بدھ, دسمبر ۴, ۲۰۲۴
4.3 C
Srinagar

ترکی خلیج کشمش ۔۔۔۔۔۔۔عاطف محمود

ترکی خلیج کشمکش   کے ڈانڈے بھی  قطر تنازعہ کے ساتھ ملتے ہیں ۔خلیجی ممالک اس وقت نام نہاد عرب بہار تحریک  کے شعلوں کو خلیج میں بڑھنے سے پہلے  ہی روکنے کی کوشش میں ہیں اور یہ  سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ  کی حالیہ تباہی  میں ایران اور  ان شدت پسند اسلامی تحریکوں  کا ہاتھ ہے جنہیں  قطر کے ساتھ ساتھ ترکی کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

ترکی خلیج کشمکش کی ابتدا  عرب بہار کے آغاز سے  ہی ہو گئی تھی  لیکن  اس کا اظہار اس  وقت ہوا جب گزشتہ سال جون میں   خلیجی ممالک نے قطر  پر دہشتگردی کی حمایت کرنے کا الزام لگا کر اسے تنہا کر دیا۔ ترکی نے مشکل وقت میں قطر کا بھرپور  ساتھ دینے کا اعلان کیااورفوری طور پر ترکی طیارہ  خوراک اور غذائی اجناس لے کر دوحہ پہنچ گیا۔ اسی ما  ہ  ترکی نے قطر ،ترکی دفاعی معاہدے کے پیش نظر ترک فوجی دستے بھی دوحہ کی جانب روانہ کر دیے اور اس طرح خلیجی ممالک نے قطر کو تنہا کرنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اسے ناکام بنا دیا۔خلیجی ممالک  کے اس منصوبے میں سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ مصر بھی  شامل تھا،جب انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئےان کی توپوں کا رخ  ترکی کی جانب بھی ہو گیا اور امارات اور اس کے دیگر حلیف ممالک نے یہ الزام عائد کیا کہ ترکی ان سیاسی و مذہبی قوتوں کے ساتھ کھڑا  ہےجو کہ عرب حکومتوں کو لپیٹنا چاہتے ہیں جبکہ خلیجی اتحاد کے مقابلے میں ترکی کی جانب سے نسبتاً کمزور ملک قطر کی حمایت کرنے کی وجہ  امارات  تھا جسے ترکی نے   جولائی2016 کے ناکام انقلاب کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ترکی خلیج کشمکش  کی دوسری وجہ  عثمانی خلافت کے احیاء کی کوششیں ہیں اور ترک صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے بارہا یہ اعلان سامنے آچکا ہے کہ2023میں جب جدید ترکی کو سو سال مکمل ہو ں گے تو ترکی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پہلی صف میں کھڑا ہو گا۔ ان کے اس اعلان کو بہت سے عالمی مبصرین اس معاہدے کے ساتھ بھی جوڑ رہے ہیں جس میں جدید ترکی کے قیام کے موقع پر سو سال تک خلافت کے احیا سے دستبرادری  پر اتفاق کیا گیا تھا۔ مبصرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اردگان اس وقت معاہدے کی مدت مکمل  ہونے کے انتظار میں ہیں اور2023 میں اپنے عوام کو  جو صد سالہ تحفہ وہ دینا چاہتے ہیں وہ  خلافت ہی ہو گا۔ترکی اس سال سلطان عبدالحمید دوم  جن کا10  فروری1918 کو انتقال ہوا تھا کی صد سالہ تقریبات بھی منا رہا ہے جو پورا سال جاری رہیں گی،ترک امور کے ماہرین و مبصرین اسے بھی عثمانی خلافت کے احیا کی کوششوں سے تعبیر کر رہے ہیں ،یہی وہ خدشات ہیں جن کے باعث  ترکی  کو اس وقت اندرونی و بیرونی سازشوں کا سامنا ہے اور دوبرس قبل کی ناکام بغاوت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

رواں ہفتے  شام کے اہم شہر عفرین  پر ترکی کا کنٹرول مکمل  ہونے کے بعد سےعرب میڈیا میں ترکی مخالف مہم عروج پر پہنچ گئی ہے،عرب جریدے الخلیج الجدید کے مطابق سعودی عرب اور امارات نے  ترکی کی شام اور عرب ممالک میں مداخلت  کے عنوان سے مختلف ٹاک شوز میں کردوں کو دعوت دی اور ان کی زبانی ترکی پر الزام عائد کیا کہ وہ عرب ممالک میں دراندازی کر رہا ہے۔اسی عرصہ میں امارات اورسعودی عرب نے خلافت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی  ترک ڈراموں پر بھی پابندی عائد کر دی  ہے۔مزید براں اماراتی وزیر خارجہ عبداللہ بن زائد نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں ایران ،اسرائیل اور ترکی کو عرب سرزمین میں مداخلت سے باز رہنے کا عندیہ دیا  ہے جس کے جواب میں ترک دفتر خارجہ کے ترجمان حامی اقصوی نے  کہا  کہ عرب ممالک کے ساتھ ترکی کے جو برادرانہ تعلقات ہیں ان سے پوری دنیا واقف ہے اور عبداللہ بن زاید کا بیان حسن نیت کا مظہر نہیں۔ترک ترجمان کا کہنا تھا کہ  اماراتی حکام  کی جانب سے وقتا ًفوقتا ًترکی مخالف بیانات کا سلسلہ افسوسناک اور ناقابل فہم ہے۔یاد رہے کہ عبداللہ بن زاید نے  دسمبر2017میں بھی ایک ٹویٹ میں خلافت عثمانیہ  کے عہد میں مدینہ منورہ کے گورنر فخرالدین پاشا   پر تنقید کی تھی جس کے جواب میں ترک حکام کے ساتھ  رجب طیب اردگان خود میدان میں آ گئے تھے اور  انہوں نے ترکی کے اس روڈ کو فخرالدین پاشا کے نام سے موسوم کر دیا تھا جہاں اماراتی سفارتخانہ واقع  ہے۔اسی قسم کا ایک بیان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورہ مصر کے دوران بھی سامنے آیا جب  شہزادے نے مصری قومی جرائد کے مدیران سے ملاقات کے دوران کہا کہ ایران اور مذہبی انتہاپسند جماعتوں کے ساتھ خطے میں برائی  کی تکون کا ایک جز ترکی بھی ہے۔

ترکی خلیج کشمکش کی یہ تصویر  ابھی نامکمل تھی  کہ رواں ہفتے  مڈل ایسٹ آئی  ویب  کے ایک تہلکہ خیز انکشاف نے  اس میں ہر قسم کے ابہام کو دور کر دیا ہے۔مڈل ایسٹ آئی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ 2015 کے اواخر میں بحر احمر  میں ایک  خفیہ بیٹھک رکھی گئی تھی جس کا اہتمام اماراتی ولی عہدشیخ محمد بن زاید کے مشیر امریکی نژاد لبنانی بزنس مین  جارج نیڈر نے کیا تھا،جس میں محمد بن زاید سمیت بحرین کے ولی عہد سلمان  بن حمد،مصری صدر جنرل السیسی،شاہ اردن عبد اللہ ثانی اور اس وقت کے سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان(جوکہ بعد میں ولی عہد بن گئے) نے شرکت کی تھی،ویب کے مطابق جارج نیڈر نےتجویز دی تھی کہ  امریکہ کے یہ قابل اعتماد پانچ ممالک ایک اتحاد قائم کریں اور خطے میں ایران اور ترکی کے بڑھتے ہوئے نفوذ  کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img