مترجم: واحد بشیر
میری بہن جس کو میں نے پچھلے دو سال سے نہیں دیکھا ہے، نے مجھ سے کہا کہ وہ سمندر کو ربر کی چھوٹی کشتی میں عبور کرنے جارہی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا محض اس لئے کہ وہ اس بارے میں میری رائے سننا نہیں چاہتی تھی۔وہ گہرے جذبات کے تحت یہ بات مجھ سے صرف اس لئے کہہ رہی تھی کہ اگر وہ سمندر میں ڈوب گئی تو میں اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی حفاظت کروں جن کو وہ بطور امانت میرے سپرد کرکے جارہی تھی۔ چند منٹ بعد میں نے اس ترکی والے اجنبی نمبر سے دوبارہ رابطے کی کوشش کی، لیکن بے سود، وہ نمبر اب بند آرہا تھا۔میرے ذہن میں ہمارے بچپن کی سینکڑوں تصویریں اُبھر آئیں۔ یہ کوئی آسان کام تو نہیں کہ آپ اپنی زندگی کے ساتھ رہنے والے پچاس سالہ حصے کو خدا حافظ کہیں اور اپنے کسی عزیز کے سمندر میں ڈوب جانے کا انتظار کریں۔میرے جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی اور میرا ذہن خالی سا محسوس کرنے لگا، میرے پاس کہنے کو توکچھ بھی نہیں تھا۔ بھلا آپ اُس عورت کو دے بھی کیا سکتے ہیں جس نے اپنا گھر اور وہ سب کچھ جو اُس کے پاس تھا کھو دیا ہو، جو اب اپنے بچوں کو کھونا نہیں چاہتی ہو اور ان کو ترکی میں کوئی محفوظ ٹھکانا دینے کے لئے مہاجرت اختیار کر چکی ہو؟ایسی عورت کے لئے وہاں زندگی آسان نہیں۔ وہ شام کی ان لاکھوں خواتین کی طرح ،اُنہی جیسی ایک تھی جس کے پاس کوئی بھی خاص ہنر نہیں ۔ اُس کے پاس بس ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا،ایک پناہ کی تلاش،بھلے ہی اُس پناہ کو حاصل کرنے کے لئے ایک چھوٹی سی ربر کی کشتی میں سمندر ہی کیوں نہ عبور کرنا پڑے۔ وہ جیسے مجھ سے یہ کہنے کی کوشش کررہی تھی، کہ سمندر شامی مہاجروں کی آخری اُمید ہے۔
ممکن ہے یہ قسمت ہو کہ میری بہن سمندر میں ڈوبنے سے محفوظ رہی اور اُس کو یونان اور دوسرے ملکوں میں ایسے دوست ملے جنہوں نے اس کو سفر کرنے میں مدد فراہم کی۔اور یقینی طور پر ایسا ہے کہ وہ اب جان بوجھ کر کبھی بھی اُن حالات کا تذکرہ نہیں کرتی ہے (جن سے وہ گزری) کہ راستے میں اُس کے پاس جو تھوڑی سی جمع پونجی تھی، وہ سوداگروں اور دلالوں نے اس کو دوسرے ملک پہنچانے کے نام پر لوٹ لی اور محرومی کی حالت میں اس کو ائیر پورٹ کے ویٹنگ روم میں چھوڑ دیا۔ بہرحال سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود وہ ڈنمارک میں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی جہاں اُس کو ایسے لوگوں کی رفاقت ملی جنہوں نے اُس کو سہارا دیا،حالانکہ اُس کے ساتھ سفر کرنے والے کئی لوگ ناقابل بیان اور خوفناک حالت میںسمندر بُرد ہوکر ڈوب گئے۔ موت مختلف روپ اختیار کرسکتی ہے، لیکن اس کا جو تاریک اور خوفناک ترین رُخ ہے وہ ڈوب جانے کی موت ہے، یہ ہر اس چیز کا لحاظ نہیں کرتی جس کا انسانی جسم حقدار ہوتا ہے۔ بلکہ ڈوبنے والے کا جسم سمندر میں مچھلیوں کی غذا بن جاتا ہے اور اُسی طرح گُھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل
جاتا ہے۔
