الامام مودودیؒ….ایک مصلح، ایک مفکر، ایک مجدد۔۔۔۔ علامہ یوسف القرضاوی

الامام مودودیؒ….ایک مصلح، ایک مفکر، ایک مجدد۔۔۔۔ علامہ یوسف القرضاوی

تبصرہ

مترجم: ابوالاعلی سید سبحانی

تبصرہ: عاصم رسول/سرینگر

مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ بیسویں صدی کی عبقری اور عظیم شخصیت تھے،جنہوں نے اپنی خداداد فکری و علمی صلاحیت سے بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا ۔مولانا کو جو زمانہ نصیب ہوا اس میں مسلمان اخلاقی ، دینی اور سیاسی زوال کا شکار ہوگئے تھے۔ انگریزوں کی ہمہ جہتی مرعوبیت مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں رچ بس گئی تھی۔ اپنے درخشاں ماضی پر مسلمانوں کا اعتماد اُٹھ گیا تھا اور اپنے مستقبل کے حوالے سے بالکل یاس و قنوطیت کی کیفیت سے دوچار تھے۔ اسلام مخالف عناصر مسلمانوں کے دینی شعائر پر طعن و تشنیع کے نشتر چلا رہے تھے اور اسلام کی مقدس اصطلاحات کو مسخ کرنے کے لیے انہیں غلط شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جارہا تھا۔اس تاریک اور گھٹن بھرے ماحول میں مولانا نے اپنے خارا شگاف قلم سے ان باطل تصورات اور اسلام مخالف نظریات پر ایسی چوٹ لگائی کہ باطل کے آلہ کاروں کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا۔اس طرح مولانا کی پُر اثر نگارشات کا ہی خاصہ تھا کہ اس وقت مسلمانوں کا اعتماد اسلام پر پھر بحال ہوا۔

مولانا مودودی  کی شخصیت اس حوالے سے منفر نظر آتی ہے کہ انہوں نے بہ یک وقت ٹھوس اور اوریجنل فکری کام انجام دیا اور ساتھ ہی اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ”جماعت اسلامی“کا قیام عمل میں لایا۔ زیر نظر کتا ب میں علامہ قرضاوی لکھتے ہیں”مولانا مودودی گنتی کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے بیک وقت فکر اور تحریک، یا علمی اور تنظیمی و دعوتی دونوں محاذوں پر کام کیا۔ یہ بات کسی صاحب علم سے مخفی نہیں، کہ جو لوگ تحریکی، دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں میں لگ جاتے ہیں، وہ بہت ٹھوس اور یجنل علمی کاموں کے لیے وقت نہیں نکال پاتے، ایسے لوگوں کا عذر ہوتا ہے کہ ان کا کام افراد کی تیاری ہے نہ کہ کتابوں کی، اورجب وہ افراد تیار ہوجائیں گے جو مطلوب ہیں، تو وہ افراد وہ تمام کتابیں تیار کردیں گے، جن کی ضرورت ہے۔“(صفحہ نمبر ۲۷)

یہ بالکل قابل فہم بات ہے کہ ایک ایسی زبردست شخصیت جس نے اسلامی فکر سے لوگوں کو روشناس کرنے کے لیے سینکڑوں کتابیں اور کثیر مقالات تحریر فرمائے اور ایک انقلابی جماعت کی تاسیس اور اس کی جڑیں معاشرے میں مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ایسی ہمہ گیر شخصیت پر تائیدی اور تنقیدی ہر اعتبار سے علمائ،فضلاء،محقیقین اور دانش وران نے اپنی سوچ کے مطابق قلم کو جُنبش دی۔اور آج تک اس سلسلے میں بے شمار کتابوں اور مضامین کا ذخیرہ جمع ہوا۔لیکن بقول عنایت اللہ اسد سبحانی صاحب جب کسی عالمی شخصیت پر کوئی عالمی شخصیت قلم اُٹھاتی ہے، تو اس کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

