٭…. شیخ محمد یوسف
۱۹۳۶ءسے ہی جماعت اسلامی جموں وکشمیر سے وابستہ رہا ہوں۔ ان شاءاللہ زندگی کی آخری سانس تک اسی سے وابستگی کی تمنا ہے گوکہ اب تک ۵۳سال کی اس وابستگی پر مجھے فخر بھی ہے اور سکون قلب بھی۔ رکن جماعت کے ناطے اس طویل عرصہ کے دوران متعدد ذمہ داریوں پر خادم کی حیثیت سے کام کیا ہے اور کرتا بھی ہوں۔میں محترم سیدعلی گیلانی صاحب کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اُن کی شجاعت، ثابت قدمی اور جذبہ حریت کو ا سلام پیش کرتا ہوںاور اُن کی کافی عزت کرتا ہے لیکن تنظیمی طور پر میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہی ہے۔ نہ معلوم ایجنسیز اور پولیس آفیشلز کو اس میں کیا دلچسپی ہے کہ مجھے جان بوجھ کر حریت(جی) کے ساتھ پی ایس اے کے کاغذات میں چھ بار نتھی کیاگیا ہے،جس کے خلاف میں عدالت سے رجوع کرنے جارہا ہوں۔ جبکہ میرا تعلق اور تنظیمی وابستگی صرف اور صرف جماعت اسلامی جموں وکشمیر سے ہے نہ کہ کسی اور جماعت ، تنظیم یا حریت سے۔ پندرہ ماہ سے مسلسل قید خانوں اور پولیس اسٹیشنوں میں مقید رہا ہوں۔ ہنوز سب جیل کپواڑہ میں نظر بند ہوں۔ جرم کیا ہے صرف یہ کہ مرکزی امیر حلقہ سوپور کی حیثیت سے میں نے ڈسٹرکٹ ہسپتال سوپور میں ریلیف کیمپ قائم کیا اور اس کی نگرانی کی۔ نہ معلوم پولیس افسروں کو میری گرفتاری کی کیا سوجھی ، خود انکا پروجیکٹ تھا یا کچھ لوگوں کے مشورہ پر ایسا کیاگیا۔ آگے کی سطور کا مطالعہ کرکے قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ میں کس قدر مظلوم اور بے قصور ہوں ۔
۲۰۱۶ء ماہ جولائی کا مہینہ تھا۔ حالات پُر آشوب تھے۔ قدغنیں ، کرفیو، بندشیں، ہڑتالیں، احتجاج، جلسے جلوس کی بھرمار تھی۔ مار دھاڑ،پیلٹ گن، لوٹ مار، مرچی گیس، ٹائیر گیس شلنگ سے عوام الناس کا دم گھٹ رہا تھا۔ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہورہے تھے۔ کچھ آنکھیں پیلٹ گن کے چھروں سے ہمیشہ کے لیے ضائع ہورہی تھی، سال کے اختتام تک بینائی سے محروم ہونے والے نوجوانوں کی تعدادسینکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ لوگ شہید ہورہے تھے۔ بستیوں میں توڑ پھوڑ سے ہوکا عالم تھا۔ تھانے، قیدخانے، پولیس چوکیاں، عقوبت خانے نوجوانوں سے بھرے پڑے تھے۔ انٹراگیشن سنٹروں کی رونق قابل دید تھی جہاں نوجوانوں کی آہ و فغان ، چیخ و پکار دیدنی تھی۔ وردی پوشوں کے وارے نیارے تھے۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے۔ بیمار اور تیماردار شفاخانوں میں کسمپرسی کی حالت میں فاقہ کشی پر مجبور تھے۔ اِ سی دوران وادی میں بھی کئی رفاعی امدادی تنظیمیں اپنی اپنی بساط کے مطابق امدادی کا موں میں مصروف نظر آئیں۔
حسب معمول خدمت خلق سے سرشار وادی بھر میں مصروف عمل جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے اپنے تمام حلقوں کو پوری وادی میں ریلیف کیمپوں میں تبدیل کیا اور وادی کے تمام ہسپتالوں میں خدمت خلق کے سلسلہ میں ریلیف کیمپ کھولے، تاکہ حالات کی وجہ سے تڑپتی اور بلکتی انسانیت کے درد کا کسی حد تک مداوا کیا جاسکے۔ ان ہی احکام کے تحت مرکزی حلقہ جماعت اسلامی سوپور نے بھی سب ڈسٹرکٹ ہسپتال سوپور میں ایک امدادی ریلیف کیمپ بی ایم او سوپور کے مشورہ سے قائم کیا اور ہسپتال میں موجود مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کے لیے دو پہر اور رات کے کھانے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کام میں ایک اور این جی او نے بھی ہمارا تعاون کیا ۔
