قلب مسلم میں صہیونیت کا خنجر پیوست ہوئے قریب 72 سال پورے ہو چکے ہیں ۔ لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس خنجر کو باہر کھینچنے کی کوئی کوشش سر دست کہیں نظر نہیں آتی۔ حماس اور الفتح کے درمیان ایک ماہ قبل ہونے والی مفاہمت ( اکتوبر ۲۰۱۷ )کے باوجود زمینی حالات جوں کے توں ہیں۔ ابھی تو اس مفاہمت کے نتائج کے بارے میں کوئی حتمی اور آخری بات کہنا تو بے شک قبل از وقت ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ حماس۔ الفتح معاہدہئِ صلح اور غزہ کے کنٹرول سے حماس کی مکمل دست برداری کے باوجود اس ایک مہینے میں کوئی ایک بھی ایسی بڑی تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے جو معاہدے کے مثبت اثرات کی نشاندہی کرتی ہو ! ویسے بھی اس معاہدے کا سب سے بڑا مشکوک پہلو فرعون وقت السیسی کی سربراہی میں اس کا قاہرہ میں عمل میں آنا ہے۔ اسرائل امریکہ سعودیہ اور مصر وغیرہ ان ممالک کے سرخیل ہیں جنہوں نے بیک وقت اخوان ا لمسلمون، حزب ا للہ اور حماس تینوں کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ تو کیا حماس نے اپنے نام سے محض دہشت گردی کا ٹھپہ ہٹوانے کے لیے اپنے بانیوں شیخ احمد یاسین شہید اور ان کے جانشین شیخ رنتیسی شہید کی پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے مصری فرعونوں کی موجودگی میں الفتح کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں ؟ جس نے پچھلے دس پندرہ برسوں میں اسرائل کو خوش کرنے والے کاموں کے سوا اور کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ! یا پھر ہم کہیں غلطی کر رہے ہیں اور وہی لوگ درست ہیں جو’’ صہیونی حبس‘‘ میں، حماس۔ الفتح معاہدے کو’ ’’ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ‘‘ قرار دے رہے ہیں ! ؟ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے کے بعد اسرائل نے غزہ کی بارہ سالہ معاشی ناکہ بندی اٹھا لی ہے ؟ کیا غزہ اور مصر کے درمیان واقع رفح سرحد اہل غزہ کے لیے سرکاری طور پر بھی پوری طرح کھولی جا چکی ہے ؟ کیا اسرائل نے غزہ کی پانی بجلی کی برسوں سے منقطع سپلائی پوری طرح بحال کردی ہے ؟ کیا غزہ کی تعمیر نـو کے لیے جسے اسرائلی فوجوں کی برسہا برس کی مسلسل بمباری اور گولہ باری نے تباہ کر رکھا ہیے، لوہے سیمنٹ اور دیگر عمارتی سامان کی سپلائی پر لگی بارہ سالہ پابندی پوری طرح اٹھا لی گئی ہے ؟اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو بلا شبہ ہم بھی اس کا استقبال کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے لیکن اگر معاہدے کی روشنائی خشک ہونے کے ایک ماہ بعد بھی غزہ کی صورت حال جوں کی توں ہے تو کوئی ہمیں بتائے کہ پھر احمقوں کی جنت میں رہنا عقل مندی ہے یا حقائق کی ٹھوس زمین پر قدم جمائے رکھنا ؟ سال گزشتہ 14مئی ۲۰۱۶ کو تہران میں منعقدہ دو روزہ بین لا قوامی ا لا قصیٰ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہء ایران کی عدلیہ کے سربراہ آیت ا للہ صادق آملی نے کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام اور دنیائے کفر کے خلاف جنگ کے مترادف اور اسلامی دنیا کا اولین اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ انہوں نے بالکل درست کہا تھا کہ حقوق انسانی کے بارے میں مغرب کے سارے دعوے کھوکھلے ہیں کیونکہ مظلوم فلسطینیوں کے بنیادی حقوق انسانی کی بحالی کے لیے انہوں نے آجتک کچھ نہیں کیا۔ مظلوم فلسطینیوں سے علانیہ اظہار یکجہتی۔ کلنامع ا لا قصیٰ۔کا نصب ا لعین رکھنے والی اس بین ا لا قوامی کانفرنس میں فلسطین کی حامی دنیا کی 35غیر سرکاری تنظیموں NGOsکی بین ا لا اقوامی یونین کی سکریٹری جنرل نے بھی حصہ لیا تھا اور اپنی ولولہ انگیز تقریر میں بالکل صحیح کہا تھا کہ امت مسلمہ کے اتحاد کے بغیر فلسطین کی آزادی ممکن نہیں۔ فلسطین کی حامی اس بین ا لا قوامی یونین کا اجلاس ہر دوسرے سال کسی فلسطین دوست ملک میں منعقد ہوتا ہے۔ سر دست اسرائیلی مصنوعات کا بائکاٹ اور عالمی سطح پر غاصب صہیونی حکومت کے خلاف سرگرمیوں اور اقدامات وغیرہ میں ہم آہنگی پیدا کرنا اس بین اقوامی یونین کے اعلان شدہ اہداف میں شامل ہے ! 13مئی 1946تک فلسطین جو ایک مکمل ریاست تھا ۷۲ سال بعد آج محض ایک کٹے پھٹے، اسرائیل کی اٹھائی ہوئی،حجری اور آ ہنی دیوارِ نفرت سے گھرے ہوئے تین چار چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس میں بھی صرف ایک ماہ قبل ۱۳ اکتوبر۲۰۱۷ تک حماس کی منتخبہ حکومت کو اس کے اندر واقع ایک بہت چھوٹے غزہ نام کے حصے ٖ میں محصور کر کے رکھا گیا تھا۔ غاصب، خائین اور ناجائز ریاست اسرائیل نے پندرہ لاکھ انسانوں کی آبادی والے اس غزہ شہر کو اکیسویں صدی کا شعب ابی طالب بنا رکھا تھا، اور جیسا کہ ہم نے اوپر نشاندہی کی ہے، آج معاہدہ غزہ کے ایک ماہ بعد بھی حالات میں کسی مثبت تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے ! لیکن اُمتِ مسلمہ اَہلِ فلسطین و غزہ کی مدد کرنے اور انہیں صہیونی شکنجے سے آزاد کرانے کے بجائے صرف کانفرنسیں اور تقریریں کرنے میں، یا پھر عرب و عجم کے خانوں میں بٹی ہوئی شام و یمن کی جنگ میں مسلمانوں کا خون بہانے میں مصروف ہے اور نئے خوارج کا ایک گروہ جہاد فی سبیل ا للہ کے نام پر مسلم آثار کے انہدام اور مسلمانوں ہی کے قتل عام کے جہاد فی سبیل ا لطاغوت میں مشغول ہے! تہران کی سال گزشتہ والی ا لا قصیٰ کانفرنس میں سعودی عرب کویت، متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں کی نمائندگی نہیں تھی !اور آج یہ عرب ممالک اسرائل اور امریکہ کی کھلی ہوئی مدد سے یمن کے بعد ایران کے خلاف بھی ایک نیا محاذ کھولنے کا اشارہ دے رہے ہیں ! تو کیا تیسری جنگ عظیم کا مرکز شمالی کوریا نہیں ایران ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ قریب سوا سال قبل قائم ہونے والے 34ملکوں کے عرب فوجی اتحاد میں ایران، عراق اورسیریا شامل نہیں ہیں جبکہ غازی محمد مرسی کی منتخبہ حکومت کے ظالمانہ خاتمے اور غاصبانہ قبضے کی ذمہ دار فرعون السیسی کی غیر آئینی حکومت اس میں شامل ہے ! دوسری طرف غاصب و خائن اسرائیلی حکومت بیت ا لمقدس (ا لا قصیٰ۔ یروشلم) کواسرائیل کی باضابطہ راجدھانی بنائے جانے کا اعلان کر نے کے قریب ہے اور مغربی کنارہ یعنی غرب اردن، جنین۔ الخلیل، بیت ا لحم اور غزہ وغیرہ اسرائیل کے انسانیت دشمن اور نسل پرستانہ قوانین کی براہ راست زد پر ہیں۔ اس کا سیدھا اور آسان زبان میں مطلب صرف یہ ہے کہ خائن اسرائیل کے نقشے میں فلسطینی اتھارٹی کے زیر اقتدار علاقوں کے نام سے جو حصے ابھی نظر آتے ہیں ان پر بھی قبضہ کر کے 13مئی 1946والی پوری مملکت فلسطین کو اسرائیل کا حصہ ڈکلیئر کردیا جائے جس کی راجدھانی تل ابیب کے بجائے القدس یعنی یروشلم ہو ! اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیمپ ڈیوڈ سے لے کر اوسلو وغیرہ تک جتنے معاہدے 1979سے1993تک پی ایل اے (فلسطینی لبریشن اتھارٹی یا تنظیم آزادی فلسطین )سے ہوئے ہیں جن کے تحت مرحوم یاسر عرفات کی قیادت میں نام نہاد آزاد مملکت فلسطین کا قیام 1979میں عمل میں آیا تھا اُن سب کو صہیونیت کے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے۔ اسرائیل کے وزیر قانون یہ اعلان کر ہی چکے ہیں کہ اس کے لیے ایک نیا مسودہء قانون پارلیمنٹ میں بہت جلد پاس ہونے والا ہے۔ اور ہم کیا کر رہے ہیں ؟ خالی خولی بیان بازیاں۔ اور منافقانہ فوجی اتحاد جس کا مقصد عملاً صہیونی مقتدرہ کو فائدہ پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس واضح پس منظر میں کوئی ہمیں بتائے کہ حماس۔ الفتح معاہدے کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ؟ مسلمانوں کا ایک گروہ تو وہ ہے جو روٹی کپڑے اور مکان کے بکھیڑوں اور جھمیلوں میں اِس قدر اُلجھا ہوا ہے کہ اُسے کسی اور مسئلے میں سر کھپانے کی فرصت ہی نہیں۔ دوسرا وہ ہے جسے اپنی بقا اور تحفظ کے مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ تیسرا نسبتاً چھوٹا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو خود کو دین و شریعت کے مسائل سے با خبر تصورکرتا ہے۔اِس مکتب ِفکر میں بھی دو طرح کے افراد ہیں۔ ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ دین فطرت اسلام ایک کامل نظام حیات رکھتا ہے لیکن ہر نظام کی طرح وہ بھی قوت ِنافذہ چاہتا ہے لہٰذا ہمیں اِس قوت کے حصول کی کوشش میں سرگرم رہنا چاہیئے اور دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام حکومت سازی کے لیے نہیں کردار سازی اور معاشرہ سازی کے لیے آیا ہے۔ فرد اچھا ہوگا تو سماج بھی اچھا ہوگا اور جب پورا معاشرہ اچھا ہو جائے گا تو اپنے آپ اچھے حکمراں بھی اُسی میں سے برآمد ہوں گے اور سارے دَلِدًَر اپنے آپ دور ہو جائیں گے !الا ما شا ء اللہ ! مطلب یہ کہ ہم صرف باتیں کر رہے ہیں اور ہمارے دشمن کام ! ہماری اچھی اچھی باتیں بھی چونکہ عمل سے خالی ہیں اس لیے وہ بھی عملاً بے فیض ہیں۔ اور دشمن چونکہ اپنی بری باتوں پر ایمانداری کے ساتھ عمل پیرا ہے تو یہ دنیا چونکہ دار ا لعمل، دار ا لا متحان اوردار ا لا سباب ہے اس لیے باطل اس دنیا میں تو ظاہراًکامیاب ہی ہے۔ بے شک آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہ ہوگا لیکن کیا ہم سے آخرت میں ہماری بے عملی اور منافقت کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا ؟ ہاں ذرا سوچیے ! اور ہمیں بھی بتائیے !۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