قسط:۱
پیدائش اور خاندان
سید ابوالاعلٰی مودودی کا سنِ ولادت 1321ھ بمطابق 1903ء ہے۔ جائے پیدائش اورنگ آباد دکن ہےاور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتداء میں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہوا تھا۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود چشتی کے نامِ نامی سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلا تا ہے۔
انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انہیں مذہبی تعلیم خود دیتے تھے۔
اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلا قی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انہیں کسی مدرسے میں داخل نہیں کرایا، بلکہ گھر پر ہی پڑھاتے رہے۔
بتدائی دور کے پورے گیارہ برس انہوں نے اپنے بیٹے کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھااور کسی مکتب یا مدرسہ میں بھیجنا گوارہ نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم کا گھر پر اتالیق رکھ کا انتظام کیا تاکہ مدرسے اور اسکول میں زمانے کی بگڑی ہوئی رو سے وہ اپنے بچے کو بچا سکیں۔
ماحول اور تربیت
سید مودودی کے والدِ محترم نے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان کی بہت اچھے اور عمدہ طریقے سے تربیت کی۔ سید صاحب کے گھر میں دہلی کے شرفاء کی صاف ستھری زبان بولی جاتی تھی۔ سید مودودی کے والد نے اس چیز کا بہت خیال رکھا کہ اُن کی زبان پرکوئی غیر مناسب بازاری لفظ نہ چڑھ پائے۔ جب کبھی وہ ایسا کوئی لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا محسوس کرتے تو ٹوکتے اور صحیح لفظ بولنے کی عادت ڈالتے۔
جہاں تک ذہنی ساخت اورتربیت کا تعلق ہے، سید صاحب کے والد محترم انہیں رات کو اکثر پیغمبروں کے قصے اور تاریخ اسلام کے اہم سبق آموز واقعات سنایا کرتے۔ ہندوستان کی تاریخ کی سبق آموزکہانیاں اور نیک لوگوں کی زندگی کے حالات بتاتے۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں کا سید مودودی کے ذہن نے گہرا اثر قبول کیا اور ان میں نیکی، بھلائی،عظمت،بزرگی،اسلام کی سربلندی اور ایثار و قربانی کے جذبات پیداہوئے اور ساتھ ہی ان میں بزرگوں کے نقش قدم پرچلنے کا فطری رحجان بھی پیدا ہوگیا۔
مدرسہ کی تعلیم
سید صاحب کو گیارہ سال کی عمر میں گھریلو تعلیم کی مناسب تکمیل کے بعد مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیاگیا۔ اس وقت ان کی معلومات تمام مضامین میں اپنے ہم جماعتوں سے بہت زیادہ تھیں، حالانکہ وہ آٹھویں جماعت میں سب سے چھوٹی عمر کے طالب علم تھے۔
مولوی کلاس میں آنے کے بعد سید صاحب کو جدید علوم کیمیا،طبیعیات،ریاضی وغیرہ سے واقفیت اور دلچسپی پیدا ہوئی۔اور پھر جدید معلومات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔
بچپن کے سنہرےدروازے
سید صاحب نے 1914ء میں مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے لیکن یہ وہ دور تھا جب سید صاحب کے والدِ محترم کی مالی مشکلات بہت بڑھ گئیں تھیں۔ وکالت سے اجتناب اور دینداری میں شدید انہماک کے باعث گھر کے مالی حالات میں وہ اورنگ آباد چھوڑ کر حیدرآباد تشریف لےگئے اور سید صاحب کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرا دیا۔ اس زمانے میں دار العلوم کے صدر مولاناحمید الدین فراہی تھے جومولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ سید صاحب کے والد انہیں دارالعلوم میں داخل کراکے خود بھوپال تشریف لے گئے اورسید صاحب دارالعلوم میں زیرِ تعلیم رہے لیکن تعلیم کا یہ سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا، ایک روز بھوپال سے اطلاع آئی کہ سید صاحب کے والد محترم پر فالج کا سخت حملہ ہوگیا ہے۔