سوپور کے غیور عوام نے ہماری بھر پور مدد کی۔ صاحب ثروت لوگوں کی مدد سے یہ کیمپ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے چلتا رہا۔ زندہ دلان سوپور میں کسی نے چاول، کسی نے مصالے، کسی نے سبزی، کسی نے تیل، کسی نے دال، کسی نے بسکٹ، کسی نے گوشت فراہم کرکے کیمپ کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا۔ نوجوانان سوپور جماعت اسلامی کے ارکان و رضاکاران نے دن رات پورے نظم و ضبط کے ساتھ رضائے الٰہی کے جذبہ سے کام کیا اور روزانہ سینکڑوں مجبوروں، محتاجوں، زخمیوں ، بیماروں اور تیمارداروں کو دو وقت کا تیار شدہ کھانا فراہم کیاجاتا رہا۔ بہت دنوں تک خوش اسلوبی اور جگر سوزی کے ساتھ کام ہوتا رہا۔ مگر یہ کام سرکاری ایجنسیز اور چند کرم فرماوں کو پسند نہ آیا۔ ماہ اگست کے ابتدائی دنوں میں ، میں نے مرکزی امیر حلقہ سوپور کی حیثیت سے ایس پی سوپور اور ڈی ایس پی سوپور کے بلاوے پر ایس پی صاحب سوپور کے آفس پر حاضری دی اور دونوں اصحاب کو دینی لٹریچر کی چند کتب بھی فراہم کی اور اُن کے سامنے جماعت اسلامی کی جانب سے ہورہے خدمت خلق کے کام کی وضاحت بھی کی۔ ظاہری طور پر اچھے اور میٹھے ماحول میں بات چیت کرکے میں وہاں سے رخصت ہوکر سیدھے اپنے دفتر گیا۔
اگلے ہی روز سوپور کے چند معززیں میرے پاس تشریف لائیے۔ ان کا مطالبہ تھا وہ ہم جماعت اسلامی کی جانب سے لگائے گئے کیمپ کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے۔ میں نے بھی ان لوگوں کو مخلصانہ مشورہ دیا ، میں نے اُنہیں کیا مشورہ دیا وہ اُنہیں بخوبی یاد ہوگا۔ چائے نوش فرماکر وہ حضرات رخصت ہوئے، اُن کے جانے کے بعد اگلے ہی دن خلاف توقع حالات نے کروٹ بدل لی۔ایک پولیس آفیشل نے مجھے فون کرکے ریلیف کیمپ بند کرنے کو کہا۔ مرکزی امیر حلقہ اور ریلیف کیمپ کا نگران ہونے کی حیثیت سے میں نے مذکورہ آفیسر سے جواباً عرض کیا کہ پوری وادی کے ہسپتالوں میں جماعت اسلامی کے اہتمام سے ریلیف کیمپ چل رہے ہیں۔ ہم سوپور کا کیمپ بند نہیں کریں گے۔ شام کو پولیس حرکت میں آگئی۔ اُنہوں نے سوپور ہسپتال میں قائم ریلیف کیمپ پر ہلہ بول کر پورے کیمپ کو تہس نہس کردیا۔ ٹینٹ اکھاڑپھینکے گئے، کیمپ میں موجود رضاکاروں کے ساتھ طوفان بدتمیزی کی گئی۔ کیمپ تک جانے کے لیے تمام راستوں کو بند کردیا گیا۔
۹اگست۲۰۱۶ئ کو رات کے دو بجے دیواریں پھلانگ کر میرے گھر میں پولیس داخل ہوئی۔ دروازے کا Bell بجتے ہی میں دروازہ کھولنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوگیا۔دروازہ کھولتے ہی میری نظر پولیس پر پڑی اوراُنہوں نے سب سے پہلے میری گرفتاری کا حکم مجھے سنا دیا۔ میری عمر ۸۰برس کی ہے اور مختلف عارضوں میں بھی مبتلا ہوں۔ میں نے پولیس پارٹی کی قیادت کررہے افسر سے درخواست کی کہ چونکہ میں اس وقت چل نہیں پاوں گا،کیونکہ تاریکی میں راستہ دیکھ نہیں پاتا ہوں۔ میں از خود کل صبح پولیس اسٹیشن پر حاضر ہوجاو گا۔وہ صاحب میری بات مان گئے اور پولیس اُس وقت واپس چلی گئی۔