علامہ یوسف القرضاوی کی زیر نظر کتا ب”نظرات فی فکر الامام المودودی“ جس کااُردو ترجمہ ابوالاعلی سید سبحانی نے”امام مودودی۔ایک مصلح، ایک مفکر، ایک مجدد“کے نام سے کیا ہے مختصر ہونے کے باوصف بہت اہم ہے۔مصنف موصوف نے دیانت داری اور غیر جانبداری سے مولانا کی شخصیت اور ان کی فکر پر قلم اُٹھا یا ہے اور مصنف نے جہاں اپنی دانست میںفکرِ مودودی کی خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں سید مودودیؒ کے چند نظریات پر نقد بھی کیا ہے۔اُردو ترجمہ کا پیش لفظ لکھنے والے مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی صاحب لکھتے ہیں”علامہ قرضاوی نے مولانا پر جو نقد کیا ہے، اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے علامہ مودودی کی جو تعریف و تحسین کی ہے، وہ عقیدت کی بنیاد پرنہیں کی ، بلکہ انہوں نے ان کی کتابوں کا تحقیقی اور معروضی مطالعہ کیا ہے، جو چیزیں قابل تعریف ملیں، ان کی تعریف کی ہے، جو باتیں قابلِ تنقید نظر آئیں، ان پر تنقید کی ہے۔“

زیر تبصرہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ”مولانا مودودیؒ بحیثیت مفکر“ہے اس کے موضوعات یوں ہیں۔ فکر مودودی کی خصوصیات ۔اس وقت کا ہندوستان۔تقلیدی ذہن، خرافاتی نظریہ، مغرب کی نقالی، شکست خوردہ انداز فکر، مدافعانہ اور معذرت خواہانہ ذہن، فتنہ انکار حدیث، قادیانی تحریک ،سید مودودی اور ان کا فکری ظہور، فکر مودودی کی نمایاں خصوصیات۔ خالص اور کامل اسلام ،عصری بصیرت یا زمانہ شناسی، دوبدو مقابلہ۔دوسرا حصہ”مولانا مودودی، مصلح اور داعی انقلاب اس کے موضوعات یہ ہیں۔فکر مودودی کا تحریکی پہلو، کتابوں اور افراد دونوںکا مولف ، امام مودودی کی تحریک کا روحانی پہلو، شخصی اوصاف، اللہ کی طرف ہجرت، معاشرے میں دعوت الی اللہ کا کام، نصائح اور ہدایات، تعلق باللہ، تعلق باللہ کے معنی، تعلق باللہ بڑھانے کا طریقہ، تعلق باللہ میں ترقی کے وسائل، تعلق باللہ کو ناپنے کا پیمانہ، دنیاپر آخرت کو ترجیح، مولانا مودودی کا بے پناہ صبر و تحمل۔تیسرا حصہ مولانا مودودی کے ناقدین کی اقسام اور اس کے موضوعات۔ مغرب کے فکری غلام(سیکولر اور مارکسسٹ)، تصوف کے دوکاندار، ثقافتی سطح کا فرق،معاصرین کا حسد، جزوی مسائل میں اختلاف، بعض افکار میں کچھ بڑوںکا اختلاف، سید ابوالحسن ندویؒ کی ننقید، ڈاکٹر محمد عمارہ کی تنقید، انصاف کی بات ، کسی تحریر کو دوسری تحریروں کی رشنی میں دکھنا ،اسلام کا سیل رواں،(اور بھی متعدد ذیلی عنوانات)۔

سید مودودی کی فکر کے حوالے سے بہت سے حضرات نے اعتراضات وارد کیے ہیں جن سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شبہات اور اشکالات پیدا ہوئے ،یہ کتاب ان لوگوں کے اشکالات دور کرنے کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔مولانا کی کچھ تحریروں کو بنیاد بنا کر کچھ اہل علم نے جو نتائج اخذ کرکے ان پر رد کیا ،علامہ قرضاوی نے نہایت عمدہ طریقے سے ان کی اصل حقیقت واضح کی ہے اور حیرت انگیز طور پر مولانا ہی کی تحریروں سے استشہاد فرمایا ہے۔اختصار کے ساتھ یہاں دو چیزوں کی مثال دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ مولانا کے ناقدین نے اس بات پر سید مودودیؒ کو ہدفِ تنقید بنایا کہ مولانا نے دین کے خارجی پہلووں پر اپنی پوری قلمی قوت صرف کی جب کہ دین کے داخلی پہلومثلاً تعلق باللہ کے حوالے سے مولانا کے لٹریچر میں حد درجہ کمی بل کہ ایک اعتبار سے اعتناءبرتا گیا ہے۔علامہ قرضاوی مولانا کی کتاب”تحریک اور کارکن“کا حوالہ دے کر اور اس کتاب سے تعلق باللہ اور اس کی حقیقت پر مولانا کی تحریرمن و عن نقل کرتے ہیں ،نمونے کے طور پر مذکورہ تحریر سے ایک عبارت یہاں نقل کرتا ہوں”یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا، جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہوگا، اور یہ اتناہی کمزور ہوگا جتنا خدا نخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوگا۔ ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے اوراس میں سرگرمی اسی وقت پیداہوتی ہے جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دلچسپی میں گہرائی اور گرم جوشی ہو۔“(صفحہ نمبر ۳۸)

