دنیا میں جتنی بھی دینی (اسلامی) تنظیمیں اس وقت دعوت و تبلیغ کے اہم عمل کے لیے رواں دواں ہےں ان میں برصغیر کی جماعت اسلامی اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کی امتیازی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو کسی فرقے ، کسی مسلک ، کسی قومیت ، کسی زبان، کسی نسل ، کسی جغرافیے ، کسی ثقافت اور کسی صوبے کی طرف نہیں بلاتی بلکہ ان تمام بتوں کا انکار کرتے ہوئے مسلمانوں کو صرف اسلام ، قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ و تہذیب کی طرف بلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی پھولوں کا وہ گلدستہ ہے جو اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت کی علامت ہے۔ مزید برآں جماعت اسلامی کا امتیاز یہ بھی ہے کہ ایک مکمل دستور کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ دستور ہر سطح کے ذمے داروں کو ایک طریقہ کار اور ایک ضابطے کا پابند کرتا ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جماعت اسلامی مفکر اسلام اور مفسر قرآن سید ابولاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی انقلابی فکر و عمل کا حاصل ہے۔ مولانا مرحوم کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا۔آپ صرف مفکر ہی نہیں تھے بلکہ مدبر بھی تھے، دوراندیش بھی تھے۔ مسلمانوں کی ابتر صورتحال ان کے سامنے تھی۔ سیکولر اور لبرل جماعتوں کے اثر سے وہ واقف تھے۔ باطل اور طاغوت کی چالوں پر ان کی عقابی نظر تھی۔ اس سارے ابلیسی لشکر کے مقابلے کے لیے انہوں نے 26 اگست 1941 ءمیں برطانوی راج کے دوران جماعت اسلامی قائم کی۔ کیوں قائم کی اور مقصد کیا تھا اس کی وضاحت خود مولانا علیہ رحمہ نے اپنی ایک شاہکار تصنیف ”تحریک اور کارکن“کے باب اوّل میں اسطرح کی ہے: ”جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اسکے تمام شعبوں (فکرونظر ، عقیدہ و خیال ، مذہب و اخلاق ، سیرت و کردار ، تعلیم و تربیت ، تہذیب و ثقافت ، تمدن و معاشرت ، قانون و عدالت ، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا کی بندگی اور انبیاءعلیہم السلام کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔“
جماعت اسلامی کو اگر حقیقی معنوں میں سمجھنا اور پرکھنا ہے تو مولانا کی شاہکار تصنیف ”تحریک اور کارکن“ کا بغور مطالعہ کرنا ہر ایک رفیق اور ہمدرد جماعت بشمول کارکنان جماعت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کم علمی یا کم تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر سارے کارکنان ، رفقاءاور ہمدردان اس بیش قیمت کتاب کا مطالعہ نہیں کرسکیں گے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کم سے کم صباحی اجتماعات میں درس قرآن اور درس حدیث کے ساتھ ساتھ متواتر اس کتاب کے ابواب کو پڑھا جائے اور سمجھایا جائے۔ تب امید ہے کہ آج کے اس پ±رفتن دور میں تحریک اسلامی سے وابستہ رفقاءاور کارکنان جماعت اسلامی سے وابستگی کے معیار پر کھرا اتر سکیں گے اور اس کردار کی روشنی ان میں صاف اور واضح نظر آسکے گی جس کے متلاشی مولانا تھے۔ تحریکی کارکنان میں وہ جذبہ کم ہوتا ہوا دکھائی دے رہاہے جو اسلاف میں دیکھنے کو مل رہا تھا۔ میں نے اسی لیے اس مضمون کا عنوان ”تحریک اور کارکن“ کتاب کے ایک باب سے منتخب کیا ہے تاکہ عام قارئین کے ساتھ ساتھ ہمدردان ، رفقاءاور کارکنان جماعت اسلامی تحریک اسلامی سے وابستگی کے معیار کو سمجھ کر اپنے اندر بہتر اوصاف تیار کرنے کی زندگی کے آخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اس اہم موضوع کی وضاحت خود مولانا علیہ رحمہ نے”تحریک اور کارکن“ کتاب میں اسطرح کی ہے (یہاں مختصراً اقتباس کا اہم حصہ قارئین کرام کے لیے پیش کیا جاتا ہے تاکہ بات سمجھنے اور سمجھانے کا مقصد پورا ہوسکے۔) مولانا علیہ رحمہ تمام کارکنان جماعت کو مخاطب ہو کر فرمارہے ہیں کہ: ”میں اس وقت جماعت اسلامی کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کروں گا…. آپ کا فرض ہے کہ آپ برابر اپنا جائزہ لے کردیکھتے رہیں کہ آپ کے اندر موجود ہیں یا نہیں اور اگر موجود ہیں تو کس حد تک؟ اور انہی کو جماعت کے لیے معیار بنائے۔اگر یہ خصوصیات پورے طور پر موجود ہیں تو سمجھئے کہ جماعت کے ساتھ آپکی وابستگی پوری ہے اور اگر ناقص طور پر موجود ہیں تو سمجھئے کہ جماعت کے ساتھ آپکا تعلق ادھورا ہے۔ اور اگر یہ سرے سے موجود نہیں ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ جماعت کے ساتھ آپکی وابستگی محض رسمی و ظاہری ہے۔حقیقت سے اس کو کچھ تعلق نہیں۔“
مولانا مودودی علیہ رحمہ نے تحریک اسلامی سے کارکنان کی وابستگی کی سب سے مقدم خصوصیت یہ بتایا ہے کہ اس تحریک سے جڑنے کے بعد آپ کو اجنبیت کا احساس ہوگا۔ یعنی اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ سماج بلکہ قوم میں آپ کو اپنے ہم درد اور ہم خیال بہت کم نظر آئیں گے۔ جماعت اسلامی میں داخل ہونے کے بعد آپ کو یہ احساس ہوگا کہ آپ جو چاہتے ہیں وہ دوسروں کی چاہت سے مختلف ہے۔ آپ جو کچھ سوچتے ہیں دوسروں کی فکر اسے بالکل الگ ہے۔آگے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی سے وابستگی کے بعد آپکو ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے آپ خشکی کی مخلوق ہیں اور آپ کو سمندر میں ڈال دیا گیا ہے۔ گویا اپنے آپ کو تم مشکلات کے شکنجوں میں کسا ہوا پائیں گے اور آپ کے قریبی اعزّہ بھی ان مشکلات کے حل کرنے میں آپ کی کوئی مدد نہ کریں گے بلکہ الٹا ان میں اور زیادہ اضافہ کرنے کی کوشش کریں گے تب آپ سمجھئے کہ جماعت اسلامی کے مقاصد کا سچا شعور آپ کے اندر پیدا ہوگیا ہے اور اس کی علامتیں آپ کے ظاہر و باطن دونوں میں اچھی طرح ابھر رہی ہیں۔مولانا مزید لکھتے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی میں داخل ہونے کے بعد بھی آپ کی اسی ماحول کے ساتھ سازگاری و موافقت باقی رہی جیسی جماعت اسلامی میں داخل ہونے سے پہلے تھی تو یوں سمجھئے کہ آپ نے جماعت اسلامی کی لیبل اپنے اوپر لگایا ہے لیکن اس کی حقیقت آپ کے دل کے اندر نہیں اتری ہے۔ مولانا علیہ رحمہ کے مطابق جماعت اسلامی سے وابستگی کی کسوٹی یہی خصوصیت ہے۔ بلکہ فرماتے ہیں ہر کارکن اپنی جگہ اندازہ کرکے فیصلہ کرے کہ جماعت کے ساتھ اسکا تعلق حقیقی ہے یا محض ظاہردارانہ….!
