ہندوستان میں اب ایک طرح سے اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات کابگل بج چکا ہے اور اندازہ ہے کہ بی جے پی کے لیے کامیابی کی راہ 2014کی طرح آسان نہیں ہوگی اور ایک طرح سے برابری کا مقابلہ ہوگا۔ گزشتہ سا ڑھے چار سالوں سے بی جے پی بے پناہ مادی و افرادی وسائل نیز اقتدار کے علاوہ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور میڈیا کے ایک حلقہ کی اندھا دھند حمایت کے سہارے یکے بعد دیگرے جس طرح صوبے فتح کرتی جارہی تھی، اس پر یقیناًلگام لگ گیا ہے۔
اقتدار میں واپسی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء نے عوام کو لبھانے کے لیے جو گیدڑ سنگھیاں پٹار ے میں رکھی تھیں ، لگتا ہے کہ آزمانے سے قبل ہی وہ اثر کھوتی جارہی ہیں۔ ان میں سب سے اوپر اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی آڑ میں ہندو ووٹروں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورنے کا پلان شامل تھا۔ مگر بسیار کوشش کے باوجود رام مندر پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو رہی ہے۔ صدیوں سے ہر 12سال بعد اتر پردیش کے شہر الہ آباد ( جس کا نیا نام اب پریاگ ہے) میں دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پر ایک میلہ لگتا ہے ۔
دو ماہ تک جاری یہ میلہ مہا کمبھ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں سادھوؤں کی ایک کثیر تعداد اور عوام کا جم غفیر پاپ دھونے کے لیے دریا میں ڈبکیاں لگاتا ہے۔ اس دوران مختلف پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔ پچھلا کمبھ میلہ مودی کے اقتدار میں آنے سے ایک سال قبل 2013میں منعقد کیا گیا تھا۔ کیلینڈر اور ہندو روایتوں کے مطابق اب دوسرا مہا کمبھ 2025میں منعقد ہونا تھا۔ مگر کیا کیا جائے اس سیاست کا اور ووٹ بٹورنے کی بے تابیوں کا کہ انتخابات سے چند ما ہ قبل ہی اس میلہ کا انعقاد کیا گیا۔ نہ صرف بڑے پیمانے پر اس کو وزارت خارجہ کی طرف سے ایشیائی تہذیب کا نقیب اور سمبل قرار دیکر ملک کے باہر بھی بیچا جا رہا ہے، بلکہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ہرروز کمبھ میں بی جے پی کے لیڈروں اور وزیروں کی موجودگی میڈیا کے ذریعے مشتہر ہو۔
اس میلہ کی آڑ میں آخری کوشش کے بطور رام مندر کے نام پر ہندو فرقہ کو برانگجیتہ کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی تیاریا ں بھی ہو رہی ہیں۔ اسی دوران اتر پردیش اور دیگر علاقوں میں آئی ایس ایس کے نام پر مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے تاکہ بظاہر ہندو اکثریتی فرقہ کو انتخابات سے قبل خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے۔ اس پوری تگ و دو کے باوجود لگ رہا ہے کہ مودی کا جادو اب بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ اقتصادی بد حالی اور پچھلے ساڑھے چار سالوں کے کئی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے پریشان حال عوام اب حکمران جماعت سے حساب مانگ رہے ہیں۔
بدعنوانی سے جنگ کے نام پر 2016 میں اچانک 500اور 1000کے نوٹ بند کرنے کے فیصلہ کے جھٹکے سے چھوٹی اور درمیانہ درجہ کی صنعتیں ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہیں۔ یہ صنعتیں 40فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی تھیں۔ اصلاحات کے نام پر پورے ملک میں مختلف بالواسطہ ٹیکسوں کو ضم کرکے ایک وفاقی ٹیکس جی ایس ٹی کو جس طرح سے نافذ کیا گیا اس نے نظام کو سہل بنانے کے بجائے بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک تاجر طبقہ کے چودہ طبق روشن کروائے ،نیز صوبوں کی آمدن بھی کم ہوگئی، جس کی وجہ سے تعمیر و ترقی کے کام بھی رک گئے ہیں۔
