-
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغہ ءروز گار شخصیت تھے ۔ انہوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدیددور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطہ ءنظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے مغربی تہذیب کی چکا چوند سے مرعوب ہوئے بغیر اس پر موثر تنقید کی اور انہوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو اچھی طرح سے ثابت کردیا ہے ۔ مزید برآں انہوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظام رحمت و برکت کو آج کے جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جاسکتا ہے اور ایک جدید ریاست کے تمام اداروں کو کس طرح اسلامی سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔مزید برآں انہوں نے اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لئے ایک جماعت بھی قائم کی تھی ۔
اسلامی ریاست کے تصور کے تمام پہلوﺅں اور اس کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انہوں نے جس اعتماد ‘یقین ‘ مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا ‘ بیسویں صدی میں اس کی کوئی اور مثال اسلامی دنیا میں مشکل سے ہی ملتی ہے ۔ انہوں نے دور جدید کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل کے ساتھ اور اپنی اجتہادی بصیرت اورخدا دادقابلیت اور صلاحیتوں سے پیش کردیاہے ۔ اسلام کے اصول حکمرانی ‘ اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ ‘ اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ ‘ اسلامی قانون کے مآخذاور کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابل نفاذ ہیں ‘ ان سب امور کی توضیح و تشریح انہوں نے اپنی مختلف تقاریر‘ اپنے مضامین اور مقالات میں اس قدر شرح و بط کے ساتھ کردی ہے ۔ کہ میری نظر میں یہی ان کا امتیازی کارنامہ ہے ۔ اگرچہ تفسیر قرآن ‘ حدیث کی تشریح اور وضاحت ‘سنت کی حجیت اور فقہ کی تدوین جدید کے سلسلے میں ان کے کارہائے نمایاں کی اہمیت بھی کچھ نہیں ہے ‘ تاہم میں اس مضمون میں مولانا مودودیؒ کا تذکرہ بطور ایک ماہرقانون اسلامی کرنا چاہتا ہوں ۔ اس سلسلے میں اپنی یادداشتوں اور ریکارڈ کی بنیاد پر چند ایک معلومات کو قلمبند کررہاہوں ۔
-
اسلامی کلوکیم میں بیش قیمت مقالہ:
حکومت پاکستان اور پنجاب یونیورسٹی نے مشترکہ طورپر۶ تا۶۱جمادی الثانی ۷۷۳۱ھ مطابق ۹۲ دسمبر ۷۵۹۱ءتا۸جنوری ۸۵۹۱ء”الندوہ العالمیہ للاسلامیات“ منعقد کرایا تھا جس میں دنیائے اسلام کے نامور مفکرین ‘ ممتاز علماءو مشائخ،سابق وزراءاور اساتذہ کرام کے علاوہ یورپ اور امریکہ سمیت کل ۳۳ ممالک کے بعض ممتازسکالروںاور مشہور مستشرقین کو بھی مدعوکیا گیا تھا ۔ مولانا مودودیؒکو سولہ رکنی انٹرنیشنل کلوکیم کمیٹی کا رکن مقرر کیاگیا تھا ۔ اس کمیٹی نے اس کلوکیم کے موضوعات طے کئے تھے اور اس کی پوری منصوبہ بندی کی تھی ۔
میں ان دنوں قصور میں وکالت کرتا تھا ۔ میں نے اس کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر عالم اسلام کے بعض نامور سکالروں کے کے بلند پایہ خطابات او رمقالات سے استفادہ کیا تھا خاص طور پر مولانا مودودیؒ کے پیش کردہ مقالہ کو بڑے غور سے سنا تھا اور پلے باندھ لیا تھا بلکہ عربی محاورے کے مطابق دانتوں سے پکڑ لیا تھا ۔
دنیا بھر کے فاضل سکالروں کی اس مجلس مذاکرہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تین جنوری ۸۵۹۱ءکو ”اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام“ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا تھا جو بہت پسند کیا گیا‘ خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علماءو مشائخ نے بہت داد دی تھی ۔ مولانا مودودیؒ کے مقالے کا عربی اور انگریزی ترجمہ پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا اور وہ غیر ملکی سکالروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
تمہید:
اس مقالے کی تمہید میں مولانا مودودیؒ نے اللہ کی حاکمیت کی تشریح کی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت‘ خاص طور پر عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت کی۔ اسلام میں قانون سازی کے دائرہ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایاکہ اسلام انسانی قانون سازی کے عمل کو خدائی قانون یعنی قرآن و سنت کی بالاتری سے محدود کرتاہے۔ اس بالاترقانون کے تحت اور اس کے قائم کئے ہوئے حدود کے اندر انسانی قانون سازی کے دائرہ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے تعبیر احکام شریعت‘ قیاس اور استنباط کے اصولوں کی تشریح کی اور اس کے بعد آزادانہ قانون سازی کے دائرے کے بارے میں فرمایا کہ انسانی زندگی کے جن معاملات میں قرآن و سنت کے واضح اور قطعی احکام موجود ہیں‘ ان میں تو کوئی فقیھ‘ کوئی قاضی‘ کوئی قانون ساز ادارہ، شریعت کے دیئے ہوئے حکم یا اس کے مقرر کردہ قاعدے کو نہیں بدل سکتا ۔ البتہ ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ وہ نہ تو براہ راست ان کے متعلق کوئی حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدائت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جا سکے ۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم اعلی ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لئے آزادانہ قانون سازی اس دائرے کے اندر کی جاسکتی ہے‘ مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیئے‘ جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہو ، جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہواور جو اسلامی زندگی کے پورے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہوسکتی ہو۔
