امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ،جارج واشنگٹن کی تصویر تلے کھڑے ہو کے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کر تے ہوئے جب یہ کہہ رہے تھے کہ اس کام کے لئے یہی موزوں وقت ہے تو بلاشبہ دنیا کے معروضی حالات انکے اس فیصلہ کی تصدیق کر رہے تھے،جس نے مغرب کے صلیبی چہرہ سے ایک بار پھر سیکولر ازم کا ماسک نوچ کے دنیا کوکبھی نہ تھمنے والی مذہبی جنگوں کے دہانے پہ لا کھڑا کیا۔امریکی انتظامیہ کا یہ قدم دراصل دنیا کے تین بڑے مذاہب کے درمیان تاریخی تنازعات کو ازسر نو زندہ کرنے کا محرک بنے گا،اس حقیقت کو فراموش کرنا ممکن نہیں کہ بیت المقدس کی کلید برداری کا اعزاز تینوں بڑے مذاہب کے تاریخی شعورکا جزو رہا۔1947میں اقوام متحدہ نے یروشلم پر تینوں بڑے مذاہب،عیسائیت،یہودیت اور اسلام کو یکساں تصرف کا حق دے کر عارضی طور پہ اُس کشمکش کو منجمد کر دیا،جس نے چودہ سو سال تک دنیا کو میدان کارزار بنائے رکھا تھا، لیکن امریکہ کی طرف سے یروشلم یہودیوں کے حوالے کرنے کے فیصلہ نے ایک بار پھر تینوں مذاہب کے درمیان تفریق بڑھا دی ہے۔بہرحال ٹرمپ انتظامیہ نے ایک ایسے وقت میں اس اہم ترین فیصلہ پر عمل درآمد کا اعلان کر کے عالمی سیاست کو نئی جہت عطا کرنے کی کوشش کی جب پوری مسلم دنیا سیاسی خلفشار اور داخلی تضادات کے دلدل میں دھنسی ہوئی ہے ،تاریخ کے اس مرحلہ پہ یروشلم کو اسرائیل کے حوالے کرنے کے فیصلہ کی مسلم مملکتوں نے نہایت محتاط انداز میں مذمت کی اور دنیا بھر میں اس فیصلہ کے خلاف محدود پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جس سے واضح ہوتا ہے کہ صرف مسلم معاشرے ہی تباہ حال نہیں ہیں بلکہ پوری دنیائے انسانیت اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔فلسطین کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ضرور ہوئے لیکن یروشلم خاموش رہا ،اس لیے کہ انہیں اسرائیل مخالف مظاہروں کی قیمت کا اندازہ ہے۔حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ اس فیصلہ کے ذریعے اوسلو معاہدہ کو قتل کر کے امریکہ ثالث کی بجائے خود تنازعہ کا فریق بن گیاہے،یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کر کے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ اور جارحیت کا ارتکاب کیا گیا،اب ہم مغربی جمہوریت کے چہرے پہ ایک نئے انتفادہ سے حملہ کریں گے،یروشلم ہمارا ہے اور مستقبل میں فلسطین کا ہی دارالحکومت ہو گا۔
حالات گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا اس فیصلہ کو سننے کے لئے تیار تھی،یہ عین ممکن ہے کہ امریکی انتظامیہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے سے قبل یورپ،روس،چین اور سعودی عرب سمیت ایران کو بھی اعتماد میں لیا ہو،اس لئے دنیا بھر میں اس فیصلہ کے خلاف اٹھنے والی آوازیں قدرے دھیمی تھیں،بلاشبہ 1995 سے زیر التوا اس فیصلہ پر عمل درآمد سے قبل امریکہ سمیت مغربی دنیا نے ہوم ورک مکمل کر کے پوری تیاری کے ساتھ قدم اٹھایا۔حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ اس نہایت اہم قدم سے پہلے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمان معاشروں کو فرقہ وارانہ جدلیات میں منقسم اور مسلم مملکتوں کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا گیا،سیاسی تقسیم کی لکیریں اتنی گہری ہیں کہ مستقبل قریب میں امت کے اتفاق و اتحاد کے امکانات معدوم ہیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان براہ راست کشمکش مسلمانان عالم کو متحد کر سکتی تھی، جس سے بچنے کی خاطر عیسائی ممالک کی سیاسی قیادت نے ازخود مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلہ کی مذمت کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق کو کھوکھلے بیانات کی دھند میں چھپانے کی کوشش کی ۔