دنیوی زندگی کی زینت وآرائش اور اس کی بکثرت طلب نے لوگوں کی عقل و فہم کو اپنا اسیر بنایا ہے۔ دنیا کے عارضی حسن وجمال نے بہتوں کی عقل پر ایسا تسلط و غلبہ پایا ہے کہ وہ اسی دنیا کی ظاہری زینت کے پجاری بن کے رہ گئے ہیں ۔
دنیا کی زینت اور اسبابِ زینت کی محبت لوگوں کے دلوں میں بہت دلکش نظر آتی ہے۔ انسانی فطرت میں بہت سی دنیوی چیزوں کی چاہت و محبت ہے، ان تمام اشیاءکی محبت کو میزانِ شریعت میں رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ معاملہ دائرہ اعتدال میںہے یا نہیں ؟اور کہیں حدود سے تجاوز نہ ہونے پائے۔ اشیاءکی زیب و زینت میں بھی وسطیت کا دامن چھوٹنے نہ پائے ۔ انسان طلب معاش میں اس درجہ غلو کا شکار نہ ہوجائے کہ اس کی طلب و جستجو اور اس کی تحصیل و جمع میں حلال و حرام کی تمیز کھودے اور ذریعہ معاش میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا لحاظ باقی نہ رکھے ۔
انسان کو اس دار فانی میں اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی مخلصانہ کوشش کرنی چاہیے اور حد درجہ عیش کوشی، لذت گیری اور راحت و آسائش والی زندگی کا عادی نہیں بننا چاہیے ۔ بہت سے لوگ اس دنیائے فانی میں عیش پسند بننا چاہتے ہیں اور راحت وسکون سے آراستہ زندگی گزارنا چاہتے ہیںتاکہ یہاں پر کوئی تکلیف و آزار لاحق نہ ہونے پائے اور نہ ہی کوئی عقیدہ اپنا نا چاہتے ہیں جو ان کی دنیوی زندگی کی راحت و آرام نیز عیش و عشرت کی راہ کاکانٹا بن جائے ۔یہی طبقہ عیش پرست طبقہ کہلاتا ہے۔
ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں خوش حال رہیں اور مالی حیثیت سے عیش والی زندگی میں کوئی کمی اور خلل پیدا نہ ہونے پائے، انہیں دنیا اور دنیا کا مال و متاع اور دیگر اسبابِ عیش و عشرت حاصل کرنے میں صحیح و غلط کی تمیز اور حلال وحرام کی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ عیش پرستی کی راہ پر چل پڑنے کے بہت سارے اسباب و محرکات ہیں جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں:
والدین کی غلط تربیت
جب بچپن سے ہی والدین اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کرتے اور اسلامی تعلیمات اور احکامات سے انہیں دور رکھ کر غیروں کی فکر و عمل کے مطابق تعلیم دلاتے ہیں ، تو بچے بگڑ جاتے ہیں اور ان میں مادہ پرست فکر وخیال پیدا ہوتا ہے۔ پھر ان میں اچھے اور برے اور حلال وحرام کی تمیز باقی نہیں رہتی ۔ اسی طرح جب والدین ان کی تمام غیر ضروری اور بے جا فرمائشیں پوری کرتے ہیں ، تو رفتہ رفتہ وہ عیش پرست بن جاتے ہیں۔ جس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک وہ اسی حالت میں اپنی ساری زندگی گزارتے ہیں اور اسی حالت میں انہیں موت واقع ہوتی ہے۔
موت سے غفلت
عیش پرستی اور عیش پسندی انسان میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ موت سے غافل ہوجاتا ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ آخرت کی راہ کا راہی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں اور نبی کریم ﷺ احادیث میں باربار ایک مومن کو موت کی یاددلاکر اس کے لیے تیاری کرنے کے لیے تاکید و تلقین کرتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے :
” وہ (اللہ ) ہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگو کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون اچھا عمل کرنے والا ہے ۔“(سورہ ملک ۔۲)
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا :” لذتوں کو کاٹنے والی ( موت) کو بہت یاد کرو۔“(ترمذی) اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :” تو دنیا میں اس طرح زندگی کے دن گزار گویا کہ تو اجنبی ہے یا مسافر۔“(بخاری)
موت کا تصور اور اس کی یاد انسان کو عیش کوشی کی زندگی کے بجائے فقیرانہ زندگی گزارنے پر تیار کرتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر آدمی اسی موت سے غافل ہو ،تو وہ لازماَعیش پرستی میں مبتلا ہوتا ہے ۔
حُبِ دنیا :
دنیا اور اس کی مختلف چیزوں سے حد سے زیادہ محبت بھی آدمی کو حق و صداقت اور آخرت سے غافل کرکے دنیا پرست اور عیش کوش بناتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر انسان پر دنیا کی حقیقت واضح کرکے اس کی پرستش اور غلامی سے دور رہنے کی تاکید و تلقین کی ہے۔ سور ةالحدید میں فرمایا :
” خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ہاو بھاو اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے ۔“
سورة الاعلیٰ میں ارشاد فرمایا :” مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔“
اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کی حقیقت واضح کرکے اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کراس کی محبت میں خوفِ آخرت سے غافل نہ ہو۔
مال و دولت کی کثرت:
مال اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور امانت ہے اور اس کا حاصل ہونا خوشگوار زندگی کا باعث ہے۔مگر یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا جمع و خرچ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو ، تو یہ انسان کو گمراہ کرکے عیش پرست اور زرکا غلام بنا دیتا ہے۔ اسی لیے مال و دولت اور نعمتوں کا بکثرت مہیا ہونا بھی عیش پرستی کی ایک بڑی وجہ بن جاتی ہے۔
انگریزی میں ایک محاورہ ہے :” MONEY IS THE ROOT OF ALL EVILS“یعنی مال ودولت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔مال و دولت انسان کوگونگا اور بہرہ بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو فضول خرچی اور بلاضرورت خرچ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
نعمتوں پر اترانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے :”اور ان لوگوں نے کہا ہم مال واولاد کے اعتبار سے بہت زیادہ ہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔“( السباء)کثرتِ مال واولاد کو عیش پرستی اورغرور و تکبر پر آمادہ کردیتا ہے ساتھ ہی ساتھ حق کی تکذیب اور سرکشی پر بھی آمادہ کردیتا ہے۔
دنیا پرستوں کی پیروی و نقالی:
دنیا پرست لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خود بھی دنیا پرست رہیں اور دوسروں کو بھی اس کے پرستار بنائیں ۔ اس لیے وہ ہمیشہ دنیا پرستی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ دنیا کو خوب سے خوب تر اور خوشنما بناکر پیش کرتے ہیں اور وہ زیادہ تر ہمارے نوجوانوں کو عیش پرستی کے سمندر میں غرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہمیں اس ادنیٰ سی دنیا کے لہو و لعب میں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ بے مقصد امور و مشغولیات اور بے معنی کاموں میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارا کھویا ہوا مقام اور ہماری عزت کی واپسی کی کوششوں کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ چنانچہ انہوںنے مسلمانوں کے بازاروں کو عیش پرستی اور بے حیائی کے سامانوں سے سجادیا ہے اور وہاں اسبابِ عیش و عشرت کا انبار لگا دیا ہے ۔ جس سے عام لوگوں کے دل و دماغ متاثر ہوکر دنیا اور عیش پرستی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔
مغرب کی تقلید:
عیش پرستی کی ایک اور وجہ مسلمانوں کی مغرب اور اہل مغرب کی اندھی تقلید ہے ۔ چونکہ مغربی اور یورپی دنیا اس وقت دنیا پرستی اور مادہ پرستی میں مشغول ہوکر تمام دنیا کو اسی کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔ ان کی ساری زندگی اور ہر کوشش و کاوش اسی کے اردگرد گھومتی ہے۔ اب جو بھی مسلمان ان کے طرزِ عمل اور طریقہ زندگی سے متاثر ہوکر ان کی تقلید کرتا ہے ، وہ لازماَ مادہ پرست کے ساتھ ساتھ عیش پرست بھی بن جا تا ہے ۔ پھر وہ انہی کے نقطہ نظر سے زندگی اور دنیا کی ہر ایک چیز کو دیکھ کر اپنا راستہ متعین کرتا ہے۔ خصوصاَ مسلمانوں کا نوجوان طبقہ ۔
عیش پرستی کے بہت سے نقصانات ہیں ان میں سے چند کا تذکرہ سطور ذیل میں تحریر کیا جارہا ہے:
۱۔ قلت عبادت کا شکار ہونا۔۲۔ اطاعت کا جذبہ سرد پڑجانا۔۳۔ا طاعت و فرمانبرداری سے روگردانی کے ساتھ ساتھ آخرت اور انجام آخرت سے غافل ہو جانا۔۴۔ اپنے آپ کو خواہشات اور شہوات کا غلام بنا دینا۔۵۔ حق کو ٹھکرانا اور اس کی تکذیب پر آمادہ ہونا۔۶۔ صالحین کی صحبت سے دور ہو کر بالآخر ہلاکت کے مرحلہ میں پہنچ جانا۔۷۔ خود پسندی اور دوسروں پر کبر وغرور جیسی بری خصلت کا پیدا ہوجانا۔۸۔ معاشرے کے ناداروں، کمزوروں اور حاجت مندوں کی حق تلفی کرنا۔۹۔ معاشرے میں باہمی حسد و کینہ کا پیدا ہونا۔۰۱۔ زندگی میں مشقت جھیلنے اور تکالیف برداشت کرنے کی طاقت کا کھو جانا۔۱۱۔ لا یعنی کاموں میں مال و دولت کا ضائع کرنا۔۱۲۔ دل سخت اور احساس مردہ ہونے کے ساتھ ساتھ بدن میں ثقالت کا پیدا ہونا۔۱۳۔ علم و تحقیق اور غور وتدبر سے محروم ہونا۔ ۱۴۔ روز مرہ کے عبرت ناک واقعات سے غافل رہ کر ان سے عبرت و نصیحت لینے سے قاصر رہنا۔ ۱۵۔ بے کاری و بے روزگاری کا عام ہونا۔۱۶۔ لوگوں میں کاہلی اور تساہُل پسندی کا ظہور ہونا۔۱۷۔ سستی و کاہلی اور قلت حرکت و عمل کے نتیجہ میں بہت سارے امراض کا ظاہر ہونا۔ ۱۸۔اسی طرح کئی جسمانی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونا۔
لہٰذا حد درجہ راحت طلبی اور عیش پرستی اور عشرت پسندی سے ایک مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے اور معتدل اور متوازن زندگی گزارنے کی اپنے اندر چاہت و جستجو پیدا کرنی چاہیے تاکہ برے نتائج و نقصانات سے بچا جاسکے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکہ ہے جو فانی و زوال پذیر ہے۔ جبکہ آخرت اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے اسی کو بقا اور دوام ہے۔
” جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے باقی رہے گا۔“