اجتہادکی تعریف:
اس کے بعد اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی ؒ نے فرمایا کہ قانون سازی کا یہ سارا عمل‘ جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوو نما دیتا چلا جاتا ہے‘ ایک خاص عملی تحقیق اور عقلی کاوش ہی کے ذریعے سے انجام پا سکتا ہے اور اسی کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے ۔ اس کے لغوی معنے تو ہیں ًکسی کام کی انجام دہی میں انتہائی کوشش صرف کرنا،مگر اصطلاحاً اس سے مراد ہے ”یہ معلوم کرنے کی انتہائی کوشش کہ ایک مسئلہ زیر بحث میں اسلام کا حکم یا اس کا منشاءکیا ہے“۔
مولانا نے مزید فرمایا کہ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمال رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزاد اجتہاد کی بھی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں‘ وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیئے‘ جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی ویتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے، وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لئے کوئی جگہ ہے۔
مجتہد کے لئے ضروری اوصاف:
اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے اجتہادکرنے کے لئے مجتہد کے ضروری اوصاف بیان کئے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے:۔
انہوں نے بتایا کہ کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں۔
(۱)شریعت پر پختہ ایمان ‘ اسکے برحق ہونے کا یقین‘ اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اورقانون کے مقاصد ‘ اصول اور اقدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجائے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
(۲) عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت۔
(۳) قرآن و سنت کا گہرا علم جس سے آدمی شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔
(۴) پچھلے ادوار کے مجتہدین امت کے کام سے واقفیت۔ قانونی ارتقاءکے تسلسل کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔
(۵) عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت ‘ کیونکہ انہیں پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا ہے۔
(۶) اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہو سکتااور نہ اس قانون کے لئے عوام میں کوئی جذبہءاحترام پیدا ہو سکتا ہے‘ جو غیر صالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ ان اوصاف کے بیان سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے سے اسلامی قانون کا نشو و نما اگر صحیح خطوط پر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ قانونی تعلیم و تربیت کا نظام ایسے اوصاف کے حامل اہل علم تیار کرنے لگے۔
اجتہاد کے ذریعے قانون سازی:
اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کا صحیح طریقہ تفصیل سے بیان کیا اور آخر میں یہ بتایا کہ اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے درج ذیل چار صورتیں بیان کیں۔
(۱) ایک یہ کہ تمام امت کے اہل علم کا اس پر اجماع ہو۔
(۲) دوسری یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبول عام حاصل ہو جائے اور لوگ خود بخود اس کی پیروی شروع کر دیں جس طرح فقہ حنفی و شافعی و مالکی وحنبلی کو قبول عام حاصل ہو گیا ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے‘ جیسے مثلاًترکی کی عثمانی سلطنت نے فقہ حنفی کو اپنا قانون ملکی قرار دیا تھا۔
(۴)چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔ایسے ادارے میں مجتہد کی صفات رکھنے والے لوگ شامل ہوں ۔
اپنے مقالے کے آخر میں مولانا مودودی ؒنے واضح کیا کہ اسلامی نظام قانون میں قاضیوں کے فیصلے ان خاص مقدمات میں تو ضرور قانون کے طور پر نافذ ہوتے ہیں‘ جن میں وہ کسی عدالت نے کئے ہوں اور انہیں نظائر (Precedents) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے‘ لیکن صحیح معنوں میں وہ قانون نہیں ہوتے۔ اسلامی نظام قانون میں قاضیوں کے بنائے ہوئے قانون(Judge made Law)کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔مولانا مودودی ؒنے اسلامی نظام قانون میں قاضیوں کے بنائے ہوئے قانون کی گنجائش نہ ہونے کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا‘ اس کی روشنی میں سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس میں مئی ۰۰۰۲ءمیں دیئے گئے فیصلے کی وقعت اور حقیقت آشکار ہو جاتی ہے جس کے ذریعے فاضل عدالت نے چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کرنے کا محدود اختیاردے دیا تھا۔مولانا مودودیؒکی رائے کے مطابق اسلامی نظام قانون میںاس طرح کے فیصلے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یونیورسٹی لا کالج میں خطاب:
