یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور دنیا کا نظام ربّ کریم نے ایک مقررہ وقت تک متعین کرکے رکھا ہے. یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے ایک ضابطے کے تحت زمین اور دیگر اجرام فلکی کو ایک مقررہ مدت تک دنیا میں قائم و دائم رکھا ہے. ہماری زمین نظام شمسی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے. نظام شمسی سورج اور ان تمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی ثقلی گرفت میں ہیں. آج کے سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آسمان میں موجود اجرام فلکی کو کوئی غیبی طاقت کنٹرول کی ہوئی ہیں. جب ہم قرآن شریف کے مقدس آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی گردش ، دن اور رات اور سالوں کے بدلنے پر واضح صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے۔قرآن مقدس کی آیات بینات اور سائنس کے مطابق دن اور رات بلکہ سال بھی زمین کی سورج کے گرد روزانہ اور سالانہ گردشوں کی وجہ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اسطرح انسان کو دن، مہینوں اور برسوں کا حساب و کتاب تیار کرنے میں آسانی ہوگی۔ یہ کتنی لطف کی بات ہے کہ اللہ پاک نے دنوں، مہینوں اور برسوں کا وجود انسان کے لئے ایک عظیم نعمت کے طور پر دنیا میں عطا کیا ہے ۔یہ انسان ہی ہے جو اتنی ساری نعمتوں کا شکر و ثنا ادا کرنے میں بھی بخل سے کام لیتا ہے۔
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے تب سے ہی سال بدلتے آئے ہیں. قدرت کے نظام کے مطابق سال 2017 بھی بدل گیا ہے لیکن مہینے تو وہی ہیں، دن اور راتیں وہی ہیں ، دریا اور سمندر وہی ہیں ، چرند و پرند وہی ہیں ، پیڑ پودے وہی ہیں ، پہاڑ و ریگستان وہی ہیں ، انسان وہی ہیں ، حکمران وہی ہیں ، رعایا وہی ہیں ، غربت وہی ہے، بے روزگاری وہی ہے، مہنگائی وہی ہے، بگڑا ہوا معاشرہ وہی ہے وغیرہ وغیرہ….! جب سب کچھ وہی ہے تو پھر سال ختم ہوتے ہی بدلتا کیا ہے….؟ دراصل بدلتا کچھ بھی نہیں ہے۔بس صرف سال کا ہندسہ بدلتا ہے…. 2017 کے بعد 2018 آیا….!گزشتہ سال کی چند تلخ یادیں ہی سال نو میں باقی رہتی ہیں۔دوستو….! اخباری اطلاعات کے مطابق سال 2017کشمیر میں ہلاکت خیز سال ثابت ہوا ہے،کیونکہ اس پورے سال کے دوران وادی گلپوش کی کشیدہ صورتحال کی وجہ سے اوسطاً ایک جان ہر دن تلف ہوئی اور تقریباً ساڑے تین سو سے زیادہ انسانی جانوں کا زیاں ہوا. ان انسانی جانوں کی زیاں پر اگر سال 2017 کو وادی کشمیر کے حالات کے پیش نظر Deadly yearکہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ اس بدنصیب قوم کی بے بسی اور بے کسی کا حال ہی بے حال ہے۔کب تک ہم اس ظلم و جارحیت کی چکی میں پسے رہیں گے؟ انسانی جان ، جو زمین پر ہر چیز سے محترم ہے، اس کو چند حقیر مقاصد کی خاطر بخیل انسان نے ہی خون خرابے سے بے قیمت بنایا ہے۔کیا یہ بے تحاشا قتل و غارت اس غافل انسان کو مالک حقیقی معاف فرمائے گا؟ ہم مجبور و مقہور لوگ بس خلّاق عالم کے فیصلے کے منتظرہیں ، وہی بہترین عادل اور انصاف کرنے والا ہے….!بین الاقوامی سطح پر سال 2017 امریکی تاریخ کے متنازعہ ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم (القدس) کو غیر قانونی طور اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے شرانگیز فیصلے کی وجہ سے بھی یاد رہے گا۔ صدر ٹرمپ پر جنونیت سوار ہوئی ہے اس لیے مسلم دشمنی کے تمام امریکی ریکارڈ مات کرکے اور یہودیوں کا ساتھ دے کر منافرت اور تنازعات کو فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ اس حقیقت کو تمام دنیا تسلیم کرتی ہے کہ القدس (یروشلم) فلسطین کا شہر ہی نہیں بلکہ دارلخلافہ بھی ہے اور مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔امریکی صدر کے شرمناک فیصلے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مجروح ہوئے ہیں۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ایک غیرقانونی ریاست ہے۔ معصوم مسلمانوں پر شب خون مار کر ظلم اور جارحیت سے فلسطینیوں کا حق مار رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی اس تاناشاہی پر مسلم دنیا بے بس نظر آرہی ہے….ترکی کے نڈر صدر طیب اردگان کے یہ تاریخی الفاظ سب مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آج اگر مسلمان بیت المقدس کو نہیں بچا پائیں گے تو کل مدینہ منورہ بھی ہاتھ سے جائے گا. اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی ہدایت و حفاطت فرمائے۔
سال 2017 ہم سے رخصت ہوا ہے. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی سال شروع ہی ہوا ہے۔ اکثر ہم لوگ سال کے اختتام پر معمول کی طرح ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلا یہ سال اتنی جلدی کیوں چلا گیا۔وقت تیزی سے نکل جاتا ہے۔کاش انسان وقت کی قدر و قیمت کا احساس اپنے اندر پیدا کرتا تو سال کے اختتام پر اس کو سال کے جلدی نکلنے کا دکھ نہیں ہوتا۔وقت ہر ایک کے لیے نعمت ہے۔ لیکن مسلمان کے لیے وقت کو ربّ کریم نے نعمت ہی نہیں بلکہ عبادت کے طور پر عطا کیا ہے۔ کلمہ کے بعد پانچ وقت کی نمازوں کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کو فرض عین قرار دیا۔ اسی طرح قرآن مقدس میں جگہ جگہ وقت کی اہمیت کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو سمجھایا اور اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو عیش و عشرت کے بجائے بہترین اعمال سے اپنے عقبےٰ کو بہتر بنانے کی مہلت دی ہے۔ وقت کو ہوشیاری سے گزارنے کے لیے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے ”آج اور کل“ عنوان کے تحت ایک مختصر لیکن فکرانگیز نظم میں امت کو یہ خاص پیغام دیا ہے جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے:
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
علامہ مرحوم اس چھوٹی سی نظم میں مسلمان قوم کو خوابیدگی سے بیدار کرکے کہتے ہیں کہ جو قوم آئندہ زمانہ میں عروج کے لئے آج تیاریاں نہیں کرتی وہ کبھی آئندہ زمانہ میں سربلندی حاصل نہیں کرسکتی. جو قوم آج کوشش نہیں کرتی وہ کل کامیاب بھی نہیں ہوسکتی۔جو قوم حال کی قدر نہیں کرتی اور موجودہ وقت کو ضائع کردیتی ہے وہ مستقبل میں برسراقتدار نہیں ہوسکتی۔کسی قوم کے مستقبل کا اندازہ اس قوم کی موجودہ حالت سے بآسانی کیا جاسکتا ہے، جو قوم آج غافل ہے کل ضرور ناکام ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم آج کا دن تو سونے میں ضائع کردیں گے اور کل میدان جنگ میں کامیاب ہوجائیں گے۔(ضرب کلیم)
2017 میں اللہ پاک نے جو قیمتی لمحے ہمیں عنایت کئے ان کو ہم نے کیسے خرچ کیا….؟ اس پر ہر ایک کو سوچنا چاہیے۔کیونکہ اللہ پاک نے یونہی انسان کو دنیا میں نہیں لایا ہے۔ بلکہ انسان کو دنیا میں ایک مقررہ وقت تک صرف اور صرف اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے اور اسکا قرآن مجید میں سورہ الذاریات کی آیت نمبر 56میں بیان کیا ہے: ترجمہ:
”اور میں نے جِن و انسان کو اسی واسطے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کیا کریں۔“