اس کے علاوہ پچھلے ساڑھے چار سالوں میں طبقاتی آمد ن میں جو ہوش ربا تفاوت پیدا ہو گئی ہے و ہ کرونی کیپٹلزم کی ایک زندہ مثال ہے۔ بین الاقوامی ادارے آکسفیم کی حال میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پہلی بار مجموعی قومی آمدن400 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور مودی حکومت اس کو ایک بڑی حصولیابی تصور کر سکتی ہے۔ مگر اس کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس آمدن کے 77.4 فیصد حصے پر صرف 10فیصد آبادی کی اجارہ داری ہے۔ علاوہ ازیں اس دولت کا 51.53فیصد حصہ آبادی کے محض ایک فیصد تک ہی محددود ہے۔ ہندوستان کی 60فیصد آبادی مجموعی آمدن کے صرف 4.8فیصد کے مالک ہیں۔
جہاں ایک طرف ہندوستان دنیامیں میڈیکل ٹورازم کے حوالے سے پانچویں مقام پر ہے۔یعنی اعلیٰ اور کفایتی میڈیکل سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ علاج کروانے آتے ہیں۔ مگر خود عوام کی کیا حالت ہے؟ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق صحت پر خرچوں کی وجہ سے ملک میں ہر سال 63ملین افراد غریبی کے دائرہ میں چلے جاتے ہیں۔ صرف 11فیصد اسپتال اور 16فیصد پرائمری ہیلتھ سینٹرز میں ہی باضابط علاج و معالجہ کی سہولیات میسر ہیں۔
عوام کے ان سوالات سے عاجز مودی حکومت اپنی زنبیل سے نئے انتخابی حربے نکالنے کے فراق میں ہے۔ حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہندو اعلیٰ ذاتوں کو لبھانے کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کیلئے دس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس کو کرکٹ کے سلاگ اوورز میں چھکے سے تعبیر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جو ں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آتی جائیں گی اور بھی چھکے لگنے والے ہیں۔
ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں اور حکمران بی جے پی کے اندرون سروے کے مطابق عام انتخابات میں حکمران جماعت 543رکنی ایوان میں صرف 164نشستیں ہی حاصل کر پائے گی۔ یعنی 2014 کے مقابلے اسکو 118نشستوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں جہاں مقامی پارٹیوں سماج وادی پارٹی اور دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی نے اتحاد کا اعلان کیا ہے، بی جے پی کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس صوبہ کی 80پارلیامانی نشستوں میں اس کو 35نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے۔
موجودہ پارلیامنٹ میں اس صوبہ سے بی جے پی کی 70نشستیں ہیں۔ اس خسارہ کو پورا کرنے کیلئے بی جے پی کی نگاہیں مغربی بنگال، اڑیسہ نیز شمال مشرقی ریاستوں پر ٹکی ہیں، نیز اس کی کوشش ہے کہ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کی 40نشستوں پر اس کی اتحادی انا ڈی ایم قبضہ کر سکے۔ گو کہ اپوزیشن کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کی پوزیشن بھی کچھ اچھی نہیں ہے، مگر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اگر وہ سیٹوں کا تال میل ٹھیک بٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اتحاد 272کا نشانہ پار کر سکتا ہے۔
ادھر متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئر پرسن سونیا گاندھی اور انکے فرزند راور کانگریس صدر راہل گاندھی پر حکومت نے انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعے شکنجہ کسا ہے۔ انکم ٹیکس نے ان کو 100کروڑ روپے کی ٹیکس وصولی کا نوٹس بھیجا ہے۔ اگر کورٹ نے ٹیکس کی اس وصولی کے آرڈر کو برقرار رکھا، تو دونوں لیڈران نااہل قرار دئے جاسکتے ہیں۔ یعنی وہ انتخابات لڑ نہیں پائیں گے۔ اس ایشو کو لیکر بی جے پی اور حکومت کے اندر خاصا بحث و مباحثہ جار ی ہے۔ چند لیڈروں ، جن میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ایک سینئر وزیر نتن گڈکری وغیرہ شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ان کو نااہل قرار دینے سے کانگریس ہمدردی کا کارڈ کھیل کر اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے۔
