وادی ٔکشمیر میں خواتین کی جبری گیسو تراشی کا سلسلہ مختصر ہونے کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل بڑھ رہاہے۔ بے شک ا ن پراسرار وارداتوں کے پیچھے وہ فتنہ پرورغیبی ہاتھ اور کشمیر دشمن دماغ کارفرما ہیں جن کے تار خفیہ ایجنسیوں کے دماغ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ غیبی ہاتھ ایک گیم پلان کے تحت ملت کی بیٹیوں کو اُن کی عمر کا لحاظ کئے بغیر انہیں بلا روک ٹوک اپنا شکار بناتے پھر رہے ہیں۔اس بیچ حکومت کے رویے سے بین السطور یہی لگتا ہے کہ وہ عوام کو بال تراش خفیہ اسکارڈ کے رحم وکرم پر چھوڑنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کر تی۔ بنا بریں پولیس کا رول بھی انتہائی ناقابل فہم نظرآرہاہے۔گو کہ وردی والے اپنی عدم فعالیت کے جواز میں یہ شکوہ زنی کر تے ہیں کہ لوگ ہم سے تعاون نہیں کر رہے ہیں مگر یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ فرض کریں پولیس کی مطلوبہ کارروائی کیلئے بقول ان کے لوگوں کا ’’عدم تعاون‘‘ ذمہ دارہے تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیلٹ فورس اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے تغافل شعاری بر ت لے۔ اسی پولیس نے کچھ دن قبل پلوامہ میں بنک ڈکیتی کی مجرمانہ حرکت کے فوراً بعد دعویٰ کیا کہ اس واقعہ کے پیچھے کس زیرزمین تنظیم کا ہاتھ ہے ، گرچہ اس تنظیم نے خود کوا س مذموم حرکت سے بری الذمہ قراردیا، اسی پولیس نے جامع مسجد شہر خاص کے باہر ڈی ایس پی مرحوم محمد ایوب پنڈت کے افسوس ناک ہجومی قتل میں ملوثین کی نشاندہی کر نے میں ذرہ برابر دیر نہ کی لیکن بال تراش خفیہ اسکارڈ کے حوالے سے یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر لوگوں کے ان شکوک وشبہات کو تقویت دے رہے ہیں کہ مذکورہ مجرم دستے اخوانیوں کی طرح اسٹیٹ سپانسرڈ ہیں۔ اس ساری صورت حال کا لیکھا جوکھا یہ ہے کہ خواتین کے جبری طور بال کاٹنے کے دلدوز واقعات میں اضافہ ہورہاہے اور وادی میں خوف و دہشت کا ماحول قائم ہے اور اگر انتظامی سطح پر ان مذموم وارداتوں پر قدغن لگانے کے لیے کوئی صحیح الجہت ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر غم و غصے کی بڑھتی ہوئی لہر لاوا بن کر پھوٹ سکتی ہے۔ اس معاملے کو لے کر آئے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ وسیع ترہوتا جارہا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے، کیونکہ عزت مآب خواتین کی عزت و عصمت سے بڑھ کر اس قوم کے پاس کوئی سرمایہ نہیں ہے۔ کشمیری قوم کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں عورت ذات کو ہر دور میں اعلیٰ مقام ومرتبت سے نوازا گیا۔ وادی سے ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈت آج بھی فخراً کہتے ہیں کہ کشمیر میں اُن کی بہو بیٹیوں کی عزت ہر حیثیت سے محفوظ تھی،اور وادی میں رات کے ایک دو بجے بھی اگرکوئی پنڈت خاتون کہیںسفر کرتی تو وہ قطعی طور کشمیری مسلمان کے درمیان خود کو غیر محفوظ نہ سمجھتی۔
