رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پوری انسانیت کے لیے رول ماڈل اور باعث عزت وافتخار ہے۔ آپ کی ذات گرامی سے ہر امتی کا تعلق باعث فخر ہے ، آپ کے اخلاق کریمانہ اور تعلیمات تمام انسانیت کے لیے فلاح ونجات اور آپ کاطرز زندگی اور اسوہ حسنہ انسانیت کے تمام دکھوں کا مداوا ،مشکلات میں رہنمائی اور جسمانی و روحانی بیماریوں میں شفائے کاملہ کانسخہ ہے۔ آج کا دور گمرا ہیوں اور فتنوں کا دور ہے۔ اہل کفر اپنے تمام اسباب اور لاو لشکر کے ساتھ تعلیماتِ رسول اللہ کو مٹانے، امت کو ان سے دورکرنے کی سازشیں اور عملی اقدام کرتے جارہے ہیں۔
گمراہی پھیلانے اور فتنے برپا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی عوامل شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان فتنوں اور گمراہیوں کے طوفان کے باوجو د نوجوان نسل گروہ درگروہ بڑی تعداد میں حضرت محمد سے اپنے عشق اور امتی ہونے کا والہانہ اظہار کررہی ہے۔گمراہی اور اباحیت کے علمبردار اپنی تمام تر چالوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود آپ سے محبت ، عقیدت اور اپنے عشق کے آثار نہ مٹا سکتے اور نہ انہیں دھندلا کرسکتے ہیں۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے یہ نظام اور ان کے اصول ونظریات شکست و ریخت کا شکار ہوکرمٹ گئے ، لیکن حضور رحمة اللعالمین کے اخلاق، عظمت اور دعوت و عمل دلوں میں خوشبودار پھولوں کے شگوفوں کی مانند تروتازہ اور قائم ودائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ مسلمان کے لیے حضور ختمی مرتبتﷺ کی ذات گرامی اپنی جان مال اور عزت و آبرو سے زیادہ عزیز ہے اور اس پر کوئی مسلمان سمجھوتہ کرنے کاتصور نہیں کرسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخلق عظیم الٰہی صفات کاآئینہ دار ہے۔اللہ رب العالمین ہے اور اللہ نے ہی آپ کو رحمت اللعالمین کا عظیم منصب عطا کیا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ :”اور یقیناً آپ خلق عظیم پر کاربند ہیں۔“ (القلم)۔اللہ نے تمام انبیاءکرام کو اپنی اپنی امتوں کے لیے اسوہ حسنہ بنا کر مبعوث فرمایا۔ یہ وہ پاکیزہ نفوس تھے جنہیں اللہ نے ہدایت سے نوازا اوران کے پیروکاروں کو حکم ہواکہ تم انہی کی ہدایت کی پیروی کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ : ”میرے صحابہ میرے زمانہ کے بہترین لوگ ہیں پھر ان کے بعد آنے والے اور پھر ان کے بعد آنے والے۔ “(بخاری شریف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی اسی ایک ہی مشنِ کی آبیاری میں گزاری ،اس راستے میں آپﷺ نے عمر بھرتکلیفیں اور ایذائیں برداشت کیں لیکن اپنے اعلیٰ اخلاق ، خوشگوار رویے سے دلوں کو مسخر کیا۔مکہ سے ہجرت کے موقع پر آپ کے ساتھ چند نفوس تھے لیکن حجة الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زائد آزاد انسانوںکا جم غفیر اور اللہ کے مطیع و فرمان بندے موجود تھے جن سے آپ نے خطاب فرمایا۔ مشکلات ومصائب کا دور ہو یا فتح و نصرت اور کامرانیوں اور بلندیوں کا مرحلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم میں اضافہ ہی ہوتا چلاگیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی کو برا نہیں کہتے تھے،کوئی آپﷺ کے ساتھ برائی بھی کرتا تو اس کے بدلے میںآپﷺ برائی نہیں کرتے تھے ،بلکہ معاف کردیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا آپﷺ نے کبھی اپنے کسی خادم کو ،کسی عورت کو ،کسی جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا ، آپ نے کبھی کسی کا سوال نہیںٹھکرایا، آپﷺ جب بھی گھر آتے مسکراتے ہوئے آتے۔
