تبصرہ
غازی سہیل خان/بارہمولہ
کسی بھی تحریک ، جماعت، انجمن یا ادارے کو اپنی دعوت کی ترسیل و اشاعت کے لیے ایک رسالہ ، مجلہ یا ترجمان کی حاجت ہوتی ہے جسے انگریزی میں Mouth Piece کہا جا تا ہے۔برصغیر میں ماضی میں مختلف سیاسی، ادبی اور سماجی تنظیموں کی طرح دینی جماعتوں نے بھی رسالے اور مجلے شائع کرائے جو کہ اصل میں اُن تحاریک اور جماعتوں کی دعوت کی ترجمانی کا کام کرتے تھے۔ جماعتِ اسلامی کے بانی اور بیسویں صدی کی عہد ساز شخصیت مولانا سیدابولاعلیٰ مودودیؒ نے بھی جماعت اسلامی کی فکر اور دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے” ترجمان القرآن “نامی رسالے کا اجراءکیا اور اِسی رسالہ کے توسط سے اپنے افکار و نظریات دنیا کے سامنے پیش کیے۔ ریاست جموں کشمیر کی طلبہ تحریک اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر بھی اپنی دعوت کی ترسیل کے لیے ” پیام طلبہ“ کے نام سے ایک اُردو ماہنامہ شائع کرتی ہے جس میں ہر ماہ کسی خاص موضوع (Theme)پر فوکس کرکے درجنوں مضامین پیش کیے جاتے ہیں۔ پیامِ طلبہ کا تازہ شمارہ ” تحریکات، افکار و نظریات“ کے عنوان کے تحت چھپ کر آیا ہے اور زیر نظر مضمون میں راقم الحروف پیامِ طلبہ کے اِسی خصوصی پر تبصرہ پیش کر رہا ہے۔
ادارہ پیام طلبہ ” تحریکات افکار و نظریات نمبر“ غیر معمولی اس لیے ہے کہ اس میں کئی اسلامی و غیر اسلامی تنظیموں کے تعارف ، کام اور جائزے سے قارئین کو متعارف کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ رسالے کی ابتداءمیں تذکیر کے عنوان کے تحت یک صفحی درسِ قرآن و درسِ حدیث شامل ہے۔رسالے میں کُل ۱۹ مضامین شامل ہے جو کہ مختلف ذیلی عنوانات کے تحت پیش کیے گئے ہیں۔تحریکات ، افکار و نظریات کی ذیل میں تحریک اسلامی کی ابتدائ، اخوان المسلمون، جماعتِ اسلامی، ترکی کی تحریکِ اسلامی، ملیشیا کی تحریک اسلامی ،تبلیغی جماعت اور سلفی تحریک کے موضوعات پر مفصل اور پُر مغز مضامین شاملِ رسالہ ہیں۔ امیر جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر خواجہ غلام محمد بٹ کا انٹرویو خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس میں امیر جماعت نے دنیا کی تحریکاتِ اسلامی پر بالعموم اور ریاست جموں و کشمیر کی تحریک اسلامی پر بالخصوص متعدد سوالات کے جواب دیے ہیں۔ اسلامی تحاریک کے تعارف کے بعد مختلف غیر اسلامی تنظیموں جیسے صہیونیت، آر ایس ایس وغیرہ پرتجزیاتی مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔ علاوہ ازیں غیر اسلامی افکار و نظریات جیسے سرمایہ داری، مادیت، نسوانیت، قوم پرستی، سامراجیت، سیکولرا زم وغیرہ کابھی اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کے سابق مرشدِ عام مرحوم مہدی عاکف کی حیات اور خدمات پر بھی ایک معلوماتی مضمون رسالے میں شامل ہے۔۔احوال کشمیر کے ضمن میں ایس احمد پیر زادہ نے ” گیسو تراشی کے المناک واقعات پر اظہار خیال کیا ہے، جو کہ اب ماضی کا قصہ بن چُکا ہے۔آخر میں رسالے کے تئیں قارئین کی آراءاور مشوروں کو خطوط کی صورت میں رسالے کو مزین کیا گیا ہے۔
رسالے کے اداریہ میں ایڈیٹر پیام طلبہ جاوید شاہین نے تحریک کی تعریف یوں کی ہے ” تحریک کسی گروہی جماعت کے ہم معنی نہیں اور نہ ہی تنظیم کا مترادف ہے بلکہ لفظ تحریک جب دینی سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور اسلام اس کا لواحق بن جاتا ہے تو اس سے مراد کچھ نظریات و خیالات ، عقائد و اخلاق اور بلند و بالا اصول ہوتے ہیں ، جو انسانی زندگی کے فکری اور عملی میدانوں میں پیہم کوشش اور مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ “ رسالے میں”جہد مسلسل “کے عنوان کے تحت وابستگانِ جمعیت سے مخاطب ہو کرایک سبق آموز واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ اسلام کے بول بالے کے لیے تحریکات کی اہمیت ناگزیر ہوتی ہے۔ اِن تحاریک سے ہی حق و باطل میں امتیاز ہوتا ہے۔اسی نکتہ کو پروفیسر محسن عثمان ندوی نے” عصر حاضر کی چند تحریکات ِاسلامی“ کے عنوان کے تحت ایک پر مغر تحریر لکھی ہے۔شیخ جاوید ایوب صاحب نے بہترین انداز میں جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ساتھ برصغیر میں جماعت کے کام کے حوالے سے بھی بات کی ہے ۔موصوف ایک جگہ یوںرقم طراز ہیں ”تحریکیں قلت افراد سے نہیں مرتیں بلکہ غیر متحرک افراد اور جامد لائحہ عمل ان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔جماعت اسلامی کو بھی اپنے ماضی میں جھانک کر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور وقت اور حالات کے مطابق اپنے اہداف کا تعین کرنا چاہےے ۔اپنی کمزوریوں کو چھپا کر نہیں بلکہ انہیں دور کر کے ہی تحریکیں فعال اور قوی بن جاتی ہیں ۔“
راغب السرجان کا مضمون ” ترکی کی تحریکِ اسلامی“ بھی قابلِ مطالعہ ہے کہ صاحب مضمون نے سقوطِ خلافتِ عثمانیہ پر مفضل تجزیہ کیا ہے ۔۱۹۲۴ءمیں ترکی میں خلافت عثمانہ کے خاتمہ کی وجہ عرب قومیت بنی تھی ۔بعد ازاں مغربی غلامی میں امت مسلمہ کو مبتلا کرنے کے لیے کمال پاشا(اتا ترک)کی ریشہ دوایناں اور ملت کے سرفرشوں پر اس کے مظالم اور اس کے جواب میں بدیع الزمان سعید النورسی نے ان سارے مظالم اور باطل کی فکر اور نظریہ کو بہادری اور استقامت سے پاش پاش کیا۔تبلیغی جماعت کے متعلق فیض احمد نے مختصرمگر جامع بحث کی ہے، لکھتے ہیںکہ تبلیغی جماعت ایک ایسے دور میں وجود میں آئی جب ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ارتدادکی آگ پھیلی ہوئی تھی ،لوگ نمازوں سے دور تھے، وضو اور غسل کے مسائل سے ناواقفیت رکھتے تھے ۔موصوف نے تبلیغی جماعت کی خصوصیات کے بیان کے علاوہ اِس کی چند خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے جس کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے ۔سلفی تحریک کے حولاے سے بھی ہلال احمد تانترے نے غیر جانبداری سے کام لے کر خامہ فرسائی کی ہے ۔
پیامِ طلبہ کا یہ خصوصی شمارہ کئی حیثیتوں سے غیر معمولی ہے ۔ رسالے کی خصوصی بات اس کا سرورق ہے جس میں تحریکاتِ اسلامیہ کے بانیان کی تصاویر کو ترتیب وار دکھایا گیا ہے۔ سرورق کے ایک حصہ میں موجودہ امیر جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کی تصویر بھی رکھی گئی ہے۔ سرورق دیدہ ذیب ہے اوراس کی ڈیزائنگ قارئین کو مطالعہ کی دعوت دیتا ہے ۔ مجموعی طور پر پیامِ طلبہ کا یہ خصوصی شمارہ کئی حیثیتوںسے اہمیت کاحامل ہے لیکن رسالے میں بعض خامیاں بھی رہ گئی ہیں۔ تمام مضامین کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتوں کو بابار دہرایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں رسالے میں احمد رضا خان بریلوی کے افکار و خیالات پر کوئی مضمون یا تبصرہ پیش نہیں کیا گیا ہے، جو کہ ایک قابلِ غور امر ہے۔
الغرض پیام ِ طلبہ کا زیر تبصرہ شمارہ امتِ مسلمہ کے جوانوں کو اسلامی و غیر اسلامی تحریکات کا تعارف دینے میں ایک معاون کی حیثیت رکھتا ہے۔آج دنیا میں معلومات کی بھرمار ہے، لیکن کسی مخصوص موضوع پر اس نوعیت کا مواد پیش کرنا یقینا قابلِ مبارک کام ہے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ امت کے نوجوان اسلامی دنیا میں ہو رہی پیش رفت سے آگاہی حاصل کریں کہ بصورتِ دیگر خود کو زمانے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانا کارِ محال ہے۔ادارہ پیامِ طلبہ کی یہ کوشش اسی لیے لائق احترام ہے۔اپنے اِس مضمون کے توسط سے قارئین سے التماس ہے کہ پیامِ طلبہ کا یہ خصوصی شمارہ اسلامی جمعیت طلبہ سے جلد از جلد حاصل کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔
٭٭٭