وہ یاد دلاتے ہیں کہ 1978میں اسی طرح اس وقت کی جنتا پارٹی حکومت کی طرف سے اندرا گاندھی کو نظر بند اور پھر نااہل قرار دلوانا اس کو خاصا مہنگا پڑا تھا۔ سال بھر بعد ہی اندرا گاندھی عوامی ہمدردی بٹور کر دوبارہ اقتدار میں واپس آگئی تھی۔ وہیں بی جے پی کے دیگر لیڈران پاکستان کی مثال پیش کرتے ہیں ، جہاں سابق وزیر اعظم نوا ز شریف کی نااہلی نے عمران خان کیلئے اقتدار میں پہنچنے کا راستہ صاف کیا۔ علاو ہ ازیں ان کا خیال ہے کہ سونیا اور راہل کے انتخابی میدان سے ہٹنے سے کانگریس اپنا ترپ کا پتہ یعنی پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہو جائیگی۔
ان لیڈروں کے مطابق بی جے پی شاید پرینکا گاندھی کی کرشمائی شخصیت اور سیاسی نفاست کا مقابلہ نہیں کر پائے گی اور اس کیلئے بہتر ہے کہ راہل ہی میدان میں برقرار رہے۔صوبوں کی انتخابی مہم میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ حال میں منافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ باتیں رائے دہندگان کو مائل کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ جو بے انتہا بیروز گاری ، امتیازو تفریق ، تشدد اور معاشی مصائب سے دوچار ہیں ۔ خاص طور سے کسان طبقہ اس سے سب زیادہ متاثر ہے۔ بی جے پی نے سلگتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے بجائے مختلف جذباتی اور مذہبی عنوانات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ۔
مندر کے علاوہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ چھیڑا ، اور بھی کئی ایسے معاملے اچھالے ماب لنچگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ، دلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ لیکن یہ سب حربے رائیگاں گئے ۔قصہ مختصر کہ مودی اور بی جے پی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کو ایک مضبوط متبادل اور پروگرام کے ذریعہ مؤثر طریقہ پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کیلئے بھی ضروری ہے کہ سافٹ ہندوتوا سے دور رہ کر لبرل فورسز کی قیادت سنبھال کر اپنی ماضی کا غلطیوں کا ازالہ کرکے ایک سیاسی حکمت عملی ترتیب دے۔
]]>اوّلاً کس کی ہمّت ہے کہ انھیں ٹوک سکے؟ اور ان کے قول و عمل میں تضاد کی طرف انہیں متوجہ کرسکتے؟ اگر کوئی منچلا پوچھ ہی بیٹھے کہ آپ نے جہیز کیوں لیا ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے منع کیا تھا ، مگر لڑکی والے ہی نہیں مانے _ اگر وہ پوچھ بیٹھے کہ آپ نے اپنی لڑکی کے نکاح کے موقع پر دعوتِ شیراز کا اہتمام کیوں کیا؟ تو کہتے ہیں کہ میرے اہلِ تعلق کا وسیع حلقہ ہے ، سماج کے سربرآوردہ لوگوں سے میرے قریبی روابط ہیں ، انھیں مدعو کرنا ضروری تھا _ پھر جب یہ سب کرنا ہی تھا تو آسان نکاح کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت کیا تھی؟
ضرورت ہے کہ آسان نکاح کے جلسے بند کردیے جائیں ، یا انھیں بڑی حد تک محدود کردیا جائے _ اس کے بجائے آسان نکاح کے نمونے پیش کیے جائیں _ سماج کے سربرآوردہ افراد ، علماء ، سماجی مصلحین اپنے عزیزوں کا نکاح سادگی سے کریں ، خرافات پر مبنی رسوم سے احتراز کریں ، نکاح کی مجلسیں مسجدوں میں منعقد کی جائیں ، دولہا کے ساتھ گنتی کے چند لوگ جائیں ، جہیز کے رواج کو سختی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلے میں لڑکے والے پہل کریں _
