کشمیر کی مخصوص شناخت نے یہاں کی سیاست اور اجتماعی جدوجہد کو متاثر کیا ہے۔ کشمیر کے سیاسی عمل کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے اس کی شناخت ایک اہم حوالہ ہے۔ آزادی، خودمختاری اور خود اختیاری جیسے نعرے عام طور پر ایک چیز، یعنی کشمیری شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی حکومت اس شناخت کو بگاڑنے کی کوشش کرتی ہے تو لوگوں کو شدید نوعیت کی بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔ اپنی نام نہاد حکومتوں کے خلاف کشمیریوں کی بے زاری کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ مدتوں سے ہے۔ مہاراجا ہری سنگھ کی حکمرانی کے دوران تلخی دو وجوہ سے بڑھی تھی:
۱- مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ جس کا ایک بڑا سبب ان کی تعلیمی پس ماندگی تھی، اور المیہ یہ کہ خود ڈوگرہ حکومت انھیں تعلیم میں پس ماندہ رکھنا چاہتی تھی۔
۲- ڈوگروں اور پنڈتوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حکومتی خدمات کے لیے باہر سے تو لوگ لیے جاسکتے ہیں، مگر مسلمان ہرگز نہیں۔
سیاست میں دو پہلوئوں سے پیش رفت یہ ہوئی کہ اسی عرصے میں مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا، جو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا ذریعہ بنی۔ دوسرے یہ کہ پنڈتوں اور ڈوگروں نے الگ سے تحریک چلائی کہ ’’کشمیر، کشمیریوں کے لیے ہے‘‘۔ دراصل یہ تحریک پنڈتوں کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے تھی۔ اس تحریک نے فوجی خدمات میں مسلمانوں کی شمولیت کا بھی راستہ کھول دیا۔ لیکن اس تحریک نے مہاراجا ہری سنگھ کو یہ قانون بنانے پر مجبور کیا کہ غیر ریاستی لوگوں اور غیرریاستی ملازموں کو زمین خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
اس طرح ریاست نے غیر ریاستی باشندوں کے مقابلے میں ، ریاستی عوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا، اور اس استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۲۷ء میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ‘’ریاستی موضوع‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ زمین کی ملکیت کے لیے قانون سازی کی گئی اور کہا گیا کہ زمین خریدنے والے ہرفرد کی حیثیت پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ۱۹۵۲ء میں شیخ عبداللہ اور بھارت کی حکومت نے دہلی میں اتفاق کیا کہ ریاست کو قانون سازی کے ذریعے ریاست کے مستقل رہایشیوں کے حقوق کے تحفظ اور ملکیت کے استحکام کی قوت حاصل ہوگی، خاص طور پر غیرمنقولہ ملکیت کے حصول سے متعلق معاملات کے بارے میں۔
’ریاستی موضوع‘ کے لحاظ سے یہ خاص حیثیت ہی درحقیقت بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے مکمل انضمام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی چلی آرہی ہے۔ بھارتی دستور کا آرٹیکل ۳۷۰ کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے بھارتی قوم پرست قوتوں کے لیے بے چینی کا سبب ہے، اور وہ ابتدا ہی سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، آرٹیکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوئی حکومت ہمت نہیں کرسکی۔ البتہ اس کی خصوصی اہمیت کو بے اثر اور بے وقعت بنانے کے لیے نئی دہلی حکومت طرح طرح کی پالیسیاں بناتی اور نافذ کرتی رہی ہے۔ حالیہ زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایسی قاتلانہ قانون سازی کی کھلی کھلی کوششیں ہورہی ہیں، مثال کے طور پر:
فوجی کالونیاں قائم کرنا:
سری نگر میں فوجی کالونی قائم کرنے کے لیے زمین الاٹ کرنے کی تجویز کے تازہ تنازعے نے کشمیر کی شناخت کا مسئلہ اُٹھا دیا ہے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں، گورنر این این وورا کی سربراہی میں ’راجیہ سینک بورڈ‘ (آر ایس بی)نے سری نگر کے ایک ہوائی اڈے کے قریب فوجی کالونی کی منظوری دے دی تھی۔ وزارتِ داخلہ نے اپنے اعلامیے میں لکھا کہ: ’’راجیہ سینک بورڈ کے زیراہتمام فوجی کالونی کے لیے ۱۷۳کنال زمین مختص کی گئی ہے‘‘۔ یہ منظوری اُس وقت کے وزیراعلیٰ، مفتی سعید نے دی تھی۔ اب ان کی بیٹی محبوبہ مفتی اس مقصد کی تکمیل کر رہی ہیں۔ جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے یہ پختہ اقدام ایک مؤثر حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھارتی فوجی اب کشمیر کے باشندوں اور ریاست پر قبضہ مضبوط بنانے کے ایک اہم محرک کی حیثیت اختیار کریں گے۔ یہ اقدام غیر ہندستانی معاشرے کو ہندستانی معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ حُریت کانفرنس نے اس اقدام کی پُرزور مذمت کی ہے۔ حُریت کانفرنس کے سربراہ سیّدعلی گیلانی کے بقول: ’’کشمیر میں بھارتی فوجی کالونیاں قائم کرنا کشمیری قوم کا قتلِ عام ہے، جس کی مزاحمت کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کرنا ہوگی‘‘۔ گیلانی صاحب کے مطابق ان کالونیوں میں سابق بھارتی فوجیوں کو آباد کرنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ ریاست، بھارت کی ۲۸ریاستوں سے بالکل الگ پہچان اور متنازعہ حیثیت رکھتی ہے۔ سیّدعلی گیلانی نے اسے کھلی جارحیت قرار دیا اور اس جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتفاق راے کے بھرپور اظہار کے لیے تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کو یک زبان اور یک جا ہونے پر اُبھارا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ: ’’فوجی کالونیوں کی آبادکاری کے لیے زمین مخصوص کرنا ایسا اقدام ہے، جو ۲۰۰۸ء میں ’امرناتھ شراین بورڈ‘ کو ۴۰کنال زمین منتقل کرنے سے بھی زیادہ سنجیدہ، گہرے منفی اور دُور رس اثرات کا حامل فعل ہے۔ تب کشمیر کی سیاسی قیادت کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ’شراین بورڈ‘ کا فیصلہ منسوخ ہوگیا تھا۔ لیکن اگر اب بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے غیرقانونی قبضے سے کئی لاکھ کنال زمین کو نہ نکالا گیا، تو یہ اہل کشمیر کو ایک بدترین مستقبل کی طرف دھکیل دے گا۔
۲۴؍ اگست ۲۰۰۹ء کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں دیے گئے اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ فوج نے ۱۰ لاکھ ۵۴ہزار ۷سو ۲۱ کنال زمین پر بزور قبضہ جمایا ہے، جن میں ۸ لاکھ اور ۵۵ہزار کنال پر تو ۱۰۰ فی صد غیرقانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر مزید ایک لاکھ ۹۹ہزار ۳سو۱۴ کنال زمین سیکورٹی ایجنسیوں نے قبضے میں لے رکھی ہے۔ ’لینڈ ریکوزیشن ایکٹ‘ کے تحت وادیِ کشمیر کی مزید ۵ لاکھ ۹۹ہزار ۴سو۵۵ کنال اور جموں کی ۳لاکھ ۲۱ہزار ۹سو۵۱ کنال زمین بھارتی فوجیوں نے ہتھیا لی ہے۔
مغربی پاکستان سے پناہ گزینوں کی آباد کاری:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے وقت لاکھوں ہندواور سکھ مغربی پاکستان کے مختلف علاقوں سے بھارت، اور بھارت کے مختلف علاقوں سے لاکھوں مسلمان مغربی پاکستان میں منتقل ہوگئے تھے۔ ہندوئوں اور سکھوں کی ایک تعداد جموں میں منتقل ہوکر سرحدی علاقوں میں آباد ہوگئی تھی۔ ۲۰۱۲ءمیں جموں و کشمیر اسمبلی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۱ہزار۹سو ۷۹ افراد پر مشتمل ۴ہزار ۷سو۴۵ خاندان ہیں، جو مغربی پاکستان سے جموں و کشمیر منتقل ہوگئے تھے۔ ان پناہ گزینوں کی ایکشن کمیٹی کا اب کہنا ہے کہ ان مہاجرین کی موجودہ آبادی ۲لاکھ ۵۰ہزار ہے۔ ان میں سے ۹۵ فی صد نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی راجپوت اور برہمن ہیں۔ انھیں بھارتی شہریت تو دی گئی ہے، لیکن ریاست جموں و کشمیر کی شہریت نہیں دی گئی۔ جب ’مشترکہ پارلیمانی کمیٹی‘ (جے پی سی) نے سفارش کی کہ ریاست جموں و کشمیر ان پناہ گزینوں کو ووٹنگ اور شہریت کے حقوق دے، تو اس بات پر تنازع پیدا ہوگیا۔ یہ کمیٹی (جے پی سی) انتخابات سے پہلے تشکیل دی گئی تھی، کیوںکہ بی جے پی ان پناہ گزینوں کو اپنی انتخابی مہم کے لیے بطور سہارا استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور بی جے پی کی حکومت نے یہ اقدامات کیے۔