کسی ایک بھی خاتون کی عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے خدانخواستہ اگر کبھی اس قوم سے ہزار جانوں کی قربانی بھی طلب کی جائے تو یہ زندہ ضمیر کشمیری قوم کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔حوا کی بیٹیوں کی عزت یہاں غیر مشروط طور پر کی جاتی ہے۔ یہاں یہ تمیز نہیں رکھا جاتا ہے کہ کون مسلم خاتون ہے اور کون ہندو، سکھ یا کسی اور مذہب کو ماننے والی ہے۔ اس قوم کی نظروں میں ہر بنت حو ا کی عزت و احترام کو اولین ترجیح حاصل ہے، اُن کی عزت ، عصمت اور آبرو کی حفاظت کے لیے یہاں کے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔یہ محض کوئی بے اصل دعویٰ نہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے مختلف موقعوں پر ثابت کردیا کہ ماؤں اور بہنوں کی عزت و احترام کے معاملے میں دوسری قوموں کے مقابلے میں اہل کشمیر کا مقام نمایاں ہے۔ ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں ،۱۹۴۷ء میں صوبہ جموں میں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جارہا ہے، جب وہاں ہماری ماؤں او ربہنوں کی دامن عصمت کو داغ دار کیا جارہا ہے، جب اْنہیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، انہیں اغواء کرکے جنسی غلام بنایا جارہا ہے، تب بھی یہاں وادیٔ کشمیر میں پنڈت خواتین کو یہاں کے مسلمان اپنے ماؤں اور بہنوں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ 28 برسوں نے کنن پوش پورہ سے لے کر اسلام آباد، ڈوڈہ اور کشتواڑ تک کتنی ہی ہماری عفت مآب بیٹیوں کے جسم کو درندوں کی طرح نوچ ڈالا گیا، لیکن یہاں کے عوام نے ہمیشہ غیر ریاستی مرد وزن کو عزت و احترام کا بالکل وہی مقام دیا جو وہ اپنی ماؤں بہنوں کو دیتے ہیں۔۲۰۱۴ءکے بھیانک سیلاب میں سینکڑوں سیاح یہاں درماندہ ہوئے تھے، اُن کے ساتھ خواتین بھی تھیں، کچھ خواتین حاملہ بھی تھیں، یہاں کے لوگ اگرچہ خود مصیبت زدہ تھے لیکن اپنے درد و کرب کو بھول کر اُنہوں نے اِن غیر ریاستی مہمانوں کے لیے اعلیٰ قسم کی رہائش کے ساتھ ساتھ اْنہیں ہر طرح کی سہولیات اور آرام بہم رکھا۔ حیدر پورہ میں گجرات کی ایک درماندہ سیاح خاتون جب اُن ہی حالات میں درد زہ میں مبتلا ہوئیں تو وہاں عوامی ریلیف کیمپ کے رضاکاروں نے اپنے جسم کاانگ سمجھ کر اسے پرائیوٹ نرسنگ ہوم میں داخل کرایا۔ جب تک اُس کی ڈیلیوری ہوئی، نہ صرف خواتین کے ذریعے سے تیمارداری کرائی گئی بلکہ اسے مع اپنے شوہر کے بعد میں گھر روانہ کرنے کے لیے گجرات تک کاہوائی ٹکٹ بھی فراہم کیا گیا۔انسانیت کا یہ مظاہرہ کشمیر میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی احسان کا سلوک کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔یہاں اخلاقی حدود و قیود کا ہر وقت پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے۔اخوت، انسان دوستی اور ہمدردی کا صلہ اس قوم کو ہمیشہ بدی، برائی اور ظلم و جبر سے دیا گیا ہے جس کی موجودہ شکل بال تراش خفیہ اسکارڈ ہے ، خود ہی فیصلہ کیجئے کہ جو قوم بغیر کسی امتیاز کے خواتین کی عزت وتکریم کرتی ہے، اُسی کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوںکے ساتھ اب یہ دست درازی کرکے اس کے صبر کا امتحان لیا جارہا ہے۔
