٭ہلال احمد تانترے(ڈہامہ، کپواڑہ)
اہل الحدیث اور سلفی دو ایسی اصطلاحیں ہیں جن کے مابین اگر چہ لغوی یا اصطلاحی معنوںمیں فرق واقع ہے لیکن حقیقت میں یہ دوا صطلاحیں ایک ہی چیز کے نام ہیں ۔سلفی ہونے کا مطلب سلف کا پیروکار ہے۔ اس طرح جو کوئی بھی اپنے سلفِ صالحین کے نقشِ قدم پر چلے اس پر سلفی اصطلاح کا اطلاق ہو سکتا ہے۔اس طرح سے ہرمسلمان کا سلفی ہونا لازم ہے۔ تنظیمی معنوںسے اصل میں یہ ایک قدامت پسند اصلاحی تحریک ہے جو مسلمانوں کے سنی طبقے میں شروع ہوئی تھی۔ اِ س کا آغاز عرب دنیا میں اٹھارویں صدی کے وسط میںاُس وقت شروع ہوا تھا جب جامعہ الازہر میں فکری تبدیلیوں کی خاطر تبدیلی کی ایک لہر اُٹھی تھی۔ برِ صغیر ہند میںاِ س کے نمایاں اثرات انیسویں صدی کے وسط میں دکھائی دئے۔ سلفی تحریک کا محور جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے سلفِ صالحین کے زمانے کے ارد گرد گھومتا ہے، کیوں کہ دین کو سمجھنے کے لئے پیچھے سے پیچھے کی طرف دوڑنا ہے، تآنکہ ہم نبی ﷺ کے سنتِ مطہرات سے جڑجائیں۔ چنانچہ وقت کے سروق اُلٹ پھیرہونے کے بعد دین میں بدعات کا رواج عام پایا تھا، قرآن و سنت کو چھوڑ کر جوگیوں اور پیر فقیروں کی شطحیات کو حجت مانا جاتا ہے، نبی ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غلو کا ارتکاب عام رواج تھا،اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک میں شرک ایک عام بات ہوا کرتی تھی۔ انہی رسوماتِ بد اور بدعقیدگیوں کے خلاف سلفیت کی تحریک نے جنم لیا تھا۔ سلفی تحریک کے اُٹھنے کا ایک سبب یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے شروع میں جوں جوں مغرب کی ریشہ دوانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشائی کا بین الاقوامی بازار گرم کر رکھا تھا ، وہی دوسری طرف جب مغربی افکار و خیالات کا چرچا عام ہوا تھا جس کی بدولت ایک عام مسلمان کا اِن لادین افکار و خیالات سے بچنا محال سمجھا جاتا ہے۔ اسی کے پسِ منظر میں مسلمانوں کے اندر یہ تحریک اُٹھی تھی، جس کا بنیادی مقصد دینی و فقہی مسائل کو حل کرنے میں قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ حا صل کرنا تھا، اس کے بعد صحابہ کرام و تابعینِ عظام کی پیروی اور اُن علماء کی پیروی جن کا قول یا عمل قرآن و حدیثِ رسول ؐ سے کسی بھی حال میں نہ ٹکراتا ہو۔
مغرب کی صنعتی ترقی و سائینسی انقلاب کے مقابل میں مسلمانوں کے اندر جب دینی فکرو مذہبی صلاحیتوں میں جمود رونما ہوا تھا، لوگ مولویوں کے ایک مخصوص طبقے کے پیچھے پیچھے اپنی انکھیں بند کر کے تقلید کیا کرتے تھے۔ مولویوں کے بتلائے ہوئے راہنما اصولوں کے باہر کسی کا پَر رکھنا ہی محال سمجھا جاتا تھا، قرآن و حدیث سے براہِ راست استفادہ حاصل کرنا گویا کہ گستاخی مانی جاتی تھی اور دنیادی علوم میں مسلمان پیچھے کے پیچھے رہ گئے تھے، اُنہی کا توڑ کرنے کے لئے سلفی یا اہل الحدیث کی جماعت نے جنم لیا تھا، جس کا نہ کسی فرقے سے تعلق تھا، نہ کسی مسلک سے۔
اہل حدیث اور اسلام دو مترادف لفظ ہیں جن کا معنی و مفہوم ایک ہی ہے،یعنی مسمی ایک ہے اسماء دوہیں۔ اہلحدیث اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ اسلام ، اہلحدیث کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ وہ مکمل اسلام سے عبارت ہے کیوں کہ اسلام کا ماخذ کتاب اللہ اور رسول ا للہ کا فرمان ہے۔مسلک اہلحدیث بھی انہی دو بنیادوں پر استوار ہے۔ ہر وہ بات جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے مطابق ہوگی ، علی الراس و العین (سر ماتھے پر) چشم ما روشن دل ماشاد ، اور وہ امر جو ان سے متصادم ہو گا اس سے اہلحدیث تسلیم نہیں کرتا۔( تحریک اہلِ حدیث از قاضی محمد اسلم)