اگر ہر شہر میں چند باشعور لوگ ہمّت کرکے آگے بڑھیں ، چند نوجوان خود کو پیش کریں اور سادگی کے ساتھ منعقد ہونے والی تقریبات کی بڑے پیمانے پر پبلسٹی کی جائے تو امید ہے کہ آسان نکاح کو رواج ملے گا _
یاد رکھیں ، آسان نکاح کا رواج تقریروں سے نہیں ، نمونوں سے ہوسکتا ہے _ قابل مبارک ہیں وہ لوگ جو ایسے نمونے پیش کریں _
]]>جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کے بانی اور درخشاں شخصیت مولانا سعدالدین تارہ بلی علیہ رحمہ کسی تعارف کے محتاج نہیں. آپ بذات خود ایک انجمن تھے اور ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. تحریک اسلامی انکی رگ رگ میں پیوست کرچکی تھی. وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی انقلابی فکر و عمل سے کافی متاثر تھے اور جماعت اسلامی کو مولانا کی امیدوں پر کھرا اتر کر جموں و کشمیر میں متعارف کیا. یہ اسی اسلامی تحریک کی دین ہے کہ آج جموں و کشمیر ریاست بالخصوص وادی کشمیر کے ہر گھر میں کلمہ توحید کی گھونج زندہ جاویداں ہے اور کشمیر کی علمی و اسلامی روایت نسل در نسل رواں دواں ہیں. کشمیر میں جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد 1956 ء میں مولانا سعد الدین صاحب اس منفرد اسلامی تحریک کے ہمہ وقت امیر بنے اور اپنا سب کچھ دین کی اشاعت کے خاطر قربان کیا یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو بھی خیرباد کہا. مولانا مرحوم کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا. آپکی عظمت تاریخی لحاظ سے یہ ہے کہ مفکر اسلام و مفسر قرآن مولانا مودودی علیہ رحمہ کے نقشہ قدم پر چل کر حالات کے دھار پر بہنے والے انبوہ ہائے کثیر کے بالمقابل دھار سے لڑنے کا مسلک اختیار کیا. انکے اندر ایک داعی حق ، ایک متکلم اسلام ، ایک مفکر حیات اور ایک تنظیم کار بیک وقت موجود تھے. انکی شخصیت سیاسی و تاریخی اور علمی و ادبی ہر لحاظ سے بےحد اہم تھی. کشمیر میں تحریک اسلامی کی قیادت کے دوران کافی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا. لیکن تحریک اسلامی کو بہترین نظام عدل کی حیثیت سے متعارف کرایا اور بے شمار دلوں کو اسکی برتری کے اعتراف پر مجبور کردیا. دعوت و تبلیغ کی غرض سے آپ میلوں پیدل سفر کرکے اس ملت کو اسلام کے نور سے منور کرتے رہے. الغرض پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت دین اور تحریک اسلامی کے کام میں جٹ گئے. اپنی شیرین تقریروں و دلکش تحریروں اور بالکل سادہ سیرت سے خدمت دین اور خدمت خلق میں پوری زندگی وقف کردی تھی. آپ یقیناً ایک مرد مومن تھے اور کشمیر کی علمی و اسلامی روایت میں ایک عظیم فکری کارنامہ انجام دیا. بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اسکے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مرحوم سعدالدین تارہ بلی جیسی قدآور شخصیت نے تحریک اسلامی کے بنیادی تصورات :
#-تقویٰ میں فضیلت
#-علم میں فضیلت
#-باطن میں نفس اور خارج میں قومی سطح سے بین الاقوامی سطح تک طاغوت کی مزاحمت …اور
#-مسلمانوں اور وسیع تر دائرے میں انسانیت کی بے لوث خدمت
کو اپنے تحریکی سفر کے دوران عملی جامہ پہنایا اور اس مظلوم و مقہور قوم کو تحریک اسلامی کی صورت میں ایک بے مثال راہنما تحریک کا حسین تحفہ پیش کیا. کارِ دعوت اور علم دین کی اشاعت کے فرائض کو انجام دیتے ہوئے مولانا سعدالدین علیہ رحمہ جیسے داعی حق حقیقتاً انسانیت کے محسن ، خیرخواہ اور روشن ستاروں کے مانند ہوتے ہیں اور یقیناً ان کی تعلیمات دنیا والوں کے لیے ہمیشہ صراط مستقیم کا وسیلہ بنتی ہیں. اللہ تعالی مرحوم کی دین مبین (اسلام) کے خاطر داعیانہ خدمات کو شرفِ قبولیت بخش کر اس کمزور قوم کے لیے اغیار کے ہر طرح کے ظلم و جارحیت سے نجات کا ذریعہ بنائے اور تحریک اسلامی کو ہمارے لیے دین کا روشن چراغ ثابت کرے.