انسانیت کے مجرم شبانہ روز دندناتے پھر رہے ہیں ، پوری وادی خوف و ہراس میں مبتلا ہے، یہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا عذاب بن چکا ہے، گھر کی چار دیواری میں بھی ہماری مائیں بہنیں محفوظ نہیں رہی ہیں۔ کیا پتہ یہ کس ظلم عظیم کا ریہر سل کیا جارہاہے ؟ حدیہ ہے کہ کشمیر پولیس کے اعلیٰ آفسروں سے لے کر چند وزیروں اور حکمران جماعت کے لیڈروں نے ان پراسرار وارداتوں کو ماس ہسٹریا کا نام دے کر پوری کشمیری قوم کو ہی پاگل قرار دینے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ عمر عبداللہ کے دور میں جب شوپیان میں آسیہ اور نیلوفر کی ٹریجڈی وقوع پذیر ہوئی تو ان کے حراستی قتل کو بھی مقتولین کے ہسٹریا سے تعبیر کیا گیا تھا، حالانکہ دنیا جانتی تھی کہ وہ ایک ناقابل معافی جرم کے ہتھے چڑھا دی گئی تھیں۔ جن لوگوں کو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے تھے وہ جان بوجھ کر عوام کو کنفیوژن میں الجھانے کی کوشش میںہیں۔ یہ سچ ہے کہ جہاں دس لاکھ وری پوش موجود ہوں، جہاں سب سے زیادہ فوجی جماؤ ہو، جو خطہ جنگ زدہ ہووہاں عوام میں ذہنی تناؤ پایاجاتا ہے۔یہ ذہنی تناؤیک طرفہ نہیں ہوگا بلکہ یہاں رہنے والا ہر فرد اس کا شکار ہوگا۔ اس میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ میں شامل لوگ بھی آتے ہیں اور وردی پوش بھی۔ پھر عوام ہی ماس ہسٹریا کے شکار ہوکر کیونکر اپنے آپ کو ہی دہشت زدہ کریں؟ چوبیسوں گھنٹے سخت ڈیوٹی کرنے والی فوج بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوسکتی ہے، جس کا ثبوت آئے روز وردی پوشوں کی جانب سے کی جانے والی خودکشیاں ہیں۔ بہرحال اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی عدم التفات کے سبب اب تک پولیس بیان کے مطابق ایک سو سے زائد ایسے واقعات پیش آچکے ہیں، دن دہاڑے خواتین کے بال کاٹے جارہے ہیں ، مائیں اپنی بیٹیوں کی کاٹی ہوئیںچوٹیاں لہرا لہرا کر دْہائیاں دے رہی ہیں، چلاّ چلا ّکر اپنی عزت و عصمت کے عدم تحفظ کا واویلا کررہی ہیں اور اعلان کر رہی ہیں کہ وہ بھی بحالت مجبوری گن اٹھائی گی۔ اربابِ اقتدار آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر ان المیوں کو ’’ماس ہسٹریا‘‘ کا نام دے کر اصل حقیقت پر پردے ڈال رہے ہیں۔ متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کو Lie Detection Test اور Analysis Narco سے گزارنے کا کیا مقصد ہے؟ اسٹیٹ مشینری ثابت کیا کرنا چاہتی ہے؟ شایدیہ کہ ساری متاثرہ خواتین جھوٹ بول رہی ہیں، ڈرامہ کررہی ہیں؟ بھلا ایسا کرکے اُنہیں کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ کوئی کیوں اپنی بہو بیٹی کا تماشہ بنانا چاہے گا؟ یہ زخمی کشمیریوں کے رِستے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس ذہنی عذاب سے گذرنے والی خواتین کو جبراً چپ سادھ لینے کے لیے یہ تھیوری گڑھ لی جارہی ہے؟ کہیں یہ کشمیری عوام کو اپنا نجات دہندہ گن کلچر سمجھنے کی طرف جان بوجھ کر دھکیلا تونہیں جارہاہے تاکہ یہاں حالات کو مزید بگاڑ کو خون ریزیاں ہوں جس کے صلے میں ہندتواووٹ بنک سیاست کا دھندا چلتا رہے ؟ کہیں عوام کی توجہ سلگتے مسائل سے ہٹانے کے لیے خوف و دہشت کا یہ ماحول جان بوجھ کر پیدا تو نہیں کیا جارہا ہے؟ کہیں یہاں بھی روہنگیا کا تجربہ دہرانے کا جنون دشمن کے ذہن پر سوار تو نہیں ہے ؟ یہ تیکھے سوالات جنم ہی نہیں لے رہے ہیں بلکہ عوام کی پریشانیاں ایڈریس نہ کرنے کے نتیجے میں عوام حکومت سے نالاںہیں۔جب جائزشکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے متاثرہ لوگوں کو ہی موردالزام ٹھہرانے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جائے تو پھر بداعتمادی کا آتش فشاں کسی نہ کسی صورت پھوٹ ہی جاتا ہے۔ بھاجپا سے کیا پوچھنا، البتہ پی ڈی پی سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہی اس کا زخموں پر مرہم ہے ؟ کیا یہی اس کے نعروں باعزت امن ، گولی نہیں بولی، سیلف رول کا مفہوم ہے کہ ایک عارضی اور بے وفاکرسی کے لئے کشمیریوں کا قتل بھی ٹھنڈ ے پیٹوں برداشت کیا جائے اور ان کی بہو بیٹیوں کی تذلیل و تضحیک کر نے والوں کے خلاف اُف تک نہ کیاجائے؟سرکار کس لیے ہوتی ہے؟اْس میں شامل ذمہ داروں کو عوام کا دْکھ درد بانٹنے اور ان کی مشکلات کم کر نے کے لیے ووٹ ملتا ہے، لیکن یہاں حکومت کے تمام کل پرزے دلی کے لیے سیاست کرنا ہی اپنا فرض اول وآخر سمجھتے ہیں، اس لئے دلی کی خوشنودی کے لئے جب بھی ضرورت پڑے تو کشمیریوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں اور جب حالات کا تقاضا ہوتو پاکستان پر برستے ہیں۔ یوںجو کام سرکار کو سرانجام دینا ہوتا ہے، وہ اسے انجام ینے سے قاصررہتے ہیں۔بال تراش خفیہ اسکارڈ کے حوالے سے سرکار کی روش سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اسے کشمیری عوام کی کوئی چٹی اسی طرح نہیں پڑی ہے جیسے بقول کرشن دیو سیٹھی( یادِ رفتہ) شیخ محمد عبداللہ نے ۱۹۴۷ءمیںبہ حیثیت ناظم اعلیٰ جموں میںمسلمانوں کی لاکھوں کی تعداد میں مارکاٹ پر کہا تھا کہ ’’مجھے مسلمانانِ جموں سے کیا لینا دینا ،ا نہوں نے مجھے کبھی اپنا لیڈر نہیں مانا۔ اس لئے یہ جانیں اور ان کے قائد ین جانیں۔‘‘
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پیش آمدہ واقعات کے بعد بعض شرپسند اور افواہ بازعناصر متحرک ہوئے ہیں جو غلط سلط باتیں پھیلا کر سماج میں خوف و ہراس کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔ان غلط کارعناصر سے ہوشیار رہا جائے، بالخصوص کسی بے گناہ کو جبری گیسو تراشی کا ملزم ٹھہرا کر اس کی مار پٹائی کر نا اسلام کی انسان دوست تعلیمات کے منافی ہیں۔ جب بھی کسی مشکوک شخص پر نظر پڑے تو محلے اور گاؤں کے سنجیدہ ، دانااور انصاف پسند لوگوں سے اس کاسوال وجواب کرایا جائے، نہ کہ بلا کسی صبروتحمل کے اس کی ہڈی پسلی ایک کی جائے۔