سلفی تحریک کا نصب العین قرآن و سنت ہے ۔اہلِ حدیث مروجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں ہے، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے۔ بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونو ںپر عمل کرنے کی ترغیب دلانا یا یوں کہہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن و حدیث ہے۔(تاریخ اہلحدیث ازجلال الدین قاسمی)
عام طور پر سلفیت کو وہابی نظریے کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور دونوں کا مرجع ایک ہی مقصد و طریقہ کار قرار دیا جاتا ہے۔لیکن اس کو اکثر غلط قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ سلفیت کو وہابی تحریک کی ایک ذیلی شاخ قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے اندر بھی بہت سارا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر تاریخ دانوںکا ماننا ہے کہ اگر چہ وہابی اور سلفی تحریک کے مابین بہت ساری چیزیں جیسے کہ اصول و مقاصد اور طریقہ کار ایک جیسی ہیں، لیکن دونوں کے دائرہ کار اور محلِ وقوع میں ایک دوسرے کا عمل دخل نہیں ہے۔ اس بات کو اس انداز میں بھی بولا جاسکتا ہے کہ ااگر سلفیت کا محل عرب دنیا ہے تو اہل حدیث کا برِ صغیر ہند ہے۔
سلفیوں کے اندر بھی بہت سارے طبقات پائے جاتے ہیں ۔ اُن میں ایک طبقہ ایسا ہے جو دین کو سیاست سے دور رکھتے ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ دین کو عین سیاست بھی قرار دیتے ہیں۔ تیسرا طبقہ بہت زیادہ شدت پسند ہے اور وہ جہادی کہلاتے ہیں۔ دین کا عملی زندگی کے ساتھ تعلق اور دین کا تفقہ حاصل کرنے میں بھی بہت سارا اختلاف واقع ہے۔ بعض تقلید کو قطعی طور پر ِرَد کرتے ہیں، بعض کے نزدیک علمی تقلید درست ہے، وہی بعض اجتہاد کرنے کے قائل ہیں۔
اپنے ماضی کے اعتبار سے شاندار و جاندار سلفی تحریک کی اساسات و بنیادیں اسلامی روح ، قرآنی اصول واقوال ِ رسول ؐ سے پوری طرح لبریز ہیں، لیکن یہ تحریک بھی اب زوال پذیر ہو نے لگی ہے، کیوں کہ اس میں اب فقہی مسلک و ایک خاص مکتبہِ فکر کا غلبہ ہوا ہے۔ جس دینی جمود کا توڑ کرنے کے لئے یہ تحریک اُٹھی تھی ، اب یہ خود اُسی جمود کی شکار ہو چکی ہے۔سلفیوں کے اندر بھی اب باقی فرقوں یا مکا تبِ فکر کی طرح اِس بیماری نے جنم لیا ہے جس کے زیرِ اثر تحریکات کو چند شخصیات کے دائرے میں قید کر کے رکھا جاتا ہے اور اُن کے اقوال کو سندِ عظیم مانا جاتا ہے، جن سے کسی کا اختلاف کرنا گناہِ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سلفیوں کو دنیا میں کئی ایک جگہوں پر زیرِ اقتدار حکمرانوں و سیاسی لیڈروں کی طرف سے سیاسی بندر بھانٹ میں پھسایا جاتا ہے اور سیاسی مقاصدحاصل کرنے کی غرض سے استعمال میںبھی لایا جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ سلفی حضرات جنہوں نے اپنے اقابرین کے اصلوب و عمل سے دوری اختیار کی ہے واپس اُسی نہج کی طرف رجوع کریں جس کا تقاضا اِس تحریک کا مقصدِ وجود کر رہا ہے۔ امت کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ تفرقے میں ڈالنے کی، کلمہ گو مسلمان مشرک ہو سکتا ہے کافر نہیں ، حضرتِ علیؓ نے مسلمانوں میں سے جن باغیوں کے خلاف قتال کیا تھااُنہی کے پیچھے نماز کو جائز سمجھتے تھے، قرآن و حدیث کا نصیحت کرنے کا اصلوب شفیقانہ و کریمانہ ہے نہ کہ لعن طعن کا ، اہلِ کتاب سے کئی ایک جگہوں پر اتحاد کرنے کا درس قرآن میں واضح طور پر موجود ہے ۔ مسلمانوں کے اندر جتنی بھی بد عقید گیاں پائی جاتی ہیں اُن کا ادراک محبت و لاڈ پیار سے ہونا چاہے۔ امت کے اتحاد سے محبت ہونی چاہے انتشار سے نہیں، بدعت سے نفرت کرنا بر حق ہے لیکن مسلمان بدعتی سے نہیں۔ مسلمان کا موقف بالکل واضح اور غیر مبہم ہونا چاہے ،اپنے ہی قول و فعل میں اگر تضاد پایا جائے تو کسی بھی حال میں دین کا بھلا نہیں ہو سکتا۔
٭ای میل:[email protected]