حال ہی میں ہندوستان کی قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نے دہلی اور اترپردیش میں تقریباً16مقامات پر چھاپہ ماری کرکے 10افراد کو حراست میں لیا۔ ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نئے ماڈل حرکت الحرب الاسلام کے بینر تلے یہ افراد 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقعہ پر دہلی کے پولیس ہیڈکوارٹر اور ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دفتر پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اسی دوران سرینگر میں چند نقاب پوش نوجوانوں نے نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد کے ممبر پر جوتے سمیت چڑھ کر داعش کا جھنڈا لہرایا۔
جس سے عوامی حلقوں میں خاصا اضطراب پھیل گیا ہے۔ داعش کے اس نئے ماڈل کی حقیقت اور سرینگر میں جامع مسجد کی حرمت کی پامالی ایک تحقیق طلب امر ہے، مگر جس طرح یہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں، اس میں کسی سوچی سمجھی سازش کی بو رچی ہوئی ہے۔ میں نے پچھلے کئی کالمز میں خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ، کہ مئی 2019کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کیلئے وزیرا عظم نریندر مودی کی حکومت اور برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ اقتصادی محاذ پر پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے مودی کا جادو پھیکا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف ایودھیا میں رام مندر کی تحریک بھی کچھ خاص زور پکڑ نہیں پا رہی ہے۔ جس سے بی جے پی کیلئے ہندو ووٹروں کو یکجا کرنا ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہی ہے۔ اسی لئے اب ایسا لگتا ہے کہ آزمودہ فارمولہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر اکثریتی ہندو آبادی کوخوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنے کے کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔ 2002ء میں گجرات کے شہر احمد آباد کے قلب میں واقع اکشر دھام مندر کے حملہ کی باز گشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ ستمبر 2002ء کو دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی اس عبادت گاہ پر دھاوا بول کر 32 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ انتخابی مہم میں اس کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے، تین ماہ بعد بطور وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے گجرات کے صوبائی انتخابات میں ایسی فتح حاصل کی کہ 2014 میں وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونے تک کوئی ان کو اس منصب سے بے دخل نہیں کر سکا۔
اس حملہ کی تفتیش نے سبھی ریکارڈوں کو مات دے دی ۔اس حملہ کے مقدمہ میں سزائے موت سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبدالقیوم منصوری نے اپنی کتاب’گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے’ میں عیا ں کر دیا کہ کس طرح سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ستمبر 2002ء کو اکشر دھام مندر کے حملہ آوروں کو 24 گھنٹے تک چلنے والے ایک اعصاب شکن آپریشن کے بعد ہلاک کیا گیا۔
تقریباً ایک سال تک اس کیس کی تفتیش اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ نے کی۔مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ایک سال کے بعد اس کیس کو گجرات پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا جس نے ایک ہفتہ کے اندر ہی مفتی منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ مفتی صاحب جمعیت علماء ہند کے ایک سرکردہ کارکن ہیں اور گرفتاری سے قبل 2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی باز آباد کاری کیلئے ایک ریلیف کیمپ کے انچارج تھے۔نچلی عدالت نے مفتی صاحب اور دیگر متعلقین کو 2006ء کو موت کی سزا سنائی تھی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
مگر 2014ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کئے۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے، کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔ سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں ، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ مفتی صاحب بیان کرتے ہیں؛
