواں برس افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کرکے کہا کہ ہمیں جنگ جیتنی نہیں بلکہ اسے ختم کرنا ہے. لیکن طالبان نے ایسی تمام پیشکشیں مسترد کیں اور اپنے دیرینہ مطالبے پر ڈٹے ہیں کہ جب تک نہ  افغانستان سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہو تب تک مذاکرات کا عمل بےسود ہے. ادھر افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ – طالبان مذاکرات کرانا افغان امن عمل میں پاکستان کا عملی قدم ہے. اسلیے پاکستانی تعاون فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے. دوسری جانب افغانستان میں امریکی ترجمان نے وائس آف امریکہ ریڈیو سے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ طالبان سے مذاکراتی عمل میں پاکستانی تعاون کا خیرمقدم کرتا ہے. واضع رہے  پاکستان کا امن افغان امن سے بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑا ہے اور امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے  پاکستان نے طالبان کے ہاتھوں امریکہ اور افغانستان سے بھی زیادہ نقصان اٹھایا ہے اسلیے پاکستان افغان امن مذاکرات میں بہت زیادہ پیش رفت دکھاتا ہے. یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کیا بھارت افغان امن کی اس مذاکراتی عمل سے خوش ہوگا؟ کیونکہ بھارت افغانستان کا ایک اہم دوست ملک ہے جبکہ پاکستان سے کشمیر تنازعے پر اسکی کئی جنگیں ہوچکی ہیں. کچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ امریکہ کی اندرونی سیاست سے تعلق رکھتا ہے اور صدر ٹرمپ کی "امریکہ سب سے پہلے” پالسی سے ہے. چونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں امریکیوں سے افغانستان سمیت دیگر جنگ زدہ ممالک سے اپنی فوج واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس وعدے پر صدر ٹرمپ عمل کرے بلکہ انکو اپنے لوگوں کی فکر کرنی چاہیے. دوسرے ممالک کی فکر کرکے انکو شدید فوجی و مالی نقصان اٹھانے کے علاوہ کیا حاصل ہوا ہے. یہ قیاس بالکل غلط ہے  کہ امریکہ ایک امیر ملک ہے اور وہاں عام لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں. شاید وہاں لوگوں میں غربت نہیں ہے. امریکی تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ امریکہ میں ھزاروں نہیں بلکہ  لاکھوں لوگ غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کررہے  ہیں. جو دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں. امریکہ کو انکی فکر کرنی چاہیے اور شاید اب امریکی حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ دوسرے ممالک میں بلاجواز جنگ چھیڑ کر انہیں شدید  جانی و مالی نقصان اٹھانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا ہے.اسی لیے اب امریکہ ایک پالسی کے تحت آہستہ آہستہ عراق ، شام اور اب افغانستان سے فوجی انخلا پر مجبور ہورہا ہے. ادھر ظاہر ہے طالبان بھی مذاکراتی عمل سے خوش ہوں گے کیونکہ یہ انکا دیرینہ مطالبہ ہی نہیں بلکہ اہم شرط بھی ہے کہ افغانستان سے تمام غیرملکی افواج کا انخلا ہو. اگر یہ فیصلہ واقعی متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات سے جڑا ہے تو یقیناً افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے اچھی خبر ہوسکتی ہے. ہوگا وہی جو کائنات کا حقیقی مالک اللہ ربّ العزت چاہیے گا.

]]>
https://urdu.asianmail.in/2018/12/29/1929/feed 0