ایڈوکیٹ زاہد علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی جمہوریت آج کل دنیا کے اکثر ممالک میں رائج ہے یہاں تک کہ مسلمان ملکوں نے بھی اسی طرز حکومت کو اختیار کررکھا ہے۔ مغربی جمہوریت، حاکمیتِ جمہور کا ہی دوسرا نام ہے جس کا مطلب وہ حکومت لیا جاتا ہے جو لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کے لیے ہو یعنی یہ حکومت عوام ہی بناتی ہے اور عوام ہی چلاتی ہے لیکن عوامی بہبود اور خوشحالی ہی اس کا حقیقی مقصد ہے۔ لوگوں کو یہ حکومت منتخب کرنے کے لیے رائے دہی کا حق ہوتا ہے اور ان کی رائے سے منتخب ہونے والے افراد ہی حکومت کو عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق چلاتے ہیں۔ ہر ملک کا ایک دستور ہوتا ہے جو منتخب عوامی نمائندے غور و فکر کے بعد تشکیل دیتے ہیں اور جمہوری طرز حکومت میں اس دستور کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور تمام قوانین اور ضوابط اسی آئین کے اصولوں اور ہدایات کے مطابق بن جاتے ہیں اور جوقانون یا ضابطہ دستور کے اصولوں اور ہدایات کے خلاف ہو، اُس کو عدلیہ کے ذریعے کالعدم قرار دلوایا جاسکتا ہے۔ جمہوری ملکوں کے دساتیر میں انسان کے بنیادی حقوق سے متعلق ضرور ایک حصہ مختص ہوتا ہے اور یہ حصہ دستور کے دیگر حصوں یا اسباق پر فوقیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اور بہت سے ماہرین قوانین کی رائے ہے کہ یہ حصہ ناقابل تنسیخ مانا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس پر بہت کم عمل کیا جاتا ہے۔ اگرگہرائی سے دیکھا جائے تو ایک حقیقی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو ہی سردارتسلیم کیا جاتا ہے لیکن عملاً نظام حکومت ہاتھ میں آتے ہی یہی عوامی منتخب نمائندے سب سے بڑے ظالم اور جابر بن جاتے ہیں اور عوام پر اپنی ذاتی خواہشات کو قوانین کی شکل دے کر نافذ کرتے ہیں اور جب موقعہ آتا ہے تو آئین میں موجود دفعات کی آڑ میں ملک میں ایمرجنسی لاگو کرکے یا ملکی مفادات کے تحفظ کے نام پر ایسے قوانین وضع کراتے ہیں جو انسانیت کی مٹی ہی پلید کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ اس وقت دنیا پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ جمہوری طرز حکومت کے ذریعے چند لوگ اقتدار کی کرسیوں پر براجماں ہوکر، بدترین آمریت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں کے تمام اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کا بدترین استعمال کرکے، انسان کے بنیادی حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ناگزیر ہے کہ اسلامی طرز حکومت میں بھی عوام کی رائے سے ہی عوام کے اندر ہی ایسے افراد پر مشتمل شوریٰ یا پارلیمنٹ ترتیب دی جاتی ہے جو سب سے زیادہ متقی اور باصلاحیت ہوں اور ان میں صالحیت کے ساتھ ساتھ حکومت اور انتظامیہ چلانے کی صلاحیت بھی موجود ہو، علم و عمل اور فہم و فراست کے لحاظ سے یکتا ہوں اور انہیں اس بات پر قوی اور پختہ ایمان ہو کہ ایک دن انہیں اللہ کے سامنے جوابدہی کا سامنا کرنا ہے اور ان کے اعمال کا محاسبہ ہونا ہے۔یہ شوریٰ ملک کو چلانے کے لیے ایک انتظامیہ تشکیل دینے کی مختار ہوتی ہے لیکن اپنے سب امور ہدایت الٰہی یعنی قرآن وسنت کے ماتحت انجام دینے کی پابند ہوتی ہے اور ملکی انتظامیہ کا جو سربراہ اس طرح منتخب ہوتا ہے وہ بھی اپنے تمام امور و اختیارات میں قرآن و سنت کے اصولوں اور احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ یہاں حاکمیت صرف اللہ کا حق ہے اور عملاً حکومت چلانے والے اُس اصل حاکم کے نمائندے یعنی خلیفہ بن کر حکومت چلاتے ہیں۔ آمریت، بادشاہت، خاندانی راج ، نسلی برتری کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے اور اس لیے اس طرز کی حکومتیں اسلامی نہیں کہلاتی ہیں۔ یہاں حضرات خلفائے راشدین کے طرز پر ہی حکومت چلانے کا حکم ہے اور اسی طرز حکومت کو اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و توثیق حاصل ہے اور اسی طرز پر حکومت قائم کرنا، دین کا بنیادی تقاضا ہے۔