اس ظالم (ڈی آئی جی ڈی ڈی ونجارا)نے دوبارہ میری سرین پر نہایت ہی جنون اور پاگل پن سے ڈندے برسانے شروع کئے، یہاں تک کہ میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو پولیس والو ں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو ، پھر میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساؤ، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا ، مکروہ چہرے والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا۔ پھر ونار ( ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلوں پر ڈنڈے برسانے شروع کئے، جب وہ تھک جاتا تھا ،توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دے کر کہتا اور مارو‘ رک کیوں گئے۔ آخر کار میں بے ہوش ہوگیا۔ پیروں کے تلوے بالکل ہرے ہوگئے تھے، ہاتھوں اور پیروں میں ورم آگیا تھا، چلنا تو درکنار، پیروں پر بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔
مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی 40 د ن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔ کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچا ہے، کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔دوران انٹیروگیشن انکو برہنہ کرکے شرمگاہ میں موٹا ڈنڈا داخل کیا جاتا تھا اور ایک پچکاری کے ذریعے پٹرول داخل کیا جاتا تھا، پیشاب کے سوراخ میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔
پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کئے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔ فرانزک لیبارٹری نے مفتی صاحب کے ہینڈرائٹنگ اور ان خطوظ کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی ، کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے، کہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے، اور ان کی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں۔
ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آور وں کے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تویہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے۔معلوم ہوا کہ مفتی صاحب سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔دہشت گردی کی یہ کہانی جس میں 32 بے قصور ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئیں ابھی بھی انصاف کی منتظر ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے؟ اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی؟ کس کو اس حملہ سے فائد ہ حاصل ہوا؟ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کس کی پردہ پوشی کی گئی؟
پچھلے کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک کے مختلف مقامات سے کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، کہ لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔ آسام پولیس نے گزشتہ مئی میں آئی ایس ایس کے جھنڈے لگانے سے متعلق پوچھ تاچھ کے لئے جب چھ افراد کو حراست میں لیا ۔ تو معلوم ہوا کہ وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 7 مئی کی رات ، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نلباڑی ضلع کے بیلسور علاقے سے بی جے پی کے جن ممبروں کوداعش کے جھنڈے لگانے کے شک میں گرفتار کیا،ان کی پہچان تپن برمن، دوپ جیوتی ٹھکریا، سوروجیوتی بیشیہ، پولک برمن، مزمل علی اور مون علی کے طور پر کی گئی ۔
ان میں سے تپن برمن کانگریس کے سابق کاؤنسلر تھے ، جو پچھلے سال ہی بی جے پی سے جڑ گئے تھے اورگرفتاری کے وقت اس کی ضلع کمیٹی کے ممبر تھے۔واضح ہو کہ 3 مئی کو نلباڑی ضلع میں داعش کا جھنڈا ایک درخت سے بندھا ملا تھا۔ اس پر لکھے پیغام میں لوگوں سے اس گروہ میں‘شامل ہونے ‘ کو کہا گیا ہے۔اسی طرح ایک نیوز چینل نے سرینگر میں داعش کے جھنڈے کے ساتھ کئی افراد کے ویڈیو حاصل کرکے کئی دن تک اس کو اچھالا۔پولیس نے چھان بین کرکے اس جھنڈے کو سینے والے پرانے شہر میں رہنے والے ایک درزی کو جب شامل تفتیش کیا، تومعلوم ہوا کہ چینل کے رپورٹر نے ہی اس جھنڈے کو بنانے کا آرڈر دیا تھا اور پھر ویڈیو بناکر پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔
