ادھر بھی پابندی ادھر بھی پابندی 

  وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے ایک مرتبہ پھر طمطراق میں آتے ہوئے اس بات کی مزید وضاحت کی ہے کہ کشمیر میں جنگجوئیت محض ڈھائی اضلاع میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور اس کا سہرا بقول انکے انکی حکومت کو جاتا ہے۔ دراصل بی جے پی وزیر اعظم کے اس طمطراق والے بیان سے اس فراق میں ہے کہ کشمیریوں کا قافیہ حیات ہر اعتبار سے تنگ کیا جائے ۔ اسی لئے آئے دن نئے قوانین نافذ ہو رہے ہیں۔ کبھی شاہراہ پر چلنے پر پابندی تو کبھی اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر پابندی، کبھی حریت قائدین پر پابندی تو کبھی عام لوگوں پر پی ایس اے نافذ کرکے انکی آزادی پر پابندی، الغرض بی جے پی نے نہ صرف کشمیری عوام پر ہر قسم کی پابندی عائد کی بلکہ اس نے پورے ملک ہندوستان میں بھی پابندی کا ماحول قائم کیا ۔ کبھی گائے خریدنے اور اسکا گوشت کھانے پر پابندی تو کبھی ہرے ہرے نوٹوں پر پابندی، کبھی مسلمانوں کے خلاف پابندی تو کبھی دلتوں پر پابندی بھارت کے اہل دانش اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت کو ”پابندی حکومت“ کا نام دینا چاہئے ۔ کیونکہ اس دور میں صرف پابندی ہی پابندی نظر آئی۔ اب جنگجوﺅں پر پابندی لگانے کی بات تو ویسی ہی ہے جیسے ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ کشمیر میں جنگجوئیت کا خاتمہ ہو چکاہے۔ حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور بیاں ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے جنگجوئیت میں اضافہ ہوتارہا ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم کا حالیہ بیان تاریخ سے بعید ہے لہٰذا پابندی کے علاوہ کوئی اور لفظ بی جے پی کو کسی بہتر ڈکشنری سے اخذ کرنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.