ممبراسمبلی مظفر حسین بیگ نے کہا کہ ان پناہ گزینوں کا مسئلہ باوقار طریقے سے حل کرنا چاہیے، اور انھیں نئی اُمید دینی چاہیے۔کشمیر اور جموں کی زمینوں پر بھارتی کالونیوں کی تعمیر کے مسئلے پر، بھارت سے وابستہ رہنے اور بھارت سے الگ ہونے والے لوگ مشترکہ موقف رکھتے اور کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات نہ صرف ریاست کی متنازعہ نوعیت کو تبدیل کر ڈالیں گے، بلکہ ریاست میں آبادی کے تناسب کو بھی تبدیل کر ڈالیں گے۔ حُریت (ع) کے چیئرمین عمر فاروق نے کہا کہ: ’’مظفربیگ کا بیان کوئی سیاسی، قانونی یا اخلاقی موقف نہیں ہے۔ وہ اگر پناہ گزینوں کی بحالی کے بارے میں فکرمند ہیں، تو انھیں بھارت لے جائیں‘‘۔
علیحدہ کالونیوں میں کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ :
کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ اہم اور سب سے زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ بی جے پی، جس نے جموں میں اچھا انتخابی فائدہ اُٹھایا، خود اس کو بھی اسمبلی میں اس مسئلے کا سامنا ہے۔ وہ کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ قصبوں کو قائم کرنے کی پالیسی کے ساتھ برسرِاقتدار آئی ہے۔ اس پالیسی نے ریاست، عوام اور سیاسی جماعتوں میں ایک ردعمل پیدا کیا ہے۔ جو لوگ بھارت کے ساتھ وابستگی چاہتے ہیں اور جو آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ سیّد علی گیلانی نے اس منصوبے کو مسترد کرکے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اگرچہ، پی ڈی پی نے بھی اسرائیلی انداز میں پنڈتوں کی کسی بھی قسم کی آبادکاری کے خصوصی اہتمام کو مسترد کر دیا ہے، مگر بی جے پی اور پی ڈی پی اتحادی سیاست کے ذریعے ریاست میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی جانب بڑھا جارہا ہے، جس میں بڑے شہروں کو ہدف بنایا جانا پیش نظر ہے۔
یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ کشمیری مسلمان، اپنے ہم وطن پنڈتوں کی واپسی کے خلاف نہیں ہیں، کیوںکہ وہ کشمیر کا ایک حصہ ہیں، لیکن جس طریقے سے ان کی آبادکاری کا منصوبہ مسلط کیا جارہا ہے، اس طریقے کی مخالفت کی جارہی ہے۔
اس تنازعے میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ: ’’کشمیری، تارکین وطن کی اپنی وادی میں آبادکاری کے لیے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے بلیوں کے آگے کبوتر ڈالنے کا معاملہ ہو‘‘۔ محبوبہ مفتی کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ یہ باتیں مسلمانوں کے لیے واضح طور پر توہین آمیز اور نفرت انگیز الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کشمیری پنڈتوں کو ’کبوتروں‘ کی طرح نشانہ نہیں بنایا، اور جنھوں نے انفرادی طور پر کبھی کسی کو نشانہ بنایا تو کشمیری قیادت نے نہایت سختی سے اس کی مذمت کی ہے۔
نئی صنعتی پالیسی:
یہ پالیسی انڈسٹری اینڈ کامرس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی ہے اور ریاستی انتظامی کونسل نے ۱۵مارچ ۲۰۱۶ء کو اس کی منظوری دی ہے۔یہ کونسل گورنر این این ووہرا کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔ بظاہر اس پالیسی کا مقصد ہرسال ۲ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ارادہ ہے۔ لیکن پالیسی کے اصولوں کے پیچھے یقینی طور پر کچھ ایسے چھپے ہوئے سازشی عناصر موجود ہیں، جو نئی صنعتی پالیسی کے جھانسے میں، غیر ریاستی لوگوں کو زمین حاصل کرنے کی گہری سازش کر رہے ہیں، تاکہ وہ نام نہاد ۹۰ سالہ لیز پر فیکٹریاں لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی بستیاں بھی آباد کرتے چلے جائیں۔
اس حوالے سے آسیہ اندرابی صاحبہ نے کہا ہے کہ: ’’بھارتی صنعتی پالیسی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داراورصنعت کار، دولت کے بل بوتے پر کشمیر میں پنجے گاڑ کر، یہاں کی آبادی کا تناسب بدل ڈالیں۔ مزید یہ کہ بھارتی سرمایہ دار اور سرمایہ پرست، افرادی قوت بھی بھارتی ریاستوں سے لائیں گے، جس کے نتیجے میں یہاں کی تہذیب و تمدن، روزگار اور آزادی، سبھی کچھ بھارتی کنٹرول میں چلا جائے گا اور یہاں غربت و ذلّت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔
جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی پر عمل درآمد :
جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی (ٹیکس) کا نفاذ ریاست کا بھارت کے ساتھ انضمام کے عمل کی نشان دہی کرتا ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ نے اس موقعے پر کہا کہ ’’حکومت کے اس اقدام سے کشمیر کے بھارت میں انضمام کا خواب پورا ہوگیاہے‘‘۔ ایک دوسرے موقعے پر انھوں نے کہا کہ: ’’جمو ں و کشمیر کا جی ایس ٹی نظام کا حصہ بننا سیاسی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ یہ ریاست کا باقی ملک [بھارت] کے ساتھ انضمام کا اشارہ ہے اور جی ایس ٹی دراصل ایک عمل کی انتہا ہے‘‘، جب کہ شاما پرشاد مکرجی نے ریاست کے بھارت کے ساتھ مکمل انضمام پر بات کی۔ تاہم، اس کے برعکس بھارت کے ممتاز دانش وَر اے جی نُورانی نے جی ایس ٹی کو ’آرٹیکل ۳۷۰ کی عصمت دری‘ قرار دیا۔
جی ایس ٹی نے ریاست سے ہر طرح کی معاشی خودمختاری چھین لی ہے۔ آرٹیکل۳۷۰ ریاست کو محصول اور ٹیکس کی وصولی کا اختیار دیتا ہے، لیکن اب یہ اختیار ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ عبدالرحیم راتھر، سابق وزیرخزانہ نے ریاست اور مرکزی حکومت کے اعلان کو رَدکرتے ہوئے کہا کہ: ’’نئے ٹیکس نظام کے تحت، نئی دہلی کو جی ایس ٹی کے ذریعے سیلزٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جو کہ دوسری صورت میں جموں و کشمیر حکومت کے دائرئہ اختیار میں ہوتا ہے‘‘۔
جی ایس ٹی میں توسیع کا سادہ مطلب جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات نئی دہلی کے حوالے کرنا ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے کی میکاولین وضاحتیں کی ہیں۔ ڈاکٹر حسیب درابو ریاستی وزیرخزانہ نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘‘، اور یہ انھی خطوط پر گفتگو تھی جیساکہ بی جے پی کے نظریے کے حامی بات کرتے ہیں۔
آرٹیکل ۳۵-اے کو حذف کرنے کی حکمت عملی
جموں و کشمیر کا آئین اپنے تیسرے حصے میں مستقل رہایشی اور اس کے اختیارات اور مستقل رہایشی کے حقوقِ ملکیت وغیرہ کی تعریف کرتا ہے۔ مستقل رہایشی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ آئین آرٹیکل۹ کے تحت ریاستی اسمبلی کو تمام اختیارات دیتا ہے، جس کے تحت اسمبلی ریاستی شہری کی تعریف میں کوئی بھی تبدیلی لاسکتی ہے۔ آرٹیکل ۹: درج ذیل اُمور کی وضاحت کرتا ہے، جیسے:
۱- ریاست کے مستقل شہری کی وضاحت کرنا یا تعریف میں تبدیلی کرنا، افراد کی نوعیت (کلاسز) جو بھی ہیں یا ہوں گی،
۲- مستقل شہریوں کو خصوصی حقوق یا اختیار عطاکرنا،