اس کے بعد بانی جماعت اسلامی حضرت مولانا مودودی علیہ رحمہ کارکنان جماعت اسلامی کو تحریک اسلامی سے وابستگی کی دوسری اہم خصوصیت سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”آپ اپنی ساری وابستگی اور دلچسپی ان لوگوں کے ساتھ بڑھائیں جو اصول و مقاصد میں آپ کے ساتھ متحد ہوں۔ اگر انکی تعداد کم ہو تو اس کی پروا نہ کیجیے۔انہی کی رفاقت اور قدر کیجیے اگرچہ وہ آپ کے عزیز نہ ہوں لیکن انکو عزیزوں سے بڑھ کر عزیز رکھئے….!اگر انہوں نے اس حق کو قبول کر لیا ہے جس کو آپ نے قبول کیا۔ تو آپ کی طرف سے ان کے لیے سچی دوستی ہونی چاہیے…..جو لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیں آپ ان کے بن گئے وہ آپ کے بن گئے۔ آپ کا اور ان کا رشتہ مادی رشتہ نہیں ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی رشتہ ہے….باطل اور باطل کے تمام رشتوں سے قلبی انقطاع اصلی روحانی ہجرت ہے جسکا آغاز اس دن سے ہوتا ہے جس دن ایک بندہ حق قبول کرتا ہے۔اور اس راہ میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اس پر قابو پانے کی مشق بہم پہنچائیے۔” یہ وہ صفت اور خصوصیت ہے جو جماعت اسلامی کے ہر کارکن کے لیے نہایت ضروری ہے اس پر کھرا اتر کر ہی ایک کارکن جماعت کے مقاصد کی آبیاری کرسکتا ہے ورنہ بقول مولانا مرحوم جماعت اسلامی کے مقاصد کا سچا شعور ایک کارکن کے اندر پیدا ہی نہیں ہو گیا ہے۔
تیسری اور نہایت اہم صفت جو کارکنان تحریک اسلامی کے اندر موجود ہونی چاہیے کو مولانا مودودی علیہ رحمہ نے یہ بتایا ہے کہ جو لوگ اصول اور مقصد میں آپ سے مختلف ہوں وہ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں۔ وہ جب آپ کو ٹٹولیں تو انہیں محسوس ہو کہ ان کے لیے آپ کے اندر انگلی دھنسانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے آپ کو آلہ کار نہ بنا سکیں۔ ان کو آپ ہرگز اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ آپ پر اپنا رنگ چڑھا دیں اور آپ کو اپنے سانچے میں ڈھال دیں۔“ (جو ہر دور کی طرح موجودہ دور کا باطل نظام عیاری اور مکاری سے حق پسند کارکنان کو مختلف ابلیسی چالوں سے اپنی طرف مرعوب و مرغوب کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ یہ تیسری صفت جماعت اسلامی کے کارکن کو اسی باطل اور طاغوتی نظام میں حق پر استحکامت دکھانے کے لیے اپنے اندر پیدا کرنی ہے تاکہ اس باطل کا مقابلہ ڈٹ کر کرسکے گا.) آگے مولانا فرماتے ہیں کہ ایک کارکن کی سیرت کی وہ ساری کمزوریاں جو ان کے اندر باطل کو گھسنے کی راہ دیتی ہیں ان کے ضعف ایمان کی دلیل ہے۔ اس لیے ایک کارکن کی زندگی کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ ان تمام کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جو کسی وجہ سے دل کو بہلا کر باطل کی چالوں میں گھسنے کی راہ دیتی ہیں۔
جماعت اسلامی یا تحریک اسلامی سے وابستگی کا جو معیار مولانا مودودی علیہ رحمہ نے کارکنان جماعت کے لیے کسوٹی قرار دیا ہے وہ تقریباً ستر (70) سال قبل جماعت اسلامی کے قیام کے بعد ہی اپنے رفقاءکرام کے سامنے رکھا۔ اللہ تعالی کے فضل اور کرم سے جو بھی محترم رفیق اور کارکن تحریک اسلامی میں داخل ہو کر باطل کی ابلیسی چالوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ مندرجہ بالا صفات کو اپنی زندگی بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کی آخری دم تک کوشش کرتے رہے۔ واضح رہے جب تک نہ یہ صفات ایک کارکن میں پیدا ہوںگے اس وقت تک ان کے اندر جماعت کے مقاصد کا صحیح شعور ہی پیدا نہ ہوسکے گا اور نہ وہ سیرت ہی ان میں پیدا ہوگی جو جماعت اسلامی کے پیش نظر مقاصد کی تکمیل کے لیے مطلوب ہیں۔ مولانا مرحوم ”تحریک سے وابستگی کا معیار“ کے مضمون کے آخر میں رقمطراز ہےں کہ ”یہ باتیں آپ کے سامنے کسوٹی کی حیثیت سے پیش کی ہیں، آپ ان کے اوپر اپنے آپ کو جانچ کر معلوم کرسکتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے ساتھ آپ کا تعلق کس نوعیت کا ہے؟ محض زبان سے آپ اسکے ساتھ ہوگئے ہیں اور دل آپ کا انہی کوچوں میں ابھی آوارہ گردی کررہا ہے جن میں پہلے آوارہ گردی کررہا تھا یا آپ دل و زبان دونوں سے اس کے ساتھ ہیں۔“
٭٭٭٭٭