میں ۵۵۹۱ سے ۷۵۹۱ تک پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کا طالبعلم رہا۔ اس دوران میں لاء کالج یونین کے انتخاب میں پہلی مرتبہ اسلامی جمعیة طلبہ کا پینل جیتا تھا۔ یونین نے لاءکالج میں خطاب کے لئے مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ۔ طلبہ کا جو وفد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں میں بھی شامل تھا۔ ہم نے مولانا سے کالج میں خطاب کی درخواست کی تو مولانا نے بکمال شفقت دعوت قبول فرما لی اور فرمایا کہ آپ کس موضوع پر میری تقریر کرانا چاہتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ لاءکالج کے طلبہ دو نکات پر آپ سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ ایک تو آپ اسلامی قانون کے مآخذ بیان کریں جن میں سنت کے ماخذ قانون ہونے کی کھل کر وضاحت کی جائے کیونکہ فتنہ ءانکار سنت نے سنت کی حجیت کے بارے میں بعض ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیئے ہیں۔ دوسرے یہ سوال بعض طلبہ کے ذہن میں موجود ہے کہ کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابل نفاذ ہیں اور پاکستان میں کیوں اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہئیں؟ اس سوال کی وضاحت مطلوب ہے۔آپ اس سوال کا جواب دے کر طلبہ کو مطمئن فرمائیں۔مولانامودودیؒ نے طلبہ یونین لاءکالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو امور کی اچھی طرح وضاحت تک مرکوز رکھا۔
مولانامودودیؒ نے فرمایا کہ اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے جواُنہی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ عربی زبان میں اترا ہے جو ایک زندہ زبان ہے۔ وہ سراسر حق ہے اور اول تا آخر الٰہی تعلیمات سے لبریز ہے۔ اس کے اندر کلام الٰہی کے ساتھ انسانی کلام کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہو سکی ہے۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (Latest edition)ہے ۔ ہرمسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے۔
اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے زیادہ کھل کر وضاحت فرمائی کہ وہ سنت رسول اکرمﷺ ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا۔ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی۔اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا۔ سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے۔
مولانا مودودی ؒنے فرمایا کہ افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ اس کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کرکے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار برپا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے مولانا مودودی ؒنے سنت کے حجت ہونے پر خوب روشنی ڈالی۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم ﷺ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر ‘ حاکم اور معلم بھی تھے‘ جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ ان تمام حیثیتوں میں مامور من اللہ تھے۔ اسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سُنّت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔
اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآنی آیات کی روشنی میں تفصیل سے بتایا کہ رسول اکرم بحیثیت شارح کتاب اللہ ‘ بحیثیت پیشوا و نمونہ تقلید ‘ بحیثیت شارع ‘ بحیثیت قاضی اور بحیثیت حاکم و فرماں روا ہمارے لئے قیامت تک واجب الاتباع ہیں۔
اس کے ساتھ ہی مولانا مودودیؒ نے سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کے اجماع کی تفصیل بھی بیان کی ۔
مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح حضورنبی کریم ﷺکے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا ‘ اس کے نظائر سے روایات سے حدیث ‘ تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جا سکتا ہے۔
چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ یہ مجتہدین اُمت کے وہ فیصلے ہیں جو انہوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں صادر کئے تھے۔یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
اسلامی قانون کے چاروں مآخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانامودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور سٹیٹ کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انہوں نے دیا۔