بالکل ویسے جیسے عراق پہ حملہ کے وقت جارج ڈبلیو بش کے تیسری صلیبی جنگوں کے آغاز کے اعلان کے بعد پوری مغربی دنیا میں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔یورپ کے عیسائیوں نے اس وقت بھی صدر بش کے اعلان کو مسترد کر کے مسلمانوں کو فریب دیا۔ عراق وار کے خلاف بھی برطانیہ اور فرانس میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کرائے گئے لیکن عملاً مغربی دنیا نے امریکی جارحیت کی حمایت کی۔برطانیوی پارلیمنٹ کے رکن جارج گیلوے نے مسلم ممالک کے دورے کر کے عراق جنگ کے خلاف لیکچر دیے اور امریکی صدر بش کی لندن آمد پہ لندن کے میئر کین لیونگسٹون کی قیادت میں دس لاکھ عیسائیوں نے مسٹر بش کے خلاف اور مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرہ کیا ،لیکن یہ ساری مساعی صرف فریب نظر اور مسلمانوں کے اجتماعی شعورکو عالم عیسائیت کے خلاف صف آراء ہونے سے روکنے کی چال تھی۔یورپ کے لاکھوں افراد کے مظاہروں کی گونج نے امریکی جارحیت کو نہیں بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی ردعمل کو کند کرکے ان سے دشمن کے خلاف متحد ہونے کا احساس چھین لیا تھا۔چنانچہ عراق کے بعد شام اور شام کے بعد سعودی عرب اور اب یروشلم کو اسرائیل کے حوالے کر کے فلسطینی اتھارٹی کو مٹی میں ملا دیا گیا، مگر یوروپی ممالک صرف مصنوعی بیان بازی کے ذریعے مسلمانوں کی جداگانہ سوچ کو ملتبس رکھنے کے سوا مسلمانوں کے لئے اور کچھ نہ کر سکے۔ہمیں اہل یوروپ کی اس فریب کارانہ ہمدردی کو مسترد کر دینا چاہیے۔
حیرت انگیز طور پہ یورپ و امریکہ نے مسلم ملکوں کو براہ راست فتح کرنے کی بجائے انہیں انتشار سے لبریز داخلی کشمکش میں سرگرداں رکھنے کی حکمت عملی اپنا کے مسلمان معاشروں کو ایسے وبال میں مبتلا کر دیا ہے، جسکی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔دنیا بھر کی نسلی اور اسلامی تحریکیں عیسائیوں اور یہودیوں سے لڑنے کی بجائے اپنی ہی مسلمان مملکتوں کے خلاف برسرپیکار ہو کرریاستوں اور مسلم معاشروں کو مضمحل کر چکی ہیں۔اگر مسلمان ریاستیں ٹوٹ جاتیں تو استعمار سے آزادی کی خاطر اٹھنے والی پرامن تحریکوں کے علاوہ پرتشدد اسلامی تحریکوں کا ہدف بھی غاصب عیسائی،یہودی یا ہندو ہوتے لیکن اب بوکو حرام، داعش، القاعدہ، طالبان اور حزب التحریر سمیت درجنوں مسلح تحریکیں مسلم ممالک اور مسلمان معاشروں کے خلاف برسر جنگ ہو کر مسلم معاشروں کو داخلی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام میں مبتلا کردیا ہے۔اس وقت مڈل ایسٹ کا سنٹر آف گرویٹی سعودی عرب شدید ترین داخلی تنازعات اور مالی بحرانوں میں گِھر چکا ہے۔بلاد عرب کی خود مختار مملکتوں کو بیرونی مداخلت نے خانہ جنگیوں کی آگ میں جل کر خاکستر کر ڈالاہے۔مصر اور لبنان گزشتہ پچاس سالوں سے اسلامی تحریکوں کی مسلح کشمکش کی آگ میں جل رہے ہیں،ترکی ابھی تک حالیہ بغاوت کے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکا،ایران کو ایک طرف شیعہ سنی تضادات کی زنجیر نے جکڑ رکھا ہے تو دوسری طرف وہ اپنے تاریخی پس منظر سے باہر نکل کر عربوں سے نسلی عداوت ختم نہیں کرپایا، مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت پاکستان کو بد ترین دہشتگردی اور سیاسی انتشار کا سامنا ہے، پاکستان اور افغانستان آج بھی 1979 کی پراکسی جنگ کے مضمرات کو بھگت رہے ہیں،مراکش و الجزائر سے لیکر بنگلہ دیش،انڈونیشیا اور ملائشیا تک تمام چھوٹی بڑی مسلم مملکتیں داخلی تنازعات کے آشوب میں پھنسی ہوئی ہیں۔صدر ٹرمپ نے درست کہا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کا اس سے بہتر وقت اور کیا ہو سکتا تھا۔مغربی کلیسا نے مسلمانوں کی زبوں حالی کا درست ادراک کر کے صحیح وقت پر یہ اذیت ناک فیصلہ کر کےمڈل ایسٹ کو موت و حیات کے دوراہے پہ لا کھڑا کیا۔لاریب اس وقت مسلمانوں کی بقا قیام امن کی کوشش میں نہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف غیرمحدودجنگ میں مضمر ہے ۔