حضرت علیؓ ،فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے نرم خو اور نرم مزاج تھے ،آپﷺ بہت مہربان اور رحم دل تھے ، کبھی کسی سے ایسی بات ہوجاتی جو آپﷺ کو ناگوار ہوتی توآپﷺ خاموش ہوجاتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی سے بحث مباحثہ کرتے اور نہ ضرورت سے زیادہ بات ، جو بات کام کی نہ ہوتی اس میں کبھی نہ پڑتے۔ صرف وہی بات کرتے جس سے کوئی مفید نتیجہ نکل سکتا ہو۔ آپ بڑے فیاض ، سچ بولنے والے اور تحمل فرمانے والے تھے۔ آپﷺ وعدے کے پابند، انصاف پر قائم رہنے والے ، دوسروں کا حق اداکرنے والے سادگی اور قناعت کا نمونہ تھے ، حضورﷺ کی ساری زندگی قناعت اور سادگی میں گزری۔ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور آپﷺ کے بدن پر اس کے نشان بن گئے تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپﷺ اجازت عنایت فرمائیں ہم آپﷺ کے لیے چٹائی پر بچھانے کے لیے گدا لادیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو درخت کے سائے میں تھوڑی دیر آرام کرے اور پھر وہاں سے چل دے،اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کی اولاد ہو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے ، اور اچھی تربیت کرے، جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کانکاح کردے اس لیے کہ اگر وہ بالغ ہوجائے اور اس کا نکاح نہ کیا جائے اورا س سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کاگناہ اس کے باپ پر بھی ہوگا ،آدمی کے لیے یہ ہی گناہ کافی ہے کہ جن کی پرورش اور خبر گیری اس کے ذمہ ہے ان کی خبر گیری نہ کرے اور ان کو ضائع کردے۔ “ کسی والد نے اپنی اولاد کو اچھے ادب سے اچھا کوئی عطیہ نہیں دیا۔ “(مشکوٰة ، ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی اور پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓکی اس طرح تربیت بھی فرمائی کہ ایک بار حضرت علی ؓ کی طرف سے ان کے ساتھ ایسا برتاو ہوا جو حضرت فاطمہ ؓ کو ناگوار گزرا، وہ ناراض ہو کر اپنے میکے آگئیں آپ نے پوچھا : ”بیٹی ادھر کیونکر آئیں۔“ سیدہ فاطمہ ؓ نے سب کچھ بتادیا کہ حضرت علیؓنے مجھے یہ یہ کہا اس لیے میں ناراض ہو کر آگئی – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”بیٹی مناسب یہ ہے کہ تم فوراً علی ؓ کے گھرواپس چلی جاواور ان سے معذرت کرو ، خدا کی قسم اگر آج تم مر جاو اور علی ؓ تم پر ناراض ہو تو میں تمہارا جنازہ نہ پڑھوں گا پھر آپ نے نرمی سے سمجھایا۔ “ وہ کون سی عورت اور مرد ہے جن کے درمیان کوئی رنجش واقع نہ ہو اور یہ کیا ضروری ہے کہ مرد تمام کام عورت کی منشاءکے مطابق کرے اور اپنی بیوی سے کچھ نہ کہے۔اس پر سیدہ فاطمہؓ فوراً اٹھیں اور اپنے گھر تشریف لے گئیں ،حضرت علی ؓ پر آپ کے اس مصلحانہ کردار کاایسا خوشگواراثر ہواکہ انہوںنے قسم کھا کر کہا”اب میں کبھی ایسا طرز عمل اختیار نہ کروں گا جس سے تمہیں تکلیف پہنچے یا جس سے تمہاری دل شکنی ہو “اور ایسا ہی ہوا ،حضورﷺ کے اس خلق عظیم اور حکیمانہ تعلیم وتلقین سے دونوںمیاں بیوی پر ایسا اثر ہواکہ پھر ان میں کبھی ناراضگی پیدانہ ہوئی۔ بیٹی کے باپ اور داماد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق اور اسوہ آج بھی سب کے لیے رہنماہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا ایمان کی علامت ہے اور ایمان جنت کاذریعہ ہے ، بے حیائی اور فحش گندگی ہے اور گندگی دوزخ کا موجب ہے ، جس چیز میں فحش ہوتاہے وہ اسے عیب لگاتااور داغدار کرتاہے اور جس چیز میں حیاءہوتی ہے وہ اس کی زینت بڑھاتی ہے۔ حیا ءسے صرف بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔ حیاءایمان کی ایک شاخ ہے۔ (صحیحین ،مشکوٰة)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثراپنی زبان مبارک سے فرماتے ،اے اللہ میں تجھ سے ہدایت ، تقویٰ ، عفت و پاکیزگی اور غنا کا سوال کرتاہوں ، آپ نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور پانچ وقت کی نماز ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو ، اور مال کی زکوٰة دو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاو گے ، آپ نے فرمایا کہ انسان غنی مال و دولت جاگیر وجائیدادو کثرتِ مال سے نہیں بلکہ دل کے غنی ہونے سے ہوتاہے۔ (مسلم ،مشکوٰة ، ترمذی)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے تجارت کرتے تھے ، اس سلسلے میں اکثر لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے۔ چنانچہ جن لوگوں سے آپﷺ کے تاجرانہ تعلقات تھے وہ ہمیشہ حضور کی امانت و دیانت اور حسن معاملہ کی تعریف کرتے، ان کاکہنا تھاکہ حضور کاروبار میں بے حد کھرے تھے اور اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔
مدینہ منورہ آمد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کام اللہ کے گھر کی تعمیر کاکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کے قریب خاندان نجار کی کچھ زمین تھی جس میں کچھ قبریں اور کچھ کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایااور فرمایا کہ ”میں یہ زمین قیمتاً لینا چاہتاہوں۔ “انہوںنے کہاکہ یارسول اللہ آپ سے ہم قیمت نہیںلیں گے۔ اللہ سے لیں گے۔یہ زمین دویتیم بچوں کی تھی آپﷺ نے ان یتیم بچوں کو بلایا، یتیموں نے بھی اپنی کل کائنات بلا قیمت نذر کرنا چاہی، لیکن آپﷺ نے گوارا نہ کیا چنانچہ حضرت ایوب انصاری ؓ نے اس زمین کی قیمت ادا کی اور اس طرح اس جگہ کو ہموار کرکے وہاں مسجد نبوی تعمیر ہوئی۔ آج وہی مسجد نبوی اور روضہ رسول دنیا بھر کے اہل ایمان کے لیے عقیدتوں ،محبتوں اور اظہار عشق کا مرکز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں زہد وتقویٰ ،طہارت و تقدس اور حلم وعفو جیسے اوصاف حمیدہ میں سب سے بڑھے ہوئے تھے وہاں آپﷺ اعلیٰ ترین حسِ مزا ح بھی رکھتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ہم سے خوش طبعی فرماتے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓکہتے ہیںکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حس مزاح رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی سچ پر مبنی ہوتا، اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہ ہوتا۔
رسول اللہ صلی اللہ کاحسن اخلاق مثالی ،اسلوب تربیت عمدہ اور مشکل ترین معاشرتی مسائل کو آپ نہایت آسانی سے حل فرمالیتے۔ جارج برنارڈ شا نے اس حقیقت کا اعتراف یوںکیا اور لکھاکہ ”دورِ حاضر کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کی ہستی کی ضرورت ہے جو چٹکیوں میں مشکلات کا حل تلاش کرلیتی ہو۔“ یہ زندگی کابہت اہم پہلو ہے، کمال تو وہی ہے جس کااعتراف اور گواہی دشمن بھی دے ، لاریب آپ یقیناً خلق عظیم پر فائز تھے۔ آپ کی ذات گرامی انسانیت کے لیے اطمینان و سکون کا باعث ہے۔ موجودہ دور کاتقاضا ہے کہ امن وامان کے قیام کے لیے انسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت وتعلیمات سے راہنمائی حاصل کرے ، اس لیے کہ ہر صاحبِ ایمان آپﷺ سے جس قدر متعارف ہوتاجاتا ہے اسی قدر اس کے دل میں آپﷺ کی محبت وعقیدت میں اضافہ ہوتاجاتاہے اور معاشرے کا ماحول خوشگوار ہوتاجاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم انسانوں کے درمیان محبت ، امن ، برداشت اور حقیقت پسندی پیدا کرسکتاہے۔اللہ کا ارشادِ گرامی ہی کامل اور حرفِ آخر ہے۔ قرآن مجید میں ہے:۔”یہ چاہتے ہیںکہ اللہ کے چراغ کی روشنی کو منہ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا، خواہ کافر ناخوش ہی ہوں” وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔ خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔“ (سورة الصف ۸۔۹)۔ اس آیت کی مولانا ظفر علی خان نے خوبصورت ترجمانی کی ہے
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
٭٭٭٭٭