فہیم محمد رمضان
امام ابن جریر طبریؒ نے اپنی معرکتہ لآرا تصنیف ’’تاریخ طبری‘‘ (جلد ۷ صفحہ ۳۰) میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی جو تقریر درج کی ہے اُسے پڑھ کر واقعہ کربلا کا اخلاقی پس منظر الم نشرح ہوجاتا ہے۔ تقریر کا متن اس طرح ہے
عقبہ بن ابی عیزار روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور حضرت حُر کے ساتھیوں کے سامنے بیضہ کے مقام پر تقریر فرمائی ۔ آپؓ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ لوگو!! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ جس شخص نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا کہ ظلم و جور سے حکومت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حلال گردانتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو توڑ تا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور سنت کے خلاف عمل پیرا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ گناہ، معصیت اور ظلم و زیادتی کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور پھر نہ اپنے عمل کی طاقت سے اُس کو بدلے نہ قوم کی طاقت سے تو اللہ تعالیٰ کو حق بنتا ہے کہ اُس تماشائی ( مسلمان) کو بھی اُسی ٹھکانے میں پہنچا دے، جس ٹھکانے میں اُس ظالم حکمران کو پہنچا دے گا۔‘‘ راوی بیان کرتا ہے کہ اس حدیث نبویؑ کو پیش کرنے کے بعد سید نا حسین ؓ نے لوگوں سے فرمایا:’’ خبردار! یقین جانو کہ ان لوگوں( یزید اور اُن کے لوگوں) نے شیطان کی اطاعت اپنے اوپر لازم کرلی ہے اور خدائے رحمان کی اطاعت چھوڑ رکھی ہے۔ انہوں نے خدا کی زمین پر فساد برپا کررکھا ہے اور حدود اللہ کو معطل کررکھا ہے۔ حکومت کے مال( بیت المال) کو اپنی ذاتی ملکیت بنالیا ہے اللہ تعالیٰ کی حرام کو حلال اور حلال کو حرام کررکھا ہے اور مجھ پر اس بات کی سب سے زیادہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خدا کی ایسی باغی حکومت کو تبدیل کروں…… سنو! میں علی المرتضیٰ رضی اللہ اللہ عنہ کا فرزند حسین ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر فاطمہ رضی اللہ عنھا کا لاڈلا ہوں، میرا وجود تمہارے وجود کے ساتھ ہے اور میرا خاندان آپ کے خاندان کے ساتھ ہے۔ پس تمہارے لیے میری زندگی میں عمدہ نمونۂ عمل موجود ہے!……( بحوالہ شہید اعظم از امام الہند مولانا آزادؒ)
اس تقریر کو ملا حظہ کرنے کے بعد واقعۂ کربلا کا اخلاقی پس منظر بھی اظہر من الشمس ہوجاتا ہے۔