شاہراہ پر پابندی 

شاہراہ پر پابندی 
  ریاستی حکومت نے گزشتہ دنوں ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے ریاستی عوام کو مشکلات کے بھنور میں پھینک دیا ہے جس کی وجہ سے سرینگر سے ادھمپور تک ہفتے میں دو دن عام لوگ قومی شاہراہ پر سفر نہیں کر سکتے ہیں۔ سرکار کا کہناہے کہ ان دو نوں کےلئے اس اہم شاہراہ پر صرف فوجی کانوائے کو چلنے کی اجازت ہوگی۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور تجارتی انجمنوں نے اس فیصلے پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی کے عوام جو برسوں سے ہڑتالوں ، احتجاجوں اور بندشوں کی وجہ سے پریشان ہیں وہ مزید پریشانیوں میں مبتلا ہونگے۔ زبردست مزاحمت اور عوامی رد عمل کے بعد اگر چہ ڈویژنل کمشنر کشمیر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملازمین، طلباءاور ایمرجنسی شعبوں سے وابستہ گاڑیوں کو چلنے پھرنے کی اجازت ہوگی تاہم اس حوالے سے عوامی حلقوں میں زبردست تذبذب برقرار ہے کیونکہ حکومتی فیصلے کے بعد پہلا دن جو آیا ہے وہ اتوار تھی اس روز نہ ہی عام لوگوں کا زیادہ تر چلنا پھرنا اس شاہرہا پر رہتا ہے نہ ہی سرکاری ملازمین اور طلبہ اس روز اس سڑک پر سفر کرتے ہیں۔ اب بدھوار کے روز یہ بات عیاں ہو جائے گی کیا ملازمین و طلبہ کو اس سڑک پر سفر آرام سے کرنے دیا جائے گا یا پھر سرکار یا ڈویژنل انتظامیہ کا حکم نامہ ”حکم نواب تادر نواب“ ثابت ہوگا ۔ جہاں تک جموں سرینگر سڑک کا تعلق ہے یہ وادی کےلئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اس پر روزانہ ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں چلتی ہیں۔ مال بردار ٹرکوں کے ایک بہت بڑے قافلے کا گذر بھی اس شاہراہ سے ہوتا ہے۔ سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لیڈران اس سرکاری فیصلے پر کس قدر ناراض ہےں ۔وہ انتظامیہ کے اس فیصلے پر کہاں پر سیاست کرتے ہیں یہ ایک الگ سوال ہے لیکن ایک بات صاف اور واضح ہے کہ اس سڑک پر ہفتے میں دو روز عام لوگوں کے چلنے پھرنے پر پابندی عام لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ اگر اس اہم فیصلے پر انتظامیہ نے نظر ثانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان دو دنوں کے دوران سرکاری ملازمین، طلبہ اور ایمرجنسی شعبوں سے وابستہ لوگ اس سڑک پر سفر کر سکتے ہیں تو صوبائی انتظامیہ کا یہ فیصلہ عام لوگوں کو بھی راحت پہنچا سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے لازمی ہے کہ صوبائی انتظامیہ کا فیصلہ شاہراہ پر موجود ٹریفک پولیس اہلکار، فوج اور فورسز اہلکار من و عن عملا کر عام لوگوں کو پریشان نہ کریں۔ تاکہ وادی کے عوام میں پایا جا رہا تذبذب ختم ہو جائے اور فوجی کانوائے کی حفاظت بھی ممکن بن سکے تب جا کر یہ ممکن ہے کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published.