ہمارے پاس ہر سال 365 دن اللہ ربّ العزت نے عنایت فرمائے. ان کا مصرف کیسا رہا. اس پر ہر ایک کو غوروفکر کرنی چاہیے. نئے انگریزی سال 2018 کا آغاز ہوتے ہی لوگ خوشیاں اور شادمانیاں مناتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکباد اور تہنیت دیتے ہیں (جوکہ شرعاً جائز نہیں ہے) ، لیکن کیا کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ 2017 کا سال جسے اللہ تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں عنایت فرمایا تھا، اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ 2017 کے لمحوں کو یاد کرکے ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے کیونکہ اللہ پاک نے جو لمحے ہمیں عنایت کئے ان کو ہم نے کہاں خرچ کیا؟ کتنا وقت ہم نے اچھے اور نیک کاموں اور سرگرمیوں کے لئے وقف کیا؟ حقوق اللہ میں ہم نے کتنے رکوع اور سجدے اپنے ربّ کے حضور کئے….؟ چونکہ گیا وقت دوبارہ ہاتھ تو نہیں آئے گا ، اسلئے 2018 میں ہم اپنے ربّ کریم کے حضور میں اپنے خطاو ¿ں اور گناہوں کا اعتراف کرکے آئندہ حق پر ثابت قدم رہنے کا مسلم ارادہ کر لیں اور 2018 میں اپنی خوبصورت وادی اور باقی اقوام عالم بالخصوص مسلم اقوام میں امن و امان کی فضا قائم ہونے کی اللہ جل شانہ کے حضور سربسجود ہو کے دعائیں کریں گے. 2018 میں کیا ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا البتہ انسان ہمیشہ اس آس اور امید کے ساتھ نئے سال کا خوش آمدید کرتا ہے کہ یہ سال ہر ایک کے لئے خوشیوں اور شادمانیوں کا سال ثابت ہوگا۔ اس تناظر میں یہاں علامہ اقبال کی ایک اور مختصر نظم ”دنیا“کا ذکر کرنا بہتر سمجھتا ہوں جس میں علامہ مرحوم نے انسان بالخصوص مسلمان کو یہ احساس دلایا کہ دنیا کی چیزوں سے آس لگائے رکھنا عبث ہے کیونکہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ صرف انسان کی خودی باقی رہنے والی شے ہے اور اس کے علاوہ کائنات کی سب چیزیں غیر حقیقی اور فانی ہیں۔ اس نظم کے اشعار یہ ہیں:
مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی
وہ چاند ، یہ تارا ہے ، وہ پتھر یہ نگیں ہے
دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتویٰ
وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے
حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا
تو ہے ، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے!
ان اشعار کی تشریع ”ضرب کلیم“میں اسطرح کی گئی ہے: مقصود اقبال کا اظہار اس حقیقت سے ہے کہ اے مسلمان! جب یہ مسّلم ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ کسی چیز کو ثبات و دوام نہیں ہے ، آج ہے کل نہیں ہے.تو کس قدر بے وقوفی کی بات ہے کہ تو ان موہوم اشیاءکی طلب میں اپنی تخلیق کے اصل مقصود سے غافل ہو جائے. تجھے اللہ نے اس لئے پیدا نہیں کیا کہ تو زن ، زر اور زمین کے حصول میں تضیع اوقات کرکے اپنی خودی کو تباہ کرلے. یاد رکھ دنیا کی کوئی چیز مومن کے لئے مقصود بالذات نہیں ہوسکتی…. وہ دنیا کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ پاک سے غافل نہیں ہوتا. وہ ہر گھڑی اس صداقت کو پیش نظر رکھتا ہے کہ دنیا اور اسکی زندگی سراسر دھوکا ہے اور عقلمند وہ ہے جو اس دھوکے میں نہ آئے اور صرف اللہ سے لو لگائے۔ جہاں کسی مسلمان نے اللہ کو چھوڑ کر غیر سے دل لگایا وہ اپنے مقام سے گِر جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو اسکی بربادی بالکل یقینی ہے۔“
الغرض دنیا اور دنیا کی چیزوں سے امیدیں وابستہ رکھنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔سال ہو یا مہینہ ، دن ہو یا رات ، مسلمان کو ہمیشہ اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ یہ سب اللہ پاک کی قدرت کی نشانیاں ہیں اور ان پر غور و فکر کرکے مسلمان اپنے ایمان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کریں۔
٭٭٭٭٭