چنانچہ مدرسے کی رواجی تعلیم ختم ہوگئی اور ڈیڑھ دوسال کے تلخ تجربات نے یہ سبق سکھایا کہ دنیا میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا لازمی ہے۔
بہرحال والدِ محترم کے انتقال کے بعد سید مودودیؒ کو معاش کی فکر لاحق ہوئی۔ والد محترم کوئی جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔ یہ کوئی رؤسا کا خاندان نہ تھا نہ دربارداری ان کا پیشہ تھا۔ ان کا خاندان ایک سیدھا سادا دیندار اور شریف خاندان تھا جو جاگیروں پر نہیں بلکہ اپنی قوت بازو پراپنی معاش کی بنیاد رکھتا تھا۔
ذریعہ معاش
والد کے انتقال کے بعد اس چھوٹی سی عمر میں پہلی بار سید مودودی کو بھی احساس ہوا کہ دنیا میں عزت کےساتھ زندگی بسرکرنےکےلئےاپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں لکھنے کی زبردست قابلیت عنایت فرمائی تھی چنانچہ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ قلم کے ذریعے ہی اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچائیں گے اور اسی کو ذریعہ معاش بھی بنائیں گے۔ اس طرح ایک تو مسلمانوں کی بھلائی اور اسلام کی خدمت کاکام ہوگا اور دوسرے معاش کا وسیلہ بھی ہوجائے گاچنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے کیرئیرکاآغاز کیا اور پھر متعدد اخبارات میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیاجن میں اخبار” مدینہ” بجنور(یوپی)”تاج” جبل پور اور جمعیت علماء ہند کا روزنامہ "الجمعیۃ”دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔ ایک بارمولانا محمد علی جوہر نے بھی سید مودودی کو اپنے اخبار”ہمدرد” میں کام کرنے کی دعوت دی تھی مگر”الجمعیۃ” والوں سے آپ کے پرانے تعلقات تھے،اس لیے آپ مولانا محمد علی جوہرکی پیش کش کو قبول نہ کرسکے۔اگرچہ سیاسی اختلافات کی بنا پر انہیں بعد میں روزنامہ الجمعیۃ کوبھی چھوڑنا پڑا۔ سیاسی تصورات میں سید مودودیؒ مولانا جوہر کے خیالات سےزیادہ ہم آہنگ تھے۔
بچپن میں آپ نے سب سے پہلے علامہ اقبالؒ کی مشہور نظم”شکوہ”پڑھی تھی۔ والد محترم سید احمد حسن صاحب نے آپ کو ہندوستان کی سیاسی تاریخ بھی پڑھا دی تھی۔چنانچہ جب وہ صحافی بنےتوا نہوں نے ملکی حالات کا براہِ راست مطالعہ کیا۔ ویسے بھی ان کا گھرانہ بہت تعلیم یافتہ اور باشعور تھا۔ خاص طور پر انگریزوں سے نفرت تو اس گھر میں بہت زیادہ تھی۔ان وجوہات کی بنا پر اس زمانے میں ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جو تحریکیں اٹھیں مثلاً تحریکِ خلافت، تحریک ستیہ گرہ اور تحریک ترک موالات وغیرہ، سید مودودیؒ نے مسلمانوں کی بھلائی کے خیال سے ان میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ انہوں نے ترک مسلمانوں کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف بڑے پُرجوش مضامین لکھے، ہندی مسلمانوں میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی تھیں انہیں واضح کیا اور اس کے ساتھ ہی مسلمان لیڈروں کی سیاسی غلطیوں سے بھی آگاہ کیا۔ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کےلیےبہت سے مفید اور قابلِ عمل مشورے دیےاور ہمیشہ مسلمانوں کی اصلاح کےلیےکام کیا۔
اخبار نویسی کے زمانے میں سید مودودی نے اپنی ذاتی کوشش سے انگریزی بھی سیکھ لی اور جدید علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ سے عربی ادب،تفسیر،حدیث،فقہ، منطق اور فلسفے کی کتابیں بھی پڑھیں۔ اس طرح ان کی علمی قابلیت میں بہت اضافہ ہوگیا اوروہ قدیم اور جدید علوم میں ماہر ہوگئے۔