۱۹۴۷ئ میں جب برصغیر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ہند و پاک کی دو الگ الگ مملکتیں وجود میں آگئیں تو حکومت چلانے کے لیے دستور سازی کا کام بہت ہی اہم تھا۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اس لیے وہاں اسلامی دستور کی تشکیل میں کوئی دیر نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن شومئی قسمت کہ اقتدار پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہوگیا جن کو اسلام کی بوتک نہیں لگی تھی جس کے نتیجہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ستھر سال گزرنے کے باوجود بھی پاکستان ایک حقیقی اسلامی ملک بن نہ سکا حالانکہ ایک مسلم مملکت میں حکومت اسلام کی اور اسلام کے لیے ہی ہونی چاہئے، یہی عوام کی بھی خواہش ہے اگر چہ مسلم عوام کی اکثریت اس حقیقت سے اب بھی بے خبر ہے کہ وہ بار بار اس موقف کا اظہارکرتے ہیں کہ اُن کا جینا اور مرنا صرف اور صرف اسلام کے لیے ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے اور یہاں اس کی وضاحت کی گنجائش نہیں ہے۔
اصل سوال ہے بھارتی جمہوریت کا اور جب سے بھارت ایک جمہوری ملک بن گیا تب سے جموں وکشمیر علی الخصوص وادی کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے رویہ کیا ہے اور اسی حوالے سے اس مختصر مضمون میں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کا ایک خاکہ پیش کرنا ہے۔ بھارت نے بھی آزادی کے بعد ایک سیکولر اور جمہوری طرز حکومت اپنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے آزادی کے فوراً بعد ماہرین قانون و دیگر ماہرین پر مشتمل ایک دستور ساز کمیٹی تشکیل دی گئی اور ۲۶ جنوری۱۹۵۰ئ کو بھارت کی قانون سازیہ یعنی پارلیمنٹ نے ایک دستور کو پاس کرکے، بھارت کو ایک جمہوری اور سیکولر ملک قرار دیا اور آئین کے ایک اہم اور ناقابل تنسیخ حصے میں بنیادی انسانی حقوق کا ایک چارٹر پیش کیا گیا۔ چونکہ جموں وکشمیر کا عارضی الحاق یہاں کے نام نہاد ڈوگرہ مہاراج ہری سنگھ اور اُس وقت کے کشمیری لیڈروں جن کی قیادت مرحوم شیخ عبداللہ کررہا تھا، کی ملی بھگت سے بھارت کے ساتھ کیا گیا اور یہاں کے عوام کو بے وقوف بنانے کی خاطر اور پاکستانی غافل حکمرانوں کو چپ کرانے کی خاطر، بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ اعلان کیا کہ حالات سدھرنے کے ساتھ ہی، جموں وکشمیر کے عوام کو اپنا سیاسی مستقبل طے کرنے کی خاطر، رائے شماری کا موقعہ فراہم کیا جائے گا اور اس طرح کئی ایسی قرار دادوں کے ذریعے اس وعدے کو بار بار دہرایا گیا لیکن ستر سال گزرنے کے باوجود ابھی تک وہ موقعہ نہ آیا کہ یہاں کے لوگوں کو ان کا حق دیا جاتا اور ان سے کئے گئے وعدوں پر عمل کیا جاتا۔ یہ تو انسانی اور قومی فطرت ہے کہ جب کسی انسان یا قوم سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو وہ انسان یا گروہ وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی حکمرانوں نے جو ڈھونگ رچایا تھا وہ ظاہر ہونے لگا اور کچھ سال گزرنے کے بعد ہی بھارتی حکمرانوں نے یہاں کے عوام سے کیے گئے وعدوں کو ماضی کی داستانیں کہہ کر ان سے مکرنا شروع کیا اور جب شیخ محمد عبداللہ نے ان وعدوں کا تذکرہ کیا حالانکہ اُسی نے اس قوم کو بلائے ناگہانی میں مبتلا کیا تھا، تو اس کو نہ صرف نام نہاد اقتدار سے بے دخل کیا گیا بلکہ اُسی کی بنائی ہوئی پولیس کے ایک ادنیٰ اہلکار کے ہاتھوں گرفتار کرواکے سالہا سال تک ریاست سے باہر کی جیلوں میں اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت نظر بند رکھا گیا۔ ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ئ جہاں بھارتی عوام کے لیے ان کے جمہوری حقوق کے تحفظ کا دن ہے وہیں پر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لیے تمام حقوق بشمول بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کا یوم آغاز بن گیا۔ ۱۹۴۷ئ سے کشمیری عوام کی مبنی برحق آواز اور حق خود ارادیت کے مطالبے سے باز رکھنے کی خاطر پولیس کو ایسے اختیارات دئیے گئے اور ایسے سیاہ اور بدترین قوانین وضع کیے گئے جن کے ہوتے ہوئے یہاں کبھی بھی جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ ہی نہ ملا اور بے گناہ لوگوں کے لیے اپنے خیالات کے آزادانہ ظہار پر جیلوں اور تعذیب خانوں میں ٹھونسنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اُس روز سے جب سارے بھارت میں جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کی بالادستی کا اعلان ہو گیا یہاں ہماری ریاست علی الخصوص وادی میں سیاہ قوانین کے نفاذ اور لوگوں کے جمہوری اور دستوری حقوق کو پامال کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بتدریج ۲۶جنوری کا یہ دن وادی کے مسلمانوں کے لیے عذاب و عتاب اور مصائب کا دن بن گیا، کسی بھی عزت دار انسان کے لیے گھر سے باہر نکلنا اپنے آپ کو بے عزت کرنے کے برابر بن گیا۔ ہر جگہ پولیس اور بھارتی فورسز کے ناکے لگ جاتے ہیں اور ہر راہ چلتے کشمیری کو ان اہلکاروں کے غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاڑیوں کو روکنا، سواریوں کو نیچے اُتارنا ، الٹے پلٹے سوالات پوچھنا، ذرہ بھر ردعمل دکھانے پر غیظ و غضب کا شکار ہونا، ہر انسان جو اپنے گھروں سے ان دنوں باہر نکلتا ہے کو اس غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۲۶ جنوری آنے سے قبل ہی یہاں کے نوجوانوں اور حق خودارادیت کا برحق مطالبہ کرنے والے سیاسی لیڈروں اور ورکروں کی پکڑ دھکڑ کا بے جا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بستیوں اور قصبوں میں سناٹا چھا جاتا ہے اور معمول کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کے چہروں پر بشاشت ہی غائب ہوجاتی ہے اور خوف ودہشت چھا جاتی ہے۔ ہر ایک فرد، چھوٹا ہو یا بڑا خوف زدہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب کہاں کون سی آفت چھا جاتی ہے۔ اس سرکاری دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کی خاطر ملکی سلامتی کا راگ الاپا جاتا ہے اور ایسے ایسے قوانین وضع اور نافذ کیے گئے ہیں کہ سرکاری انتظامیہ یا بھارتی فورسز اہلکاروں کی طرف سے لوگوں پربھیانک ظلم کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں وکشمیر کے عوام کی ایک عظیم اکثریت اس بات کی خواہاں ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے، یہاں اقوام متحدہ کی قرار داددوں کے مطابق لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ایک حقیقی جمہوری نظام حکومت میں ایسا مطالبہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنا، حکومت کا بنیادی فریضہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں سب کچھ جمہوری اصولوں اور دستوری طریق کار کے خلاف ہورہا ہے اور دستور میں موجود انسانی بنیادی حقوق کو پامال کرنا ہی ملکی مفادات کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ۶۲جنوری بھارتی عوام کے لیے جو کچھ بھی ہے ہوگا لیکن کشمیریوں کے لیے یہ زحمت، مصیبت ، بے عزتی، پامالی ¿ حقوق اور بے کسی اور بے بسی کا ہی دن ہے اور اس دن انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ غلام ہیں اور غلامانہ زندگی بسر کررہے ہیں اور ان کی یہ حالت تب تک بدستور قائم رہے گی جب تک انہیں ان کا بنیادی حق، حق خود ارادیت واگذار نہ کیا جائے۔
٭٭٭٭٭