ذرا تصور کریں جب اپنے والدین کی لاڈلی آصفہ جنگل کی اُور گھوڑوں کو چِرانے نکلی ہوگی، تو اُس کے والدین کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی کہ وہ اپنی اِس لاڈلی بیٹی کو آخری بار دیکھ رہے ہیں، کیونکہ جنگل میں انسانی وضع قطع کے حامل درندے اُس معصوم کی عفت کو تار تار کرنے کی تاک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جنگل جانے سے قبل انتہائی حسین و جمیل آنکھوں والی اِس پَری نے اپنی معصومیت اور نزاکت بھری مسکان کو ایک کیمرے میں قید کروایا تھا اور آج سوشل میڈیا پر آصفہ کی وہی تصویر اُس کی مظلومیت کا نشان بن کر رہ گئی ہے۔شاید قُدرت کو آصفہ کی مظلومیت سے دنیا کو آشنا کرانا اور اُسے ایسی ہی درجنوںبیٹیوں کی مظلومیت کا ترجمان بنانا تھا۔لاریب! آصفہ حوا کی بیٹیوں سے ہو رہی زیادتیوں کا احساس دلاکر ہم سے کوسوں دور چلی گئی۔
صوبہ جموں کے ضلع کھٹوعہ کے گوجر طبقہ سے تعلق رکھنے والی ۸ سالہ آصفہ بانو۱۰جنوری ۲۰۱۸ءکو کھٹوعہ کی تحصیل ہیرانگر کے رسانہ جنگل سے لا پتہ ہوئی اور ٹھیک ایک ہفتہ غائب رہنے کے بعد مورخہ ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ءکو اُس کی لاش اپنے گھر سے تین کلومیٹر دور مذکورہ بالاجنگل سے برآمد کی گئی۔ ۱۰ سے ۱۷ جنوری کے اِن سات ایام میں اُس کے ساتھ کیا کچھ پیش آیا، اِس کا علم تو انسانی حرکتوں پر کڑی نگاہ رکھنے والے ”البصیر “کو خوب ہے۔ لیکن آصفہ سے جُڑی اب تک کی حاصل شدہ تمام معلومات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ زندگی کی محض آٹھ بہاریں دیکھنے والی وہ پَری ظلم، تشدد اور عصمت ریزی کا شکار ہوئی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ پُر اسرار طاقتوں نے آصفہ کو جنگل سے اغواکر کے ایک گاﺅ خانے میں محصور کیا ہوا تھا، جہاں اُس کی آبرو ریزی کرکے وحشی درندے اپنی ہوس کی آگ بجھاتے رہے اور جب اُن کی درندگی عروج پر پہنچی تو معصوم کلی کو موت کے گھاٹ اُتارکر اُس کی لاش کو جنگل میں پھینک دیا گیا۔
۱۰ جنوری کی شام کو جب محمد یوسف کے گھوڑے اکیلے گھر لوٹے تو اپنی بیٹی کے حوالے سے اُسے سخت تشویش لاحق ہوئی اور مع اپنے رشتہ داروں کے اُس نے آصفہ کی تلاش شروع کر دی۔مگر وہ آصفہ کا کوئی بھی سراغ لگانے میں ناکام رہے۔ چنانچہ آصفہ کی گم شدگی کے اگلے روز مورخہ ۱۱ جنوری کو محمدیوسف نے پولیس اسٹیشن ہیرانگرمیں اپنی بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ لیکن یوسف خان اور اُس کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ پولیس نے اُن کے ساتھ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور متعلقہ ذمہ داروں نے آصفہ کو ڈھونڈنے میں کوئی بھی مثبت پیش رفت نہیں کی۔
مورخہ ۱۷جنوری کو گوجر برادری سے تعلق رکھنے والے تین لوگوں نے رسانہ جنگل میں کسی بچی کی مسخ شدہ لاش کو دیکھا ۔ لاش کی جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بچی ایک ہفتہ قبل غائب ہوئی آصفہ ہی ہے۔ چنانچہ گوجر برادری کے اِن لوگوں نے پولیس کو خبر دی اور پولیس نے لاش کو اپنی تحویل میں لے کر اِسے پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھیج دیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ ظاہر ہونے پر معلوم ہوا کہ آصفہ کے ساتھ عصمت ریزی کی گئی ہے اور لاش کی بازیافت کے ۲۴ گھنٹے قبل ہی آصفہ کی موت واقع ہوئی ہے،جس کے صاف معنی یہ نکلے کہ ۱۶جنوری تک آصفہ زندہ تھی۔ آصفہ کی لاش کا ملنا تھا کہ آناً فاناً سوشل میڈیا پر یہ خبر سرعت سے پھیل گئی۔ چہار سو اِس واقعہ کے خلاف مذمت ہونے لگی۔ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک ٹویٹ میں اِس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور مجرم کو کڑی سے کڑی سزا دلانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اسمبلی میں بھی حزب اختلاف جماعتوں کے لیڈروں نے اِس مسئلہ کو لے کر پولیس کی اِس معاملے میں برتی گئی غفلت کو قابلِ مذمت قرار دیا۔آصفہ کی تجہیز و تکفین کے بعد آصفہ کے رشتہ دار اور گوجر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی ایڈوکیٹ طالب حسین کی قیادت میں اس واقعہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔احتجاجیوں نے جموں پٹھانکوٹ شاہراہ کو بند کر دیا اور آصفہ کے لیے انصاف کی اپیل کرنے لگے۔پولیس نے ردِ عمل میںاحتجاجیوں پر لاٹھی چارج کیا اور ایڈوکیٹ طالب حسین کوگرفتار کر لیا۔ طالب کی گرفتاری پر احتجاج میں مزید شدت لائی گئی اور نتیجتاً پولیس نے طالب حسین کوفوراً رہا کر دیا۔اپنی رہائی کے بعد طالب حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آصفہ کے معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کے رول کو مشکوک قرار دیا۔ طالب کا کہنا ہے کہ ” آصفہ کے معاملے میں پولیس نے صریح غفلت برتی ہے۔ اگر بروقت کارروائی کی جاتی توآصفہ کو بچایا جا سکتا تھا۔آصفہ کے مردہ جسم پر تشدد کے صاف نشانات تھے۔ اُسے بجلی کے کرنٹ بھی دیے گئے ہیں اور اُس کی ٹانگیں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔“