ہندی مسلمانوں کے حالات سید مودودی کے لیے بہت تکلیف دہ تھے. وہ ان کی بدحالی، بے بسی اور بےحسی پر بہت کڑھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اسلام کے سچے پیروکار بن کر دنیا میں حقیقی اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کریں۔ اس زمانے میں انہوں نے ایک مضمون لکھا کہ آج جتنی کمزوریاں بھی مسلمانوں میں پیدا ہوگئی ہیں صرف اس لیے ہیں کہ ان میں سے اسلامی روح نکل گئی ہے اور وہ بھول گئے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ کیا ہیں۔ اگر مسلمان اسلام کی پیروی کریں تو ساری دنیا کو مسلمان بناسکتے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی بھلائی کی مختلف تدبیروں پر اکثر غور کیاکرتے۔ اسی اثناء میں 1925ء میں جب جمعیت علماء ہند نے کانگرس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار”الجمعیت” کی ادارت چھوڑ دی اور اس سے الگ ہوگئے۔ اس لیے کہ وہ متحدہ قومیت کے سخت مخالف تھے اور کانگرس کومسلمانوں کے مفادات کے خلاف جماعت سمجھتے تھے۔
پہلی تصنیف
جس زمانے میں سید مودودی”الجمعیۃ” کے ایڈیٹر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضورﷺ کی توہین کی تھی جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتااس لیے کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ سید مودودی اس صورتِ حال پر بہت رنجیدہ تھے۔ ان کے دل میں اسلام کی محبت اور مسلمانوں کا درد بھرا ہوا تھا۔ اسلام کی خدمت کرنے کے لیے ان کے دل میں بہت اضطراب تھا۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں ہی یہ کام کروں۔ چنانچہ انہوں نے "الجہاد فی الاسلام” کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس وقت سید مودودی کی عمر24برس تھی۔ اس چھوٹی سی عمر میں ایسی معرکۃ الآراکتاب آپ کا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس پر ہر طرف سے آپ کو داد ملی۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایاتھا:۔
"اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے”
اصلاحِ قوم کاعزم
سید مودودی کے دل میں اسلام کا بہت درد تھا اور وہ اس کے لیے دن رات سوچتے رہتے تھے۔ ان دنوں ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت آج سے بھی زیادہ خراب تھی۔ سید مودودی مسلمانوں کی اصلاح کرنا چاہتے تھےچنانچہ روزنامہ الجمعیت جو کانگرسی مسلمانوں کا اخبار بن گیا تھا اس کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ حیدرآباد میں قیام کے زمانے میں سید مودودی نے مختلف کتابیں لکھیں، اس کے ساتھ ہی وہ ہندوستان کے سیاسی حالات اور مسلمانوں کی حالت کا بھی گہرا مطالعہ کرتے رہے ، اس دوران وہ قوم کے اصلاحِ احوال کی مختلف تدبیروں پر بھی مسلسل غور کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے اصلاحِ قوم کے مقصد کے لیے 1932 میں حیدرآباد سے رسالہ”ترجمان القرآن”جاری کیا۔ مسلمانوں کی بھلائی کےلیے وہ جو کام کرنا چاہتے تھے ان کے ذہن میں اس کی ترتیب یہ تھی کہ پہلے مسلمانوں کے ذہنوں سے مغربی قوموں کی نقالی اور مرعوبیت،یورپ کے خیالات اور ان کے طور طریقوں کازور توڑا جائے پھر ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر مسئلے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔
چنانچہ 1935ء میں آپ نے "پردہ” کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک شاندار کتاب لکھ کر ان لوگوں کا منہ بند کردیا جو اسلامی پردے پر یورپ سے مرعوب ہوکر طرح طرح کے اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ "تنقیحات” اور”تفہیمات” کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