اس رپورٹر کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔لگتا ہے کہ ایک باضابطہ پلان کے تحت کشمیر میں حریت پر قد غن لگا کر نیز ہندوستان نواز کشمیری قوم پرست جماعتوں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کیلئے سیاسی زمین تنگ کرکے کے ایک نئے سیاسی وجود کو لانچ کرنے کی تیاریا ں چل رہی ہیں۔ جب زخم کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو ناسور بن کر اس میں انفیکشن ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ کشمیر میں سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کئی طاقتیں سرگرم ہوگئیں ہیں اور ایک غیر محسوس انداز میں ان کی پشت پناہی بھی ہو رہی ہے۔ خوش قسمتی سے فی الحال ان کا دائرہ محدود ہے، مگر اگر ایسی صورت حال جاری رہی ، تو نہ صرف کشمیر کے دیگر علاقہ اس کی زد میں آسکتے ہیں، بلکہ یہ طاقتیں ہندوستان اور پاکستان کو بھی عدم استحکام سے دوچار کردیں گیں۔ جھوٹ کے سہارے بے گناہ افراد کو اپنی تفتیش کی خوراک بنا کر میڈل ترقیاں اور سیاسی مقاصد تو حاصل کئے جاسکتے ہیں، مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ یہ بات جتنی جلدی نئی دہلی کے ارباب حل و عقد سمجھ سکیں، اس خطے کیلئے بہتر ہوگا۔
]]>افغانستان دنیا کے نقشے پر بلند پہاڑوں کی خوبصورتی والا ایسا ملک ہے جو اکثر جنگ زدہ حالات میں رہا ہے. سوویت یونین یا روس سے تقریباً نو سال تک خون ریز جنگ کے دوران ھزاروں قیمتی انسانی جانیں تلف ہوئیں اور شہر و دیہات جنگ کی وجہ سے کھنڈرات بن گئے. امریکی سی آئے اے کی کھل کر افغان مجاہدین کی معاونت سے ہی روس شکست کھا کر افغانستان سے دُم دبا کے چلا گیا. مختصراً روس کو شکست دینے کے بعد افغان مجاہدین کے آپسی اختلافات اور چپقلش کے باعث 1994 میں تحریک اسلامی طالبان وجود میں آئی جسے مرحوم ملا محمد عمر نے قائم کیا اور انہی کی سربراہی میں طالبان نے تقریباً افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا. ملا عمر نے اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ افغانستان کے نام سے قائم کی تھی اور اسے وہ اسلامی خلافت قرار دیتے تھے. اسطرح روس کے انخلا کے بعد طالبان افغانستان کی سب سے مؤثر و سیاسی قوت بن کر ابھرے. لیکن چند سال کے بعد ہی امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ نے طالبان کے عملداری والے افغان علاقوں پر القاعدہ کو تعاون اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا جواز بنا کے نیٹو ممالک کے تعاون سے زبردست فوجی چڑھائی کردی. جس دوران ھزاروں بے گناہ افغانی جان بحق ہوئے اور طالبان کو بھی زبردست نقصان ہوا یہاں تک کہ چندہ مہینوں میں ہی طالبان حکومت کو ہٹانے میں امریکہ کامیاب ہوا. گو کہ امریکہ اب افغانستان مین کوئی وسیع لڑائی نہیں لڑ رہا ہے پھر بھی طالبان کی گوریلا کارروائیوں سے نپٹنے کے لیے وہاں اپنی 14000 فوجیوں کے ساتھ خومخواہ موجود ہے. یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کا واحد مقصد طالبان کو ابھرنے اور اسلامی حکومت بنانے سے ہٹانا ہے. امریکہ افغانستان میں امن اور استحکام لانے کے بہانے سے ابھی بھی وہاں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہورہا ہے. لیکن زمانہ شاہد ہے کہ امریکی فوجی مداخلت سے ہی افغانستان بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہے. اس دوران امریکہ کو بھی افغانستان پر ٹھونسی جنگ میں کافی جانی اور شدید مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے. ملک کے اندرونی دباؤ سے امریکی سیاست دان اپنی چناوی مہیموں کے دوران افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کے وعدے کرتے رہے اور انہی سیاسی و چناوی وعدوں کے بلوبوتے پر صدر ٹرمپ اقتدار پر برجمان ہوئے. اور اپنے ایک تازہ بیان میں افغانستان سے اپنی آدھی فوج واپس بلانے کا چونکا دینے والا اعلان بھی کیا.