آنے والے دنوں میں میرے بھائی نے بھی مجھے ایسا ہی ایک پیغام بھیجا کہ وہ حلب شام میں اپنے گھر کو چھوڑ کر ترکی کا رخ کررہا ہے۔ ترکی میں اپنے بال بچوں کو چھوڑ کرایک دشوار اور کٹھن سفر کو اختیار کرتے ہوئے وہ یونان اوراٹلی سے ہوتے ہوئے بالآخر سویڈن پہنچ گیا۔پھر اس کے بعد پیغامات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ میرے دوست، احباب ، رشتہ دار سب سمندر کو عبور کرنے کے لئے نکل رہے تھے۔ میں اُن کے ساتھ سفر کی تفصیلات کبھی بھی ڈسکس نہیں کرتا تھا، بس اُن کے بحفاظت اور صحیح سلامت محفوظ مقامات پر پہنچنے کی دعا کیا کرتا تھا۔ اس وقت سینکڑوں اور ہزاروں شامی مہاجرین اسی طرح سمندر کو عبور کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ ترکی کے مختلف قصبوں اور شہروں کے چائے خانوں میں بیٹھ کر اس بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دلالوں اور سوداگروں کے فون نمبرات شیئر کررہے ہوتے ہیں اور محفوظ راستوں کے بارے میں گفتگو کررہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ باتیں فیس بک اور دوسرے اوپن فورمز تک میں شیئر کررہے ہوتے ہیں۔
مجھے 2015ءگرما کے موسم کا اپنا ایک سفر یاد آیا، جب میں بیروت کے راستے دمشق سے استنبول کا سفر کررہا تھا۔ میں مسافروں کے ایک چھوٹے گروہ کی طرف متوجہ ہوا، وہ سب ایک جیسی عمر کے تھے۔ نوجوانوں کا ایک گروہ جو 20سال سے کم عمر ہی رہے ہونگے اور ایک خواتین کا گروہ جن کے ساتھ صرف ان کے بچے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ بچپن سے ایک دوسرے کے دوست ہوں یا جیسے کہ وہ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوں۔ ان کے سوالات سے بالکل ایسا واضح ہورہا تھا کہ وہ پہلی دفعہ ملک سے باہر کسی سفر پر جارہے ہیں۔ دمشق سے جب ہماری پرواز نے اڑان بھری تو انہوں نے جیسے اطمینان کا سانس لیا اور وہ اونچی آوازوں میں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں باتیں کرنے لگے ۔ پہلی دفعہ ہوائی سفر سے لطف اندوز ہونے والے و ہ مسافر استنبول جارہے تھے جہاں سے دوسرے جہاز کے ذریعے وہ یونان کی سرحد کے قریب ایک شہر جانے والے تھے۔ان کا سفر پہلے سے طے شدہ لگ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ لگ بھگ چالیس سال کی عمر کا ایک آدمی جہاز کے اڑان بھرنے کے بعد ان کو کچھ ہدایات دے رہا تھا، اسی طرح و ہ بیروت ہوائی اڈے پر بھی ان کو کچھ سمجھا رہا تھا۔ خواتین کا گروہ بھی اسی طرح سمجھایا جارہا تھا۔ میں ان نوجوانوں کے حوالے سے سوچ میں گم ہوگیا، جن کی آخری امید سمندر کو پار کرنا تھا۔ گو کہ یہ سب میرے لئے حیران کن نہ تھا، میں اگرچہ اذیت بھی محسوس کررہا تھا ، ساتھ ساتھ مجھے یہ دلچسپ محسوس ہوا کہ وہ سبھی دوست ایک ساتھ ہجرت کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔(ان کو دیکھ کر) مجھے اپنی نوجوانی کے دن خوب یاد آئے، ہم سب دوست ایک دوسرے کو یاد رکھنے کے وعدے اور باہم مل کر زندگی گزارنے کے منصوبے ترتیب دیتے رہتے تھے۔ اِن نوجوانوں نے ایک ساتھ جینے اور مرنے کا عزم کر لیا تھا۔ اِن کی آنکھوں میں خوف ظاہر تھا، لیکن ایک ساتھ مل کر وہ بہادر بننے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی ہمت بڑھا رہے تھے اور سمندری عفریت کا مقابلہ کرنے کیلئے وہ سب تیار ہوگئے تھے۔
