قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس کی راہ میں عزیز ترین چیز قربان کرنے کا حکم دیا ہے۔ عقل کے عین مطابق یہ اصول بر حق ہے کہ انسان اپنی محبت کا دعویٰ تبھی سچ ثابت کر سکتا ہے جب وہ اپنے محبوب کو خوش اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنی محبوب ترین چیز نثار کر لے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت کرنا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو زندگی عطا کی، ا س کے بعد زندگی کو جینے کے لئے ا س سے تمام ضروری نعمتوں سے نوازا، اسی کے لئے یہ کارخانہ دنیا تیار کیا، زمین و آسمان کو اسی کے لئے مسخر کیا، آب و ہوا پر اسی کی مقتدرت رکھی اور باقی دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے لئے اسی کو اختیارات دئے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ ان نعمتوں کے مقابلے میں دنیا میں انسان کا شفیق و کریم پالنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ اب یہ عین تقاضائے عقل ہے کہ انسان کے لئے محبت و الفت کا سب سے زیادہ حق دار اس کا یہی پالنہار ہے جس نے اس سے ان تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں مومنوں کی ایک اہم خصلت یہ قرار دی گئی ہے کہ وہ اپنے رب سے شدید ترین محبت رکھتے ہیں۔
دنیاوی اعتبار سے انسان کا محبوب ترین چیز جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بخشی ہے زندگی ہے، کیوں کہ یہ زندگی ہی ہے جس پر باقی تمام نعمتوں کا انحصار ہے۔ اگر زندگی ہے تو سب کچھ ہے ، اگر زندگی ہی نہیں ہے تو باقی سب چیزوں کا خیال کرنا ہی محال ہے۔ لیکن دنیا میں حالات و واقعات کی مناسبت سے انسان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ انسان کی نجی زندگی میںکھبی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں یا کھبی آس پاس کے ماحول میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ انسانی زندگی کی ترجیحات کا الٹ پھیر ہی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا معمر ترین شخص جس نے اپنی زندگی کے ۷۰، ۸۰ سال جیے کو آخر میں کوئی جان لیوا بیماری لاحق ہوئی ۔ سیدھی سی بات ہے کہ اُس وقت اس کی محبوب ترین چیز جو کہ عام حالات میں اس کو زندگی تھی اب موت میں تبدیل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک ایسے انسان کی مثال بھی لی جاسکتی ہے جو اپنی انفرادی زندگی سے اچھا خاصا جیتا ہو لیکن اس کے سارے عزیز و اقارب کسی باہری اسباب سے اس دنیا سے رخصت چلے گئے، اس کی ترجیحات اُس وقت زندگی سے لو لگانے کی نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہو گی۔یا ایک نو مولود بچے کی ماں مثال کے طور پر لی جاسکتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے بچے کے لئے ، اس کے آرام و آسائش اور اس کو صحت و سلامتی میں دیکھنے کے لے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے دریغ نہیں کرتی۔ اس طرح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ گو کہ انسان کے لئے دنیاوی اعتبار سے اس کی محبوب ترین چیز اس کی زندگی ہے لیکن یہ ایک دائمی اصول نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے لے لئے انسان کو جو اپنی محبوب ترین چیز قربان کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انسان کو یہ سوچنا چاہے کہ وقتِ مقررہ پر اس کی سب سے محبوب ترین چیز کون سی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینی ہے یا زندگی جینی ہے، مال سے انفاق کرنا ہے یا اولادوں سے، وقت کی قربانی دینی ہے یا صلاحیتوں کی، سچائی کی شھادت دے کر عذاب و عتاب برداشت کر اپنے جسم کے اوپرلگے زخموں سے اللہ تعالیٰ سے محبت کا ثبوت پیش کرنا ہے یا اپنے بیوی بچوں سے دور کسی اندھیری کوٹھری میں قید جا کراپنے نفس سے، عدل و انصاف کی عَلم بلند کر کے اپنے زخموں سے’ اشد حبا للہ‘ کو عملی جامہ پہنا کر یا اپنا لہو زمیں پر گراتے ہوئے ۔ یہی محبت کھبی’ کفو ا ایدیکم ‘کا کالا کھونٹ پی کر بھی دکھایا جاسکتا ہے یا استہزا و تمسخر کے طعنے سہہ کر۔ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت اپنے بندے کی جان کی قربانی مطلوب ہو ، کھبی وہ اس سے چا ہتاہے کہ گھر میں دعوت کا کا م کر کے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرے ، کھبی گھر سے باہر جا کر گلی گلی اور گھر گھر دورے لگا کر کے اپنا خون پسینا ایک کر کے لوگوں کوایک ایسے لافانی محبوب کی طرف بلائے جس کی محبت کو اس نے ماں سے کئی گنا زیادہ شدید پایا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان نے دنیا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی وقعت کم ہوگی، کیوں کہ جس وقت انسان نے جان کی قربانی دی ہوگی اس وقت اس کی جان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو اس کا دنیا میں رہ کر اپنی باقی صلاحیتوں کو قربا ن کرناہی مطلوب تھا۔ اس پسِ منظر میںمولانا مودودی ؒ کی یہ بات بالکل حق ثابت ہو جاتی ہے کہ وقتِ حاضر میں اسلام کے لیے جان دینی آسان اور زندگی گزارنی کھٹن ہو گئی ہے۔
پیار و محبت کی وابستگی انسان کو دنیا میں بہت ساری چیزوں سے ہوتی ہے۔ انہی پیاری چیزوں کو اپنے محبوب یعنیٰ اللہ تعالیٰ کی راہ میں، اس کے دین کی سر بلندی کے لئے، حق و انصاف کی علم ہمیشہ بلند رکھنے کے لئے قربا ن کرنے کو انفاق، جہاد، قربانی یا کھبی قتال کہا گیا ہے ۔ انفاق کر کے بھی اگر کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہ ہو جائے تو اس سے سمجھنا چاہے کہ اس نے اپنی محبوب ترین چیز کو قربان نہیں کیا ہے۔ اب قربانی کے فلسفے کو قرآن پاک نے جوبیان کیا ہے کہ اس کا پہلا اور منطقی انجام اللہ تعالیٰ کا تقویٰ و قرب حاصل کرنا ہے، لیکن دوسرا اور جو نہایت ہی ضروری انجام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنی انفرادی زندگی سے باہر وسعت دے کر اس کی بتائی ہوئی تعلیمات اوراس کے مبعوث کیے گئے نبی رحمت ﷺ کے سنتِ مطہرات کے مطابق باقی دنیا کے لئے نہ ہی پسند کیا جائے بلکہ اس سے دنیاکے باقی کاخانوں میں اپنی بساط کے مطابق عملایا جائے۔ کیوں کہ’اشد حب اللہ ‘کا تقاضا ہی یہ ہے کہ ایک تو محبوب کے رنگ میں رنگ جانا ، دوسرا محبوب کی چاہت و پسندی کو ہر جگہ عملانا اور دوسروں کو بھی عملانے کے لئے دعوت دینا۔
اب یہ بات بھی واضح طور پر مترشح ہو گئی کہ دنیا کی نظروں میںانسان کے لئے جو چیز محبوب ہے بس وہی چیز ہمیشہ اور ہر وقت کے لئے محبوب ٹھہرے صحیح نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کی نجی زندگی و داخلی نفسیات پر منحصر کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس سے اپنے لئے کون سی چیز محبوب ترین ہے۔ اور اسی چیز کی قربانی اللہ تعالیٰ کے ہاںمطلوب و محبوب ہے۔ لیکن ان چیزوں کا قربان کرنا اگر محض برائے قربا ن ہو تو اُس میں ’ بِر‘کا انصر نہیں ہو سکتاہے۔ قربانی اگر کسی چیز کی دینی ہے وہ محض رسمی نہیں ہو نی چاہے، بلکہ اسلامی روح اور تقویٰ حاصل کرنے کے اصولوں کے عین مطابق ہونی ہے۔ اگر انسان کو لگ رہا ہے کہ اس کی کسی ایک قسم کی قربانی سے مطلوبہ ہدف کو پار نہیں کیا جاسکتا، لامحالہ قربانی کی قسم اور قربانی کے طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میںیہ واضح ہو چکا ہے کہ قربانی کی مختلف قسموں اور وقت کے تقاضے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قربانی کو ایک صحیح سمت میںپیش کرنا ہے۔ غریبوں کی دست رسائی لازماََ کرنی ہے لیکن انفاق کرنے والے کو پہلے یہ خود سے تعین کرنا ہے کہ اپنے آپ کو غریب کہنے والا واقعتاََ غریب ہے، مسکین دکھنے والا واقعتاََ مسکین ہے، نادار کہلوانے والا واقعتاََ ناداری میں ہے۔ اس کو تو کوئی بھی سلیم الفطرت انسان قربانی /انفاق نہیں کہہ سکتا کہ جنگ میں مخالف سمت سے تلواروں کی بو چھاڑ ہو اور مسلمان اپنی جان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی خاطر نہتے انداز میں اپناسر کٹوانے کے لئے پیش کرے یا کوئی سخی آدمی اوپر آسما ن سے پیسوں کی بو چھاڑ کررہا ہو قطع نظر اس کے کہ یہ حق داروں تک پہنچ رہا ہے یا نہیں۔
مندرجہ بالا سطور کے تناظر میں دو اہم باتیں واضح ہو جاتی ہیں، جن کا’ قربانی‘، ’انفاق‘ یا ’بِر‘ کے حصول کرتے سمے انتہائی خیال رکھنا لازمی ہے۔ اول، منصوبہ بندی۔ کسی بھی کام کو مسلسل وپیہم ، سوچی سمجھی اور جامع منصوبہ بندی کے بغیر روبہ عمل نہیں لایا جا سکتا۔ منصوبہ بندی بنیادی طور پر ایک فکری عمل ہے جس کے مطابق ایک عام ذہن اس بات کی سوچے کہ کسی کام کو ایک منظم طریقے سے کیسے کیا جائے۔ بالفاظِ دیگر اس سے کاروائی سے پہلے سوچنا (to think before action) بھی کہا جاتا ہے۔ منصوبہ بندی میں تمام جڑے حقائق، حالات و واقعات، موقع و محل ، انسانی وسائل، اور باقی ذرائع کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ منصوبہ بندی میں سب سے پہلا کام اہداف کو واضح کرنا ہے، اس کے بعد پالیسیوںکو مرتب کرنا ہے جن کو اصول بناتے ہوئے اہداف کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ پالیسی مرتب کرنے کے بعد اہداف کی تکمیلی کے لئے طریقہ کار اور ذرائع کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے، جس کے بعد تمام طے شدہ وسائل کو بروئے کار لا کر اہداف کو سَر کرنے کی عملی جدوجہد کی جاتی ہے۔دوم، افراد کی تربیت۔ افراد کی تربیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کی مثال برقی رَو کی سی ہے۔ یہی سے طاقت و قوت، جوش و جذبہ اور ایثار و قربانی کے مادے کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ برقی رَو کی تاروں سے جتنی وولٹیج میں برق گرڈ اسٹیشن میں پہنچائی جاتی ہے اتنے ہی زیادہ علاقے روشنی سے چمک اٹھتے ہیں۔ اس تار سے کسی کا ہاتھ لگانا ہی بعید از عقل ہے۔ ایسی چست و مضبوط ترین تاریں عموی طور پر بلند و بالا میخوں سے ہو کر کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے اندر بہت سارا طاقت لئے منزل کی طرف رواں و دواں ہوتی ہیں۔ ان کے اوپر سے کوئی جانور پَر تک نہیں مار سکتا ہے ۔ اور جوں ہی ان تاروں کا تعلق ایک مربوط و مضبوط نظم کے کل پرزوں سے ہوتا ہے تو ہی دنیا سکون و راحت محسوس کرتی ہے۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ جو تار نہ ہی کسی مشینری سے جڑ ی ہو اور نہ ہی اس کے اندر کوئی وولٹیج ہو وہ کہی بھی کسی بھی وقت کسی چور مارکیٹ میں سستے داموں میںبِک سکتی ہے۔ اپنے اندر صحیح فکر، مربوط طرزِ عمل، خالص سوچ وچار، دور رس فیصلہ سازی،واضح موقف، غیر مبہم نظریہ ، حالات و واقعات کا پورا ادراک،موقع و محل کی پاسداری، دور اندیش منصوبہ بندی،وغیرہ کا ہونا ایک مضبوط و مربوط نظم اور تربیت ہافتہ افراد کی غمازی کرتا ہے۔
مضمون نگار سے رابطہ کریں:
:9622939998
ای میل:[email protected]