دراصل واشنگٹن کو اب یقین ہونے لگا ہے کہ 17 سال سے افغان جنگ کو وہ جیت نہیں سکتا ہے. اسلیے اب امن مذاکرات اور بات چیت زور و شور سے چھیڑ دی. جس کے لیے مختلف فریقین کو آگے کیا جارہا ہے. افغان مجاہدین کی ہمت ، طاقت اور استقامت کو روس کم سے کم نو سالوں میں سمجھ گیا ، امریکہ کو اپنے نیوکلائی طاقت کے نشے میں سترہ (17) سال گزرنے کے بعد اب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ طالبان کو بزور بازو شکست دینا انکے بس کی بات نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ طالبان سے امریکہ مذاکرات شرائط کے تحت کیوں کرنا چاہتا ہے؟ برسوں پرانے مطالبات جو نہیں مانے جارہے تھے ، اب ان پر غور کیوں کیا جارہا ہے؟ کیپٹن ٹام گریبیک کا یہ تسلیم کرنا کہ جنگ صرف فوجی اقدامات سے نہیں جیتی جاسکتی ، طالبان مصالحت کریں…..! کیا معنی رکھتا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرس کا اپنے عہدے سے ہٹنا یا ہٹانا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ اسطرح اور بہت سے سوالات ہیں جو ٹرمپ اور اشرف غنی انتظامیوں میں تبدیلی کی نئی لہر اور سوچ کے لچکدار زاویوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں. رواں برس افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کرکے کہا کہ ہمیں جنگ جیتنی نہیں بلکہ اسے ختم کرنا ہے. لیکن طالبان نے ایسی تمام پیشکشیں مسترد کیں اور اپنے دیرینہ مطالبے پر ڈٹے ہیں کہ جب تک نہ افغانستان سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہو تب تک مذاکرات کا عمل بےسود ہے. ادھر افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ – طالبان مذاکرات کرانا افغان امن عمل میں پاکستان کا عملی قدم ہے. اسلیے پاکستانی تعاون فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے. دوسری جانب افغانستان میں امریکی ترجمان نے وائس آف امریکہ ریڈیو سے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ طالبان سے مذاکراتی عمل میں پاکستانی تعاون کا خیرمقدم کرتا ہے. واضع رہے پاکستان کا امن افغان امن سے بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑا ہے اور امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پاکستان نے طالبان کے ہاتھوں امریکہ اور افغانستان سے بھی زیادہ نقصان اٹھایا ہے اسلیے پاکستان افغان امن مذاکرات میں بہت زیادہ پیش رفت دکھاتا ہے. یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کیا بھارت افغان امن کی اس مذاکراتی عمل سے خوش ہوگا؟ کیونکہ بھارت افغانستان کا ایک اہم دوست ملک ہے جبکہ پاکستان سے کشمیر تنازعے پر اسکی کئی جنگیں ہوچکی ہیں. کچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ امریکہ کی اندرونی سیاست سے تعلق رکھتا ہے اور صدر ٹرمپ کی "امریکہ سب سے پہلے” پالسی سے ہے. چونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں امریکیوں سے افغانستان سمیت دیگر جنگ زدہ ممالک سے اپنی فوج واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس وعدے پر صدر ٹرمپ عمل کرے بلکہ انکو اپنے لوگوں کی فکر کرنی چاہیے. دوسرے ممالک کی فکر کرکے انکو شدید فوجی و مالی نقصان اٹھانے کے علاوہ کیا حاصل ہوا ہے. یہ قیاس بالکل غلط ہے کہ امریکہ ایک امیر ملک ہے اور وہاں عام لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں. شاید وہاں لوگوں میں غربت نہیں ہے. امریکی تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ امریکہ میں ھزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کررہے ہیں. جو دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں. امریکہ کو انکی فکر کرنی چاہیے اور شاید اب امریکی حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ دوسرے ممالک میں بلاجواز جنگ چھیڑ کر انہیں شدید جانی و مالی نقصان اٹھانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا ہے.اسی لیے اب امریکہ ایک پالسی کے تحت آہستہ آہستہ عراق ، شام اور اب افغانستان سے فوجی انخلا پر مجبور ہورہا ہے. ادھر ظاہر ہے طالبان بھی مذاکراتی عمل سے خوش ہوں گے کیونکہ یہ انکا دیرینہ مطالبہ ہی نہیں بلکہ اہم شرط بھی ہے کہ افغانستان سے تمام غیرملکی افواج کا انخلا ہو. اگر یہ فیصلہ واقعی متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات سے جڑا ہے تو یقیناً افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے اچھی خبر ہوسکتی ہے. ہوگا وہی جو کائنات کا حقیقی مالک اللہ ربّ العزت چاہیے گا.