مولانامودودیؒ کے خطاب کے دوران لاءکالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لاءکالج اور یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا اور بعض لوگوں نے یہ ریمارک بھی دیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے۔جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ قیام پاکستان کے چند ماہ بعد جب مولانامودودیؒ مطالبہ نظام اسلامی لے کر اٹھے تھے تو جامعہ پنجاب کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے انہیں یونیورسٹی لاءکالج میں اسلامی قانون کے حوالہ سے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ ان کی دعوت پر مولانا مودودیؒ نے ۶ جنوری ۸۴۹۱ءکو اسلامی قانون کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا تھا۔ جس میں اسلامی قانون کی حقیقت ‘ اس کی روح ‘ اس کا مقصد اور اس کے بنیادی اصول بڑی وضاحت سے بیان کیے تھے۔اس کے بعد ۹۱ فروری ۸۴۹۱ءکو پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہو سکتا ہے، کے موضوع پر یونیورسٹی لاءکالج لاہور میں ایک اور لیکچر میں اسلامی قانون کے نفاذ میں تدریج کا اصول‘ عہد نبوی کی مثال اور نفاذ کا صحیح طریق کار بیان کیا تھا۔(ڈاکٹر عمر حیات ملک ۹۳۹۱ءسے مولانامودودیؒکے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے تھے جب وہ اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے اور مولانا مودودیؒوہاں اسلامیات پڑھایا کرتے تھے۔)
اب اس مضمون کے آخر میں میں مولانا مودودیؒ سے دو اہم ملاقاتوں کے بارے میں اپنی یادداشتیں پیش کرنا اور ریکارڈ پر لاناچاہتا ہوں۔ دسمبر ۱۷۹۱ءمیں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔صدارت کامنصب سنبھالنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملاقات کے لیے مولانا مودودیؒ کے ہاں آنا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی طبعی انکساری کی وجہ سے یہ مناسب نہ سمجھا کہ صدر پاکستان کو اپنے گھر آنے کے لیے کہیں۔ چنانچہ انہوں نے پیغام بر کو جواب دیا کہ میں خود ان سے ملاقات کے لیے لاہور میںکسی مناسب جگہ پر جانے کے لیے تیار ہوں۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودیؒ بھٹو صاحب سے ان کی خواہش پر گورنمنٹ ہاﺅس لاہور میں ملاقات کرلیں۔اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ غلام مصطفے کھر جو اس وقت پنجاب کے گورنر تھے‘ اس کمرے میں آئے جس میں مولانا مودودیؒ کوملاقات کے لئے بٹھایا گیا تھا۔ اس ملاقات میں بھٹو صاحب نے مولانا سے کہا کہ آپ عالم اسلام کے نامور عالم دین اور ماہر اسلامی قانون ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت کو چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلبگار ہوں کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔
مولانا مودودی ؒنے کمال شان بے نیازی اور بڑی جرات سے فرمایا کہ ”بھٹو صاحب آپ نے ۰۷۹۱ءکے انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔“ آپ کے اردو گرد نامی گرامی سوشلسٹ ‘ ملحد اور لبرل افراد جمع ہیں اورحکومت میںشامل ہیں۔ان لوگوں کی موجودگی میں میں یا جماعت اسلامی کے لوگ آپ سے کس طرح تعاون کر سکتے ہیں۔
دوسری ملاقات ۷۷۹۱ءکی تحریک نظام مصطفے کے دوران میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ سے ان کے گھر۵۔اے ذیلدار پارک اچھرہ آ کر کی تھی۔ اس ملاقات کی خبر جب منصورہ پہنچی تو مولانا جان محمد عباسی مرحوم جو اس وقت قائمقام امیر جماعت تھے ‘ کے ساتھ میں اچھرہ گیا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بھٹو صاحب مل کر جا رہے تھے ۔مولانا عباسی مرحوم نے مولانا مودودیؒ سے عرض کیا کہ بھٹو سے آپ کی ملاقات کی خبر سے تحریک نظام مصطفے پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ابھی پریس کانفرنس میں بھٹو سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بتا دیں تاکہ ملاقات کی خبر کے ساتھ ہی کل کے اخبارات میں وہ گفتگو بھی لوگوں کے سامنے آ جائے جو آپ نے بھٹو سے کی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی ؒرضا مند ہو گئے اور اسی وقت ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں مولانا مودودیؒ نے ملکی اور بین الاقوامی پریس کو بتادیا کہ بھٹو صاحب میرے پاس آئے تھے تو میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ بھٹو صاحب اب تو تحریک نظام مصطفیٰ اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ لوگ آپ کے سر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ وزارت عظمی سے استعفیٰ دے کر نئے سرے سے شفاف اور منصفانہ انتخابات ہو جانے دیں۔تاکہ قوم اپنے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرکے پاکستان کی حکومت کی باگ ڈور ان کے حوالے کر دے جو قوم کی خواہش کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کر دیں۔ اسی صورت میں ملک میں امن و امان بھی قائم ہو سکتا ہے اور آپ کی جان بھی بچ سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ بھٹو نے مولانا مودودیؒ کے اس مخلصانہ مشورے پر عمل نہ کیا اور تھوڑے ہی عرصے بعد وہ قتل کے مقدمہ میں ماخوذ ہو کر اس کی سزا پا گئے۔ - بشکریہ ۔۔۔۔ http://jamaat.org