اس طرح مولانا پر یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ وہ یہ نظریہ رکھتے تھے کہ اسلام کو مکمل اور جامع انداز میں صرف رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین  کے زمانے میں سمجھا اور عملایا گیا، اس کے بعد اسلامی تعلیمات کا کوئی نقش اور کوئی رمق باقی نہیں رہی(سوائے موہوم سی کرن)اور ملوکیت کا دور ہر اعتبار سے اسلام کے زوال اور انحطاط کا دور رہا ہے اور ملوکیت چاہے غیر مسلموں کی ہو یا مسلمان ملوک ہوں ، ان میں نوعیت اور کیفیت کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔علامہ قرضاوی فرماتے ہیں کہ مولانا کے حوالے سے ایسی سوچ ان کی تمام تحریروں کو نہ پڑھنے کا شاخسانہ ہے۔ علامہ قرضاوی مولانا مودودیؒ کی کتابوں کو پڑھنے کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں”میں ہمیشہ سے اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ مولانا مودودی کی کسی تحریر کی بنیاد پر ان کے سلسلے میں کوئی بات نہ کہی جائے، ہم اس وقت تک ان پر کوئی حکم نہ لگائیں جب تک ان کی تمام تحریروں کو نہ دیکھ لیں۔ کیوں کہ جس بات کو وہ ایک جگہ مطلق انداز میں لکھتے ہیں، اسی بات کو دوسری جگہ کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط کردیتے ہیں۔ جس بات کو وہ ایک جگہ عموم کے ساتھ لکھتے ہیں، اسی بات کو دوسری جگہ خاص کردیتے ہیں۔ جس بات کو وہ ایک خطاب میں مجمل طورکہتے ہیں،اسی بات کو وہ دوسری کتاب یا خطاب یا تحریر میں مفصل انداز میں بیان کرتے ہیں۔اگر ہم کتاب الٰہی کو سمجھنے میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں تو اللہ کے بندوں کے کلام کو سمجھنے، یا اس کے سلسلے میں کوئی فیصلہ صادر کرتے وقت کیوںنہیں اس بات کا خیال رکھتے ہیں؟۔“(صفحہ نمبر ۳۲۱)۔دور ملوکیت کے حوالے سے علامہ قرضاوی مولاناؒ کے ایک کتابچہ ”اسلام عصر حاضر میں“کا یہ اقتباس نقل کرتے ہیں”بلا شبہہ ہمارا دور ملوکیت بھی دنیا کی دوسری قوموں کے ادوار ملوکیت سے بہت بہتر رہا ہے۔ گو ملوکیت اپنے جلو میں بہت سی خرابیاں لائی۔ لیکن پھر بھی ہماری تاریخ میں وہ تاریک دور کہیں نظر نہیں آتا جو دوسری اقوام کی تاریخ میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتاہے۔ بلکہ میں اس بات کی داد دیتا ہوں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اتنے صالح بادشاہ گزرے ہیں کہ دنیا کی کسی اور قوم نے اتنے صالح بادشاہ پیدا نہیں کیے۔“(صفحہ نمبر ۳۳۱)

بہ ہر حال مولاناپر لکھی گئی بے شمار کتابوں میں یہ کتاب بہت وقیع ہے۔اسلام پسند اور تحریک پسند بل کہ مولانا سے یک گونہ بُعد رکھنے والے حضرات کو بھی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔اللہ تعالی مصنف ،مترجم ، پبلشر اور ان تمام حضرات کودائم نعمتوں سے نوازے جنہوں نے اس کتاب کو منصہ شہودپر لانے میں معاونت کی۔آمین۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.