میرے سبھی دوستوں نے بھی ملک چھوڑدیا ہے اور وہ اب مہاجرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ میں اب صرف یہ کرتا ہوں کہ غائب ہونے والوں اور سمندر میں ڈوبنے والوں کی فہرستوں میں نام تلاش کرتا رہتا ہوں اور اپنے دوستوں کے نئے پتے تلاشتا رہتا ہوں۔ جب بھی کوئی کشتی ڈوب جاتی ہے تو میں خود کوایک پاگل کی طرح گھومتا ہوا پاتا ہوں، بے چینی سے معلومات کی تلاش کرتا ہوں، ڈوبنے والوں کی فہرست اور ان سے متعلق تفصیلات، ان کے قصبوں اور گاوں سے متعلق معلومات ، ان کے نام اور ان کی تصاویرڈھونڈتا رہتا ہوں ، کہ کہیں ان میں میرا کوئی قریبی دوست اور ساتھی تو نہیں۔ 2015ءمیں بھی میری حالت انتہائی غیر ہوگئی جب اسد حکومت کی قید میں مرنے والے کچھ لوگوں کی تصاویر کسی قیصر نامی نامعلوم ملٹری فوٹوگرافر نے مبینہ طور پر افشا کی تھیں اور میں اپنے قیدی دوستوں کے چہرے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔میں ان تصاویر کو غور سے دیکھنے کی کوشش کررہا تھا کہ کہیں ان میں میرے ان درجنوں دوستوں میں سے کوئی شامل تو نہیں جن کے بارے میں اب ہم کچھ بھی نہیں جانتے، جن کی کوئی خبر نہیں،کوئی پیغام نہیں۔ ان کو غائب ہونے کے بعد نہ کسی نے دیکھا اور نہ کوئی معلومات میسر ہیں۔ جب مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے کسی کی تصویر پہچان لی ہے تو اس کے بارے میں معلوم مزید چیزیں یادداشت سے کھنگالنے کی کوشش کرتا تھا، چہرے پر کوئی تل، ٹانگ پرکسی زخم کا کوئی پرانا نشان، مگر یہ ساری کوششیں رائیگاں تھیں۔ ڈوبنے ، مرنے والوں اور قیدیوں کی واپسی کے لئے شام کے کسی قصبے میں بیٹھے رہنا اور ان کا انتظار کرنا بہت نامعقول سی بات ہے اور انسان بس اس بات کا انتظار کررہا ہوتا ہے کہ کب اس کے تباہ ہونے کی باری آئے۔ 2013 اور2014میں لوگوں کے بڑے بڑے گروہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور ہم نامعلوم جگہوں کی طرف ہجرت کرنے والے لوگوں کے لئے الوداعی تقاریب کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ ہم اب موجود موقعوں پر بحث نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اُن شہروں کی بابت بات کرتے جن کے متعلق ہمیں کوئی معلومات یا تجربہ ہوتا۔ ملک چھوڑ کرجانے نے ایک وبا کی صورت اختیار کی جس نے ہماری زندگیوں کو تباہ کردیا۔ بازار خریداروں سے خالی ہوگئے، ہر کوئی چیز بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی تھی۔ شہر کی گلیاں سنسان ہوگئیں، گھروں کی کھڑکیوں سے کوئی روشنی نہیں آرہی تھی اور نہ ہی گھروں میں بجنے والے ٹیلیفون کا کوئی جواب دیتا تھا۔ ہر کوئی چیز تباہی کا ثبوت فراہم کرتی تھی اور اس تباہی کا احساس ہر کسی کو تھا۔ مجھے ذاتی طور پر اس نقصان اور تباہی کا شدت سے احساس تھا، میں محسوس کررہا تھا کہ میرے سارے دوست مجھ سے چھن رہے ہیں اور میں اس بارے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوں۔ ہر کوئی ملک سے بھاگ رہا تھا اورمیں اسی ملک میں زندگی گزارنے میں مصروف تھا۔ اب یہ سوال نہیں رہ گیا تھا کہ کون کون جارہا ہے، بلکہ اب ہم ایک دوسرے سے یہ پوچھتے تھے کہ تم کب جارہے ہو؟ یا تم ابھی تک کیوں نہیں چلے گئے؟ ہم سب ایک اجتماعی انتشار کی کیفیت سے گذر رہے تھے۔
(نوٹ: شام کے مشہور ناول نگارخالد خلیفہ مہاجرت میں شامیوں کی معدوم ہورہی شناخت سے دل گرفتہ ہیں اور اپنی واردات کو پُر درد انداز میں بیان کررہے ہیں۔ ان کی یہ روداد The Guardianنے 22اگست 2017ءکے شمارے میں شائع کی ہے۔ افادہ عام کے لئے اس مضمون کے پہلے حصے کااردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ )
٭٭٭٭٭