ہم سب جانتے ہیں کہ تحریک اسلامی مفکر اسلام اور مفسر قرآن سید ابو الاعلی مودودی علیہ رحمہ کی انقلابی فکر و عمل کا حاصل ہے. یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا مرحوم نے جس وقت تحریک اسلامی کی بنیاد ڈالی ، غلامی نے مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کے خمیر کو بدل دیا تھا اور یہ طبقہ نہ صرف مغربیت کا اشتہار بن چکا تھا بلکہ انہوں نے غلامی کو نعمت بنا لیا تھا. لیکن مولانا مرحوم کی انقلابی فکر اور انکی لاجواب تحریروں و تصانیف نے برصغیر پاک و ہند میں باطل اور طاغوت کے ہر حربے اور حملے کا توڑ کیا بلکہ اپنی شاہکار اور معرکہ آراء تصانیف سے اسلام دشمن فکر کو پوری قوت سے چلہنج کیا. اسطرح پورے برصغیر میں تحریک اسلامی (26 اگست 1941) کو قائم کرکے ایک اسلامی انقلاب برپا کردیا. اس اسلامی انقلاب کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی کوئی اسلامی تحریک ایسی نہیں ہے جس پر مولانا کی فکر کا کوئی اثر نہ ہو. جماعت اسلامی مولانا مرحوم کی اسی فکری ورثے کی امین ہے جو برصغیر کے دیگر خطوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی عظم مصمم سے رواں دواں ہے اور اس تحریک کے اولین بلکہ بانی رکن مرحوم سعدالدین تارہ بلی ہے.
جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کے بانی اور درخشاں شخصیت مولانا سعدالدین تارہ بلی علیہ رحمہ کسی تعارف کے محتاج نہیں. آپ بذات خود ایک انجمن تھے اور ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. تحریک اسلامی انکی رگ رگ میں پیوست کرچکی تھی. وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی انقلابی فکر و عمل سے کافی متاثر تھے اور جماعت اسلامی کو مولانا کی امیدوں پر کھرا اتر کر جموں و کشمیر میں متعارف کیا. یہ اسی اسلامی تحریک کی دین ہے کہ آج جموں و کشمیر ریاست بالخصوص وادی کشمیر کے ہر گھر میں کلمہ توحید کی گھونج زندہ جاویداں ہے اور کشمیر کی علمی و اسلامی روایت نسل در نسل رواں دواں ہیں. کشمیر میں جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد 1956 ء میں مولانا سعد الدین صاحب اس منفرد اسلامی تحریک کے ہمہ وقت امیر بنے اور اپنا سب کچھ دین کی اشاعت کے خاطر قربان کیا یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو بھی خیرباد کہا. مولانا مرحوم کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا. آپکی عظمت تاریخی لحاظ سے یہ ہے کہ مفکر اسلام و مفسر قرآن مولانا مودودی علیہ رحمہ کے نقشہ قدم پر چل کر حالات کے دھار پر بہنے والے انبوہ ہائے کثیر کے بالمقابل دھار سے لڑنے کا مسلک اختیار کیا. انکے اندر ایک داعی حق ، ایک متکلم اسلام ، ایک مفکر حیات اور ایک تنظیم کار بیک وقت موجود تھے. انکی شخصیت سیاسی و تاریخی اور علمی و ادبی ہر لحاظ سے بےحد اہم تھی. کشمیر میں تحریک اسلامی کی قیادت کے دوران کافی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا. لیکن تحریک اسلامی کو بہترین نظام عدل کی حیثیت سے متعارف کرایا اور بے شمار دلوں کو اسکی برتری کے اعتراف پر مجبور کردیا. دعوت و تبلیغ کی غرض سے آپ میلوں پیدل سفر کرکے اس ملت کو اسلام کے نور سے منور کرتے رہے. الغرض پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت دین اور تحریک اسلامی کے کام میں جٹ گئے. اپنی شیرین تقریروں و دلکش تحریروں اور بالکل سادہ سیرت سے خدمت دین اور خدمت خلق میں پوری زندگی وقف کردی تھی. آپ یقیناً ایک مرد مومن تھے اور کشمیر کی علمی و اسلامی روایت میں ایک عظیم فکری کارنامہ انجام دیا. بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اسکے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مرحوم سعدالدین تارہ بلی جیسی قدآور شخصیت نے تحریک اسلامی کے بنیادی تصورات :
#-تقویٰ میں فضیلت
#-علم میں فضیلت
#-باطن میں نفس اور خارج میں قومی سطح سے بین الاقوامی سطح تک طاغوت کی مزاحمت …اور
#-مسلمانوں اور وسیع تر دائرے میں انسانیت کی بے لوث خدمت
کو اپنے تحریکی سفر کے دوران عملی جامہ پہنایا اور اس مظلوم و مقہور قوم کو تحریک اسلامی کی صورت میں ایک بے مثال راہنما تحریک کا حسین تحفہ پیش کیا. کارِ دعوت اور علم دین کی اشاعت کے فرائض کو انجام دیتے ہوئے مولانا سعدالدین علیہ رحمہ جیسے داعی حق حقیقتاً انسانیت کے محسن ، خیرخواہ اور روشن ستاروں کے مانند ہوتے ہیں اور یقیناً ان کی تعلیمات دنیا والوں کے لیے ہمیشہ صراط مستقیم کا وسیلہ بنتی ہیں. اللہ تعالی مرحوم کی دین مبین (اسلام) کے خاطر داعیانہ خدمات کو شرفِ قبولیت بخش کر اس کمزور قوم کے لیے اغیار کے ہر طرح کے ظلم و جارحیت سے نجات کا ذریعہ بنائے اور تحریک اسلامی کو ہمارے لیے دین کا روشن چراغ ثابت کرے.