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے آصفہ کیس میں پولیس کی جانب سے برتی گئی غفلت اور غیر سنجید گی کا۔ آصفہ کی گمشدگی کے وقت پولیس نے مجرمانہ خاموشی کا رویہ اختیار کیا اور آج تین ہفتے گذرجانے کے باوجود آصفہ کے مجرموں کوگرفتار نہیں گیا ہے۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ایک ۵۱ سالہ لڑکے کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا ہوا ہے۔لیکن اِس ۵۱ سالہ لڑکے کی گرفتاری کو لے کر آصفہ کے رشتہ دار مطمئن نہیں ہیں اوراُلٹا پولیس پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اصل ملزم کو چھپا رہی ہے۔ پولیس کا رول اِس کیس میں غفلت شعارانہ نظر آ رہا ہے۔اگرچہ پولیس نے اِس معاملہ کی چھان بین کے لیےSpecial Investigation Team(SIT)کاقیام بھی عمل میں لایا اور بعد ازاں اِس کیس کوCentral Bureau of Investigation (CBI) کے سُپرد کیا گیا۔ لیکن فی الوقت کیس پر ہو رہی پیش رفت کو سامنے رکھتے ہوئے آصفہ کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہچانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
آج آصفہ کے والدین اور رشتہ دار انصاف حاصل کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ دکھ کی اِس گھڑی میں اُن کی ڈھارس بندھائی جاتی ۔ لیکن آصفہ کے والدین ایک جانب سے اپنی بیٹی کی جدائی کا غم لیے بیٹھے ہیں اور دوسری جانب آصفہ کو انصاف دلانے کے لیے اُنھیں مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ ریاستی قانون ساز اسمبلی میں بھی اِس مسئلہ کو لے کر تقریریں ہوئیں اور مجرموں کو سزا دینے کی پُر زور وکالت کی گئی ۔ لیکن سابقہ تجربوں اور آثار و قرائن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسمبلی کا یہ تماشا اصل میں سرکس کے ایک کھیل کی مانند ہے جہاں پر بیان بازی کے نئے نئے کرتبوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اِن سیاستدانوں میں سے کسی کو بھی آصفہ کے والدین سے مل کر اُن کی ڈھارس بندھانے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ۔ بلکہ ہمیشہ کی طرح اِس مسئلہ کو بھی اِنھوں نے اپنے حقیر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ اسمبلی کے یہ کرتب باز مذمتی بیان دینے کے علاوہ آصفہ کو حق دلانے کے لیے اگر ایک محاز کھڑا کرتے تو بات کچھ اور ہوتی ۔
گذشتہ ماہ پاکستان پنجاب کے قصور علاقے میں اِسی نوعیت کا ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں زینب نامی ۷سالہ بچی کی عصمت ریزی کر کے اُس کا قتل کیا گیا اوربعد ازاں اُس کی لاش کو کچرے کے ایک ڈبے میں پھینکا گیاتھا۔معصوم زینب کی مظلومیت نے پورے پاکستان کو ایک محاز پر کھڑا کیا اور نتیجتاً واقعے کے چند ہی ہفتوں بعد زینب کے قاتل کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن بیچاری آصفہ اہلیانِ ہندوستان کو اپنے حق میں آواز بلند کروانے کے معاملے میں ناکام رہی۔ اُس کی مظلومیت سے ہند کے میڈیا مراکز میں کوئی کھلبلی نہیں مچی، کسی نیوز اینکر نے اِس وحشیانہ عمل پر ٹاک شوز منعقد نہیں کیے اور کسی بھی قومی لیڈر کو اِس واقعہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار تک کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ ہند کی قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کوبھی جیسے سانپ سونگھ گیا کہ آصفہ کی حمایت میں اِن کے لب نہیں ہلے۔ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اِس معاملے میں چُپ سادھے ہوئے ہیں، حالانکہ ریاست جموں و کشمیر کے پتھر بازوں کو متنبہ کرنے اور KAS امتحان پاس کرنے والوں کی تعریفوں میں وہ رطب اللسان رہتے ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ معصوم آصفہ کے بہیمانہ ریپ اینڈ مڈر کیس میں اُن کی زبان سے دو بول نہیں نکل پائے۔ جموں و کشمیرمیںنریندر مودی کی زیر نگرانی چل رہی کولیشن سرکار کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعہ اس واقعہ پر اظہارِ مذمت کرنے کے ماسوا کچھ بھی نہیں کر پائیں۔ نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ، جو کہ ضلع کھٹوعہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، نے بھی آصفہ کو انصاف دلانے کے لیے کچھ بولنے کی زحمت گوارا نہیںکی۔ہندوستان کی اٹھارہویں صدی عیسویں کی ایک معروف دینی شخصیت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒکا یہ قول آصفہ کیس کے تناظر میںچشم کُشا کی حیثیت رکھتا ہے: ” جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو، اُس کا قاتل حاکمِ وقت ہوتا ہے۔“
٭٭٭