صبح ہوتے ہی پاس پڑوس میں خبر پھیل گئی کہ میرے گھر رات کے دوران چھاپہ پڑا تھا۔ لوگ گھر آئے، اپنے پرائے بھی تھے۔ سب کا ایک ہی مشورہ تھا کہ میں پولیس تھانے پر حاضر نہ ہوجاوں۔ میں نے کہا کہ میں ضرور دس بجے تھانے جاوں گا کیونکہ میں نے پولیس افسر سے آنے کا وعدہ کیا ہے کسی بھی صورت میں عہد شکنی نہیں کروں گا۔اسی دوران ایک شخص میرے گھر آیااور مجھ تک یہ پیغام پہنچایا کہ آپ کو تھانے کے بجائے پولیس کے ایک اعلیٰ افسیر نے اپنے یہاں آنے کو کہا ہے۔وہ آپ سے وہیں بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں اُن صاحب کے پاس چلا گیا۔ گفتگو کے دوران مذکورہ آفیسر نے دوسرے صاحب کو فون پر کہا کہ آپ کا وہ بندہ میرے پاس ہے۔میری سمجھ میں بعد میں یہ بات آئی ہے کہ میری گرفتاری کی پہلے سے ہی تیار ی کی جاچکی تھی۔پولیس آفیسر سے بات کرنے کے بعد میں رخصت لے کر عہد نبھانے پولیس تھانہ جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہی تھا کہ مذکورہ آفیسر نے کسی ایس ایچ او کو بلایا اور کہا کہ اُنہیں میری گاڑی میں بٹھا کر لے جاو اور مجھے کہا کہ میں ایک گھنٹے کے بعد آپ سے بات کرنے آوں گا۔ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے اپنے گھر بھیج رہے ہیں مگر اُنہوں نے مجھے سیدھے تھانے بھیج دیا۔اِن آفیسر صاحب کاوہ ایک گھنٹہ پندرہ مہینے گزرجانے کے بعد بھی نہیں آیا۔
۱۲اگست۲۰۱۶ئ کو میں پولیس تھانے کے ایک کمرے میں سویا ہوا تھا کہ رات کے بارہ بجے تھانہ منشی نے مجھے بلایا اور ۳ ماہ پر مشتمل پہلاPSA آرڈر میرے ہاتھ میں تھمادیا۔ راتوں رات مجھے سب ڈسٹرکٹ جیل کپواڑہ روانہ کیا گیا۔ نومبر۲۰۱۶ئ کو میرے پی ایس اے کا ٹائم ختم ہونے ہی والا تھا کہ ہائی کورٹ نے میرا پبلک سیفٹی ایکٹ کالعدم قرار دیا۔ جیل سے رہائی ہوئی، باہر سوپور پولیس کی گاڑی کھڑی تھی جس میں بٹھا کر مجھے سیدھے پولیس اسٹیشن سوپور پہنچاکر ۲۲ روز تک غیر قانونی طور پر پولیس تھانہ میں رکھا گیا۔ مارچ ۲۰۱۷ئ کو مجھ پر دوسرا پی ایس اے لگا کر پھر کپواڑہ دسٹرکٹ جیل روانہ کیا گیا۔ تین ماہ بعد پھرکورٹ کی جانب سے پی ایس اے کالعدم ہوا، جیل سے نکلتے ہی پھر گیٹ پر سوپور پولیس نے گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن سوپور پہنچا دیا۔ یہاں پھر بغیر کسی کیس کے تین ماہ تک رکھا گیا۔۱۸اپریل۲۰۱۷ء کو مجھ پر تیسرا پی ایس اے لگا کر ڈسٹرکٹ جیل بارہ مولہ روانہ کیا گیا۔ ۷۱جولائی۲۰۱۷ءکو اس پی ایس اے کی مدت بڑھا دی گئی۔۱۰اکتوبر۲۰۱۷ء پھر کورٹ نے میری نظر بندی کالعدم قرار دے کر میری فوری رہائی کا حکم صادرکیا۔ جیل سے نکلتے ہی گیٹ پر سوپور پولیس کی گاڑی موجود تھی۔ جس میں بٹھاکر مجھے پھر سے سوپور پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ ۲۱اکتوبر کو دن کے چار بجے میرے ہاتھ میں چوتھے پبلک سیفٹی ایکٹ کا آرڈر تھما دیا گیا او رمجھے پھر سے کپواڑہ سب جیل منتقل کیا گیا۔یہاں یہ میری نظر بندی کا مسلسل پندرھواں مہینہ چل رہا ہے۔ اس دوران ہیومن رائٹس کمیشن کا وفد چیرمین جناب نازکی صاحب کی سربراہی میں مجھ سے جیل میں ملاقی ہوا۔ انہوں نے میری پوری داستان سنی مگر وہ بھی بے بس اور عدلیہ بھی بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے عدل فراہم ہونا ایک خواب بن گیا ہے۔ میرے اہل خانہ کی طرف سے کوئی کیس کی پیروی کرنے کے قابل نہیں کیوں کہ میرے دو بیٹے تھے ایک پی ایچ ڈی اسکالر شہید عبدالرو ¿ف، دوسرا سینئر فارمسٹ شیخ الطاف الرحمن دونوں جام شہادت نوش کرگئے۔ انّا للہ وانّاا لیہ راجعون۔البتہ جماعت اسلامی کے متعلقہ ذمہ دار یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