۳- مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق یا اختیارات کو مقررہ ضابطے کے تحت چلانا یا ان میں تبدیلی کرنا۔ یہ اسمبلی سے تب منظور کیے جائیں گے، جب اسے اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی تائید حاصل ہوگی۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے حقوق نہ صرف بھارتی حکومت نے تسلیم کیے ہیں،بلکہ ان کے تحفظ کے لیے آرٹیکل ۳۵-اے آئین کا حصہ بھی ہے۔ یہ آرٹیکل ایک آئینی شق ہے، جو جموں و کشمیر کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق بہ سلسلہ ملازمت، ناقابلِ انتقال جایداد کا حصول، آبادکاری اور اسکالرشپ کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر میں صدر راجندرا پرشاد کے حکم سے ۱۴مئی ۱۹۵۴ء میں نافذ کیا گیا۔ قانونی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل کو حذف کیا گیا تو جموں و کشمیر تمام خصوصی مراعات بشمول اسٹیٹ سبجیکٹ لا، جایداد کا حق، ملازمت کا حق اور آبادکاری کا حق کھو دے گا۔ بھارتی انتہاپسند قوم پرستوں کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کو مسخ کرنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ بی جے پی کے مشن۴۴ کا ہدف کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کے اس دستاویزی ثبوت سے نجات حاصل کرنا ہے۔
جموں و کشمیر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طورپر اس تحریک کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو منسوخ کیا گیا تو جموںو کشمیر میں بغاوت ہوسکتی ہے (روزنامہ گریٹر کشمیر، یکم اگست ۲۰۱۷ء)۔ اسی طرح وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت کو سختی سے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو حذف کیا گیا تو وادی میں ترنگے کو بلند کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اپوزیشن، حکمران جماعت پی ڈی پی ، علیحدگی پسند اور عوام آرٹیکل ۳۵-اے کی تنسیخ پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔
آرٹیکل ۳۵-اے کی منسوخی نے مرکز اور ریاست میں شدید بحث کھڑی کر دی ہے۔ زیریں سطح پر بہت سے حقائق نے کشمیر کے تشخص پر سخت یورش کو ثابت کر دیا ہے۔ مثلاً ’پرماننٹ ریذیڈنٹ سرٹیفکیٹ‘ (PRC) سے متعلق افواہوں نے ریاست کے عوام میں یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ گڑبڑ ہے۔ ’اسٹیٹ سبجیکٹ انکوائری کمیشن رپورٹ‘ کے مطابق تقریباً ۱۳۰۰ پی آر سی سرٹیفکیٹ زیرغور ہیں جو کہ حیران کن ہے۔ اے کیو پرے نے کہا ہے کہ ان مقدمات میں انھوں نے پی آر سی سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے اور جایداد ضبط کرلینے کی منظوری دی ہے۔ اے کیو پرے نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ غیر ریاستی IAS کے غیرمتعلقہ افسر پی آر سی سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں جو کہ قوانین و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جس روز سے رسمی معاہدے کے تحت بھارت نے ریاست کا انتظام سنبھالا ہے، مرکزی بھارتی قیادت کی خواہش ہے کہ جیسے دوسری ریاستیں بھارت میں ضم ہوگئی ہیں اسی طرح کشمیر بھی بھارت میں مکمل طور پر ضم ہوجائے۔ خودمختاری میں فرسودگی کا عمل اس طریق کار کی زندہ مثال ہے۔ عوام محض اس شبہے کے اظہار کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے علیحدگی کے تشخص کو منسوخ کرنے کا ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ دستورِ ہند سے آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے لیے بھارت میں واویلا زوروں پر ہے اور اس کو حذف کرنا بی جے پی حکومت کے کارڈوں میں سے ہے۔
اگرچہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتقامی پالیسیوں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے تشخص کے خلاف اس بھرپور یورش کو روکنے کے لیے متحد ہوتی ہیں یا کشمیرامرناتھ پارٹ ٹو کی طرف بڑھ رہا ہے؟