دلی میں قائم ہندوستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا موقعے کی تلاش میں ہوتا ہے، وہ کشمیریوں کو بدنام کرنے اور اُن کی عزت ریزی کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہوتا ہے۔ کشمیر میں جبری گیسو تراشی کی الم ناک وار داتیں کیا شروع ہوئیں ، دلی کے میڈیا نے منفی پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا۔ وہ بے یار ومددگار عوام کو ہی ہر چیز کے لئے مورد الزام ٹھہرانے کی حیوانی عادت کا بھر پور مظاہرہ کر رہاہے۔ مظلوم ومقہور احتجاجی لوگوں کو وحشیوں اور درندوں کی طرح دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں کو ٹی وی پر بٹھاکر اْن سے کشمیری قوم کی تذلیل وتحقیر کروائی جاتی ہے۔ اِن کند ذہن ٹی وی چینلوں کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ کشمیر اور مسلمانان ِ ہند کے حوالے سے کسی کی بھی پگڑی اچھالیں اور تذلیل کریں۔ اصولی بات یہ ہے کہ جھوٹے پروپیگنڈوںسے زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، دنیا جانتی ہے کہ کون کیا کررہا ہے؟ کون انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑا رہا ہے اور کون ایک پوری قوم کو یرغمال بنائے ہواہے۔ محض جھوٹ اور سنسنی پھیلاکر کشمیریوں کے تئیں بھارتی سماج میں زیادہ سے زیادہ نفرت پیدا کرنے کے لیے یہ چینلیں دن رات مشغول ہو کر بھارت کا کوئی بھلا نہیں کررہی ہیں بلکہ نفرت کی آگ بھڑکا بھڑکاکرانسانیت کو شرمسار کررہی ہیں۔ کیا ہمارے جوانوں کا مسلسل قتل، ہماری ماؤں بہنوں پر بال کاٹ خفیہ اسکارڈ کی جانب سے یلغاریں کرنا، ہمارے گھروں کو اُجاڑنے کامشن مودی جی کے اس فقرے سے کوئی میل کھاتاہے :’’ نہ گولی سے نہ گالی سے کشمیر سمسیا کا حل کشمیریوں کوگلے لگانے سے ہے ‘‘۔ بہرصورت ضرورت ا س بات کی ہے کہ سرکاری مشینری خلوص نیت کے ساتھ اس نئی شامت وآفت کے تعلق سے حقائق کو بلاکم وکاست سامنے لائے، کوئی سیاسی پوئنٹ اسکور کرنے کی کوشش نہ کرے، عوام کو اپنی ہی تکلیف کے لئے مورد الزام ٹھہرانے کی حماقت آمیز روش ترک کرے، بال تراش اسکارڈ کا قلع قمع کرے۔ عوامی سطح پر دفاعی حکمت عملی اوراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام اپنی حمیت وغیرت کے دفاع میںایک ہوجائیں، دشمن کی چالوں کو سمجھیں ، جوش میں اپنے ہوش سنبھالے رکھیں، کسی غیر یا اپنے کو جرم بے گناہی کی پاداش میں تشدد کا نشانہ نہ بننے دیں، گھروں میں دروازوں کو بند رکھا کریں، شام کے اوقات میں خواتین کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیںاور یہ یقین رکھیں یہ بلا بھی باذن اللہ ٹل جائے گی۔ اس قوم نے اس سے قبل بے شمار مصیبتوں کا سامنا کیا ہے، اسے پراسرار کارروائیوں میں انتقام کا نشانہ بنانے کی متعدد سازشیںرچائی گئیں مگر ہربار سازشی قوتوں کے ہاتھ ناکامی ہی لگی۔اس بار بھی انہیں منہ کی کھانی پڑے گی مگر شرط یہ ہے کہ ہم چوکنا رہیں اور اللہ پر بھروسہ کرکے یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ایمان ، انصاف، ہمت اور حوصلوں سے کام لے کر ودبارہ کشمیر مخالف طاقتوں کو شکست فاش سے دوچار کریں گے۔ ان شاء اللہ ۔۔